اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۸)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(214)  زاد کے ایک خاص اسلوب کا ترجمہ

زاد کا ایک خاص اسلوب یہ ہے کہ اس کا مفعول آتا ہے اور اس کے بعد تمیز مذکور ہوتی ہے، زاد کا مطلب اضافہ کرنا ہوتا ہے مگر اس اسلوب میں زاد کے مفعول بہ میں اضافہ کرنا مراد نہیں ہوتا ہے بلکہ تمیز میں اضافہ کرنا مراد ہوتا ہے۔

جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے زادہ اللہ علما ومالا، تو اس کا مطلب اس فرد کی ذات میں کوئی اضافہ یا ترقی نہیں بلکہ اس کے علم اور مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی اللہ اس کے علم اور مال میں اضافہ کرے، نہ کہ خود اس شخص میں اضافہ کرے، اگرچہ زاد کا مفعول بہ وہ شخص ہوتا ہے، لیکن اس سے مراد اس چیز میں اضافہ ہوتا ہے جسے آگے بطور تمیز ذکر کیا گیا۔ اس وضاحت کے بعد درج ذیل ترجمہ دیکھیں:

وَلَا یَزِیدُ الکَافِرِینَ کُفرُہُم عِندَ رَبِّہِم اِلَّا مَقتًا وَلَا یَزِیدُ الکَافِرِینَ کُفرُہُم اِلَّا خَسَارًا۔ (فاطر: 39)

اس آیت کا درج ذیل ترجمہ اس اسلوب کی صحیح ترجمانی کررہا ہے۔

”اور کافروں کے لیے ان کا کفر، ان کے رب کے نزدیک، اس کے غضب کی زیادتی ہی کا موجب ہوگا اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے خسارے ہی میں اضافہ کرے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

جب کہ یہ درج ذیل ترجمہ اس اسلوب کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا:

”اور کافروں کو اُن کا کفر اِس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب اُن پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں کافروں کی ترقی کا ذکر ہے، حالانکہ اس اسلوب کی رو سے کافروں کو ترقی دینے یا نہیں دینے کا کوئی محل ہی نہیں ہے، یہاں صرف اللہ کی ناراضگی اور کافروں کے خسارے میں اضافے کی بات ہے۔

اس ترجمے سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ مترجم کی نگاہ سے زاد کا یہ خاص اسلوب ترجمہ کرتے ہوئے غلطی سے اوجھل ہوگیا۔ غلطی سے اوجھل ہونا اس لیے کہنا مناسب ہے کہ زاد کے اسی اسلوب کا صاحب ترجمہ نے دوسرے سبھی مقامات پر درست ترجمہ کیا ہے۔ جیسے:

وَنُخَوِّفُہُم فَمَا یَزِیدُہُم اِلَّا طُغیَانًا کَبِیرًا۔ (الاسراء: 60)

”ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سر کشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے“۔ (سید مودودی)

(215) وَمَا یُعَمَّرُ مِن مُعَمَّرٍ وَلَا یُنقَصُ مِن عُمُرِہِ کا ترجمہ

وَمَا یُعَمَّرُ مِن مُعَمَّرٍ وَلَا یُنقَصُ مِن عُمُرِہِ اِلَّا فِی کِتَابٍ۔ (فاطر: 11)

اس جملے کے کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:

”اور جس بڑی عمر والے کو عمر دی جائے یا جس کسی کی عمر کم رکھی جائے یہ سب ایک کتاب میں ہے“۔ (احمد رضا خان، سوال: عمرہ میں ضمیر تو معمر یعنی بڑی عمر والے کی طرف لوٹ رہی ہے، تو دوسرا کوئی کیوں مراد ہوگا۔)

”اور جو بڑی عمر والا عمر دیا جائے اور جس کی عمر گھٹے وہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے“۔(محمد جوناگڑھی، وہی سوال۔)

” اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے“۔(فتح محمد جالندھری، سوال: کیا بڑی عمر والے کی عمر کم کی جاتی ہے؟)

”کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے“۔ (سید مودودی، سوال: کچھ کمی ہونے کا کیا مطلب؟)

”اور کسی عمر والے کی عمر میں نہ زیادتی ہوتی نہ کمی مگر یہ ایک کتاب میں نوشتہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی، سوال کیا عمر مل جانے کے بعد زیادتی یا کمی ہوتی ہے؟)

”اور نہ کسی شخص کی عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور نہ کمی ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ ایک کتاب (لوحِ محفوظ) میں موجود ہے“۔ (محمد حسین نجفی، وہی سوال۔)

اوپر کے ترجموں سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ عمر مل جانے کے بعد اس میں کمی یا کمی اور زیادتی ہوتی ہے، جب کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کی عمر اور اس کا اجل متعین ہے۔ صحیح مفہوم تک پہنچنے میں یہ چیز بھی شاید رکاوٹ بنی کہ معمر کا مطلب لمبی عمر والا سمجھ لیا گیا، جب کہ معمر وہ ہے جسے عمر دی جائے، وہ لمبی بھی ہوسکتی ہے اور چھوٹی بھی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی اس جملے کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ کوئی اشکال باقی نہیں رہتا اور بات بہت واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔

”اور کسی کو جو عمر ملتی ہے اور جو کچھ اس کی عمر میں سے گھٹتا ہے وہ کتاب میں درج رہتا ہے“۔

اس جملے کامطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو ایک عمر ملتی ہے، اور پھر وہ گزارنے کے ساتھ ساتھ گھٹتی جاتی ہے، تو عمر کا ملنا اور پھر اس کا گھٹتے گھٹتے ختم ہوجانا سب اللہ کے یہاں لکھا ہوا ہے۔

گویا آیت میں اللہ کی طرف سے لمبی عمر اور چھوٹی عمر دیے جانے کی، یا لمبی عمر والے کی عمر چھوٹی کرنے کی اور چھوٹی عمر والے کی عمر لمبی کرنے کی بات نہیں ہے، بلکہ اللہ کی طرف سے عمر دیے جانے اور بندے کے اس عمر کو گزاردینے کی بات ہے۔ کہ یہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں درج ہے۔

(216) شکور، شاکر اور مشکور کا ترجمہ

عربی زبان میں شکر کا اصل مطلب قدر کرنا ہوتا ہے۔ خلیل فراہیدی لکھتے ہیں: الشکر عرفان الاحسان، (کتاب العین)

جب شکر اس کے لیے آتا ہے جس پر نوازش کی گئی، تو اس کا مطلب اپنے محسن ومنعم کی تعریف کرنا ہوتا ہے، قرآن مجید میں بندوں کے لیے یہ بہت استعمال ہوا ہے۔ لیکن جب یہ لفظ اللہ کے لیے آتا ہے تو اس کا مطلب بندوں کے اچھے کاموں کی قدر کرنا ہوتا ہے۔ قدر کرنے میں تعریف کرنا بھی ہے، عمل قبول کرنا بھی ہے، صاحب عمل کی عزت افزائی بھی ہے، اور اسے اچھا بدلہ دینا بھی ہے۔ غرض جب یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال ہو تو اس کا جامع مفہوم قدر کرنا ہے۔ بعض لوگوں نے کہیں قدر کرنا اور کہیں قبول کرنا ترجمہ کیا ہے، تاہم صحیح ترجمہ وہی ہے جو عام طور سے کیا گیا ہے یعنی قدر کرنا۔

اللہ کے لیے شکور اور شاکر کی صفت آئی ہے، اور اللہ ہی کے حوالے سے عمل کے لیے مشکور کی صفت بھی آئی ہے۔ ان تینوں لفظوں کا ترجمہ دیکھیں:

(۱)  اِنَّہُ غَفُور شَکُور۔ (فاطر: 30)

”بے شک وہ بخشنے والا اور قبول فرمانے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان ہے“۔ (سید مودودی)

”بےشک وہ بڑا بخشنے والا قدردان ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۲) اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُور شَکُور۔ (فاطر: 34)

”بے شک ہمارا رب بخشنے والا، قبول فرمانے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بےشک ہمارا پروردگار بخشنے والا (اور) قدردان ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۳) اِنَّ اللَّہَ غَفُور شَکُور۔ (الشوری: 23)

”بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا اور بڑی قدر افزائی کرنے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بیشک اللہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے“۔(احمد رضا خان)

(۴) وَاللَّہُ شَکُور حَلِیم۔ (التغابن: 17)

”اور اللہ قدردان اور بردبار ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اللہ بڑا قدر دان بڑا بردبار ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۵) فَاِنَّ اللَّہَ شَاکِر عَلِیم۔ (البقرة: 158)

”تو بے شک اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اللہ کو اس کا علم ہے او ر وہ اس کی قدر کرنے والا ہے“۔ (سید مودودی)

(۶) وَکَانَ اللَّہُ شَاکِرًا عَلِیمًا۔ (النساء: 147)

”اور اللہ تو بڑا قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

” اور وہ تو ہر ایک کے شکریہ کا قبول کرنے والا اور ہر ایک کی نیت کا جاننے والا ہے“۔ (جوادی، یہ عجیب ترجمہ ہے)

”اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۷) فَاولَئِکَ کَانَ سَعیُہُم مَشکُورًا۔ (الاسراء: 19)

”تو درحقیقت یہی لوگ ہیں جن کی سعی مقبول ہوگی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی“۔ (احمد ضاخان)

”تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۸) وَکَانَ سَعیُکُم مَشکُورًا۔ (الانسان: 22)

”اور تمہاری سعی مقبول ہوئی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی“۔ (محمد جوناگڑھی)

” اور تمہاری محنت ٹھکانے لگی“۔ (احمد رضا خان)

”اور تمہاری کوشش (خدا کے ہاں) مقبول ہوئی“۔ (فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا تمام مقامات پر قدر کرنے کا ترجمہ ہی شکر کا صحیح مفہوم ادا کرتا ہے۔

(217) ”ان“ ماضی کے لیے نہیں

گزشتہ مضمون میں ہم نے وضاحت کی تھی کہ لو ماضی کے لیے ہوتا ہے، لیکن بسا اوقات مستقبل کا ترجمہ کردیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ اسی طرح ”ان“مستقبل کے لیے ہوتا ہے، لیکن کبھی غلطی سے ماضی کا ترجمہ کردیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سورة فاطر کی درج ذیل آیت کا ترجمہ دیکھیں:

وَاَقسَمُوا بِاللَّہِ جَہدَ اَیمَانِہِم لَئِن جَائَہُم نَذِیر لَیَکُونُنَّ اَہدَی مِن اِحدَی الاُمَمِ۔ (فاطر: 42)

”یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آ گیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوتے“۔ (سید مودودی)

”اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنی قسموں میں حد کی کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈر سنانے والا آیا تو وہ ضرور کسی نہ کسی گروہ سے زیادہ راہ پر ہوں گے“۔ (احمد رضا خان، ”کسی نہ کسی گروہ“ کے بجائے ”ایک ایک گروہ“ ہونا چاہیے)

”اور انھوں نے اللہ کی پکی پکی قسمیں کھائیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نذیر آیا تو وہ ہر امت سے زیادہ ہدایت اختیار کرنے والے بنیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی، ”تو وہ ہدایت میں ایک ایک سے بڑھ کر ہوں گے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

”اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ہدایت کرنے والا آئے تو ہر ایک اُمت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری،  اَقسَمُوا کا ترجمہ حال کا کیا ہے، جب کہ صیغہ فعل ماضی ہونے کے علاوہ سیاق کلام خود ماضی کے ترجمے کا تقاضا کرتا ہے)

پہلے ترجمہ میں ان کا ترجمہ ماضی سے کیا گیا ہے: ”اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آ گیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوتے“، لیکن یہ درست نہیں ہے، صحیح ترجمہ ہوگا: ”اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آجائے تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوں گے“۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ترجمہ کا جب انگریزی ترجمہ کیا گیا تو اس میں یہ غلطی درست کردی گئی:

Swearing by Allah their strongest oaths they claimed that if a warner came to them, they would be better-guided than any other people. (Maududi)

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس مقام سے مشابہ دو اور مقامات پر صاحب ترجمہ نے مستقبل کا ترجمہ کیا ہے:

وَاقسَمُوا بِاللَّہِ جَہدَ ایمَانِہِم لَئِن جَائَتہُم آیَة لَیُومِنُنَّ بِہَا۔ (الانعام: 109)

”یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی ہمارے سامنے آ جائے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے“۔ (سید مودودی)

وَاقسَمُوا بِاللَّہِ جَہدَ ایمَانِہِم لَئِن امَرتَہُم لَیَخرُجُنَّ۔ (النور: 53)

”یہ (منافق) اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ”آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں“۔ (سید مودودی)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی ناواقفیت نہیں بلکہ بھول چوک کی قبیل سے ہے۔

قرآن / علوم القرآن

(ستمبر ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter