اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۳)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(418) فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ

یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔ (ابراہیم: 27)

”ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے“۔ (سید مودودی، القول کا ترجمہ ’ایک‘ قول نہیں ہوگا، قول ثابت ترجمہ کیا جائے گا)

”اللہ تعالی ایمان والوں کو اس پکی بات (یعنی کلمہ طیبہ کی برکت) سے دنیا اور آخرت میں مضبوط رکھتا ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اللہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں سچی بات پر ثابت قدم رکھتا ہے“۔ (احمد علی)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں الْحَیَاۃ الدُّنْیَا کا ترجمہ دنیا کردیا ہے، حالاں کہ یہاں دنیا کی زندگی ترجمہ ہونا چاہیے۔ دونوں میں بہرحال فرق ہے۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے درست ہیں: 

”مضبوط کرتا ہے اللہ ایمان والوں کو مضبوط بات سے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی“۔(محمد جوناگڑھی)

(419) وَمِنْ وَرَائهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ

درج ذیل دونوں آیتوں کو دیکھیں تو دو مرتبہ من وَرَائهِ آیا ہے، پہلے مِنْ وَرَاءِہِ جَہَنَّمُ آیا ہے اور آخر میں وَمِنْ وَرَائهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ آیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ دو الگ الگ پیش آنے والی چیزیں ہیں، کہ پہلے جہنم پیش آئے گی اس کے بعد سخت عذاب پیش آئے گا، یا جہنم ہی کو بعد میں سخت عذاب کہا گیا ہے۔ اور یہ تکراروعید میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں جو بھی عذاب ہوگا وہ دراصل جہنم کا ہی عذاب ہوگا، اس کے علاوہ جہنم سے ما ورا کوئی دوسرا عذاب نہیں ہوگا۔ ذیل میں درج بعض ترجموں سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جہنم کے بعد ایک اور عذاب بھی ہوگا۔ قرآن کے بیانات سے اس مفہوم کی تائید نہیں ہوتی ہے۔

مِنْ وَرَاءِہِ جَہَنَّمُ وَیُسْقَی مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ۔ یَتَجَرَّعُہُ وَلَا یَکَادُ یُسِیغُہُ وَیَأْتِیہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَرَائهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ۔ (ابراہیم: 16، 17)

”اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں وہ پیپ کا پانی پلایا جائے گا جسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ پھر بھی اسے گلے سے اتار نہ سکے گا اور اسے ہر جگہ سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن وہ مرنے والا نہیں۔ پھر اس کے پیچھے بھی سخت عذاب ہے“۔ (محمد جوناگڑھی، ایسا نہیں ہے کہ سامنے دوزخ ہے اور پیچھے کوئی اور سخت عذاب ہے۔ دونوں کے لیے مِنْ وَرَاءِہِ آیا ہے۔ جہنم ہی کو دوبارہ عذاب غلیظ کہا گیا ہے۔)

”اور (مزید برآں) اس کے پیچھے ایک اور سخت عذاب ہوگا“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور آگے ایک اور سخت عذاب اس کے لیے موجود ہوگا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور (پھر) اس کے پیچھے (ایک اور) بڑا ہی سخت عذاب ہوگا“۔ (طاہر القادری)

درج ذیل ترجموں میں وہ غلطی نہیں ہے جو درج بالا ترجموں میں پائی جاتی ہے:

”پھر اس کے بعد آگے اس کے لیے جہنم ہے وہاں اُسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا۔ جسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا۔ موت ہر طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس کی جان کا لاگو رہے گا“۔ (سید مودودی)

”پیچھے اس کے دوزخ ہے۔۔۔اور اس کے پیچھے مار ہے گاڑھی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس کے آگے دوزخ ہے۔۔۔اور اس کو سخت عذاب کا سامنا ہوگا“۔(اشرف علی تھانوی)

(420) إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ

درج ذیل جملے کا تین طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے:

إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ۔ (ابراہیم: 22)

”میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

ان دونوں ترجموں میں کم زوری یہ ہے کہ شیطان اس بات کا منکر نہیں تھا کہ انھوں نے اسے شریک بنایا تھا۔ یہ تو ایک حقیقت تھی، اس کا انکار کرنے کی گنجائش وہاں کہاں ہوگی۔

”میں تو پہلے ہی سے اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا“۔ (ذیشان جوادی)

”تم نے جو مجھے شریک بنالیا تو میں نے اس کا پہلے سے انکار کردیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

ان دونوں ترجموں میں کم زوری یہ ہے کہ من قبل کو کفرت سے متعلق مان لیا گیا ہے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ پہلے تو اسی کے بہکاوے میں آکر انھوں نے اسے شریک بنایا، تو پہلے وہ کیسے اس عمل سے بیزار یا اس کا منکر ہوتا۔ یہ انکار اور بیزاری تو وہ قیامت کے دن کرے گا، پہلے تو وہ اس کا داعی تھا۔

”میں نہیں قبول رکھتا جو تم نے مجکو شریک ٹھیرایا تھا پہلے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”وہ جو پہلے تم نے مجھے شریک ٹھہرایا تھا میں اس سے سخت بیزار ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”میں خود تمہارے اس فعل سے بیزار ہوں کہ تم اس کے قبل (دنیا میں) مجکو (خدا کا) شریک قرار دیتے تھے“۔ (اشرف علی تھانوی)

یہ تینوں ترجمے اس پہلو سے درست معلوم ہوتے ہیں۔ ان سے تصویر یہ سامنے آتی ہے کہ دنیا میں شیطان کے اکسانے پر انھوں نے شیطان کو شریک ٹھہرایا، اور آخرت میں شیطان خود ہی ان کے اس سابقہ جرم سے خود کو الگ کرنے لگا۔

شیطان کی اسی حرکت کو درج ذیل آیت میں دکھایا گیا ہے:

کَمَثَلِ الشَّیْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنْکَ إِنِّی أَخَافُ اللَّہَ رَبَّ الْعَالَمِینَ۔ (الحشر: 16)

(421)  أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ

أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ۔ (ابراہیم: 24)

”جس کی جڑ (زمین میں) اتری ہوئی ہے اور جس کی شاخیں فضا میں (پھیلی ہوئی ہیں)“۔ (امین احسن اصلاحی)

جڑ کے زمین میں اترنے کا مطلب یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ مضبوطی سے جمی ہوئی بھی ہو۔ اس لیے قرآنی تعبیر یعنی ’ثابت‘کا حق اتری ہوئی کہنے سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا لفظی ترجمہ ہی درست مفہوم ادا کرتا ہے۔ درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:

”جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں“۔ (سید مودودی)

(422) دَائِبَیْنِ کا ترجمہ

دأب کا مطلب ہے مسلسل چلتے رہنا۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: الدَّأْب: إدامة السّیر، دَأَبَ فی السّیر دَأْباً۔ قال تعالی: وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ (ابراہیم: 33)۔ (المفردات فی غریب القرآن)

دأب کے معنی عادت و دستور کے بھی آتے ہیں لیکن جب دائب کہتے ہیں تو وہ مراد نہیں ہوتا ہے، مسلسل حرکت مراد ہوتی ہے۔

درج ذیل آیت میں دائبین کا ترجمہ ہوگا مسلسل چلنے والے:

وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ۔ (ابراہیم: 33)

”جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور تمہارے نفع کے واسطے سورج اور چاند کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا جو ہمیشہ چلنے میں ہی رہتے ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

درج بالا دونوں ترجمے درست ہیں۔

جب کہ درج ذیل تینوں ترجموں میں ایک انداز اور ایک دستور ترجمہ کیا ہے، یہ لغت کے موافق نہیں ہے:

”اور سورج اور چاند کو بھی تمہاری نفع رسانی میں لگادیا، دونوں ایک ہی انداز پر گردش میں ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور سورج اور چاند کو تمہارے لیے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں“۔(فتح محمد جالندھری)

”اور کام میں لگائے تمہارے سورج اور چاند ایک دستور پر“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمہ اس لیے درست نہیں ہے کہ دائب صرف حرکت کرنے والے کو نہیں کہتے ہیں بلکہ مسلسل حرکت کرنے والے کو کہتے ہیں، دوسرے یہ کہ مسخر کرنا انھیں مسلسل حرکت پر لگانا ہے، نہ کہ وہ حرکت کرنے والے تھے اور انھیں مسخر کیا۔

”اور تمہارے لیے حرکت کرنے والے آفتاب و ماہتاب کو بھی مسخر کردیا ہے“۔ (ذیشان جوادی)

(جاری)


قرآن / علوم القرآن

(اگست ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter