اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۶)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۱) یستعتبون کا ترجمہ

قرآن مجید میں لفظ یستعتبون تین مقامات پر آیا ہے، اور ایک مقام پر یستعتبوا آیا ہے۔ مختلف ترجموں کو سامنے رکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کو اس سلسلے میں کسی ایک مفہوم پر اطمینان نہیں تھا، اس لیے ایک ہی مترجم کے یہاں ایک ہی لفظ کے مختلف مقامات پر مختلف ترجمے ملتے ہیں۔

عربی لغات دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ استعتب کے لفظ میں وسعت ہے۔ اس لفظ کا مطلب فیروزآبادی یوں بیان کرتے ہیں: 

استَعتَبَہ: أعطاہ العُتبی،کأَعتَبہ، وطَلَبَ الیہ العُتبَی، ضِدٌّ. القاموس المحیط.

اس لفظ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی سے کسی کی ناراضگی دور کرنے کو کہا جائے، ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی کسی سے راضی ہوجائے، اور ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی کسی سے اس کی ناراضگی دور کرنے کا موقع مانگے۔

اس تیسرے مفہوم کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: وَلَا بَعدَ الموتِ مِن مُستَعتَبٍ؛ یعنی مرنے کے بعد ناراضگی دور کرنے کا موقع نہیں رہے گا۔ علامہ ابن منظور اس حدیث کی بہت مناسب تشریح کرتے ہیں:

أی لَیسَ بَعدَ المَوتِ مِنِ استِرضاءٍ ، لأَن الأَعمال بَطَلَت، وانقَضَت زَمانُھا، وَمَا بَعدَ الموت دارُ جزاءٍ لَا دارُ عَمَلٍ. لسان العرب۔

جہاں لفظ کے مفہوم میں وسعت ہو وہاں موقع ومحل کے لحاظ سے مناسب مفہوم کی تعیین ضروری ہوتی ہے۔

تینوں آیتوں میں ’’لا یستعتبون‘‘ کا بعض لوگ ترجمہ کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ان سے توبہ واستغفار کا اور رب کو راضی کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ مفہوم قیامت کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، کسی عمل کا مطالبہ اس سے کیا جاتا ہے جو وہ عمل کر نہیں رہا ہو، مجرموں کا حال تو یہ ہوگا کہ قیامت برپا ہوتے ہی معافی مانگنے میں لگ جائیں گے، اور چلا چلا کر توبہ واستغفار کریں گے، ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان سے توبہ واستغفار کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، مناسب حال معلوم نہیں ہوتا ہے۔

بعض لوگ ترجمہ کرتے ہیں کہ وہ منائے نہیں جائیں گے، یہ بھی مناسب حال ترجمہ نہیں ہے، کیونکہ وہاں سوال مجرموں کو منائے جانے کا ہوگا ہی نہیں، سوال تو خود مجرموں کے سامنے ہوگا کہ وہ رب کو کیسے منائیں۔

بعض لوگ ترجمہ کرتے ہیں کہ ان کی معافی یا معذرت قبول نہیں کی جائے گی، اس مفہوم میں کمزوری یہ ہے کہ استعتب، عتبی سے نکلا ہے، جس کا مطلب محض معافی اور معذرت نہیں بلکہ منانا اور راضی کرنا ہے۔ اس میں پچھلی غلطیوں کی تلافی کرنا اور خوش کرنے والے عمل کرنا شامل ہے۔

قیامت کے دن اور عذاب کی حالت کو سامنے رکھیں تو مناسب حال مفہوم یہ سامنے آتا ہے کہ مجرمین بار بار درخواست کریں گے کہ انہیں ایک بار اللہ کی ناراضگی دور کرنے کا موقعہ دیا جائے، لیکن انہیں ایسا کوئی موقعہ نہیں دیا جائے گا۔

اس وضاحت کے بعد مندرجہ ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

(۱) وَیَوْمَ نَبْعَثُ مِن کُلِّ أُمَّۃٍ شَہِیْداً ثُمَّ لاَ یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَلاَ ہُمْ یُسْتَعْتَبُون۔ (النحل: 84)

’’اور (خیال کرو اس دن کا) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے، پھر جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا نہ ان کو عذر پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے یہ فرمائش ہوگی کہ وہ خدا کو راضی کریں‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’(اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جبکہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائیگا نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا‘‘ (سید مودودی)

’’’’اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ کھڑا کریں گے پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا ‘‘(محمدجوناگڑھی)

’’اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھا کر کھڑا کریں گے پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ان سے اللہ کو راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی‘‘(محمد حسین نجفی)

’’اور جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ پھر کافروں کو نہ اجازت ہو نہ وہ منائے جائیں‘‘(احمد رضا خان)

’’اور جس دن ہم ہر اْمت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ اْن کے عذر قبول کئے جائیں گے‘‘ (فتح محمدجالندھری)

مولانا امانت اللہ اصلاحی متعلقہ حصے کا ترجمہ کرتے ہیں:’’ اور نہ انہیں ناراضگی دور کرنے کا موقعہ دیا جائے گا‘‘۔

(۲) فَیَوْمَئِذٍ لَّا یَنفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُہُمْ وَلَا ہُمْ یُسْتَعْتَبُون۔ (الروم: 57)

’’پس اس دن ان لوگوں کو ان کی معذرت کچھ نفع نہ دے گی جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہوگا اور نہ ان سے یہ چاہا جائے گا کہ وہ خدا کو راضی کریں ‘‘(امین احسن اصلاحی) 

’’پس وہ دن ہو گا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا ‘‘(سید مودودی)

’’تو اس دن ظالموں کو نفع نہ دے گی ان کی معذرت اور نہ ان سے کوئی راضی کرنا مانگے ‘‘(احمد رضا خان)

’’پس اس دن ظالموں کو ان کا عذر بہانہ کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان سے توبہ اور عمل طلب کیا جائے گا‘‘(محمدجوناگڑھی)

’’سو اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہیں دے گی اور نہ ہی ان سے (توبہ کرکے) خدا کو راضی کرنے کیلئے کہا جائے گا‘‘(محمد حسین نجفی)

’’تو اس روز ظالم لوگوں کو ان کا عذر کچھ فائدہ نہ دے گا اور نہ اْن سے توبہ قبول کی جائے گی‘‘ (فتح محمدجالندھری)

مولانا امانت اللہ اصلاحی متعلقہ حصے کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’اور نہ انہیں ناراضگی دور کرنے کا موقعہ دیا جائے گا‘‘۔

(۳) ذَلِکُم بِأَنَّکُمُ اتَّخَذْتُمْ آیَاتِ اللّٰہِ ہُزُواً وَغَرَّتْکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ لَا یُخْرَجُونَ مِنْہَا وَلَا ہُمْ یُسْتَعْتَبُونَ۔ (الجاثیۃ: 35)

’’یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو" (سید مودودی)

’’یہ اس لیے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کا ٹھٹھا (مذاق) بنایا اور دنیا کی زندگی نے تمہیں فریب دیا تو آج نہ وہ آگ سے نکالے جائیں اور نہ ان سے کوئی منانا چاہے ‘‘(احمد رضا خان)

’’یہ اس لیے ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی ہنسی اڑائی تھی اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، پس آج کے دن نہ تو یہ (دوزخ) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے عذر و معذرت قبول کیا جائے گا‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’یہ اس لئے کہ تم نے خدا کی آیتوں کو مخول بنا رکھا تھا اور دنیا کی زندگی نے تم کو دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ سو آج یہ لوگ نہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کی توبہ قبول کی جائے گی‘‘ (فتح محمدجالندھری)

’’یہ اس وجہ سے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا اور دنیا کی زندگی نے تم کو دھوکے میں ڈالے رکھا۔ پس آج نہ تو وہ اس سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کو معذرت پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے آیات الہٰی کا مذاق بنایا تھا اور تمہیں زندگانی دنیا نے دھوکے میں رکھا تھا تو آج یہ لوگ عذاب سے باہرنہیں نکالے جائیں گے اور انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں دیا جائے گا ‘‘(جوادی)

’’یہ اس لئے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کامذاق اڑایا تھا اوردنیاوی زندگی نے تمہیں دھوکہ میں مبتلا کیا۔ پس وہ آج نہ تو اس (دوزخ) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کو معذرت (خدا کو راضی) کرنے کاموقع دیا جائے گا‘‘(محمد حسین نجفی)

آخر الذکر تینوں ترجموں میں یہ مفہوم اختیار کیا گیا ہے کہ انہیں موقع نہیں جائے گا، جو درست ہے۔ البتہ معافی اور معذرت کی بجائے راضی کرنے کا مفہوم زیادہ درست ہے۔

(۴) فَإِن یَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ وَإِن یَسْتَعْتِبُوا فَمَا ہُم مِّنَ الْمُعْتَبِیْن۔ (فصلت: 24)

’’پس اگر وہ صبر کریں تو دوزخ ہی ان کا ٹھکانا ہے اور اگر وہ معافی مانگیں گے تو ان کو معافی نہیں ملے گی‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’اب اگر یہ صبر کریں گے تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور اگر توبہ کریں گے تو ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی‘‘ (جالندھری)

’’اس حالت میں وہ صبر کریں (یا نہ کریں) آگ ہی ان کا ٹھکانا ہو گی، اور اگر رجوع کا موقع چاہیں گے تو کوئی موقع انہیں نہ دیا جائے گا‘‘ (سید مودودی)

مذکورہ بالا ترجموں میں آخر الذکر ترجمہ زیادہ درست ہے۔ البتہ رجوع کے بجائے راضی کرنے کا مفہوم زیادہ مناسب ہے۔

(۱۲۲) قِطَعًا مِنَ اللَّیلِ مُظلِمًا کا ترجمہ

وَالَّذِیْنَ کَسَبُواْ السَّیِّئَاتِ جَزَاء سَیِّئَۃٍ بِمِثْلِہَا وَتَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ مَّا لَہُم مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ کَأَنَّمَا أُغْشِیَتْ وُجُوہُہُمْ قِطَعاً مِّنَ اللَّیْْلِ مُظْلِماً أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ۔ (یونس: 27)

مذکورہ بالا آیت میں قطعا من اللیل کے بعد مظلما آیا ہے، عام طور سے مظلما کو اللیل کا حال قرار دیا گیا ہے، اور اسی کے لحاظ سے ترجمہ بھی کیا گیا ہے، یعنی تاریک رات کے ٹکڑے۔ بعض لوگوں نے مظلما کو قطعا کی صفت قرار دیا ہے، اس دوسری توجیہ پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ قطعا جمع ہے، اس کی صفت کو مذکر کی بجائے مونث یعنی مظلما کی بجائے مظلمۃ ہونا چاہئے تھا، اس اشکال کا جواب بھی دیا گیا ہے جو تکلف سے بھر پور ہے۔ اس دوسری توجیہ کے مطابق جملے کا مطلب ہوتا ہے رات کے تاریک ٹکڑے۔ لغت کے عام قاعدے کے مطابق پہلی توجیہ درست ہے۔ عام طور سے مترجمین نے اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے، البتہ صاحب تفہیم نے دوسرا ترجمہ کیا ہے۔

’’اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں ان کی بْرائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ذلّت ان پر مسلّط ہو گی، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہو گا، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ (سید مودودی)

جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی کہ مظلما (تاریک) کا لفظ رات کے سلسلے میں آیا ہے نہ کہ ٹکڑوں کے سلسلے میں، اس لئے رات کے سیاہ پردے درست ترجمہ نہیں ہے سیاہ رات کے ٹکڑے درست ترجمہ ہے۔

اسی سے ملتی جلتی ایک غلطی مذکورہ ذیل ترجمے میں بھی نظر آتی ہے:

’’جیسے ڈھانک دیا ہے ان کے مونھ پر ایک اندھیرا ٹکڑا رات کا ‘‘(شاہ عبدالقادر)

یہاں ترجمہ میں ٹکڑا واحد ہے، جب کہ آیت میں قطع جمع کا صیغہ ہے، احساس ہوتا ہے کہ شاہ عبدالقادر کو قرأت کے سلسلے میں اشتباہ ہوگیا، اور انہوں نے غلطی سے دوسری قرأت کا ترجمہ یہاں کردیا۔ اس امر کی مزید تفصیل یہ ہے کہ قطع میں اگر ط پر فتحہ (زبر) ہو تو جمع کے معنی میں ہوتا ہے، اور اگر ط پر سکون (جزم) ہو تو واحد کے معنی میں ہوتا ہے، آیت کی ایک قرأت سکون کی بھی ہے، اس کے لحاظ سے مظلما اس کی صفت بھی بن سکتا ہے، اور اس قرأت کے لحاظ سے شاہ عبدالقادر کا ترجمہ درست بھی ہوجائے گا، لیکن جو قرأت ہمارے اور خود ان کے سامنے رہی ہے، اس کے لحاظ سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔

کَأَنَّمَا أُغْشِیَتْ وُجُوہُہُمْ قِطَعاً مِّنَ اللَّیْْلِ مُظْلِماً ۔

کے بعض درست ترجمے بھی ملاحظہ ہوں:

’’گویا کہ اڑھائے گئے ہیں مونھ ان کے ٹکڑے رات اندھیری کے‘‘ (شاہ رفیع الدین)

’’گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے پرت کے پرت لپیٹ دئے گئے ہیں ‘‘(اشرف علی تھانوی)

’’گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے ٹکڑے چڑھا دیے ہیں‘‘.(احمد رضا خان)

(۱۲۳) فَزَیَّلنَا بَینھُم کا ترجمہ

عربی لغات کے مطابق زیّل کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے سے الگ کرنا، اور ایک دوسرے سے جدا کرنا۔

اسی سے فعل لازم تزیّل ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہوجانا۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں،تزیّل کا مطلب سب لوگوں نے الگ ہونا کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ ترجمہ سے ظاہر ہے:

وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوہُمْ أَن تَطَؤُوہُمْ فَتُصِیْبَکُم مِّنْہُم مَّعَرَّۃٌ بِغَیْْرِ عِلْمٍ لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہِ مَن یَشَاءُ لَوْ تَزَیَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً۔ (الفتح: 25)

’’ اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے‘‘ (سید مودودی)

البتہ زیّل کے ترجمے میں صاحب تفہیم نے ایک الگ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے، مذکورہ ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ مَکَانَکُمْ أَنتُمْ وَشُرَکَآؤُکُمْ فَزَیَّلْنَا بَیْْنَہُمْ وَقَالَ شُرَکَآؤُہُم مَّا کُنتُمْ إِیَّانَا تَعْبُدُونَ۔ (یونس: 28)

’’جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں) اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھیر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیّت کا پردہ ہٹا دیں گے اور ان کے شریک کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے‘‘(سید مودودی)

صاحب تفہیم اپنے اس ترجمہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط وتعلق توڑ دیں گے تاکہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں، لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں۔ محاورہ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کردیں گے۔ یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کردیں گے، اس معنی کو ادا کرنے کے لئے ہم نے یہ طرز بیان اختیار کیا ہے کہ ’’ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹادیں گے‘‘۔ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہوگی۔ (تفہیم القرآن)

عربی محاورے کے حوالے سے یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ درست نہیں ہے، فزیلنا بینھم کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور ان کے معبود الگ الگ کردئے جائیں گے، یہ تو ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوں، لیکن اجنبیت کا پردہ ہٹادینا اس جملے کا مطلب نہیں ہے۔ یوں بھی شرک کرنے والوں کو تو پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کن چیزوں کو معبود بنا رکھا ہے، ان کے لئے ان کے معبود اجنبی تو ہوتے نہیں ہیں۔ صحیح ترجمہ وہی ہے جو عام مترجمین نے کیا ہے، اور جس پر دلیل سورہ فتح والی مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ بھی ہے۔ وہاں خود صاحب تفہیم نے الگ الگ ہوجانا ترجمہ کیا ہے۔

فزیلنا بینھم کے بعض دوسرے ترجمے یوں ہیں:

’’پس قسم قسم کردی ہم نے درمیان ان کے‘‘ (شاہ رفیع الدین)

’’پھر توڑادیں گے آپس میں ان کو‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’تو ہم انہیں مسلمانوں سے جدا کردیں گے‘‘ (احمد رضا خان، آیت میں نہ مسلمانوں کا ذکر ہے، اور نہ تفسیر میں اس کا کوئی محل بنتا ہے)

’’تو ہم ان میں تفرقہ ڈال دیں گے‘‘ (فتح محمدجالندھری)

’’پھر ہم ان (عابدین ومعبودین) کے آپس میں پھوٹ ڈالیں گے ‘‘(اشرف علی تھانوی)

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(نومبر ۲۰۱۷ء)

نومبر ۲۰۱۷ء

جلد ۲۸ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter