بکر عطیانی: جنرل احمد شریف، ہمارے ساتھ اس انٹرویو کے لیے بہت شکریہ۔ میں بات وہاں سے شروع کروں گا جہاں پر یہ معاملہ ختم ہوا تھا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ بندی قائم رہے گی؟
احمد شریف: افواجِ پاکستان پیشہ ور مسلح افواج ہیں، ہم اپنے کیے گئے وعدوں پر قائم رہتے ہیں اور سیاسی حکومت کی ہدایات اور ان کے وعدوں پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان آرمی کا تعلق ہے، یہ جنگ بندی قائم ہے اور قائم رہے گی، اور دونوں اطراف کے درمیان رابطوں کو با اعتماد بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ البتہ اگر کوئی خلاف ورزی ہو گی تو ہم اس کا فوری جواب دیں گے، لیکن یہ صرف ان چوکیوں اور پوزیشنوں پر ہو گا جہاں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہو گی۔
ہم کبھی بھی شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے، شہری املاک کو نشانہ نہیں بناتے ہیں، اور یہی طرز عمل ہے۔ ہمارا پیغام واضح ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں اور امن کے لیے کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی خلاف ورزی ہوتی ہے اور پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی جاتی ہے تو ہمارا ردعمل بہت یقینی، تیزرفتار اور شدید ہوگا۔
بکر عطیانی: بھارت سندھ طاس معاہدے کی بحالی میں واضح طور پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتا جبکہ پاکستان نے اسے جنگ کا اقدام قرار دیا ہے۔ بطور فوج کے اس میں آپ کا کیا کردار ہوگا؟
احمد شریف: میرے خیال میں حکومتِ پاکستان نے اسے بالکل واضح کر دیا ہے۔ فوج کو مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی پاگل ہی ایسا سوچ سکتا ہے کہ وہ اس ملک کے چوبیس کروڑ سے زیادہ لوگوں کا پانی روک سکتا ہے، اس کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے، بالکل بھی نہیں۔
بکر عطیانی: اور بطور فوج کے آپ ایسی کیا کارروائی کریں گے کہ وہ ایسا نہ کر سکیں؟
احمد شریف: کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ان کارروائیوں کی وضاحت کروں؟ میں امید کرتا ہوں کہ ایسا وقت نہ آئے، (اگر ایسا ہوا) تو یہ ایسی کارروائیاں ہوں گی جنہیں دنیا دیکھے گی اور اس کے نتائج آنے والے برسوں اور دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ کسی کو پاکستان کا پانی روکنے کی ہمت نہیں کرنی چاہیے۔
بکر عطیانی: بھارت کے ساتھ پچھلے تنازعات اور 2025ء کے تنازعے میں کیا فرق ہے؟ حالیہ تنازعہ میں کیا نیا ہے؟
احمد شریف: میرے خیال میں پہلی چیز جو نئی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں تک بھارتیوں کا تعلق ہے انہوں نے یہ تنازعہ جھوٹ کے پلندے پر کھڑا کیا ہے۔ پہلگام کے واقعے کے بعد سے اگر آپ دیکھیں تو آج تک انہوں نے کوئی ایک بھی ثبوت نہیں دیا ہے۔ چند روز پہلے ان کی وزارتِ خارجہ نے واضح طور پر بیان دیا ہے کہ پہلگام کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ تو پھر پاکستان کے بے گناہ شہریوں، بچوں، خواتین اور بزرگوں کے خلاف جارحیت، مساجد کی تباہی اور قرآن پاک کی بے حرمتی کس بنیاد پر؟ صرف ایسے الزامات پر جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے؟
دوسری بات یہ کہ بھارتی طرز عمل زیادہ تر فلمی انداز کا تھا جس میں جعلی خبریں اور پروپیگنڈا شامل تھا۔ بھارتی کاروائی کے حوالے سے جس طرح یہ سب اثر انداز ہوا وہ حیران کن ہے۔ کیونکہ ہمیں پیشہ ور افواج اور ذمہ دار ممالک میں اس قسم کی جنگی جنونیت اور بے قابو ماحول نظر نہیں آتا جو (بھارت میں) 6 اور 7 تاریخ سے پہلے پیدا کیا گیا تھا۔
میرے خیال میں دنیا نے کبھی ایسا کوئی ملک نہیں دیکھا جو خود کو ایک طرف وشوا گرو (معلمِ عالم) کہتا ہو، جو اپنے میڈیا پر سینہ ٹھونکتا ہو، اور جن کی حکومت بچوں اور خواتین کو قتل کرنے پر فخر محسوس کرتی ہو۔ یہ خطرناک ہے۔ یہ ذہنیت جو یہاں بھارتی معاشرے اور خاص طور پر سیاسی قیادت کی طرف سے دکھائی جا رہی ہے، میرے خیال میں یہ نئی چیز سامنے آئی ہے۔
یہ ایسی چیز ہے جسے دنیا کو بہت غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور پھر جھوٹے دعوے کرنا، جیسا کہ پوری دنیا اور ان کے اردگرد کے لوگ کچھ نہیں دیکھ رہے اور وہ بے وقوف ہیں، کہ ہم نے اسلام آباد پر قبضہ کر لیا ہے، کراچی کی بندرگاہ جل رہی ہے، ہم نے طیارے گرا دیے ہیں۔
وہ ابھی اپنے آپ کو جھوٹ کے پیچھے چھپائے ہوئے ہیں، ان کے جو طیارے گرائے گئے ہیں وہ انہیں تسلیم نہیں کرتے، ان لوگوں کو تسلیم نہیں کرتے جنہوں نے انڈیا کی خاطر جان دی ہے۔ یہ ہٹ دھرمی والی ذہنیت، اور آج کے دور میں اس طرح کا طرز عمل کہ آپ عوام کو سچائی سے دور رکھ سکتے ہیں جبکہ ہر پروجیکٹائل (میزائل)، ہر یو اے وی (ڈرون)، اور ہر طیارے کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ موجود ہوتا ہے (کہ وہ کس وقت کس جگہ موجود تھا)۔ اور جس ’’غیر محتاط‘‘ رویے کا مظاہرہ بھارتیوں نے کیا ہے کہ اپنے ہی علاقے بھارتی پنجاب میں میزائل داغ دیے جہاں سکھ برادری رہتی ہے۔ میرے خیال میں یہ سب کچھ نیا ہے اور اس طرح کی ذہنیت سامنے آ رہی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کہاں سے آئی ہے اور حقداری کا اتنا دعویٰ کہ آپ سب کچھ کر کے بھی بچ سکتے ہیں۔ یہ اس خطے کے ایک سو ساٹھ کروڑ لوگوں کے لیے بھی خطرہ ہے اور باقی دنیا کے لیے بھی۔
بکر عطیانی: جنگی لحاظ سے، آپ کے خیال میں کیا نیا ہے؟
احمد شریف: جنگی لحاظ سے، جیسا کہ میں نے پہلے ہی اشارہ کیا ہے، آپ نے دیکھا کہ وہ زمینی حقائق کو اتنی جعلی خبروں، اتنی غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ساتھ ملا دیتے ہیں کہ لوگوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا حقیقت ہے اور کیا غلط ہے۔ اگرچہ یہ تصادم اب ختم ہو چکا ہے ، ابھی تک بھارت کی طرف سے اتنی بے ہودہ باتیں سامنے آ رہی ہیں۔
اور جہاں تک روایتی جنگ کا تعلق ہے، دونوں طرف سے جو طاقت دکھائی گئی ہے، بھارتیوں کا خیال تھا کہ اپنی روایتی فوجی طاقت کے ساتھ وہ پاکستان کے مقابلے پر آ سکتے ہیں۔ الحمدللہ، پاکستان نے بہت واضح طور پر دکھایا دیا ہے کہ اس تنازعے میں ہماری مسلح افواج نے اب تک جو جواب دیا ہے وہ صرف ایک جزوی ردعمل ہے۔ بھارتی یہ چاہتے تھے کہ مشرقی سرحد پر کشیدگی پیدا کر کے ہماری ان مسلح افواج کو وہاں آنے پر مجبور کر دیں جو انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں تعینات ہیں، وہ دہشت گردی جو بھارت نے دہائیوں سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہم پر مسلط کی ہے۔ لیکن پاکستان نے ایک بھی فوجی نہیں ہٹایا۔ افواج کے صرف جزوی استعمال اور اپنی کچھ خاص ٹیکنالوجیز کے ذریعے ہم نے ایک ایسا ردعمل دیا جس نے بھارتیوں کو کشیدگی کم کرنے پر مجبور کیا۔
تو نئی چیز یہ ہے کہ بھارتیوں کو یہ پتہ چل گیا ہے اور میرے خیال میں دنیا بھی جان گئی ہے کہ پاکستان کے عوام اور اس کی مسلح افواج کے عزم کے بارے میں کسی الجھن میں نہ رہیں۔ ہم تیار ہیں اور ہم ہر قیمت پر اپنی علاقائی سالمیت، دفاع اور خودمختاری کا دفاع کریں گے۔
بکر عطیانی: کیا آپ ان اعداد و شمار کی تصدیق کر سکتے ہیں جو وزیراعظم نے کل بتائے ہیں؟ چھ بھارتی طیارے گرائے گئے؟
احمد شریف: جی ضرور، چھٹا طیارہ میراج 2000 ہے۔ ہم بغیر ثبوت کے کوئی دعویٰ نہیں کرتے، ایک بار جب ہمیں ثبوت مل جاتا ہے تو ہم بار بار اسے چیک کرتے ہیں اور اس کی دوبارہ تصدیق کرتے ہیں۔ ہم نے کل [جمعرات] کو سرکاری طور پر اس کا اعلان کیا، پاکستان کے وزیراعظم نے بتایا کہ ہم نے چھ طیارے گرائے ہیں۔ اور میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ چھٹا طیارہ میراج 2000 ہے۔
بکر عطیانی: روس ایک دوستانہ ملک ہے، اس تصادم کے دوران اس کے ہتھیار استعمال ہوئے ہیں، کیا یہ آپ کے لیے تشویش کا باعث ہے؟
احمد شریف: یہ ایک اور پہلو ہے جہاں میرے خیال میں بھارتیوں نے دکھایا ہے کہ وہ اس میں کس قدر بے قابو ہو گئے ہیں …… روسی ہتھیار اور فرانسیسی طیارے جو اُن کے پاس ہیں ، وہ سب بہت عمدہ ہتھیار ہیں، بہت اچھے سسٹمز ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ انہیں کون استعمال کرتا ہے اور کیسے استعمال کرتا ہے۔ اگر ہم اس بنیاد پر دنیا کے ممالک کے خلاف ہونا شروع کر دیں کہ آپ کسی ملک کو کیا چیز فراہم کرتے ہیں، میرے خیال میں یہ ذہنیت ایسی ہے جس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ ٹیکنالوجیز تو ہر جگہ موجود ہیں اور ہم ایک بہت مربوط دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اور بہت سی چیزوں کی بین الاقوامی تجارت ہوتی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اس معاملے کو اس نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اس بنیاد پر نہیں بنانے چاہئیں۔ بہرحال ہمارا سفارتی شعبہ سمجھدار ہے اور وہی اس پر فیصلے اور اقدامات کرتا ہے۔ ایک فوجی شخص کے طور پر میری فکر اس بارے میں ہے کہ ہتھیار کون استعمال کر رہا ہے اور کیسے استعمال کر رہا ہے۔
بیکر عطیانی: پاکستان چینی ساختہ اسٹیلتھ طیارے JF-35 حاصل کرنے جا رہا ہے، یہ کس مرحلے میں ہے؟ یہ کب سروس میں شامل ہو سکتا ہے یا کب پاکستان کو مل سکتا ہے؟
احمد شریف: پاکستان کی مسلح افواج کی ترقی کی حکمتِ عملی ایک ارتقائی چیز ہے اور ہم نئی ٹیکنالوجیز پر کام کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ کیا اور کب کے سوال کا جواب دے سکوں، لیکن میں آپ کو اس بات کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ پاک فوج بہت ہی پیشہ ورانہ انداز میں اپنے اور مخالف کے فوجی (اثاثوں) کا مسلسل جائزہ لیتی رہتی ہے اور اس حوالے سے ہم میدانِ جنگ کی ضرورت کے مطابق بہتری لاتے رہتے ہیں۔
بیکر عطیانی: اس رات کی طرف آتے ہیں، اس صبح سویرے جب امریکہ درمیان میں آیا کیونکہ اس کے مطابق کوئی خطرناک خفیہ معلومات تھی جس نے اسے مداخلت کرنے پر آمادہ کیا۔
احمد شریف: سب سے پہلے تو میں یہ بات دہرانا چاہوں گا کہ ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ دو حریف ایٹمی ممالک کے درمیان فوجی تنازعہ محض بیوقوفی ہے۔ یہ ایک ناقابلِ فہم اور فضول آئیڈیا ہے۔ اور دنیا بھی یہی سمجھتی ہے، تمام سمجھدار لوگ اور تمام بڑے اور مضبوط ممالک اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
میرے پاس مخصوص تفصیلات نہیں ہیں کیونکہ سفارتی سطح پر بہت ہی گھمبیر بات چیت چل رہی تھی، وزارتِ خارجہ اس سے واقف ہے اور وہی اس پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔
میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ اس پورے فوجی تنازعہ ’’معرکہ حق‘‘ میں کشیدگی کا کنٹرول پاکستان کے پاس تھا۔ اور بھارت کے ۲۲ اپریل کے پہلگام واقعے کے بعد سے جاری انتہائی غیر محتاط اور جارحانہ رویے کے باوجود پاکستان نے بہت ذمہ دارانہ طرزعمل کا مظاہرہ کیا۔
اگر آپ دیکھیں کہ 6 اور 7 مئی کی رات کو جب انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے پاکستان کی سرزمین کی خلاف ورزی کی اور بے گناہ شہریوں پر حملہ کیا جس میں انہوں نے پاکستان میں مساجد کو نشانہ بنایا، تب بھی پاکستان کی ایئر فورس اور مسلح افواج نے بہت ذمہ دارانہ انداز میں جوابی کارروائی کی۔ ہم نے صرف طیاروں کو نشانہ بنایا ، وہ طیارے جو شہری املاک، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ ہم مزید کو نشانہ بنا سکتے تھے لیکن ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ پھر وہ اندرون ملک اور بیرون ملک اپنی جنونیت میں اور آگے بڑھ گئے اور انہوں نے ڈرون پر ڈرون بھیجنے شروع کر دیے ، ہم نے انہیں ناکارہ بنایا اور انہیں گرا دیا۔ انہوں نے ایک میزائل پاکستان پر فائر کیا اور ہم نے اسے ناکارہ بنا دیا۔ تو ہم انتہائی ذمہ دارانہ انداز میں اس معاملے سے نمٹ رہے تھے اور کشیدگی کو کنٹرول کر رہے تھے۔
دس مئی کے ہمارے جواب سے پہلے انہوں نے ہمارے اڈوں پر کئی میزائل فائر کیے۔ وہ پاکستان کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ آپ بدلہ لینے کی طرف نہ آئیں۔ انہوں نے سوچا کہ وہ یکطرفہ طور پر اقدامات کر سکتے ہیں، بے گناہ شہریوں، بچوں، خواتین کو قتل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی بائیس خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں جو اس کھلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ تو ان کا خیال تھا کہ پاکستان جواب نہیں دے گا اور انہوں نے ہمارے اڈوں پر میزائل داغے۔ وہ ہمیں باز رکھنے کی کوشش میں یہ بھول گئے کہ آپ صرف اسے روک سکتے ہیں جسے روکا جا سکتا ہو۔ پاکستان کی قوم اور اس کی مسلح افواج کبھی بھی جبر،جارحیت اور بھارتی بالادستی کے سامنے نہیں جھکے اور نہ کبھی جھکیں گے۔
چنانچہ ہم نے دس مئی کی صبح کو اللہ کے فضل سے آپریشن "بنیانٌ مرصوص‘‘ کے ذریعے جواب دیا۔ یہ ایک جانچا ہوا، نِپا تُلا، متناسب ردعمل تھا۔ یہ ہماری روایتی افواج کا مکمل استعمال نہیں تھا، یہ ایک جزوی ردعمل تھا۔ ہم نے چھبیس اہداف کا انتخاب کیا تھا اور ہم نے چھبیس اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسے دنیا نے بھی دیکھا اور بھارتیوں نے بھی۔
اور پھر یہ بھارت کے دفاعی ترجمان تھے جنہوں نے دس مئی کی صبح عوامی سطح پر آ کر کہا کہ ہم کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اگر پاکستان اس کے لیے تیار ہو۔ بہرحال ہم ایک امن پسند ملک ہیں اور امن کو ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح سے کشیدگی ہمارے کنٹرول میں رہی۔
عالمی برادری اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ پاکستان کا بہت ہی منصفانہ رویہ ، اور دوسری طرف غیر فطری اور غیر محتاط جارحیت اور نا انصافی جو بھارتی دکھا رہے تھے۔ وہ سینہ ٹھونک رہے تھے اور جعلی پروپیگنڈا پھیلا رہے تھے، ان کی نفرت اور جنگی جنونیت جو کہ اب بھی جاری ہے۔
بکر عطیانی: کچھ سیٹلائٹ تصاویر ہیں جن میں پاکستان کے کچھ فضائی اڈوں، خاص طور پر رحیم یار خان کے اڈے کا نقصان دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا آپ ہمیں عدد کے لحاظ سے بتا سکتے ہیں کہ اس تنازعے میں پاکستان آرمی کے کیا نقصانات ہوئے؟
احمد شریف: ایک اور چیز جو آپ نے دیکھی ہوگی کہ پاکستان مسلح افواج اور پاکستان بطور ریاست اس تنازعے کے بارے میں بہت شفاف رہے ہیں۔ اور یہ ہمارے اس ماحول اور اصولوں کی وجہ سے ہے جو پاکستان کی مسلح افواج اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بھارتی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سامنا ہے۔
ہم نے کبھی بھی اپنے نقصانات نہیں چھپائے۔ میں آپ کو بہت واضح اعداد و شمار دے سکتا ہوں۔ جنوری 2024ء سے پاکستان میں 3700 دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق 2500 سے زیادہ پاکستانی ہیں جو معذور ہوئے ہیں، جن کی زندگیاں اور اعضاء ضائع ہوئے ہیں۔ 1300 سے زیادہ شہری اور فوجی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں جو شہید ہوئے ہیں۔ ہم یہ سب نہیں چھپاتے۔ ہم جنگ آزمودہ فوج اور جنگ آزمودہ قوم ہیں۔
اگر آپ نے یہ تنازعہ پہلے دن سے دیکھا ہے تو جب 6 اور 7 مئی کی رات کو ہلاکت خیز حملے ہوئے۔ 7 مئی کی صبح ہم خود بین الاقوامی میڈیا کو ان تمام نام نہاد مبینہ دہشت گرد کیمپوں میں لے کر گئے، مریدکے، بہاولپور، مظفرآباد، ہر جگہ۔ اور ہم نے میڈیا کو دکھایا کہ آپ ہمیں بتائیں کہ وہ دہشت گرد کیمپ کہاں ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ کیا یہ مساجد اور مدرسے نہیں ہیں جہاں خواتین اور بچے (شہید ہوئے ہیں)، اور کیا یہ شہریوں کے گھر نہیں ہیں جنہیں نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ہم نے اپنے شہداء کی گنتی کی ہے اور ہم انہیں اعزاز دے رہے ہیں۔ پاکستان کے چالیس شہریوں نے جانیں گنوائی ہیں جن میں سے بائیس خواتین اور بچے ہیں۔ ہم نے پاکستان کے بارہ بہادر فوجی کھوئے ہیں جن کا پاکستان ایئر فورس اور پاکستان آرمی سے تعلق ہے۔ ہم نے ہر نقصان کا اعلان کیا ہے۔
جب بھارتیوں نے 9 اور 10 کی رات کو پاکستان پر میزائل فائر کیے، جس کا آپ نے ذکر کیا ہے، میں نے فوراً قومی ٹیلی ویژن پر آ کر خود اعلان کیا کہ بھارتیوں نے ایک اور جارحیت کی ہے۔ انہوں نے ہمارے پاکستان ایئر فورس کے جن اڈوں پر میزائل داغے، ہم نے ان اڈوں کا نام بتایا۔
اور ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب انہیں دس مئی کی صبح کو ہمارا درست اور تیز رفتار جواب ملا ، اور جب وہ ہر ایک سے کشیدگی کم کرنے اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے لگے، تو اس وقت بھی انہوں نے بزدلانہ انداز میں، وہ کردار جو بھارتی مسلح افواج کا ہے، انہوں نے بھلاری اور جیکب آباد کے ہمارے اڈوں پر ایک اور حملہ کر دیا۔ کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ انہیں کتنا بھاری نقصان ہوا ہے اور وہ اپنی عوام کو بتانا چاہتے تھے کہ ہم نے بھی کچھ اسکور کیا ہے۔ اور ایسا انہوں نے تب کیا جب وہ talk talk talk کی بات کر رہے تھے۔ تو ہم نے یہ سب نہیں چھپایا۔ اس حملے میں ہم نے اپنا اسکواڈرن لیڈر کھو دیا۔
میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے۔ فوجی تصادم اور جنگوں میں ایسے نقصانات پہنچتے ہیں اور انہیں برداشت کیا جاتا ہے۔ ان تمام اڈوں پر معیارات اور طریقہ کار موجود ہیں جن کے ذریعے پاکستان ایئر فورسز فوری طور پر ان اڈوں کو بحال کرتی ہے۔ (جن اڈوں کو نقصان پہنچا تھا) وہ سب بحال کیے جا چکے ہیں۔ ایک طیارے کو ایک معمولی نقصان ہوا تھا جسے مرمت کیا جا رہا ہے اور یہ جلد ہی قابل استعمال ہو جائے گا۔
اصل میں بھارتیوں نے اس تنازعے کے بعد نقصانات کے بارے میں جو ہنگامہ کھڑا کیا ہے وہ اس کے ذریعے اپنی خفت سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ہم نے ان کی چھبیس جگہوں کو نشانہ بنایا۔ ہم نے ان کے انتہائی قیمتی فضائی دفاعی اثاثوں کو نشانہ بنایا۔ ہم نے ان کے چھ طیارے گرا دیے۔ ہم نے ان کی جدید ترین ٹیکنالوجیز کو ناکارہ بنا دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس بہت اچھا فضائی دفاع ہے، جبکہ ہم نے انہیں بالکل اسی جگہ نشانہ بنایا جہاں پر ان کا فضائی دفاعی نظام موجود تھا۔
اس لیے بھارتی پروپیگنڈا اور جو کچھ بھی ان کی طرف سے کہا جا رہا ہے ہم اس پر اب زیادہ توجہ نہیں دے رہے ،کیونکہ ایک ایسا میڈیا ، ایک ایسا ملک جو ہر منٹ جھوٹ گھڑ سکتا ہے، جو کچھ بھی دعویٰ کر سکتا ہے، جو تنازعہ کے وقت ہزاروں ویب سائٹس، ٹویٹر اکاؤنٹس، اور سوشل میڈیا پیجز کو بند کر دیتا ہے، جو دنیا سے بھارت کے بارے میں رپورٹ نہ کرنے کو کہتا ہے، جو اس بات پر حساس ہو جاتا ہے کہ اگر کسی ملک نے ہمیں کبھی کوئی ہتھیار بھیجے ہیں جو ہم نے خریدے ہیں اور استعمال کر رہے ہیں، اس پر وہ اچھلتا اور بچوں کی طرح ناتجربہ کارانہ انداز اختیار کرتا ہے، تو مجھے نہیں لگتا کہ اس ملک کو بہت سے معاملات میں مزید سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے۔
بکر عطیانی: سعودی عرب، امریکہ اور چین کا اس جنگ بندی تک پہنچنے میں کیا کردار رہا، آپ اس کا کس طرح سے جائزہ لیتے ہیں؟
احمد شریف: دیکھیں، دنیا کی بڑی طاقتوں نے جو کردار ادا کیا وہ بہت مثبت اور شاندار رہا ہے، امریکہ، چین، سعودی عرب اور دیگر۔ اس پر تبصرہ کے لیے وزارتِ خارجہ سب سے بہترین جگہ ہے۔
جہاں تک سعودی عرب اور اہلِ عرب کا تعلق ہے، پاکستانی عوام کے سعودی عرب اور خلیجی خطہ کے درمیان بہت مضبوط تعلقات ہیں۔ اور ہماری مسلح افواج کا سعودی عرب کی بادشاہت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو احترام اور بھائی چارے پر مبنی ہے، اور پاکستان میں عزت مآب شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت کی بہت تعریف کی جاتی ہے۔ سعودی ہمارے بھائی ہیں اور ہمیشہ کے لیے بھائی ہیں۔ اور یہی طرز عمل ہے جو سعودیہ نے اور دیگر دوستوں نے اختیار کیا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ایک بہت منصفانہ جنگ لڑ رہا ہے، اور یہ کہ کون حق پر ہے اور کون غلط ہے۔ یہ بالکل روزِ روشن کی طرح واضح تھا کہ ہمارے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے جبکہ ہم حق پر ہیں۔ ہمارا کہنا تھا کہ (پہلگام واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کا) اگر کوئی ثبوت ہے تو اسے ایک غیر جانبدار شفاف کمیشن کے سامنے رکھیں۔ لیکن کھلی جارحیت ہوئی جسے دنیا نے دیکھا اور ابھی تک دیکھ رہی ہے۔
بکر عطیانی: جنرل احمد شریف، آپ کے وقت کا بہت شکریہ۔
احمد شریف: (آپ کا بھی)