(۲۸ مئی ۲۰۲۵ء کو الحسنات میڈیا گوجرانوالہ کے اسٹوڈیو میں گفتگو)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ الحسنات میڈیا گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ یومِ تکبیر کے اہم موقع پر مجھے اپنے سامعین اور ناظرین سے کچھ باتیں کرنے کا موقع فراہم کیا۔ الحسنات میڈیا کے ساتھ تعلق تو بہت پرانا ہے، حافظ عمر فاروق صاحب ہمارے بہت اچھے ساتھی ہیں، بہت اچھا کام کر رہے ہیں، دینی اعتبار سے، ملی اعتبار سے، اور ان ساتھیوں میں سے ہیں جن کو کام کرتے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اللہ پاک اس ادارے کو اور اس ٹیم کو برکتوں، ترقیات اور ثمرات سے نوازیں اور ملک کا، دین کا، قوم کا زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
میں ایک دو باتیں یومِ تکبیر کے حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا۔ آج ۲۸ مئی ہے، اس دن پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کر کے خود کو ایٹمی قوتوں کے ایٹمی ممالک کی صف میں شامل کیا تھا، جو قوم کے ایک بہت دیرینہ خواب کی تعبیر تھی۔
- ایٹمی قوت کا حصول ہماری قومی ضروریات میں سے بھی تھا کہ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایک ایسے اہم مقام پر ہے کہ اس کے لیے قوت ہونا ضروری ہے، اپنے تشخص کی حفاظت کے لیے بھی، اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی، اور اپنے علاقائی اسٹیٹس کی حفاظت کے لیے بھی اس کا ایٹمی قوت ہونا ضروری ہے، یہ ہماری قومی ضرورت تھی۔
- اور دینی تقاضا بھی تھا، قرآن پاک نے ہمیں قوت کے حصول کا جو حکم دیا ہے اس کا معیار یہ بتایا ہے ’’واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم‘‘ (الانفال ۶۰) اللہ پاک نے حکم دیا ہے کہ وقت کی قوت کو حاصل کرو، استطاعت کو بھی، وسائل کو بھی۔ اس معیار پر کہ تم اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو دباؤ میں رکھ سکو، رعب میں رکھ سکو۔ اس کا ترجمہ میں یہ کیا کرتا ہوں کہ اس حد تک قوت حاصل کرو کہ طاقت کا توازن تمہارے ہاتھ میں ہو اور تم سے دنیا خوف محسوس کرے کہ ان کو چھیڑا تو کام خراب ہوگا، جیسے ابھی چھیڑ کر انڈیا نے نتیجہ حاصل کر لیا ہے۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ ہم ’’یومِ تکبیر‘‘ منا رہے ہیں اور ’’بنیانٌ مرصوص‘‘ کے ماحول میں منا رہے ہیں۔ یہ دونوں باتیں ہمارے لیے اعزاز کی بات ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بنا، اس نے عالمی قوتوں کے درمیان ایک مقام حاصل کیا، اور پھر آج کے دور میں بنیانٌ مرصوص کے ذریعے ہم نے اپنی حیثیت تسلیم کروائی کہ ہم قابلِ شکست نہیں ہیں، قوت میں ہمارے پاس وہ توازن موجود ہے کہ ہم پر کوئی فیصلہ کوئی بات زبردستی مسلط نہیں کی جا سکتی۔
اس کے ساتھ ہمارے پاکستان کی ایک امتیازی حیثیت ہے، پاکستان صرف ایک ملک نہیں ہے، یہ کچھ مقاصد کے لیے قائم کیا گیا تھا، حاصل کیا گیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم، ان کے رفقاء اور ان کے ساتھ بالخصوص جو دینی قیادت تھی، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا عبد الحامد بدایونیؒ، حضرت مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، مختلف مکاتبِ فکر کے ان اکابر علماء کرام کا ایک واضح مقصد تھا کہ ایک اسلامی ریاست کے طور پر ایک ملک وجود میں آئے۔ اور میں اسے اسلام کا ایک معجزہ کہا کرتا ہوں کہ ۱۹۲۴ء میں عالمی طاقتوں نے مل کر ہماری نظریاتی ریاست خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کروایا تھا، اور ۱۹۴۷ء میں اسلام کے نام پر ایک نئی نظریاتی ریاست وجود میں آ گئی تھی اور مسلمانوں نے، امتِ مسلمہ نے اپنا تشخص تسلیم کروایا اور پاکستان وجود میں آیا۔
پاکستان کو خراب کرنے کی اور ختم کرنے کی بڑی کوششیں ہوئی لیکن پاکستان جن مقاصد کے لیے وجود میں آیا تھا کہ دنیا میں امتِ مسلمہ میں وحدت قائم ہو اور اسلامی نظریاتی ریاست بحال ہو، انشاء اللہ العزیز پاکستانی قوم پوری وحدت کے ساتھ اور یکجہتی کے ساتھ اس مقصد کی طرف پیشرفت جاری رکھے گی، اور الحمد للہ پاکستان کی یہ تاریخ ہے کہ جب بھی کوئی قومی مسئلہ پیش آیا قوم متحد رہی ہے۔
اور آج یومِ تکبیر کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے وحدت بھی قائم رکھنی ہے، قوت بھی قائم رکھنی ہے اور اپنا تہذیبی، اعتقادی، ایمانی ایجنڈا بھی قائم رکھنا ہے تاکہ باوقار طریقے سے پاکستان عالمِ اسلام کی قیادت کر سکے اور ہم اپنے قیامِ ملک کے نظریاتی، تہذیبی اور علاقائی مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔ اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں۔
میں ایک بار پھر الحسنات میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس ادارے کو زیادہ سے زیادہ ملک و قوم کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ میں وقتاً فوقتاً انشاء اللہ العزیز الحسنات میڈیا کے ذریعے اس کے ناظرین اور سامعین سے گفتگو کرتا رہوں گا، اللہ پاک توفیق سے بھی نوازیں، برکات اور ثمرات سے بھی نوازیں، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔