بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
وطن عزیز پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے عظیم شہداء کے عظیم والدین، اہل خانہ، وفاقی وزراء، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ساحر مرزا، سپہ سالار بری فوج جنرل سید عاصم منیر، نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف، ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر، جنرل آفیسرز، سرکاری افسران، اینڈ آنریبل ڈپلومیٹس، خواتین و حضرات، السلام علیکم۔
آج اس محفل میں ہمارے انتہائی قابلِ احترام صحافی بہن اور بھائی موجود ہیں، پاکستان کے مایہ ناز فنکار موجود ہیں، اور یہاں پر پاکستان کے انتہائی قابلِ احترام غازی بھی موجود ہیں۔
آج کا دن یومِ تشکر ہے، یہ دن دنیا کی تاریخ میں کسی کسی کو ملتا ہے اور صدیوں بعد ملتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بے پایاں فضل و کرم ہے کہ آج سے تقریبا پچاس سال پہلے ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا 1971ء میں۔ اور آج 10 مئی 2025ء کو اس مالک کے کی کمال مہربانی سے، اس قوم کی دن رات کی دعاؤں سے، کروڑوں پاکستانی سجدہ ریز تھے، دعائیں مانگ رہے تھے، افواجِ پاکستان کے لیے، بری فوج کے لیے، فضائی فوج کے لیے، بحری فوج کے لیے، اور آسمانوں کی طرف نگاہیں اٹھا کر اس ربِ ذوالجلال جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، جھولیاں اٹھا کے دعائیں کر رہے تھے کہ ان کڑیل جوانوں کو، ان دلیر سپوتوں کو، اے اللہ تعالیٰ ایسی کامیابی عطا فرما کہ پھر دشمن دوبارہ پاکستان کی طرف رخ کرنے کا کبھی قیامت تک نہ سوچ سکے۔
اور میرے انتہائی بزرگو، بھائیو اور بہنو، اللہ تعالیٰ کا کچھ خاص کرم ایسا ہوا کہ نو اور دس کی رات کو، نو کی رات کو جو جمعہ کا دن تھا، میری افواجِ پاکستان کے سپہ سالاروں سے ملاقات ہوئی اور اس میں طے پایا کہ دشمن نے آخری حد بھی پار کر دی، ہماری ایک انتہائی مخلصانہ آفر پایۂ حقارت سے ٹکرایا ہے، جس میں ہم نے کہا تھا کہ آئیں ایک عالمی تحقیقاتی کمیٹی بناتے ہیں جو کہ پوری تحقیقات کے بعد پوری دنیا کو حقائق بتا دے گی۔ مگر دشمن نے انتہائی تحکمانہ انداز میں غرور کے نشے میں بدمست انہوں نے پاکستان کے اوپر حملہ کر دیا اور بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا جن میں وہ چھ سالہ بچہ بھی شہید ہوا، مائیں بہنیں بزرگ جوان شہید ہوئے، اور پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ ہم پاکستان کے اندر جا کر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ نو کی رات کو جو فیصلہ ہوا اس میں یہ طے پایا کہ ہم انشاءاللہ۔ یہ پانچ جہاز تھے، کل پوری تحقیقات کے بعد ایئر مارشل ظہیر بابر نے مجھے کل بتایا کامرہ میں کہ چھ جہاز گرائے۔
میرے انتہائی قابل احترام بزرگو، بھائی اور بہنو، چھ جہاز گرانا اس دشمن کے جو کہ جنوبی ایشیا میں اپنے آپ کو تھانیدار سمجھتا تھا، جو اس زعم میں تھا کہ پاکستان اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس پاکستان نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان شاہینوں کو، ان جوانوں کو یہ جرأت عطا کی، اور انہوں نے جھپٹ جھپٹ کر ان کے رافائل بھی مارے، ان کو فیل بھی کیا، مِگ بھی گرائے، ڈرون بھی گرائے، اور ایسا ڈراؤنا خواب دکھایا کہ قیامت تک وہ اس خواب سے نکل نہیں سکیں گے۔
مگر اس کے باوجود بھی دشمن دھمکیاں دیتا رہا اور نو کی رات کو پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک Measured ہم جواب دیں گے۔ نو اور دس کی درمیانی رات میں تقریباً ڈھائی بجے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے مجھے سکیور فون پہ بتایا کہ وزیر اعظم صاحب ہندوستان نے اپنے بلسٹک میزائل ابھی لانچ کیے ہیں، ایک نور خان ایئرپورٹ پہ گرا ہے اور کچھ اور دوسرے علاقوں میں گرے ہیں۔
میرے انتہائی قابل احترام بزرگو، بھائیو، اور بہنو، میں اس خدائے بزرگ و برتر کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اس جرنیل کی آواز میں انتہائی اعتماد تھا، خودداری تھی اور وطن کی تڑپ تھی اور انہوں نے مجھے کہا کہ وزیراعظم مجھے اب اجازت دیں کہ ہم دشمن کے منہ پر ایسا تھپڑ رسید کریں گے کہ وہ عمر بھر اس کو یاد رکھے گا۔ اور پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح پھر پٹھان کوٹ، ادھم پور اور کہاں کہاں ہمارے شاہینوں نے اور الفتح میزائلوں نے حملے کیے اور دشمن کو سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔
صبح کا وقت تھا، فجر کے بعد میں سوئمنگ کرتا ہوں تو میں احتیاطاً اپنا سکیور فون ساتھ لے گیا اور میں نے ضیاء کو کہا کہ ضیاء یار اگر کوئی گھنٹی بجے تو مجھے فوراً بتانا۔ As luck would have it وہ گھنٹی بجی تو جنرل عاصم منیر لائن پر تھے، کہنے لگے کہ وزیراعظم ہم نے بڑا بھرپور ان کو جواب دیا ہے اور اب ہمیں سیز فائر کرنے کی درخواست آ رہی ہے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا، سپہ سالار، اس سے بڑی اور عزت کی کیا بات ہو سکتی ہے، آپ نے دشمن کو ایک بھرپور تھپڑ مارا ہے، اس کا سر چکرا گیا، اب وہ سیز فائر پر مجبور ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ بسم اللہ کریں اور اس سیز فائر کی آفر کو قبول کریں۔
میرے بزرگو بھائیو اور بہنو، یہ ہے وہ مختصر ایک سمری اس لمبی داستان کی اور اس میں ہمارے ایئر چیف اور ان کے شاہینوں نے جس طریقے سے Home grown technology انہوں نے پاکستان کے اندر Grow کی ہے اور چینی جہازوں کے اوپر، اور نیچے زمین پر جو Modern gadgetries انسٹال کی ہیں اس سے دشمنوں کے ہوش اڑ گئے اور دوستوں کا اعتماد آسمانوں سے باتیں کرنے لگا۔ یہ وہ تبدیلی ہے تاریخ کی جو کہ اللہ تعالیٰ نے چند گھنٹوں میں اس دنیا میں کی۔ امریکہ سے لے کر جاپان تک جنوبی ایشیا مڈل ایسٹ یورپ ہر جگہ آج یہ بات ہو رہی ہے کہ پاکستان کی افواج نے کس طریقے سے خاموشی سے یہ Capability انہوں نے Achieve کی اور ہندوستان، جو کورٹ ?? کا ممبر ہے اور دنیا کو یہ دن رات باور کرا رہا تھا کہ میری جو ایکانومی ہے وہ کھربوں ڈالر میں ہے، میرا جو اسلحہ ساز و سامان جو ہے اس کے اوپر کئی سو ارب ڈالر میں نے پانی کی طرح خرچ کیے ہیں، پاکستان کوئی حیثیت نہیں رکھتا، مجھے آپ اس خطے کا بادشاہ تسلیم کریں۔
میرے عظیم بزرگو، بھائیو اور بہنو، اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا، اس خدا کو منظور یہ تھا کہ پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام کی دعائیں، ماؤں اور بزرگوں کی فجر کے وقت تہجد کے وقت سجدہ ریزی، اور آسمان کو چیر کر ان کی دعائیں فلک پر پہنچی، اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال مہربانی سے اس کو قبول کیا اور یہ عظیم فتح آج پاکستان کو دی ہے۔ اور آج ہم یہاں پر یہ یومِ تشکر اس طرح منا رہے ہیں کہ ہم پورے پاکستان کے عوام کے، بزرگوں کے، ماؤں کے، بہنوں کے، بیٹوں کے سر ربِ ذوالجلال کے حضور جھکے ہوئے ہیں اور ہمیشہ جھکے رہیں گے انشاءاللہ۔
اور آج پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ اب کوئی بڑی سے بڑی طاقت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی، پوری قوم آج یکجاں دو قالب ہے، پشاور سے لے کر کراچی تک پوری قوم ہماری مسلح افواج کے پیچھے کھڑی ہے اور پوری قوت سے ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج اب وقت آگیا ہے ، آج وقت آ گیا ہے کہ ہم اب اس سفر کا آغاز کر دیں جس کے لیے پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اور حضرت قائد اعظم کی عظیم تحریک میں لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، خون کے دریا عبور کیے، تب پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ آج ان لاکھوں شہیدوں کی روحیں پکار پکار کر اس بات کا تقاضا کر رہی ہیں کہ آؤ پاکستانیو مل کر قائد اعظم کا پاکستان بناؤ، مل کر اقبال کا پاکستان بناؤ۔
اور جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا وہ یہ تھا کہ اقوامِ عالم میں پاکستان کا سبز ہلالی جو ہمارا جھنڈا ہے اس کو دنیا میں بہت اونچا اڑنا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ماضی میں جائے بغیر There is no point in crying over the spilled milk ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ اور آج یہ جو قومی یکجہتی ہے، آج یہ جو وحدت ہے، آج یہ جو محبت ہے، آج یہ جو اخوت ہے، اگر اس کو ہم اپنا سرمایۂ حیات بنا کر چل پڑیں تو یقین کریں کہ نہ صرف ماضی کے نقصانات کا ازالہ ہوگا بلکہ بہت جلد پاکستان اقوامِ عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔
اور وہ کس طرح ہوگا؟ اسی طریقے سے جس طرح دس مئی ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اب معاشی میدان میں دس مئی کو معرضِ وجود میں لانا ہے اور اس کے لیے قوم تیار ہے۔ ہمیں شبانہ روز دن رات محنت کرنی ہوگی اور خون پسینہ بہانہ ہوگا۔ یقین کریں کہ وسائل کی کوئی کمی نہیں پاکستان کے پاس۔ اللہ تعالیٰ نے بے پناہ وسائل سے پاکستان کو نوازا ہے، اتنے اتنے عظیم شاندار اذہان دیے ہیں، چاہے وہ فوجی جوان ہیں، افسر ہیں، یہ سیاست دان ہیں، یہ ہمارے جرنلسٹ ہیں، ایکسپرٹس ہیں، اور ہمارے فنکار ہیں، محنت کش ہے، انجینئرز ہیں، ڈاکٹرز ہیں، کسی چیز کی کمی نہیں اگر کمی ہے That 'will' to do اور اس کو اگر ہم اپنا زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیں تو پاکستان انشاءاللہ دنیا کی دوڑ میں بہت جلد آگے نکل جائے گا، مجھے اس میں کوئی شک نہیں۔ میں آخر میں ایک مرتبہ پھر دو تین باتیں عرض کر کے اجازت چاہوں گا ۔
I would like to thank all our diplomats sitting here and those who are not here. Who have been very supportive for Pakistan’s firm, fair and just stand, that this baseless propaganda and allegation against Pakistan by India about Pahalgam incident, sad as it was, Pakistan had nothing to do with that.
And I am extremely grateful all those friendly countries who have been very helpful in promoting peace, ceasefire in this part of the world, and promoting all arguments, valid points for deescalation. And that I would like to once again particularly thank our brotherly countries in the Gulf, like Saudi Arabia, UAE, Qatar, Kuwait, our brotherly country, neighborly country Iran, our brotherly country Turkey, our friendly country China, and other countries, please don’t mind, I would like to extend my apologies if I don’t mention like Britain and other countries.
But above all I would like to mention and thank president Trump for his very brave leadership and his vision that peace must be restored in South Asia sooner rather than later, and as a result his path-breaking and strategic leadership I think did the trick and averted a very lethal looming war in this part of the world. And if, God forbid, we had reached that flashing point in a region where 1.6 billion people live. And if God forbid, God forbid, if there had been a nuclear tussle then just imagine who would have lived to tell happened.
Ladies and gentlemen, Allah almighty has been infinitely merciful and kind, we can’t thank Him enough. We have won the war, but we want peace. We have taught our enemy a lesson, but we condemn aggression. We want, in this part of the world, to be as prosperous and progressive, as other part of the world, through hard work, untiring efforts, and living like peaceful neighbors. Whether we like it or not, we are there for ever as neighbors, it’s all up to us to be unruly neighbors or peaceful neighbors. Pakistan has always preferred and has always argued that we want peace in the region, because we have fought three wars and it solved nothing, rather brought more poverty and unemployment and other problems on both sides.
So the lesson is that we have to sit down on the table like peaceful neighbors and settle our outstanding issues including Jammu and Kashmir. We resolving these issues I don’t think we will have peace in this part of the world on long term basis. If you want permanent peace then we need permanent solutions of Jammu and Kashmir, water distribution. Then, once we resolve these issues sky is the limit. We can then talk of trade, we can talk of exchange of business communities, delegations, and of course also cooperate in the field of counter terrorism. As of now, Pakistan is the biggest victim of terrorism. We have paid valuable human life to the tune of ninety thousand Pakistanis. When was the last time any nation in the world have paid even a fraction of this sacrifice, let alone 90,000 people. We have suffered 150 billion dollars worth economic loses. Which nation has suffered this kind of economic losses?
So, I think what I’m saying is that we are not fighting this manes/minus just to restore peace in Pakistan, it is for the world at large. Imagine if our brave armed forces, our soldiers, our officers, have not engaged them, these terrorists would be roaming around in the streets of various parts of the world. So, I think the world has to acknowledge Pakistan’s sacrifices. The world has to acknowledge what suffering we have passed through.
I think, in the end I will say once again
کہ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ، سپہ سالار جنرل عاصم منیر، نیول چیف اور ایئرمارشل ظہیر بابر اور آپ کے عظیم کڑیل جوانوں ، سجیل جوانوں کا اپنی طرف سے اور پوری قوم کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور خاص طور پر آپ کا، سپہ سالار جنرل عاصم منیر، آپ کی ولولہ انگیز اور دلیرانہ قیادت کو میں اپنی طرف سے اور قومی کی طرف سے آپ کو سلام پیش کرتا ہوں۔
میں اس شعر پہ اپنی بات ختم کروں گا ، یہ شعر آج کے اس موقعے کے لیے بہت بروقت ہے
It’s a befitting I think, salute to our brave soldiers.
جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود
کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
آج اگر افکارِ تازہ نہ ہوتیں ہماری افواجِ پاکستان کے پاس، یہ الفتح میزائل نہ ہوتے، یہ ایئر چیف کی جو Indigenous دن رات کی جو محنت ہے اس کے نتیجے میں ماڈرن ٹیکنالوجیز، ماڈرن ٹیکنیکس، نیوی میں، ایئرفورس میں، بری فوج میں، انجیکٹ نہ کی ہوتیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جہانِ تازہ جو دس مئی کو نیا پیدا کیا پاکستان میں آپ نے ، یہ اس کی وجہ سے ہے۔ تو شاعر کہتا ہے کہ ’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘۔ نئی دنیا بستی ہے نئی سوچ سے، نئے وژن سے، R&D سے، ریسرچ سے، محنت سے، امانت سے، دیانت سے۔ اس کے بغیر جہانِ تازہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ اور اگر جہانِ تازہ پیدا ہوتے، بڑے بڑے سنگِ مر مر کے محلات سے، تو پھر دلی میں اور بمبے میں جو بڑ ے بڑے محلات ہیں، اور جگہوں پر بھی ، اور ہمارے ہاں بھی، تو وہ جہانِ تازہ پیدا نہیں کر سکتے۔ جہانِ تازہ پیدا ہوتا ہے ان افکار سے، اس سوچ سے، اور اسی کو لے کر ان شاء اللہ ہم چلیں گے اور پاکستان کو عظیم بنائیں گے۔ میں آخر میں آپ سب سے درخواست کروں گا کہ میرے ساتھ زور سے نعرہ لگائیں، افواجِ پاکستان— زندہ باد۔ آواز نہیں آئی۔
افواجِ پاکستان — زندہ باد
پاکستان — زندہ باد
پاکستان — زندہ باد
قائد اعظم — زندہ باد