اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۹)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۸۷) ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَالاَعْنَابِ کا ترجمہ

نخیل  کا مطلب کھجور کا درخت ہوتا ہے، اور ثمرات النخیل کا مطلب کھجور ہوتا ہے، جبکہ اعناب کا اصل مطلب انگور ہوتا ہے، کبھی انگور کی بیلوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے، اس وضاحت کی روشنی میں ذیل میں مذکور آیت کے مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِیْلِ وَالأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْہُ سَکَراً وَرِزْقاً حَسَناً إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَعْقِلُون۔ (النحل: ۶۷)

’’اسی طرح کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہو، اور پاک رزق بھی‘‘ (سید مودودی، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ کھجور کے درخت اور انگور کی بیلوں سے نہ شراب بنتی ہے، اور نہ رزق حسن، اور آیت میں تو خود ثمرات کا ذکر ہے)

’’اور کھجور اور انگور کے درختوں کے پھلوں سے تم شراب بنالیتے ہو اور عمدہ روزی بھی‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ انگور کے درخت تو ہوتے نہیں ہیں، بیلیں ہوتی ہیں)

’’اور کھجور اور انگوروں کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں بناتے ہو‘‘ (اشرف علی تھانوی، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ اردو کے لحاظ سے کھجور اور انگور خود پھل ہیں، اس لئے کھجور اور انگور کے پھل کہنا غیر فصیح ہے، عربی میں نخیل کھجور کے درخت کو کہتے ہیں، اس لیے ثمرات النخیل کہنا فصیح ہے، جبکہ الاعناب کا تو مطلب ہے انگور ہے)

’’اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے کہ اس سے نبیذ بناتے ہو، اور اچھا رزق‘‘ (احمد رضا خان، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ سکر کا ترجمہ نبیذ درست نہیں ہے، کیونکہ نبیذ میں نشہ کا ہونا ضروری نہیں ہے جبکہ سکر میں اصلا نشہ کا مفہوم ہے)

اوپر کے تمام ترجموں میں تتخذون کا ترجمہ ’’بنانا‘‘ کیا گیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ تتخذون کا مطلب بنانا نہیں بلکہ حاصل کرنا ہے، مولانا آیت مذکورہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

’’اور کھجور اور انگور سے بھی تم نشہ حاصل کرلیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘

(۸۸) خَیرُ الرَّازِقِینَ کا ترجمہ

قرآن مجید میں خیر الرازقین  کئی جگہ آیا ہے، عربی زبان میں ’’خیر‘‘ کبھی تفضیل کے لیے ہوتا ہے تو کبھی مبالغہ کے لیے، اردو میں جب ہم سب سے اچھا اور سب سے بہتر کہتے ہیں تو صرف تفضیل مراد ہوتی ہے، اور جب بہترین کہتے ہیں، تو تفضیل بھی مراد ہوسکتی ہے اور مبالغہ بھی مقصود ہوسکتا ہے۔اس لحاظ سے جہاں کلام کا موقع ومحل یہ تقاضا کرے کہ تفضیل کے بجائے مبالغہ کا مفہوم لیا جائے وہاں ’’سب سے بہتر‘‘ کے بجائے ’’بہترین‘‘ کہنا مناسب ہوتا ہے، خیر الرازقین  کے ترجمہ میں اس کا لحاظ ہونا چاہئے، کیونکہ رازق تو صرف اللہ ہے، اس کے سوا کوئی رازق نہیں ہے، اس لیے خیر الرازقین کا ترجمہ بہترین رازق کرنا چاہئے نہ کہ سب سے بہتر رازق۔

مترجمین کے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ’’ بہترین ‘‘اور’’ سب سے بہتر‘‘ کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے اور ایک ہی مترجم کہیں سب سے بہتر کا ترجمہ کرتا ہے تو وہی دوسری جگہ بہترین کا ترجمہ کرتا ہے۔ 

مندرجہ ذیل آیتوں کے ترجموں کا اس پہلو سے جائزہ لیا جاسکتا ہے: 

(۱) وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْن۔ (المائدۃ: ۱۱۴)

’’اور تو ہم کو رزق عطا فرمادے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے‘‘(محمد جوناگڑھی)

’’اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے‘‘(احمد رضا خان)

’’اور عطا فرما، تو بہترین عطا فرمانے والا ہے ‘‘(امین احسن اصلاحی)

’’ہم کو رزق دے، اور تو بہترین رازق ہے‘‘ (سید مودودی)

(۲) وَإِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْن۔ (الحج: ۵۸)

’’اور بے شک اللہ تعالی روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے‘‘ (محمد جونا گڑھی)

’’اور بے شک اللہ کی روزی سب سے بہتر ہے ‘‘(احمد رضا خان)

’’اور بے شک اللہ ہی ہے جو بہترین رزق دینے والا ہے‘‘(امین احسن اصلاحی، اس میں مزید اصلاح کرکے مناسب ترجمہ یوں ہوگا:’’اور بے شک اللہ بہترین رزق دینے والا ہی ہے‘‘)

’’اور یقیناًاللہ ہی بہترین رازق ہے‘‘ (سید مودودی،البتہ ’’ہی‘‘ کو’’ بہترین رازق‘‘کے بعدآنا چاہئے)

(۳) وَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَ۔ (المؤمنون: ۷۲)

’’اور وہ سب سے بہتر روزی رساں ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا‘‘ (احمد رضا خان)

’’اور وہ بہترین روزی بخشنے والا ہے‘‘(امین احسن اصلاحی)

’’اور وہ بہترین رازق ہے‘‘(سید مودودی)

(۴) وَاللّٰہُ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَ۔ (الجمعۃ: ۱۱)

’’اور اللہ تعالی بہترین روزی رساں ہے ‘‘(محمد جوناگڑھی)

’’اور اللہ کا رزق سب سے اچھا ‘‘(احمد رضا خان)

’’اور اللہ بہترین روزی دینے والا ہے‘‘(امین احسن اصلاحی)

’’اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ‘‘(سید مودودی)

(۵) وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَیْْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہُ وَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْن۔ (سبا: ۳۹)

’’تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا، اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا، اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا‘‘(احمد رضا خان)

’’اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کروگے تو وہ اس کا بدلہ دے گااور وہ بہترین رزق دینے والا ہے‘‘(امین احسن اصلاحی)

’’اور جو خرچ کرتے ہو کچھ چیز وہ اس کا عوض دیتا ہے اور وہ بہتر ہے روزی دینے والا‘‘(شاہ عبدالقادر)

اس آیت کے ترجمے میں مترجمین سے عام طور سے ایک غلطی اور ہوئی ہے، اور وہ ہے یُخْلِفُہ کا ترجمہ، اس کا ترجمہ بہت سے مترجمین نے بدلہ دیناکیا ہے، لیکن اس کا صحیح ترجمہ بدلہ دینا نہیں بلکہ بدل دینا ہے، بدلہ دینے کے لئے جزی آتا ہے، اور بدل دینے کے لیے أخلف  آتا ہے، بعض لوگوں نے عوض دینے کا ترجمہ کیا ہے، جو قدرے مناسب ہے،یعنی اس آیت میں انفاق کا بدلہ دینے کی نہیں بلکہ انفاق سے جو مال میں کمی ہوئی ہے اس کمی کو نعم البدل کے ذریعہ پورا کردینے کی بات ہے، جس کو حدیث میں کہا گیا ہے کہ کسی بندے کے صدقہ دینے سے اس کے مال میں کمی نہیں آتی ہے، ما نقص مال عبد من صدقۃ۔ گویا جو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ اس کا بدل دنیا میں دیتا رہتا ہے، اور اس کے مال میں انفاق کی وجہ سے کمی نہیں ہونے دیتا، اور پھر آخرت میں تو انفاق کا بدلہ ملے گا جس کا وعدہ متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وعدہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی سنت جاریہ کا تذکرہ ہے اس لحاظ سے پوری آیت کا ترجمہ مستقبل کے صیغے سے کرنے کے بجائے حال کے صیغے سے کرنا چاہئے ،ذیل کے ترجمے میں یُخْلِفُہ کا ترجمہ بالکل درست کیا گیا ہے، لیکن خَیْْرُ الرَّازِقِیْن کا ترجمہ درست نہیں ہے: 

’’اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے‘‘ (سید مودودی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی مذکورہ بالا تمام امور کی رعایت کے ساتھ ترجمہ کرتے ہیں:’’اور جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہوتو وہ اس کا بدل دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے‘‘ 

(۸۹) احسن الخالقین کا ترجمہ

جس طرح خیر الرازقین کا ترجمہ بہترین رازق ہونا چاہئے، اسی طرح احسن الخالقین کا ترجمہ بہترین خالق ہونا چاہیے، نہ کہ سب سے بہتر خالق۔

(۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِیْنٍ۔ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔ (المؤمنون: ۱۲۔ ۱۴)

’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ مستقر میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو ایک جنین کی شکل دی، پھر جنین کو گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا، پھر اس کو ایک بالکل ہی مختلف مخلوق کی شکل میں مشکل کردیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا‘‘ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا ترجمہ میں کئی مقامات اصلاح طلب ہیں، علقۃ کا ترجمہ جنین نہیں بلکہ لوتھڑا ہونا چاہئے، مضغۃ کا ترجمہ گوشت کا لوتھڑا نہیں بلکہ بوٹی ہونا چاہئے،خَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً کا مطلب مضغۃ کے اندر ہڈیاں پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ مضغۃ یعنی بوٹی کو ہڈی بنادینا ہے، البتہ احسن الخالقین کا ترجمہ مناسب ہے، جبکہ مذکورہ ذیل ترجمہ میں یہ ساری کمیاں تو نہیں ہیں، البتہ احسن الخالقین کا ترجمہ مناسب نہیں ہے: 

’’اور ہم نے بنایا ہے آدمی چن لی مٹی سے، پھر رکھا اس کو بوند کرکر ایک جمے ٹھیراو میں پھر بنائی اس بوند سے پھٹکی، پھر بنائی اس پھٹکی سے بوٹی، پھر بنائی اس بوٹی سے ہڈیاں، پھر بنایا ان ہڈیوں پر گوشت، پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں سو بڑی برکت اللہ کی جو سب سے بہتر بنانے والا‘‘ (شاہ عبدالقادر) 

(۲) أَتَدْعُونَ بَعْلاً وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِیْن۔ (الصافات: ۱۲۵)

’’کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو؟ اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’کیا تم لوگ بعل کو پکارتے ہو اور بہترین خالق کو چھوڑتے ہو‘‘ (امین احسن اصلاحی، ’’چھوڑتے ہو‘‘ کے بجائے ’’چھوڑ دیتے ہو‘‘ کہنا موقع کلام کے لحاظ زیادہ فصیح ہے)۔

(۹۰) تَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ کا ترجمہ

تلَّ کے معنی زمین پر گرانے کے اور پچھاڑنے کے بھی ہوتے ہیں، اور اس کے معنی لٹانے کے بھی ہوتے ہیں، دونوں طرح کے استعمالات لغت میں ملتے ہیں، یہ بات موقع ومحل کے لحاظ سے طے ہونا چاہئے کہ کون سا معنی مقصود ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ ایک مقام پر آیا ہے، اور اس کا سیاق یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ انہوں نے خواب دیکھا ہے کہ وہ اسے ذبح کر رہے ہیں، اور بیٹے نے کہا کہ ابو جان آپ کو جو حکم ملا ہے وہ کرگزرئیے،ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، اس کے بعد ذیل کی آیت میں دونوں کی حوالگی کا ذکر کرتے ہوئے ذبح کرنے سے پہلے کا منظر بیان کیا گیا: 

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ۔ (الصافات:۱۰۳)

یہاں موقع ومحل خود بتارہا ہے کہ بیٹے کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہورہی ہے، بلکہ وہ تو حوالگی اور خود سپردگی کی بے مثال تصویر بنا ہوا ہے، اس پس منظر کی روشنی میں ایسا ترجمہ مناسب نہیں ہوگا جو اس حوالگی اور خود سپردگی کے مناسب حال نہیں ہو۔

مترجمین کے یہاں ہمیں تین مختلف طرح کے ترجمے ملتے ہیں:

’’پس جب مطیع ہوئے دونوں حکم الٰہی کے اور پچھاڑا اس کو ماتھے پر‘‘(شاہ رفیع الدین)

’’پھر جب دونوں نے حکم مانا اور پچھاڑا اس کو ماتھے کے بل‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’پس جب دونوں نے اپنے تئیں اپنے رب کے حوالے کردیا اور ابراہیم نے اس کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرادیا‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا، اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیا‘‘(سید مودودی)

’’غرض دونوں نے (خدا کے حکم کو) تسلیم کرلیا اور باپ نے بیٹے کو (ذبح کرنے کے لیے) کروٹ پر لٹایا‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا‘‘(احمد رضاخان)

ان تینوں طرح کے ترجموں میں گرانے اور پچھاڑنے کا ترجمہ مناسب نہیں ہے، لٹانے اور ڈالنے کا ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(جون ۲۰۱۶ء)

جون ۲۰۱۶ء

جلد ۲۷ ۔ شمارہ ۶

غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقتدر طبقات کی تکفیر / تہذیب جدید اور خواتین کے استحصال کے ’’متمدن‘‘ طریقے / چھوٹی عمر کے بچے اور رَسمی تعلیم کا ’’عذاب‘‘
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۹)
ڈاکٹر محی الدین غازی

فتویٰ کی حقیقت و اہمیت اور افتا کے ادارہ کی تنظیم نو
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی

مطالعہ و تحقیق کے مزاج کو فروغ دینے کی ضرورت
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

عصری لسانیاتی مباحث اور الہامی کتب کی معنویت کا مسئلہ
محمد زاہد صدیق مغل

دیوبند کا ایک علمی سفر
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

لاہور کے سیاست کدے
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ

قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کی بحث
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟
ڈاکٹر عرفان شہزاد

کیا توہین رسالت پر سزا کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ مولانا شیرانی، پروفیسر ساجد میر اور مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
مولانا غلام محمد صادق

مولانا غلام محمد صادق کے نام مکتوب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’میرا مطالعہ‘‘
ادارہ

تلاش

Flag Counter