مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں


(یوٹیوب چینل ’’ہاؤ ڈَز اِٹ وَرک‘‘ کے میزبان شایان محمود کے ساتھ جناب حامد میر کا انٹرویو)

شایان محمود: 

Assalamu Alykum every one and welcome to another episode of How Does it Work, a podcast by Pro Pakistani. 

آج ہم کچھ نیا ٹرائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہسٹری میں کیا سچ تھا ہماری سائیڈ سے، کیا جھوٹ تھا۔ جب میں بچہ تھا تو 1965ء کی وار ہمیں بہت ڈیٹیل میں پڑھائی جاتی تھی۔ اب ایسا ہے کہ ابھی لیٹسٹ جو کتاب ہے ہم نے دیکھی ہے ، اس میں لکھا ہوا پیج 28 پہ، جو پاک اسٹڈیز کی کتاب ہے:

Another war started on September 6th, 1965 and lasted for seventeen days. 

بس، اس سے زیادہ نہیں، اس سے کم نہیں۔ اور بہت ساری Obviously as a child مجھے کنفیوژن ہوتی تھی پڑھتے ہوئے، تو میں نے کہا کہ ہم  پاکستان کے سب سے بڑے جرنلسٹ اور ہسٹورین حامد میر صاحب کو بلائیں۔    Thank you so much sir      آپ واپس آئے ہمارے پاڈ کاسٹ پہ۔  سر شروع کرتے ہیں  فرام 1965ء ، اچھا، اس پوائنٹ پہ۔      Actually      اس سے بھی پہلے شروع کرتے ہیں کہ ہسٹری کیوں چینج ہوئی؟ جو کتاب میں نے پڑھی تھی وہ اب کیوں نہیں ہے؟ اور ہم اس کو      Alter      کیوں کر رہے ہیں؟ 

حامد میر: دیکھیں، جو کتاب میں نے اسکول میں پڑھی تھی، اس میں تو مجھے یاد ہے کہ میں نے کافی کچھ پڑھا تھا 1965ء کی وار کے بارے میں۔ اور کہ جی انڈیا جو ہے اس نے 6 ستمبر کی رات کو بزدلوں کی طرح ایک حملہ کر دیا۔ تو اس کے بعد پھر ہم نے وہ  جنگ جیت لی تھی۔ تو میرا خیال ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جو اسکولوں اور کالجوں کی کتابیں ہیں اس میں کچھ تبدیلیاں لائی گئیں، اور پھر بعد میں بھی ہوتی رہی ہیں، پرویز مشرف کے دور میں بھی ہوئی ہیں کافی۔ 

لیکن اگر آپ 1965ء کی جو وار ہے اس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر وہ آپ اپنی اسکول اور کالج کی جو کتابیں ہیں وہاں سے اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ آپ کو اس کے لیے لٹریچر پڑھنا پڑے گا جو اس وار میں حصہ لینے والے پاکستانی جرنیلوں نے کتابیں لکھیں، اور اس وار میں حصہ لینے والے بھارتی جرنیلوں نے کتابیں لکھیں، اور کچھ اس کے علاوہ انڈیپنڈنٹ ریسرچرز نے کچھ کتابیں لکھیں۔ 

اور اس کو آپ      Isolation       میں نہ دیکھیں 1965ء کی جنگ کو۔ 1965ء کی جنگ دراصل      Extension      ہے جو 1948ء-1947ء کی انڈیا پاکستان وار ہے۔ عام طور پر آپ کو اسکول کالج کی کتاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ ایک   1965ء    کی اور ایک 1971ء    کی۔ لیکن آپ    1947ء    اور    1948ء    والی جنگ ہے اس کو بھول جاتے ہیں۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی فوج کا جو پہلا نشانِ حیدر ہے، کیپٹن محمد سرور شہید کو جو دیا گیا ہے، وہ ان کی    1948ء    کی جو لائن آف کنٹرول پہ شہادت ہے، وہاں پہ جو انہوں نے جنگ کی تھی، اس پہ دیا گیا ہے۔ تو وہ جنگ جو ہے، اس کو اگر آپ نہیں سمجھیں گے اور اس کے بعد کے جو    Events     ہیں ان کو آپ نہیں سمجھیں گے تو آپ کو    1965ء    کی جنگ کی بھی سمجھ نہیں آئے گی۔ 

اس جنگ کا ایک سیاسی پہلو ہے، اس کے پیچھے کچھ    Political developments    ہیں، اور پھر اس کی ایک    Strategic side    ہے اور اس کی ایک    Military side    ہے۔ اگر آپ کے پاس ٹائم ہے تو میں بتا دیتا ہوں آپ کو۔ 

شایان محمود: بالکل بالکل    Sir, lets start with     جو ہماری پہلی جنگ ہوئی    1947ء،   اس میں کیا ہوا؟    اور اس کا کیا     Political landscape     تھا اس زمانے میں، جتنا مجھے سمجھ آتا ہے     We were allies with the United States       اس ٹائم پہ    India were allies with Russia    یہ تھوڑا سا ہمیں بیک ڈراپ دیں    And then we will get into the specifics of each

حامد میر: اچھا، میں فارن پالیسی ایشوز پہ زیادہ بات نہیں کروں گا،   میں آپ کو صرف یہ سمجھاؤں گا کہ 1947ء    اور    1948ء    کے جو ایونٹس ہیں، اس کے بعد کے جو سال ہیں، ان میں جو جو کچھ ہوتا رہا، اس کا    1965ء    کی وار کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ جنگ کیوں ہوئی، یہ آپ نے سمجھنا ہے۔ 

تو جنگ کیوں ہوئی؟ اس لیے جنگ ہوئی کہ ایک تو    1947ء    میں جو ایک بہت ہی    Controversial     قسم کا الحاق کیا مہاراجہ ہری سنگھ نے ، جو ریاست جموں و کشمیر کا حکمران تھا، اس نے ایک بہت ہی    Controversial    قسم کا الحاق کیا انڈیا کے ساتھ    With the collaboration of the British government     لارڈ ماؤنٹ بیٹن تھا جو، وائسرائے تھا انڈیا کا، وہ اس میں    Collaborator    تھا۔    He was supporting India   اور اس نے پاکستان کو    Betray    کیا، اس نے دھوکہ دیا پاکستان کو، اس نے قائد اعظم محمد علی جناح کو دھوکہ دیا۔  اور وہ جو    Document of Accession    ہے، وہ ایک فراڈ ہے۔ اور یہ میں نہیں کہہ رہا، یہ بہت سے جو انڈین ریسرچرز ہیں اور ہسٹورین ہیں، انہوں نے بھی کہا ہے۔ 

شایان محمود: فراڈ کس (سینس میں)؟

حامدمیر: فراڈ اس طرح ہے کہ وہ جو مہاراجہ ہری سنگھ تھا اس نے پہلے ایک خط لکھا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو، اور پھر اس نے اس کو خط کے ساتھ ایک ڈاکومنٹ بھیج دی کہ جناب یہ ہے الحاق کی دستاویز اور میں سائن کر رہا ہوں کیونکہ پاکستان سے جو قبائلی آئے ہیں انہوں نے حملہ کر دیا ہے، اور میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، تو آپ میری مدد کریں، آپ میری مدد اس صورت میں کریں گے کہ اگر میں انڈیا کے ساتھ الحاق کرتا ہوں۔ 

اور وہ جو ڈیٹ ہے  اس پہ جو اس نے    26    اکتوبر    1947ء    کی ڈالی ہوئی ہے، وہ    Disputed date    ہے۔ انڈیا کی فوج پہلے آ گئی تھی، اور وہ خط اور سائن بعد میں ہوئے۔ اچھا یہ ایک لمبی بحث ہے، اس پر میں آپ کو پورے ایک گھنٹے کی بہت سی ڈیٹیل بتا سکتا ہوں۔ 

تو جب قبضہ کر لیا انڈیا نے جموں و کشمیر پہ اور ظلم و ستم شروع ہو گیا تو پھر جو ٹرائبل ایک لشکر تھا آفریدیوں کا، محسودوں کا، اور بہت سے اس میں پختون قبائل تھے، وہ آ گئے۔ عام طور پر تاثر یہ دیا جاتا ہے انڈیا میں اور بہت سے لوگ پاکستان میں بھی یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ جو قبائلی لشکر آیا تھا، پاکستانی فوج اس کو لے کر آئی تھی۔ پاکستانی فوج نے بھی یقیناً‌ اس جنگ میں حصہ لیا لیکن وہ جو قبائلی لشکر آیا تھا اس کے بارے میں جو میں نے    Information gather    کی ، جو لندن میں برٹش لائبریری میں ایک سیکشن ہے انڈیا کے بارے میں،   وہاں پر کچھ ڈاکومنٹس ہیں، وہ ڈاکومنٹس بتاتی ہیں کہ کابل میں جو برٹش ایمبیسی تھی وہ لندن کو بار بار خبردار کر رہی تھی کہ یہاں کابل میں کچھ    Religious scholars    ہیں جس میں ملا شور بازار کا بھی نام تھا، اور یہ کابل میں بیٹھ کر فتوے دے رہے ہیں کہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تو ان کی مدد کرو، اور یہ افغانستان سے لشکر تیار ہو کر جا رہے ہیں۔ 

اچھا وہ جو لشکر آتے تھے وہ خیبر کے راستے سے آتے تھے۔ وہ جو لشکر آیا تو آفریدی قبائل ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو گئے، وزیرستان سے محسود اور وزیر قبائل بھی اس میں شامل ہو گئے، اور مہمند قبائل بھی اس میں شامل ہو گئے، اور وہ ایک بڑا لشکر بن گیا۔ اور آپ کو یہ جان کر بڑی حیرانی ہو گی کہ صرف مظفر آباد انہوں نے فتح    نہیں کیا بلکہ میرپور بھی انہوں نے فتح کیا۔ اور افغانستان کے ایک پریزیڈنٹ تھے نور محمد ترکئی صاحب، وہ سولہ سترہ سال کے تھے اور میرپور فتح    کرنے والا جو لشکر تھا اس میں وہ شامل تھے، بعد میں وہ افغانستان کے پریزیڈنٹ بن گئے تھے۔ 

تو انڈیا جو ہے وہ اس پہلو پہ نہیں آتا کہ یہ پاکستانی قبائل نہیں تھے صرف، وہ افغانستان سے آئے تھے۔ اور ملا شوربازار جو کابل میں رہتے تھے، انہوں نے اس پہ فتویٰ دیا تھا۔ ایک تو اس کا یہ پہلو ہے۔ 

دوسرا یہ ہے کہ ایک بغاوت ہوئی تھی گلگت میں۔ گلگت اسکاؤٹس نے بغاوت کر دی تھی۔ اور ایک بغاوت ہوئی تھی پونچھ میں۔ پونچھ میں برٹش آرمی کے جو کشمیری سولجرز تھے، بہت بڑی تعداد تھی ان کی، ایک بغاوت انہوں نے کر دی۔ تو یہ سارا پاکستان آرمی نے نہیں کیا۔ اس میں    Indigenous    قسم کی    Uprising     ہوئی۔ صرف پونچھ میں نہیں ہوئی بلکہ گلگت میں بھی ہو گئی اور وہاں سے بھی انہوں نے انڈین آرمی کو بھگا دیا۔ اور اس میں برٹش آرمی کا ایک افسر تھا اس نے جو لوکل لوگ تھے ان کا ساتھ دیا۔ 

تو اس طریقے سے وہ    Uprising    ہوئی اور اس میں انڈیا کو بھی کافی نقصان ہوا اور پاکستان کو بھی نقصان ہوا۔ لیکن    Ultimately  ، آپ چیک کر والیں یونائیٹڈ نیشنز کے ریکارڈ سے کہ یو این سکیورٹی کونسل میں کون گیا تھا سیز فائر کے لیے؟  نہرو صاحب گئے تھے، انڈیا گیا تھا، انڈیا نے کہا تھا کہ جی سیزفائر کروائیں۔ اور سیزفائر جب ہو گیا تو سیزفائر کے بعد جو    UN Resolution    ایک آئی، دوسری آئی، تیسری آئی، پندرہ سولہ ریزولوشنز آئیں۔ 

شایان محمود: یہ آپ بات کر رہے ہیں جو    1940s    کی جنگ ہے ، اس کی؟

حامد میر: ہاں، 1947ء کی جو جنگ تھی، انڈیا گیا سیزفائر کے لیے یو این میں، اور پھر یو این سکیورٹی کونسل نے کہا کہ    Plebiscite    ہو گا، رائے شماری ہو گی۔ اور پھر وہ ریزولوشنز    Repeat    ہوتی رہیں    1957ء    تک۔ 1957ء تک یو این سکیورٹی کونسل ریزولوشن پاس کرتی رہی۔ 

جب حسین شہید سہروردی صاحب پرائم منسٹر تھے تو اس زمانے میں آپ امریکہ کے ایک اتحادی تھے، تو انہوں نے امریکن گورنمنٹ کے ساتھ ایک    Lobbying     کی اور مل کر انہوں نے کوشش کی کہ یہ مسئلہ جو ہے، امریکہ اس کے حل میں بھی کوئی رول پلے کرے۔ انہوں نے ایک دورہ بھی کیا امریکہ کا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔ 

اس کے بعد جنرل ایوب خان نے    Coup     کر دیا، پھر وہ پاکستان کے پریزیڈنٹ بن گئے۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان بہت زیادہ قریب چلا گیا امریکہ کے۔ اب یہاں سے وہ کہانی شروع ہوتی ہے جس کا براہ راست تعلق ہے    1965ء    کی وار کے ساتھ۔ یہ جو انڈیا ہے، اس نے پہلے تو یہ ایک پوزیشن لی کہ جی ہم یو این ریزولوشنز کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں۔ 

اس کے بعد    1962ء    میں چائنہ اور انڈیا کی لڑائی ہو گئی۔ یہ ایک بڑا اہم واقعہ ہے۔ 

شایان محمود: چائنہ اور انڈیا کی کیوں لڑائی ہوئی؟ 

حامد میر:    Border dispute    تھا، یہ جو    Aksai Chin    کا علاقہ ہے اور ابھی بھی وہاں پہ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں چائنہ اور انڈیا کی۔ تو اس لڑائی میں انڈیا کو بڑی مار پڑی۔ اس وقت چائنہ نے پاکستان کو یہ مشورہ دیا کہ    Quietly    کہ پوری کی پوری جو انڈین آرمی ہے وہ ہمارے ساتھ لڑائی میں مصروف ہو گئی ہے اور انہوں نے اپنے ٹروپس جو ہیں    Withdraw    کر لیے ہیں پاکستانی کشمیر سے، جو پاکستان کے کنٹرول میں کشمیر ہے وہاں سے، تو آپ کے پاس سنہری موقع ہے، آپ نے صرف گاڑیوں میں بیٹھ کر سری نگر پہنچنا ہے، کوئی روکنے والا ہی نہیں آپ کو۔ 

اور اس وقت جو آپ کے ایک منسٹر تھے ذوالفقار علی بھٹو، انہوں بعد میں اس کو خود کنفرم بھی کیا اور وہ کہتے ہیں کہ میں خود گیا جنرل ایوب خان کے پاس، میں نے کہا جی سنہری موقع ہے، بس کشمیر کو ہم آزاد کروا دیتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب صاحب جو ایوب خان کے زمانے بڑے اہم بیوروکریٹ تھے اور پریزیڈنٹ کے بڑے قریب تھے، انہوں نے بھی اپنی یادداشتوں میں یہ بات لکھی ہےکہ چائنیز نے کہا کہ۔

شایان محمود: اٹیک کرو۔

حامد میر: اٹیک نہیں کرو، اٹیک تو ہوتا ہے نا لڑائی کے لیے۔ وہاں پر تو آپ کے آگے انڈین فوج تھی ہی نہیں کوئی بھی۔ 

اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انڈین فوج کیوں غائب ہو گئی؟ انڈین فوج اس لیے غائب ہو گئی کہ کیونکہ  چائنہ اور انڈیا کی لڑائی تھی تو انڈیا نے امریکہ سے رابطہ کیا اور    Mind it    کہ اس وقت امریکہ پاکستان کا اتحادی تھا، انڈیا کا نہیں تھا۔ لیکن کیونکہ انڈیا کی لڑائی چائنہ سے ہو گئی، تو جو امریکن گورنمنٹ ہے اس نے انڈیا سے کہا کہ    You don’t worry about Pakistan, we will handle them     اور امریکن جو ہیں انہوں نے جنرل ایوب خان کو پریشرائز کیا کہ جناب آپ انڈیا پہ اٹیک نہیں کریں گے۔  تو اس پہ ظاہری بات ہے ایوب خان صاحب جو ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سنہری موقع ہے۔ انہوں نے کہا، آپ بے فکر ہو جائیں، ہم آپ کا مسئلہ یہ حل کر دیں گے کشمیر کا۔ 

تو اس وقت    …    Backdoor channel    پہ  جو امریکہ کے ساتھ    Engagement   تھی  ۔ ہم نے کہا بھئی  ہم نے آپ کو پشاور کے قریب بڈھ بیر  میں ایک آپ کو فوجی اڈہ دیا ہوا ہے۔ آپ رشیا  کی    Spying   کرتے ہیں وہاں سے۔ ہم نے آپ کو اتنا    Facilitate    کیا ہے ، ہم آپ کے اتحادی ہیں، تو آپ انڈیا کو سپورٹ کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا ہم انڈیا کو سپورٹ نہیں کر رہے، آپ اس طرح کریں کہ آپ اس وقت کچھ نہ کہیں انڈیا کو، اور ہم جناب مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔ 

تو پاکستان کے پاس ایک طرح کا    Walkover    تھا    1962ء    میں ،پاکستان امریکہ کی باتوں میں آگیا اور پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ 

شایان محمود: اگر ہم اس وقت اٹیک کرتے تو وہاں پہ آرمی تھی ہی نہیں۔

حامد میر: بالکل تھی ہی نہیں انڈین آرمی، اور کشمیر آزاد ہو جاتا۔ اب اس کے بعد یہ ہوا کہ جو مقبوضہ جموں و کشمیر ہے، وہاں پر بڑی امیدیں تھیں کہ جی 1962ء    کے بعد ان کا خیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ نے وعدہ کیا تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔ تو وہاں پہ حضرت بَل ایک جگہ  ہے، وہاں سے ایک موئے مبارک چوری ہو گیا۔ اور اس پر وہاں ایک    Agitation   شروع ہو گیا 1964ء میں۔ جب وہ ایجی ٹیشن شروع ہو گیا اور    Uprising    شروع ہو گئی تو جو پاکستان کی گورنمنٹ تھی، اس کا یہ خیال تھا کہ اب موقع آ گیا ہے۔ 

ایک اور اس کا پولیٹیکل پہلو یہ ہے کہ جنوری 1965ء میں جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایک صدارتی الیکشن لڑا تھا۔ اور اس میں بھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب جو تھے وہ ایوب خان کے ساتھ تھے۔ اس صدارتی الیکشن میں بڑی دھاندلی ہوئی تھی ۔ایسٹ پاکستان میں بھی اور ویسٹ پاکستان میں بھی۔ تو ایوب خان صاحب دھاندلی سے الیکشن تو جیت گئے لیکن ان کی    Credibility    بڑی خراب ہو گئی تھی، ان کی ساکھ بڑی مجروح ہوئی تھی، انہوں نے اپنی ساکھ بھی بحال کرنی تھی۔ تو انہوں نے اسی زمانے میں 1965ء میں صدارتی الیکشن جیتنے کے فوراً‌ بعد، ایک علاقہ ہے پاکستان اور انڈیا کے بارڈر پہ، جو رَن آف کَچھ کے نام سے مشہور ہے، تو وہاں پر پاکستان آرمی نے ایک آپریشن کیا تھا جس کا نام ہے    Operation Desert Hawk    اور انڈیا کے علاقے میں گھس کر آپ نے بہت سا علاقہ جو ہے اس پر قبضہ کر لیا۔ یہ راجھستان کا بھی علاقہ تھا اور رَن آف کَچھ کا بھی علاقہ تھا۔ 

اور آپ کا یہ خیال تھا کہ اب آپ نے انڈیا کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے تو وہ جو ہمارے ساتھ 1962ء میں وعدہ کیا تھا امریکہ نے، اب امریکہ آئے گا اور مسئلہ کشمیر کو حل کرائے گا۔ اور ہونا کیا تھا کہ صرف    UN Resolution    کی روشنی میں آپ نے ایک رائے شماری کرانی ہے      Plebiscite     کروانا ہے۔ تو یہ ہوا کہ امریکہ تو نہیں آیا، امریکہ نے برٹش گورنمنٹ کو آگے لگایا۔ تو برٹش گورنمنٹ نے انڈیا اور پاکستان کے مذاکرات کرائے، برٹش گورنمنٹ نے وہاں پر سیزفائر کروایا، اور پھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ ایک    Ceasefire agreement     جو آپ کی فارن آفس کی ڈاکومنٹس میں موجود ہے۔ 

اور دوبارہ پاکستان ٹریپ ہو گیا، اس مرتبہ  برطانیہ نے پاکستان کو ٹریپ کیا اور آپ نے سیزفائر کر دیا۔ تو اب پھر دوبارہ کافی دن گزر گئے تو یو این ریزولوشن پہ کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ اور ادھر مقبوضہ کشمیر میں کافی گڑبڑ تھی۔ تو پھر آپ نے جولائی، اگست 1965ء میں    Operation Gibraltar    کیا، اور آپریشن جبرالٹر کے بعد پھر ستمبر 1965ء میں آپ کی جنگ شروع ہوئی۔ 

تو یہ ایک پورا    Background   ہے، یہ بیک گراؤنڈ آپ سمجھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ 1948ء-1947ء میں انٹرنیشنل کمیونٹی نے، یونائیٹڈ نیشنز نے، امریکہ نے، باقی جتنی بھی انٹرنیشنل فورسز تھیں، انہوں نے پاکستان کے ساتھ وعدے وعید کیے، لیکن وہ وعدے پورے نہیں ہوئے، اور اس میں پاکستان کے پاس ایک گولڈن چانس آیا 1962ء میں، چائنہ جو ہے وہ پاکستان کو کہہ رہا تھا کہ کشمیر پر قبضہ کر لو، پاکستان نے نہیں کیا۔ تو یہ اس کا    Ultimate result    جو ہے وہ 1965ء کی وار تھی۔ 

شایان محمود:    Basically    جو دو تین چیزیں اس سے پہلے ہوئی تھیں اس کی وجہ سے ایک    Sort of heightened environment    میں ہم آ گئے تھے۔ اب چلتے ہیں وار کے اندر۔ اسٹیٹ ہماری تو نہیں مانتی آپریشن  جبرالٹر کو، لیکن ہسٹری بکس تو کہتی ہیں کہ ہوا تھا۔ پھر اس میں ایک ڈسپیوٹ یہ بھی ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ، ہماری جو ملٹری ہے یا دوسرے لوگ ہیں، کہ  پراجیکٹ جبرالٹر ایک    Success    تھا۔ انڈین میڈیا  اس کو ڈسپیوٹ کرتی ہے، آپ کے خیال میں  

Was Operation Gibraltar a success, and also why did it need to happen?

یہ ہوا کیوں تھا؟

حامد میر: دیکھیں، آپریشن جبرالٹر جو ہے نا، اس کو میں بہت ہی سادہ الفاظ میں آپ کو ایسے سمجھا سکتا ہوں کہ جس طرح 1999ء میں ایک    Kargil Operation    ہوا تھا، پاکستانیوں نے کیا تھا نا، اور    Objective    جو ہے وہ    Achieve   نہیں کر سکے ہم۔ آبجیکٹیو کیا تھا کارگل آپریشن کا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا جو کچھ علاقہ ہے، اس کی سڑکیں بند کر کے اور انڈین آرمی کو    Isolate    کر کے اوپر سیاچن میں، لداخ میں، انڈیا کو پریشرائز کیا جائے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرے۔ لیکن کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ایگزیکٹلی یہی آپریشن جبرالٹر کا بھی مقصد تھا۔ لیکن جو غلطی آپ نے آپریشن جبرالٹر میں کی، وہی غلطی آپ نے کارگل میں ریپیٹ کی۔ اور    Ultimate objective   تھا کشمیر کی آزادی، وہ نہ آپریشن جبرالٹر کرا سکا، نہ آپریشن کارگل کرا سکا۔ 

لیکن جو آپریشن جبرالٹر ہے، اس کے بارے میں آپ کو یہ جاننا بڑا ضروری ہے کہ وہ    GHQ    کا آپریشن نہیں تھا۔ 

شایان محمود: کس کا تھا؟

حامد میر: وہ پاکستان کے فارن آفس کا آپریشن تھا۔ 

شایان محمود: پاکستان کا فارن آفس اس طرح کا آپریشن کر سکتی ہے؟ 

حامد میر: نہیں، اب آپ یہ دیکھیں نا کہ یہ ایک بڑا انٹرسٹنگ سوال کیا ہے آپ نے۔ 1965ء میں آپ کے جو فارن منسٹر تھے ذوالفقار علی بھٹو صاحب، وہ جنرل ایوب خان کے بہت قریب تھے۔ اور فارن آفس میں ایک سیل بنا ہوا تھا، اس کا نام تھا کشمیر سیل، جو کہ فارن سیکرٹری تھے عزیز احمد صاحب، ان کے انڈر کام کرتا تھا۔ اور    Sometimes    جو فارن آفس کے لوگ ہیں، وہ کشمیر سیل میں جب کوئی میٹنگ کرتے تھے، تو اس میں جو لائن آف کنٹرول کے علاقے کو دیکھتے تھے، میجر جنرل اختر ملک، ان کو بھی بلا لیتے تھے۔  کبھی کبھی، پاکستان کے آرمی چیف تھے جنرل موسیٰ، ان کو بھی بلا لیتے تھے۔  اور اس طرح وہ میٹنگز ویٹنگز ہوتی تھیں۔ 

تو جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بتایا کہ 1964ء میں ایک    Uprising    شروع ہوئی تھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں۔ اور بہت بڑا    Agitation    تھا اور اس زمانے میں جو شیخ عبد اللہ تھے جو پہلے پرو اِنڈیا تھے، وہ بھی کافی    Controversial    ہو چکے تھے، دِلی کے ساتھ ان کے بھی تعلقات بڑے خراب تھے۔ اور پھر ایک اور پرابلم یہ تھا    Domestic front   پہ کہ ایوب خان بھی بڑے متنازعہ ہو چکے تھے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن لڑ کر۔ تو فارن آفس نے دیکھا کہ لوکل لیول پہ ہماری حکومت کو ایک    Goodwill    کی ضرورت ہے، اور ہمارے پاس ایک موقع بھی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو انڈین گورنمنٹ ہے اس کے خلاف ایک بغاوت ہو گئی ہے، تو انہوں نے ایک منصوبہ بنایا ۔

منصوبہ یہ تھا کہ آزاد کشمیر سے جو    Trained    رضاکار ہیں   Volunteers    ان کو آپ مقبوضہ جموں کشمیر میں بھیجیں، چار پانچ ان کے لشکر بنائیں، اور پھر آپ وہاں پر جو     Already a political uprising     ہے، اس پولیٹیکل اَپرائزنگ کو    Militant support      دیں، اور پھر پاکستان ریڈیو کے ذریعے ایک پراپیگنڈا کرے گا، اس طرح کشمیر جو ہے، یا تو وہ آزاد ہو جائے گا، یا انڈیا اپنے    Troops withdraw    کر لے گا، یا انڈیا وہاں پہ رائے شماری    Plebiscite    پہ راضی ہو جائے گا۔ یہ پلان تھا۔  

شایان محمود:    اور    Operation Grand Slam    جسے ہم کہتے ہیں؟

حامد میر: وہ اس کا سیکنڈ پارٹ ہے۔ یہ جو آپریشن جبرالٹر تھا، جبرالٹر آپ کو پتہ ہے نا کہ یہ کہاں پہ ہے۔ طارق بن زیاد نے جو جبرالٹر فتح کیا تھا تو اس کی وجہ سے اس کو آپریشن جبرالٹر کا نام دیا۔ اب اس آپریشن کو سمجھنے کے لیے اور اسٹیٹ آف پاکستان تو اس کو مانتی نہیں ہے، تو 1965ء میں جو پاکستان کے آرمی چیف تھے، وہ تھے جنرل موسیٰ خان۔ جنرل موسیٰ خان کی ایک کتاب ہے    My Version   ،    مائی ورژن میں انہوں نے ایک پورا چیپٹر لکھا ہے آپریشن جبرالٹر پہ، اور اس کو تسلیم کیا ہے، اور یہ بھی مانا ہے کہ یہ آپریشن جو ہے یہ فارن آفس نے ایک پلان بنا کر ہمیں دیا تھا۔ اور پھر ہم نے اسے کور کمانڈرز کی میٹنگ میں ڈسکس کیا    And then we implemented 

یہاں سے اس کہانی کا ایک دوسرا رخ شروع ہوتا ہے، اور وہ ہے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا ورژن۔ انہوں نے آفیشلی تو کہیں پہ نہیں مانا، لیکن کچھ جو    Historians    ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ ملاقات کی۔  ایک Massachusetts  University     جو ہے امریکہ کی، اس کے ایک پروفیسر ہیں انوار ایچ سید صاحب، انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے بھٹو صاحب پہ، اور ان کی میٹنگ بھی ہوئی تھی بھٹو صاحب کے ساتھ جب وہ پرائم منسٹر تھے۔ انہوں نے کہا ہے بھٹو صاحب نے بالکل  تسلیم کیا کہ ہاں ہم نے یہ آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ہم نے منصوبہ بنایا تھا، ہم نے کہا تھا کہ آپ آزاد کشمیر سے رضاکار بھرتی کر کے بھیجیں، لیکن جنرل موسیٰ نے غلطی یہ کی کہ انہوں نے ریگولر آرمی کو اندر بھیج دیا۔ 

اچھا، اس میں پھر جو ایئرمارشل اصغر خان تھے، وہ 1965ء میں آپ کے ایئرچیف تھے۔ تو انہوں نے اعتراض کیا جی کہ مجھے اعتماد میں نہیں لیا، اور پھر انہوں نے ریزائن کر دیا، اور پھر ان کی جگہ نور خان آ گئے۔ تو اسی طرح کے واقعات آپ نے دیکھا کہ کارگل کی جنگ میں بھی ہوئے تھے۔ 

تو جب آپریشن جبرالٹر پہ آپ کامیاب طریقے سے عملدرآمد نہیں کر سکے تو پھر وہ    Grand Slam    شروع ہوا۔ اور گرینڈ سلام کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے اَکھنور ایک جگہ تھی، اکھنور پہ قبضہ کرنا تھا آپ نے۔ اس میں غلطی یہ کی گئی کہ    لاسٹ منٹ پہ کمانڈر کو چینج کیا گیا۔ جو اختر ملک صاحب ہیں ان کو ہٹا کر جنرل یحییٰ خان کو وہاں بھیج دیا گیا۔ تو جنرل یحییٰ خان اس پہ عملدرآمد نہیں کروا سکے صحیح طریقے سے۔ 

اور    In the meanwhile    آپ کی وہ لڑائی شروع ہو گئی۔  یہ لڑائی جو ہے نا، یہ 6 ستمبر 1965ء کو شروع نہیں ہوئی،   لڑائی تو جو ہے وہ جنوری فروری 1965ء میں شروع ہو گئی جب آپ نے رَن آف کچھ میں اور راجھستان کے علاقے میں دشمن کے بہت سے علاقوں پہ قبضہ کر لیا۔ تو یہ بات غلط ہے کہ جی ہمیں پتہ نہیں تھا اور دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا۔

شایان محمود: بالکل، میرا  اس میں سوال یہ ہے کہ جو ہم ڈیفنس ڈے مانتےہیں، مطلب مجھے سمجھ نہیں آتی یہ کہ ہم نے اگر اٹیک کیا ہے تو ڈیفنس تو نہیں ہوئی نا، ڈیفنس تو ہوتی اگر رات کو جس طرح آپ کہہ رہے ہیں کسی نے حملہ کیا، ہم نے پھر وہاں سے You know, defensive 

حامد میر:  نہیں، دیکھیں ہم نے حملہ نہیں کیا     We are not the aggressor     اور 6 ستمبر کو آپ اگر ڈیفنس ڈے مناتے ہیں تو بالکل صحیح مناتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ میں نے آپ کو بتا دیا کہ 1962ء میں پاکستان کے پاس ایک    Golden opportunity    تھی، پاکستان کشمیر کو آزاد کروا سکتا تھا، پاکستان امریکہ کے دھوکے میں آ گیا ، امریکہ نے انڈیا کی مدد کی، آپ نے کشمیر کو آزاد نہیں کروایا، ٹھیک ہے نا،  تو ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا۔ امریکہ نے اور انڈیا نے مل کے آپ کے ساتھ دھوکہ کیا۔ اب اس کے بعد کے میں نے آپ کو حالات و واقعات  بتا دیے ہیں۔ 

اب دیکھیں کہ آپ کا آپریشن جبرالٹر، آپریشن گرینڈ سلام، ناکام ہو گیا، ٹھیک ہے، اس میں آپ سے کچھ    Miscalculation     ہوئی۔

شایان محمود: ہمارے کوئی ٹینکس کتنے، 90 ٹینکس گئے تھے امرتسر کے اندر، یا کچھ اس طرح؟

حامد میر: آپ کے ٹینک بھی کم تھے،  آپ کے جہاز بھی کم تھے، لیکن 1965ء کی وار میں آپ نے انڈیا کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ دیکھیں، انڈیا کا یہ خیال تھا کہ، جو اُن کے جرنیلوں نے باقاعدہ اعلان کیا بی بی سی پہ کہ جب 6 ستمبر 1965ء کو انہوں نے حملہ کیا تو انہوں نے پتہ کیا کہا تھا؟ ہم لاہور جم خانہ میں جا کر کل شام کی چائے پئیں گے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا، انڈیا کا، کہ آپ لاہور پہ قبضہ کریں گے اور سیالکوٹ پہ قبضہ کریں گے۔ 

شایان محمود: کیا ہم ریڈی تھے اس اٹیک کے لیے؟ 

حامد میر: بالکل آپ ریڈی تھے، اس لیے آپ ریڈی تھے، جنرل موسیٰ کی کتاب کا میں بار بار حوالہ دے رہا ہوں، جنرل موسیٰ لکھتے ہیں کہ 4 ستمبر کو آل انڈیا ریڈیو کی نشریات سے ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ انڈیا جنگ کی تیاری کر رہا ہے اور ہمارے پاس انٹیلی جنس کی انفرمیشن بھی تھی، تو ہم بالکل تیار تھے۔ 

شایان محمود:    Is that why    ہماری ڈیفنس بہت اچھی تھی اس دن؟ آرمی نے کیسے پرفارم کیا تھا    Particularly    جس چیز کو ہم ڈیفنس ڈے پہ مانتے ہیں ، جب لاہور پہ اٹیک ہوا تھا     Southern Punjab    پہ جب اٹیک ہوا تھا تو پاکستان آرمی کی پرفارمنس کیسی تھی؟ 

حامد میر: پاکستان آرمی کی پرفارمنس جو ہے، دیکھیں، یہاں پہ اب    As a journalist    جو ہے نا ایک ریڈ لائن شروع ہو جاتی ہے کہ ہم، آرمی کے جو جرنیل ہیں، ان کی سیاست میں مداخلت پہ بہت تنقید کرتے ہیں۔لیکن فوج کا جو عام ایک جوان ہے، اور کپتان ہے، میجر ہے، کرنل ہے، بریگیڈیئر ہے، وہ جس طریقے سے بارڈر پر لڑتا ہے، تو آپ جب اس کی پرفارمنس کا    Analysis    کرتے ہیں تو پھر آپ کو اس کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔ 

میں نے 1965ء کی وار پہ جتنا بھی لٹریچر پڑھا ہے، تو اس کی روشنی میں، میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ 1965ء کی وار میں جو انڈیا کا آبجیکٹیو تھا، وہ تھا لاہور پہ اور سیالکوٹ پہ قبضہ کرنا ہے، جی ٹی روڈ کو کاٹنا ہے، اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ    Bargain    کرنی ہےکہ ہاں! لاہور واپس چاہیے؟ سیالکوٹ واپس چاہیے؟    آزاد کشمیر سے اپنی فوج واپس کرو، آزاد کشمیر کو بھول جاؤ، اور یہ اب بھارت کا حصہ ہے۔  تو یہ بارگین کرنی تھی، یہ تھا انڈیا کا منصوبہ 6 ستمبر 1965ء کو۔ تو اگر آپ سوچیں فرض کریں خدانخواستہ وہ پہنچ جاتے مال روڈ لاہور پہ، لاہور جم خانہ، تو کیا ہوتا؟ ٹھیک ہے نا۔ آپ کہتے ہیں پاکستان کا دل لاہور ہے۔ تو لاہور کا دل اگر انڈیا کے قبضے میں چلا جاتا تو آپ تو بڑے پھنس جاتے۔ 

تو میجر راجہ عزیز بھٹی صاحب جو ہیں انہوں نے بی آر بی نہر پہ ہی انڈین آرمی کو روک لیا۔ اور دو تین دن تک بغیر سوئے انہوں نے مقابلہ کیا اور فرنٹ سے لیڈ کیا اپنے ٹروپس کو، او رانہوں نے انڈین آرمی کو    Defeat    کیا وہاں پہ۔ ٹھیک ہے؟ اسی لیے ان کو نشانِ حیدر دیا گیا۔ 

اسی طرح سیالکوٹ میں جو انڈیا قبضہ کرنا چاہ رہا تھا، تو وہاں پہ پاکستانی فوج کی جو پرفارمنس ہے، اس کو اگر آپ نے جج کرنا ہے نا آج بھی، 2024ءمیں، آپ کو چاہیے کہ آپ چونڈہ جائیں۔ آج بھی آپ چونڈہ میں صرف دو گھنٹے گزاریں اور گھومیں پھریں اور دیکھیں کہ وہاں پہ 1965ء کی وار میں جو انڈین آرمی کے ٹینک پاکستان نے قبضے میں لیے تھے اور جو ٹینک    Destroy    کیے تھے وہ کہاں کہاں پہ پڑے ہوئے ہیں، ان کو یادگاروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور پھر بہت سے    Monuments    ہیں۔  وہاں پہ آپ کو نظر آئے گا،  کوئی پانچ چھ کلو میٹر کا علاقہ ہے وہ، کہ یہاں پہ پاکستانی فوج کے فلاں افسر نے شہادت دی اور اس کو یہیں پہ دفن کر دیا گیا۔ یہاں پہ پاکستانی فوج کے فلاں افسر نے، اتنے جوانوں نے شہادت دی، ان کو یہیں پہ دفن کر دیا گیا۔ 

اس میں انٹرسٹنگ بات یہ ہےکہ بہت سے اس میں جو آپ کے جوان او رافسر ہیں وہ بنگالی بولنے والے تھے، 1965ء میں، اور وہ چونڈہ میں انڈین آرمی کا مقابلہ کر رہے تھے۔ تو آپ آج بھی اگر چونڈہ جائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ چونڈہ میں جو    The great battle of tanks    ہوئی تھی اس میں پاکستان جیتا کیوں۔ 

اچھا، یہ ساری جو لڑائی ہوئی  یہ ہماری    Territory    میں ہوئی اور پھر ہم نے دشمن کو وہاں سے بھاگنے پہ مجبور کیا اور اس میں ان کے بہت سے ٹینک تباہ ہوئے، ہمارے بھی ہوئے، ان کے ٹینک زیادہ تباہ ہوئے۔ 1965ء کی وار میں ہمارے بھی جنگی جہاز تباہ ہوئے لیکن ان کے جنگی جہاز زیادہ تباہ ہوئے، ٹھیک ہے نا، آپ یہ دیکھیں کہ

شایان محمود:    Causalities    کس کی زیادہ تھیں، یہ کچھ آئیڈیا ہے؟ 

حامد میر:    یہ    Disputed figure   ہے، پاکستان کہتا ہے کہ انڈیا کی زیادہ ہیں، انڈیا کہتا ہے کہ پاکستان کی زیادہ ہیں، لیکن آپ یہ دیکھیں کہ جو 1965ء کی وار ہے اس میں انڈین آرمی کی جو لیڈرشپ ہے اس کا ایک    Announced plan   کیا تھا۔

  To capture Lahore and Sialkot, and they failed to capture Lahore and Sialkot.

اور پھر اس کے بعد ان کے وہ سینئر فوجی افسر جنہوں نے کتابیں لکھیں ہیں اس پہ، ٹھیک ہے، جنرل کول کی کتاب ہے اس پہ، آپ پڑھیں، اس میں اس نے لکھا ہے کہ ہم اس میں اپنا    Objective achieve   کرنے میں فیل ہو گئے۔ تو جب آپ اپنا آبجیکٹیو اچیو کرنے میں فیل ہو گئے تو آپ وہ جنگ ہار گئے۔ 

اچھا، اس جنگ میں پاکستانی فوج کی جو پرفارمنس ہے، وہ میں نے آپ کو تھوڑی سی بتا دی ہے، لیکن اس میں ایئرفورس کا بڑا کردار تھا۔ 

شایان محمود: اور آپ نے بنگالی کی بات کی تو ایک بہت مشہور ، ادھر لاہور میں ایم ایم عالم روڈ بھی ہے، ایم ایم عالم تو ہمارا بچپن میں ایک ہیرو مانا جاتا تھا اور ابھی بھی ہے، وہ بھی    Sort of Bengali roots    تھے ان کے۔ ایئرفورس سے پہلے میں آپ سے    Specific     ایم ایم عالم کا سوال پوچھنا چاہ رہا ہوں،کہتے ہیں کہ کتنے، پانچ جیٹ ایک منٹ میں انہوں نے اڑائے، یہ    Possible    بھی ہے؟ یہ تو بڑی ایک    Top Gun    والی سٹوری ہے۔ مطلب میں بچپن میں بھی سوچتا تھا کہ، کہتے ہیں کہ یار  وہ ایک Sort of cross cannon fire     آ گئے تھے، لیکن Is that true؟ 

حامد میر: دیکھیں، ایم ایم عالم صاحب جب زندہ تھے تو میں نے ان سے خود بھی یہ پوری سٹوری سنی ہوئی ہے۔ اور یہ اسی طریقے سے میں نے ان کو  سوال کیا تھا جس طرح آپ مجھے کر رہے ہیں۔ آپ نے اگر ایم ایم عالم کی جو پرفارمنس ہے، یا اس کا جو کارنامہ ہے، اس کو اگر جانچنا ہے تو ان کے جو ہم عصر تھے، جنہوں نے ان کے ساتھ 1965ء کی جنگ میں حصہ لیا، آپ ان سے بات کریں، اور ان کی لکھی ہوئی چیزیں پڑھیں آپ، ان کی کتابیں پڑھیں، ان کے آرٹیکلز پڑھیں۔  

دیکھیں،  ایک جنگی جہاز کا  جو پائلٹ ہوتا ہے، فائٹر پائلٹ، اس کی گن کے اوپر ایک کیمرہ لگا ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں    Gun camera    تو ایم ایم عالم صاحب جو کچھ بھی کر رہے تھے وہ ریکارڈ ہو رہا تھا۔ اور پھر وہ ایک    Isolation    میں نہیں تھا وہ جو بھی کر رہے تھے، ان کے کچھ ساتھی جو پائلٹ تھے، وہ ان کو گائیڈ بھی کر رہے تھے  اور ان کو کور بھی دے رہے تھے، انہوں نے بھی وہ سب کچھ دیکھا۔ ٹھیک ہے؟

 اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کو ایک بندے کی جو    State of mind    ہے نا وہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً‌ آپ یہ سوال کر رہے ہیں نا جی ایک منٹ کے اندر پانچ جہاز تباہ کر لیے، تقریباً‌ 45 سیکنڈز میں، یہ    Possible    بھی ہے کہ نہیں ہے؟ تو آپ کو اس بندے کی اسٹیٹ آف مائنڈ کو انڈرسٹینڈ کرنا چاہیے۔ اسٹیٹ آف مائنڈ یہ ہے کہ ایم ایم عالم جو ہے وہ سرگودھا ایئربیس پہ 6 اور 7 ستمبر کی درمیانی رات سے اپنے فائٹر جہاز میں کاک پٹ میں بیٹھا ہوا ہے، اور اس کے پاس پاکٹ سائز کا قرآن ہے اور وہ اس کی تلاوت کیے جا رہا ہے۔ اور اس کو الرٹ کیا ہوا ہے اس کے کمانڈر نے کہ انڈیا کی طرف سے اٹیک ہو گا تو تم نے اس اٹیک کو روکنا ہے۔ 

اور ساتھ میں جو ایئرمارشل نور خان تھے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا، سب کو، کہ یہ نہیں ہے کہ گئے اوپر اور ایک فلائیٹ مار کر نیچے آ کر لینڈکر گئے۔  پیٹرول ہمارے پاس بہت کم ہے۔ تو اگر آپ نے جہاز کو اوپر لے کر جانا ہے ایئر فیلڈ میں، کچھ نہ کچھ کر کے آنا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ بس انڈین جہازوں کو بگھایا اور واپس آ گئے، اس طرح نہیں۔ 

تو اب وہ جناب قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں، اور اس دوران میں 7 ستمبر کی صبح انڈیا کے ہوائی جہاز جو ہیں وہ پاکستان کی ایئر اسپیس میں داخل ہوتے ہیں اور ایک دو جگہ پہ بمباری کرتے ہیں۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ انڈیا نے اٹیک کر دیا ہے۔ تو ایم ایم عالم صاحب اور ان کے ساتھی جو ہیں وہ فلائی کر کے ان کا پیچھا کرتے ہیں۔ اور پھر وہ سارا واقعہ پیش آتا ہے۔ 

اس میں جو آپ کہہ رہے ہیں نا کہ وہ جناب ایک ورژن انڈین سائیڈ کا یہ ہے کہ وہ ایک جہاز میں خرابی پیدا ہو گئی تھی تو پائلٹ جو ہے اس نے پیراشوٹ سے چھلانگ مار دی تھی، تو اس کا جہاز تو انجن کی خرابی کی وجہ سے گر گیا تو آپ نے ایم ایم عالم کے کھاتے میں ڈال دیا، اس کو بھی کاؤنٹ کر لیا۔  بالکل غلط بات ہے۔ وہ جو پائلٹ تھا اس کو نیچے دیہاتیوں نے پکڑ لیا تو اس نے دیہاتیوں کو کہا کہ میں پاکستان ایئرفورس کا پائلٹ ہوں ۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب پولیس وغیرہ آئی وہاں پہ تو پھر پتہ چلا کہ یہ تو انڈین ایئرفورس کا پائلٹ ہے۔ اور اس کے جہاز کے بارے میں بھی    Evidence    موجود ہے کہ اس کو بھی ہٹ کیا گیا تھا اور اس کا انجمن ونجن کوئی نہیں فیل ہوا تھا۔ 

تو ایم ایم عالم صاحب نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کی    Evidence    موجود ہے اور تمام جو جنگی ماہرین ہیں ان کے اس کارنامے کو     Endorse    کرتے ہیں اور اسی لیے ان کو اتنےبڑے بڑے اعزازات ملے۔ وہ ہمارے ہیرو ہیں اور ہیرو رہیں گے۔ 

شایان محمود: بالکل، اور سر آپ نے تو ایم ایم عالم سے ملاقات بھی کی ہوئی ہے، آپ مجھے ایک بات بتائیں کہ آگے کیا ہوا؟ اگر میں 1965ء کو تھوڑا سا چھوڑ دوں ایک سیکنڈ کے لیے۔ کیوں نہیں ہمیں فلمیں دیکھنے کو ملتیں ایم ایم عالم پہ؟  کیوں نہیں وہ آگے جا کر ایئرچیف بنے تھے؟ مطلب سننے میں یہ آتا ہے کہ    Common man    کے لیے کہ ان کی جو    End of life    تھی وہ کافی مطلب    Sad    تھی اور ایسا تھا، یہ کیا ہوا تھا؟ اتنا بڑا وار ہیرو ہمارا۔ 

حامد میر: دیکھیں، ایم ایم عالم صاحب جو ہیں نا وہ کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی ساری جو ایجوکیشن ہے وہ ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جی وہ بنگالی تھے، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان میں بہاری بھی تھے۔ تو آپ ان کو بہاری کہہ لیں، ان کو بنگالی کہہ لیں، لیکن یہ طے ہے کہ وہ پیدا کلکتہ میں ہوئے اور ان کی ایجوکیشن ڈھاکہ میں ہوئی اور ان کی ایئرفورس میں بھرتی بھی ڈھاکہ سے ہوئی تھی۔ 

تو انہوں نے 1965ء کی وار میں بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا لیکن جب 1971ء کی جنگ ہوئی۔ تو 1971ء کی جنگ میں  کچھ جو ایئرفورس کے بنگالی افسر تھے، ان کو سائیڈلائن کر دیا گیا۔ ٹھیک ہے نا۔ اس میں سیف الاعظم صاحب بھی تھے، جنہوں نے 1967ء کی عرب اسرائیل کی جنگ میں بھی اسرائیل کے طیارے گرائے تھے۔ اسرائیل کے طیارے گرائے تھے سیف الاعظم صاحب نے۔ تو ایم ایم عالم صاحب کو بھی    Suspect    کیاگیا۔ کیونکہ وہ راشد منہاس شہید والا ایک واقعہ ہو گیا تھا کہ ان کا جو بنگالی انسٹرکٹر تھا، اس نے کوشش کی کہ جہاز اغوا کر کے انڈیا لے جائے۔ تو راشد منہاس نے اس کو    Resist کیا    اور انہوں نے جہاز گرا دیا اور وہ شہید ہو گئے۔ 

تو اس وجہ سے ایک تو یہ کہا جاتا ہے کہ ایم ایم عالم صاحب سے 1971ء کی جنگ میں اس طرح کام نہیں لیا گیا جیسا کہ انہوں نے 1965ء میں کیا تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ پھر ان کو بھی    Syria    بھیجا گیا    As an instructor    تو اگر آپ نے کسی کو سیریا بھیجا ہے تو آپ کو پتہ ہے نا کہ اس کی جنگی صلاحیتیں بڑی زبردست ہیں۔ پھر وہ پاکستان آ گئے تو ایک آپ کی ایئرفورس کے سربراہ تھے ظفر چودھری صاحب۔ ظفر چودھری صاحب کے ساتھ ان کے کچھ پرابلمز ہوئے،  کوئی نظریاتی قسم کے پرابلمز تھے، کیونکہ ایم ایم عالم صاحب بڑے مذہبی آدمی تھے۔ 

اچھا، پھر اس کے بعد جب 1977ء میں  جنرل ضیاء الحق نے    Coup    کر دیا تو ایم ایم عالم صاحب جو ہیں ، ایک دو میٹنگز میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق صاحب کے ساتھ کچھ سخت باتیں کیں، اور وہ کچھ اس طرح کی تھیں کہ آپ ایئرفورس میں میرٹ پہ فیصلے کریں۔ تو جنرل ضیاء الحق پسند نہیں کرتے تھے، بظاہر اگر آپ ان کے ساتھ اختلافِ رائے کرتے تھے تو منہ پہ وہ آپ کو کچھ نہیں کہتے تھے، لیکن اختلافِ رائے سننے کے بعد وہ آپ کے بارے میں کوئی نہ کوئی آرڈر جاری کر دیتے تھے۔ تو ایم ایم عالم صاحب کے بارے میں کوئی ایسا ہی انہوں نے  آرڈر جاری کیا، ان کو پروموشن نہیں دی، اور پھر جنرل ضیاء الحق ہی کے زمانے میں ان کو ریٹائر کر دیا گیا ۔

لیکن یہ میں ضرور کہوں گا کہ پاکستان ایئرفورس نے ایم ایم عالم صاحب کو کبھی بھی    Abandon    نہیں کیا۔ اور ان کے بہت سے جو اسٹوڈنٹس ہیں وہ بعد میں ایئرچیف بنے۔ اور انہوں نے ایم ایم عالم صاحب کو    Look after    کیا، ایم ایم عالم صاحب نے پوری زندگی شادی نہیں کی تھی۔ تو اپنی زندگی کے جو آخری کچھ سال ہیں، وہ بیمار رہے تو انہوں نے کراچی میں پاکستان ایئرفورس ہی کی    Provided accommodation   میں گزارے تھے اور انہوں نے ان کا پورا خیال رکھا۔ تو ایئرفورس جو ہے اس نے اپنے ہیرو کو فراموش نہیں کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے زیادتی کی، نا انصافی کی  ایم ایم عالم کے ساتھ، لیکن    I must say    کہ پاکستان ایئرفورس کے جتنے بھی ایئرچیف آئے، ان سب نے ایم ایم عالم صاحب کو    Due respect    دی اور ایک ہیرو کے طور پر ان کا خیال رکھا۔ 

شایان محمود: اور سر، اب چلتے ہیں، ایئرفورس کی پرفارمنس اچھی تھی، آرمی کی پرفارمنس اچھی تھی، جتنا میں نے پڑھا ہے، سننے میں آتا ہے کہ نیوی کا ویسے کم رول تھا، ایک   I think, Dwarka submarine    تھی  ان کی، ایک اٹیک میں Damage پہنچایا تھا۔  نیوی کی پرفارمنس کیسی تھی، اور کیا بہت لمیٹڈ تھی اور کیوں لمیٹڈ تھی؟ 

حامد میر: دیکھیں، آپ کو میں جو    War dynamics    ہیں اس کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب دوں گا کہ انڈیا جو ہے اس کا یہ خیال تھا کہ ہم نے تو جناب دو یا تین دن میں لاہور اور سیالکوٹ پہ قبضہ کر لینا ہے۔ جب ان کو بہت سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان نے راجھستان کے اندر    Invade    کیا، پاکستان نے راجھستان کا بہت سا علاقہ قبضہ کر لیا۔ قصور کے پاس ایک کھیم کرن کا علاقہ ہے، اُدھر پاکستان گھس گیا۔ جنرل موسیٰ جو آرمی چیف تھے وہ اُدھر پہنچ گئے، تصویریں ان کی چھپنی شروع ہو گئیں۔ انڈیا جو ہے وہ    Psychological pressure    میں آ گیا، یہ کیا ہو گیا؟

پھر جناب یہ ہوا کہ ایسٹ پاکستان جو تھا اس وقت 1965ء میں وہ پاکستان کا حصہ تھا، جو آج بنگلہ دیش ہے۔ وہاں پہ انڈیا نے کچھ شہروں میں بمباری کی تو پاکستان ایئرفورس کلکتہ تک پہنچ گئی۔ پاکستان ایئرفورس نے کلکتہ میں گھس کر جوابی کاروائی کی، ان کے جہاز تباہ کر دیے۔ تو انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ زیادہ فرنٹ کھولنے ہمارے لیے اچھا نہیں  ہے، اور ان کی ایئرفورس بھی بڑی    Active   ہے، ان کے گراؤنڈ ٹروپس بھی ہمیں بڑی سخت    Resistance    دے رہے ہیں، تو انہوں نے پھر ایسٹ پاکستان میں گراؤنڈ آپریشن نہیں کیا، ایئر اٹیکس کیے، گراؤنڈ آپریشن نہیں کیا۔ 

اب انہوں نے کوشش یہ کی کہ پاکستان نیوی کو بھی انگیج نہ کریں۔ لیکن پاکستان نیوی نے کیا کیا کہ پاکستان نیوی نے انڈیا کو جان بوجھ کر انگیج کیا تاکہ وہ اپنی جو توجہ ہے وہ    Dwarka    کی سائیڈ پر لے کے جائے۔ دوارکا   میں ایک بہت بڑا    Fort   ہے، وہاں پہ انڈین ایئرفورس کا ایک بہت بڑا ریڈار سسٹم لگا ہوا تھا، اور اس ریڈار سسٹم کی وجہ سے کراچی کو    Threat    تھا۔ ٹھیک ہے نا۔ تو کراچی کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے پاکستان نیوی جو ہے، اس نے کیا کیا کہ اپنی ایک آبدوز کے ذریعے انہوں نے پلاننگ کی اور انہوں نے دوارکا  کا قلعہ جو ہے، اس میں جو اُن کا ایک ریڈار سسٹم لگا ہوا تھا، انہوں نے اس پہ بھی اٹیک کیا۔ اور چھوٹی چھوٹی بہت سی لڑائیاں بھی ہوئیں، اس میں بھی پاکستان نیوی جو ہے اس نے بڑی زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ 

بہرحال    In short    نیوی کا    Dwarka Operation    جو تھا    It was a huge success     جس کو پوری دنیا کے لوگ مانتے ہیں۔ اس کے بعد پھر انڈیا نے نہ پاکستان نیوی کو چھیڑا، اور نہ ہی اس نے کراچی کی طرف آنے کی جرأت کی۔ ٹھیک ہے نا۔ 

اس لیے آپ اگر بحیثیت مجموعی    In totally    دیکھیں تو 1965ء کی وار میں آپ کے جو گراؤنڈ ٹروپس تھے، آپ کی جو آرمی تھی اس کی پرفارمنس بڑی زبردست تھی، اس نے لاہور اور سیالکوٹ پہ قبضہ نہیں ہونے دیا۔ آپ کی جو ایئرفورس ہے اس میں ، میں نے تو ابھی آپ کو صرف ایم ایم عالم صاحب کا بتایا ہے، اور بہت سے آپ کے ہیروز تھے۔ سرفراز رفیقی صاحب تھے، وہ انڈین ٹیرٹری میں اٹیک کرنے گئے، وہاں پہ ان کے جہاز میں پرابلم ہو گئی، ان کی گن نے کام کرنا بند کر دیا۔ وہ اگر واپس آجاتے تو کوئی ایشونہ ہوتا۔ لیکن انہوں نے بالکل واپس آنا گوارا نہیں کیا ، اور وہ ایک ایسا جہاز جس سے اب وہ کوئی فائر ہی نہیں کر سکتے،  تو انہوں نے کمان فوری طور پر وائرلیس پہ ایک دوسرے ساتھی کے سپرد کی اور کور دینا شروع کر دیا، یہ شو کیا کہ میں کور دے رہا ہوں اور میں اٹیک کر سکتا ہوں، تو وہ شہید ہو گئے وہاں پہ۔ 

تو اور بھی میں آپ کو بتا سکتا ہوں بڑے واقعات ہیں اس میں۔ اور نیوی نے بھی بڑی اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ۔ اور آپ کو ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں کہ 1965ء کی وار میں سندھ کی جو حُر فورس ہے، جو پیر صاحب پگاروں کے مریدوں کی ایک فورس تھی، حُر فورس۔

شایان محمود: یہ کیا کرتے تھے؟

حامد میر: یہ حُر فورس بارڈر پہ پاکستان آرمی کو تھوڑا سا    Facilitate    کیا کرتے تھے، یہ رضاکار تھے، تو انہوں نے بھی فوج کی مدد کی اور یہ بھی راجھستان کے اندر گھس گئے۔ اور انہوں نے بھی راجھستان کے اندر جا کر انڈیا کی دو تین پوسٹوں پر قبضہ کر لیا۔ تو 1965ء کی وار میں پاکستان نے راجھستان سیکٹر میں، یعنی سندھ کے بارڈر پہ، بہت سا جو اُن کا علاقہ ہے اس پہ قبضہ کیا اور قصور سیکٹر میں سلیمانکی  کے علاقے میں آپ نے ان کے بہت سے علاقے پہ قبضہ کیا۔  

اور پھر بعد میں جو سیزفائر ہوا تھا، پھر تاشقند میں ایک معاہدہ ہوا، تو پھر جو علاقہ ان کے پاس تھا انہوں نے چھوڑ دیا، جو ہمارے پاس تھا وہ ہم نے چھوڑ دیا۔ 

تو اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ 6 ستمبر کو اگر آپ اپنا یومِ دفاع مناتے ہیں تو یہ بالکل آپ صحیح مناتے ہیں کیونکہ 6 ستمبر کو اگر لاہور پہ اور سیالکوٹ پہ قبضہ ہو جاتا تو پاکستان کا دل انڈیا کے کنٹرول میں چلا جاتا۔  

شایان محمود: اچھا سر اب ہم اس کو تھوڑا    Macro view    دیکھتے ہیں    Political view ،  ہم آن ٹاپ ہیں، لاہور کو بھی اچھا ڈیفنڈ کیا، سیالکوٹ کو، ہماری نیوی بھی پرفارم کر رہی ہے، آرمی بھی پرفارم کر رہی ہے، اس پوائنٹ پہ۔ شروع میں آپ نے بتایا کہ امریکہ تھی، رشیا تھی۔ اچھا امریکہ کیا چاہ رہی تھی کہ ہم یہ جنگ جیتیں، یا وہ سیزفائر چاہ رہی تھی، اور اس دفعہ ہم نے ختم کیوں کی جنگ؟ مطلب ہم کیوں گئے تاشقند ایگریمنٹ کی طرف؟ فار ایگزیمپل اس میں جو لٹریچر میں نے پڑھا ہے اس میں لکھا ہوا تھا کہ چائنہ نے ہمیں ایڈ ہی نہیں کیا، چائنہ نے ہماری مدد نہیں کی۔ کیا یہ سچ ہے؟ تھوڑا سا مجھے بتائیں کہ یہ وار    Conclusion    کی طرف آئی کیوں؟ اگر ہم    On top    تھے تو ہمیں اپنی    Favor    کا جو رزلٹ چاہیے تھا کہ کشمیر کا جو حصہ ہم چاہ رہے تھے وہ ہماری طرف    Why did not that happen  ؟

حامد میر: اب یہاں پہ شروع ہو جاتا ہے پولیٹیکل لیڈرشپ کا رول۔ جو آپ کا جوان تھا، جو آپ کا کپتان تھا، میجر تھا، کرنل تھا، بریگیڈیئر تھا،    Even    آپ کے جنرلز     They performed very well       ٹھیک ہے، بہت بہادری سے انہوں نے ہندوستان کے دانت کھٹے کیے۔  لیکن اب جو آپ نے مجھے سوال کیا ہے تو اس کا جو جواب ہے، میرے پاس جو    Historical facts   ہیں، میں نے تو اسی کی روشنی میں دینا ہے نا آپ کو۔

 پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو امریکہ نے دوبارہ    Betray    کیا 1965ء کی وار میں۔  1965ء میں آپ امریکہ کے اتحادی تھے اور انڈیا رشیا کا اتحادی تھا۔    Once again    امریکہ نے    Quietly, secretly    انڈیا کا ساتھ دیا   اور اس نے پاکستان پر    Sanctions     لگا دیں کہ پاکستان کو کوئی فوجی امداد نہیں دی جائے گی۔ الزام کیا لگایا کہ جو ہم نے آپ کو ٹینک دیے ہیں آپ نے وہ انڈیا کے خلاف کیوں استعمال کیے ہیں؟   بھئی ہم نے آپ سے خریدے ہیں، آپ سے بھیک میں تو نہیں لیے، جس طرح ہم نے ایف 16 ان سے خریدے ہیں، اس کی بھاری قیمت چکائی ہے، ہماری مرضی ہے ہم اس کو جس طرح مرضی استعمال کریں۔ 

جو 1962ء میں ایوب خان کے ساتھ امریکہ نے دھوکہ کیا تھا، اس کے بعد ایوب خان کو ٹرسٹ نہیں کرنا چاہیے تھا امریکہ کو، لیکن ایوب خان نے ٹرسٹ کیا امریکہ کو، اور آپ کو دوبارہ دھوکہ دیا گیا۔ اچھا، امریکہ نے انڈیا پر بھی سینکشنز لگائیں لیکن انڈیا کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ انڈیا تو رشیا کا اتحادی تھا اور رشیا کا اسلحہ استعمال کر رہا تھا۔ ہم امریکہ کا اسلحہ استعمال کر رہے تھے، امریکہ نے ہم پر پابندیاں لگا دیں۔  

اب آپ نے مجھ سے پوچھا    چائنہ کا کردار کیا تھا۔ یہاں پہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بالکل اس پہ آپ کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ چائنہ جو ہے وہ پاکستان کے ڈیفنس اور پاکستان کی فتح کے لیے پاکستان کی جو پولیٹیکل لیڈر شپ تھی اس سے زیادہ    Aggressive    تھا۔ کیونکہ اب لوگ جو ہیں وہ سچ نہیں بولتے اور    Unfortunately    ہمارے بہت سے جو لیڈر ہیں وہ کھل کر بات نہیں کرتے، لیکن فارن آفس میں جو ڈاکومنٹس پڑے ہوئے ہیں، اگر وہ    Declassify     ہو جائیں، تو کبھی نہ کبھی تو ہوں گے۔ 

میں آپ کو اپنے نالج کی بنیاد پہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ 1965ء کی جنگ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے کوشش کی کہ جنرل ایوب خان اور چائنیز لیڈرشپ کے درمیان ایک ڈائریکٹ ون ٹو ون میٹنگ ہو جائے    Which was a very huge risk     کہ پریزیڈنٹ آف پاکستان جو ہے وہ جنگ کے دوران پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کے دورے پر چلا جائے۔ فارن منسٹر کہہ رہا نہیں، یہ بڑا ضروری ہے، دو دن کے لیے جانا پڑے گا۔ فارن منسٹر کا اس میں کیا آبجیکٹیو تھا اس کا جواب آپ کو خود ہی مل جائے گا، میں آگے چل کے آپ کو وہ بھی بتاتا ہوں۔ 

تو اس کےلیے جنرل ایوب خان نے ایک پورا ڈرامہ کیا۔ انہوں نے اس طریقے سے    Behave    کیا کہ جس طرح وہ بالکل روٹین میں اپنے دفتر جا رہے ہیں اور وہاں پہ کام کر رہے ہیں، میٹنگز ہو رہی ہیں، اور پریس ریلیز جاری ہو رہی ہے، ان کے بیانات آ رہے ہیں۔ لیکن ایک دن    In the middle of the war     وہ پشاور سے ایک جہاز میں خاموشی سے فارن منسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ چائنہ چلے گئے۔ پیچھے سے ان کا پورا سٹاف جو ہے وہ اس طرح سے    Behave   کرتا رہا جس طرح پریزیڈنٹ صاحب جو ہیں وہ پریزیڈنٹ آفس میں ہی ہیں، کام کر رہے ہیں، میٹنگ ہو رہی ہے، پریس ریلیز بھی جاری ہو رہی ہے، سب کچھ ہو رہا ہے۔ 

تو ایوب خان اور بھٹو چائنہ گئے۔  وہاں پہ ان کی میٹنگ ہوئی پرائم منسٹر  چو این لائی    Zhou Enlai     کے ساتھ، تو پرائم منسٹر چو این لائی نے ان سے کہا کہ آپ نے اتنے تھوڑے دنوں میں انڈیا کے ساتھ جس طریقے سے مقابلہ کیا ہے، تو ہمارا یہ خیال ہے کہ آپ ایک لمبی جنگ لڑ کے جیت سکتے ہیں۔ آپ بالکل بے فکر ہو جائیں، ہم آپ کو ہر طرح کا اسلحہ دیں گے، آپ کو ہر طرح کی سپورٹ دیں گے۔ ٹھیک ہے۔ آپ اگر لمبی جنگ کریں گے تو آپ کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ 

تو ایوب خان تھوڑا سا اس پہ    Reluctant    تھے، پریشان تھے کہ لمبی جنگ، ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، یہ نہیں ہے، وہ نہیں ہے۔ تو اس زمانے میں چائنہ اتنی بڑی پاور نہیں تھا۔ لیکن اتنی پاور تھا کہ اگر وہ پاکستان کے پیچھے کھڑا ہو جاتا اور پاکستان کی کھلم کھلا سپورٹ شروع کر دیتا تو امریکہ بلیک میلنگ پوزیشن میں نہ ہوتا۔ کیونکہ امریکہ اس زمانے میں ویت نام میں پھنسا ہوا تھا۔ اور ویت نام میں بھی چائنیز جو ہیں وہ    Quietly    ویتنامی گوریلاز کو    Assist    کر رہے تھے۔ کیونکہ ایوب خان صاحب تھوڑے سے پرو امریکہ تھے اور امریکہ کے اتحادی بھی تھے ۔ان کا فارن منسٹر ذوالفقار علی بھٹو وہ ذرا پرو چائنیز تھا۔ تو بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ چائنہ کی بات مان لی جائے۔ لیکن ایوب خان صاحب نے کہا میں آپ کو بتاؤں گا۔ اور پھر وہ چپ کر کے واپس آ گئے۔ اور تھوڑے دن بعد انڈیا سیزفائر کروانا چاہ رہا تھا، لیکن خود نہیں بول رہا تھا، اس کے Behalf پہ کچھ ویسٹرن پاورز بول رہی تھیں۔  تو پھر سیزفائر کا پریشر آیا تو پاکستان نے سیزفائر کر لیا۔

شایان محمود: کیوں، کیا پریشر تھا؟ مطلب ایک ملک پہ کیا پریشر ہوتا ہے سیزفائر کرنے کا؟

حامد میر: ایک تو آپ پہ سینکشنز لگا دیں۔ دوسرا اَگین آپ کو کہا جا رہا ہے اس سے آپ کی اکانومی کو بڑا نقصان ہو گا اور ملک میں    Price hike   ہو جائے گی اور    Instability    پھیلے گی۔ اور اس وقت پاکستان کے ساتھ ایسٹ پاکستان بھی تھا۔ تو ایسٹ پاکستان میں آپ کس طرح، اگر وہاں پر بھی انڈیا نے فرنٹ کھول دیا تو آپ کیا کریں گے؟ تو اس طرح کے پریشر تھے اور دوبارہ کہا گیا امریکہ کی طرف سے اور ویسٹرن پاورز کی طرف سے کہ آپ کا کشمیر کا مسئلہ ہے نا، وہ ہم حل کروا دیں گے۔ 

لیکن اس میں چائنہ میں جو میٹنگ ہوئی تھی نا چو این لائی کی ایوب خان اور بھٹو کے ساتھ۔ اس میٹنگ میں چائنہ نے بڑا کلیئرلی پاکستان کو یہ کہا تھا کہ    Don’t trust America and Russia     امریکہ اور رشیا کی لڑائی تھی اس وقت لیکن چائنہ پاکستان کو ایڈوائز  کررہا ہے کہ یہ جو امریکہ ہے اس کو بھی ٹرسٹ نہ کرو، رشیا کو بھی ٹرسٹ نہ کرو، کیونکہ جو انڈینز ہیں انہوں نے دونوں کو    Cultivate    کیا ہوا ہے اور انڈینز جو ہیں وہ دونوں کے ساتھ اس طریقے سے چلتے ہیں کہ دونوں سے    Advantage    لے رہے ہیں، اور یہ آپ کے ساتھ دونوں دھوکہ کریں گے۔ تو آپ رشیا کی طرف مت جائیں۔ 

شایان محمود: تو ہم نے چائنہ کی کیوں نہیں بات سنی؟ 

حامد میر: آپ نے چائنہ کی بات نہیں سنی، ٹھیک ہے نا۔

شایان محمود: یہ بھٹو صاحب کی غلطی ہے یا ایوب خان صاحب کی؟

حامد میر: یہ دونوں کی غلطی ہے۔ دیکھیں، بھٹو صاحب کے اور ایوب خان کے اختلافات یہیں سے پیدا ہوئے کہ بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ جنگ کو لمبا کیا جائے اور سیزفائر نہ کیا جائے۔ لیکن ایوب خان صاحب نے کہا اچھا سیز فائر کر لیتے ہیں۔ اور سیزفائر کرنے کے بعد رشیا نے آپ کو    Diplomatically engage       کیا، اور اس وقت تاشقند جو ہے، جو کہ آج ازبکستان کا کیپٹیل ہے، وہ اس وقت ایکس سوویت یونین میں شامل تھا، تو پاکستان اور انڈیا کو تاشقند بلایا اور وہاں پہ تاشقند ایگریمنٹ کرا دیا۔ اور تاشقند ایگریمنٹ میں ایسا لگا پاکستانیوں کو، پاکستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت کو کہ آپ نے کشمیر کو فراموش کر دیا ہے۔ 

شایان محمود: اچھا، تاشقند ایگریمنٹ سے، جو میں نے ویڈیوز بھی دیکھی ہیں اور پڑھا بھی ہے، نہ انڈین خوش تھے اور نہ پاکستانی سائیڈ۔ اس ایگریمنٹ میں ایگزیکٹلی تھا کیا، اور اس کے مسئلے کیا تھے؟ مطلب    Why is either side not happy؟

 حامد میر: دیکھیں، اس میں پاکستان کا مسئلہ یہ تھا ، بھٹو صاحب کا یہ خیال تھا کہ 1965ء کی وار میں پاکستان کا    Upper hand    تھااور پاکستان کو جو ہے وہ ایک    Dictating position    سے انڈیا کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہماری فتح ہوئی ہے اس میں۔ لیکن جو رشین سائیڈ تھی اس نے پاکستان کو اتنا پریشرائز کیا اور پیچھے سے امریکہ جو ہے وہ بھی سپورٹ کر رہا تھا انڈیا کو۔ تو ایوب خان صاحب نے جو ایگریمنٹ سائن کیا نا تاشقند میں شاستری کے ساتھ، تو اگر آپ اس ایگریمنٹ کو آج بھی پڑھیں تو اس میں جو بنیادی مسئلہ تھا، روٹ کاز 1965ء وار کا تھا مسئلہ کشمیر، وہ ایڈریس نہیں ہوا۔ اس کا اس میں ذکر ہی نہیں تھا۔ میں نے دیکھیں نے آپ کو پہلے بتایا کہ آپ کا آپریشن ڈیزرٹ ہاک تھا، آپریشن جبرالٹر تھا، آپریشن سلام تھا، یہ سب کیوں ہوا؟ کشمیر کی وجہ سے ہوا تھا نا۔ تو تاشقند ایگریمنٹ میں کشمیر کے مسئلے کو اس طریقے سے    Highlight   نہیں کیا۔ تو اس پہ بھٹو صاحب کا اختلاف ہو گیا، وہ جب وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے آکے ریزائن کر دیا۔ 

شایان محمود: اور وہ سائن جب ہم نے کیا تھا تو اس ٹائم پہ    Public sentiment     کیا تھا پاکستان اور انڈیا میں؟ 

حامد میر: تاشقند ایگریمنٹ، مجھے انڈیا کا تو نہیں پتہ، مسئلہ یہ ہو گیا تھا کہ شاستری کا وہیں پہ انتقال ہو گیا۔ 

شایان محمود: بالکل، میں نے اس پہ بھی آنا ہے، چلیں میں    Sentiment    پہ اس کے بعد آتا ہوں۔ ایک    Rumor    ہے یا ایک جو بھی کہتے ہیں    Myth    ہے کہ انڈین پرائم منسٹر شاستری جو تھے، اُدھر ہی ان کا انتقال ہوا تاشقند میں، کہ ان کو سی آئی اے والوں نے مارا تھا    Something to do with nuclear attack     جو نیو کلیئر پروگرامز تھے انڈیا کے، یہ رومر ہے، اس میں کوئی سچائی ہے؟ 

حامد میر: اس میں کوئی شک نہیں کہ جو امریکن سی آئی اے ہے اس کے انڈین گورنمنٹ کے اندر کافی زمانے سے    Moles    ہیں۔ 

شایان محمود: کیونکہ Autopsy نہیں ہوئی تھی شاستری صاحب کی۔

حامد میر: لیکن اس کی کوئی    Evidence   نہیں ہے اس لیے کہ شاستری صاحب جو کر رہے تھے تاشقند میں بیٹھ کر وہ امریکہ کی مرضی کے مطابق کر رہے تھے۔ کیونکہ امریکہ جو ہے اس نے کبھی اس چیز کا خیال نہیں کیا کہ پاکستان جو ہے وہ اپنا    Interest compromise   کر کے آپ کا اتحادی بن جاتا ہے، اور آپ جب بھی موقع آتا ہے پاکستان کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں۔ تو تاشقند ایگریمنٹ میں جو ہوا، اس میں کشمیر پہ کمپرومائز ہوا۔ ایوب خان نے کشمیر پہ کمپرومائز کیا۔ تو کشمیر پہ جو کمپرومائز ہے، وہ امریکہ کے فائدے میں تھا، تو اس کو شاستری کو مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ شاستری کو مارا گیا۔ 

تو جو تاشقند ایگریمنٹ تھا نا ، اس کے فوراً‌ بعد جو شاستری کی موت ہے، اس کی وجہ سے انڈیا میں تاشقند ایگریمنٹ پہ زیادہ    Debate    نہیں ہوئی۔ پاکستان میں زیادہ ڈیبیٹ ہوئی۔ تو پاکستان میں ایک موومنٹ شروع ہو گئی، بھٹو نے استعفیٰ دے دیا اور لوگوں نے کہا کہ ایوب خان نے کشمیر بیچ دیا۔ اور ایوب خان کے خلاف ایک بہت بڑی موومنٹ شروع ہو گئی۔ اور اَلٹی میٹلی اس موومنٹ کے نتیجے میں اس کو ریزائن کرنا پڑا۔ 

شایان محمود: سر میں آپ کا زیادہ اور ٹائم نہیں لیتا، آخری سوال ہے، یہ ہم نے پوری ایک ہسٹری سمجھ لی، اس کے بعد کیا ہوا    Leading up to    جو ہماری اگلی جنگ ہوئی تھی۔ لیکن اگر میں آپ سے یہ پوچھوں، دیکھیں، ہمارا آبجیکٹیو کیا تھا؟ کشمیر۔ ہم  گئے ، آپریشن گرینڈ سلیم کیا، امرتسر میں گئے، ایک ٹاؤن کی وہ تصویر بھی بہت    Famous    ہے جس میں ایک جنرل کی جو اُدھر کھڑے ہوئے ہیں، ٹرین اسٹیشن کے ساتھ۔

حامد میر: وہ 1971ء والا ہے۔

شایان محمود: وہ 1971ء والا ہے 1965ء کا نہیں ہے؟

حامد میر: 1965ء میں بھی ہے، 1965ء میں جنرل موسیٰ چلے گئے تھے انڈین ٹیرٹری میں۔ 

شایان محمود: لیکن میرا سوال یہ ہے نا کہ    ?Did we win this war     دیکھیں،آبجیکٹیو تو  نا  ان کا کمپلیٹ ہوا، لاہور اور سیالکوٹ    Capture    کرنا، نہ ہمارا ہوا۔ بچپن میں مجھے یہ پڑھایا جاتا تھا کہ 1965ء کی وار پاکستان جیتا۔ اب یہ پڑھایا جاتا ہے جو میں نے آپ کو بتایا ہے کہ جو بس ایک جنگ ہوئی تھی سولہ سترہ دن کی۔ ان دونوں میں سچائی کیا ہے؟ 

حامد میر: دیکھیں، آپ کی جو تینوں بڑی جنگیں ہیں، اور اگر آپ اس میں کارگل کو بھی شامل کر لیں تو آپ کی چار جنگیں ہیں۔ چاروں جنگوں کی مین وجہ جو ہے وہ کشمیر تھا۔ 

  • 1948ء-1947ء والی جنگ، سیز فائر فرسٹ جنوری 1949ء کو ہوا اور انٹرنیشنل فورسز نے آپ کے ساتھ دھوکہ کیا۔
  • اس کے بعد 1965ء کی جو وار ہے وہ بھی کشمیر کی وجہ سے ہوئی، اس میں بھی سیزفائر ہوا، بہت وعدے وعید ہوئے،  مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا۔ 
  • پھر جو 1971ء کی وار ہے اس سے پہلے ایک گنگا ہائی جیکنگ ہوئی تھی۔ کشمیری فریڈم فائٹر تھے دو، ہاشم قریشی اور اشرف قریشی، انہوں نے گنگا اغوا کیا تو اس سے انڈیا کو پاکستان پہ سینکشنز لگانے کا موقع ملا اور پھر انہوں نے جواز بنا کر پاکستان پر اٹیک کر دیا۔ 
  • اور 1999ء میں بھی یہی ہوا۔ 

تو اگر آپ    Overall    دیکھیں تو چاروں جنگوں میں نا توانڈیا جو ہے وہ آزاد کشمیر پہ قبضہ کر سکا، اور نہ ہی پاکستان مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروا سکا۔ تو نہ کوئی جیتا ہے نہ کوئی ہارا ہے۔ لیکن اگر آپ صرف 1965ء کی وار کو دیکھیں تو وہ وار جو ہے وہ انڈیا کے آبجیکٹوز کے لحاظ سے ہم دیکھیں اگر، تو وہ    Battle    ہم نے جیت لی ہے۔ لیکن ایک بیٹل ہوتی ہے، ایک جنگ ہوتی ہے۔ بیٹل ہوتی ہے چھوٹی، جنگ ہوتی ہے بڑی۔ 

شایان محمود: پولیٹکس بھی ہے۔ 

حامد میر: جنگ میں پولیٹکس بھی آجاتی ہے، ڈپلومیسی بھی آجاتی ہے، سب کچھ آجاتا ہے۔ تو جنگ نہ انڈیا جیتا ہے نہ پاکستان جیتا ہے۔ اور یہ جنگ ابھی تک چل رہی ہے۔  اور بظاہر اس میں ایسا لگتا ہےکہ ابھی تک    Upper hand     جو ہے وہ انڈیا کا ہے۔ لیکن فیصلہ نہ پاکستان نے کرنا ہے نہ انڈیا نے کرنا ہے، کیونکہ اس جنگ میں ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ ہیں کشمیری۔ تو جب تک یونائیٹڈ نیشنز اپنا وعدہ پورا نہیں کرتی اور    Plebiscite    کے ذریعے ان کی رائے نہیں پوچھتی تو جنگ کا فیصلہ نہیں ہو گا۔ اور اس جنگ کا فیصلہ ایک پولیٹیکل پراسیس ہے    Plebiscite is a political process    تو اس جنگ کا فیصلہ نہ پاکستان نے کرنا ہے نہ انڈیا نے کرنا ہے، وہ کشمیریوں نے کرنا ہے    As a third party     لیکن جہاں تک 1965ء کی وار کا اگر آپ صرف    Analysis   کریں گے تو وہ جنگ نہیں ایک بیٹل تھی اور وہ بیٹل جو ہے اس میں پاکستان کو    Victory    ملی۔ 

شایان محمود: چلیں سر، تھینک یو ویری مچ ، بہت مزا آیا، بہت کچھ سیکھنے کو ملا، ان شاء اللہ

We call you gain very soon, thank you very much for being on the pod cast.

حامد میر: بہت بہت شکریہ۔

https://youtu.be/C51X4fH3vH0


(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter