(۱۰۴) من ذنوبکم کا ترجمہ
قرآن مجید میں تین مقامات پر من کے ساتھ یغفر لکم من ذنوبکم آیا ہے، اور تین ہی مقامات پر من کے بغیر یغفر لکم ذنوبکم آیا ہے۔ جہاں من نہیں ہے وہاں ترجمہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن جہاں من ہے وہاں ترجمہ میں اختلاف ہوگیا ہے، بعض لوگوں نے من کو زائد مان کرآیت کا ترجمہ کیا ہے، اور بعض لوگوں نے تبعیض کا مان کر ترجمہ کیا ہے، دلچسپ معاملہ ان لوگوں کا ہے جو کہیں زائد والا ترجمہ کرتے ہیں اور کہیں تبعیض والا ترجمہ کرتے ہیں۔ ذیل میں تینوں آیتوں کے کچھ ترجمے پیش کیے جارہے ہیں جن سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے۔
(۱) قَالَتْ رُسُلُہُمْ أَفِیْ اللّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ۔ (ابراہیم:۱۰)
’’کہا پیغمبروں ان کے نے کیا بیچ اللہ کے شک ہے بنانے والا آسمانوں اور زمین کا پکارتا ہے تم کو تو کہ بخشے واسطے تمہارے بعضے گناہ تمہارے سے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’بولے ان کے رسول کیا اللہ میں شبہہ ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین تم کو بلاتا ہے کہ بخشے تم کو کچھ گناہ تمہارے‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ میں شک ہے آسمان اور زمین کا بنانے والا تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے کچھ گناہ بخشے‘‘ (احمد رضا خان)
’’ان کے پیغمبروں نے کہا کہ تم کو اللہ تعالی کے بارہ میں شک ہے جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ تم کو بلارہا ہے تاکہ تمہارے گناہ معاف کردے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’تا بیا مرزد شمارا از گناہان شما‘‘ (شیخ سعدی)
’’تا بیا مرزد برائے شما گناہان شما‘‘ (شاہ ولی اللہ)
(۲) یَا قَوْمَنَا أَجِیْبُوا دَاعِیَ اللَّہِ وَآمِنُوا بِہِ یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ وَیُجِرْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ۔ (الاحقاف:۳۱)
’’اے قوم ہماری قبول کرو واسطے بلانے والے کے اللہ کی طرف سے اور ایمان لاؤ ساتھ اس کے بخشے گا واسطے تمہارے گناہ تمہارے‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اے قوم ہماری مانو اللہ کے بلانے والے کو اور اس پر یقین لاؤ کہ بخشے تم کو کچھ تمہارے گناہ‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’اے ہماری قوم اللہ کے منادی کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ کہ وہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اے بھائیو اللہ کی طرف بلانے والوں کا کہنا مانو اور اس پر ایمان لے آؤ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’تا بیا مرزد خدا برائے شما بعض گناہان شمارا‘‘ (شاہ ولی اللہ)
’’تا بیا مرزد خدا برائے شما از گناہان شما‘‘(شیخ سعدی)
(۳) یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ۔ (نوح:۴)
’’بخشے گا واسطے تمہارے گناہ تمہارے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’کہ بخشے وہ تم کو کچھ گناہ تمہارے‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’وہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے گا‘‘ (احمد رضا خان)
’’تو وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’تا بیا مرزد برائے شما گناہان شمارا‘‘ (شاہ ولی اللہ )
’’تا بیا مرزد شمارا از گناہان شما‘‘ (شیخ سعدی)
مذکورہ بالا ترجموں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بعض لوگوں نے ’’کچھ گناہ‘‘ اور بعض لوگوں نے ’’گناہ‘‘ ترجمہ کیا ہے، اور بعض نے کہیں یہ ترجمہ کیا ہے اور کہیں وہ۔فارسی ترجموں میں شیخ سعدی ’’از گناہان‘‘ کرتے ہیں، جبکہ شاہ ولی اللہ دو مقامات پر صرف ’’گناہان‘‘ اور ایک مقام پر ’’بعض گناہان‘‘ کرتے ہیں۔
یہاں ایک نکتہ اور قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ تینوں آیتوں کے ترجمہ میں شاہ ولی اللہ نے یَغْفِرْ لَکُم میں لکم کا ترجمہ ’’برائے شما‘‘ اور شاہ رفیع الدین نے ’’واسطے تمہارے‘‘کیا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے، کیونکہ مغفرت کے ساتھ گناہ یا خطا جس کی مغفرت کی جائے بطور مفعول بہ آتا ہے اور جس شخص کی مغفرت کی جائے اس کے لئے لام بطور صلہ آتا ہے، اس کا ترجمہ واسطے یا لئے کرنا درست نہیں ہے۔اس لئے ’’واسطے تمہارے ‘‘کے بجائے صرف ’’تمہارے‘‘ ترجمہ ہوگا، جیسا کہ دوسرے لوگوں نے کیا ہے۔
اس مقام پر صاحب تفہیم اور صاحب تدبرکا موقف قدرے تفصیل کا تقاضا کرتا ہے۔ صاحب تفہیم نے سورہ نوح والی آیت کے ترجمے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا: ’’یہاں من تبعیض کے لیے نہیں بلکہ عن کے معنی میں ہے‘‘
اس پر صاحب تدبر نے اسی آیت کے ترجمہ کی توضیح میں لکھا: ’’اسی طرح اس کو عن کے معنی میں لینا بھی ایک بالکل بے سند بات ہے۔ اول تو اس کے عن کے معنی میں آنے کی کوئی قابل اعتماد مثال موجود نہیں ہے، ہو بھی تو غفر کا صلہ عن کے ساتھ نہیں آتا۔ آپ دعا میں کہتے ہیں: ربنا اغفر لنا ذنوبنا یوں نہیں کہتے کہ اغفر لنا عن ذنوبنا۔ اگر یوں کہیں گے تو اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ تاویل کرنی پڑے گی کہ یہاں غفر لفظ بمعنی صفح یا اس کے ہم معنی کسی ایسے لفظ پر متضمن ہے جس کا صلہ عن کے ساتھ آیا ہے۔ اس کے بغیر غفر کے ساتھ عن کا استعمال عربیت کے خلاف ہوگا۔‘‘
صاحب تدبر کی یہ بات تحقیق طلب ہے کہ ’’من کو عن کے معنی میں لینا ایک بالکل بے سند بات ہے۔ اول تو اس کے عن کے معنی میں آنے کی کوئی قابل اعتماد مثال موجود نہیں ہے۔‘‘ نحو کے مشہورمحقق علامہ ابن ہشام نے ذکر کیا ہے کہ من عن کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، انہوں نے اس کی قرآن مجید سے دو مثالیں بھی دی ہیں، ابن ہشام کی عبارت ملاحظہ ہو: مرادفۃعَن نَحو(فویل للقاسیۃقلوبھم من ذکراللہ) (یاویلنا قدکنَّا فِی غَفلَۃ من ھَذَا) (مغنی اللبیب،ص: ۴۲۳) ۔
جبکہ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ ان دونوں مثالوں میں جنہیں ابن ہشام نے ذکر کیا ہے، من کو عن کے معنی میں ماننا درست نہیں ہے، دونوں جگہ من من کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ان کے نزدیک پہلی مثال کا مفہوم ہے، وہ سخت دل جو ذکر اللہ سے خالی ہیں، اگر عن ہوتا تو مفہوم یہ ہوتا کہ وہ دل جن پر اللہ کا ذکر اثر نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح دوسری مثال کا مفہوم ہے کہ جانتے بوجھتے اس کی طرف سے غافل تھے، اگر عن ہوتا تو مفہوم ہوتا کہ اس سے بے خبر تھے، جیسا کہ بغیر صلہ کے آتا ہے، فرمایا (و ان کنت من قبلہ لمن الغافلین) غرض دونوں مثالوں میں من من کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔
البتہ صاحب تدبر کی یہ بات کہ ’’غفر کا صلہ عن کے ساتھ نہیں آتا‘‘ بالکل درست ہے اور صاحب تفہیم کا اس مقام پر من کو عن کے معنی میں ماننا واضح طور سے غلط ہے، لگتا ہے کہ صفح اور عفا وغیرہ جیسے غفر کے ہم معنی الفاظ سے اشتباہ کے نتیجہ میں ان سے یہ چوک ہوگئی، راقم کی معلومات کی حد تک یہ رائے کسی مفسر یا ماہر لغت نے ذکر نہیں کی ہے۔
صاحب تدبر نے ان لوگوں پر بھی سخت تنقید کی ہے جو من کو یہاں زائد قرار دیتے ہیں، وہ سورہ نوح کے زیربحث ترجمہ کی توضیح میں لکھتے ہیں:
’’حرف من کو بعض لوگوں نے زائد قرار دیا ہے اور بعض لوگوں نے اس کو عن کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ دونوں رائیں عربیت کے خلاف ہیں۔ قرآن میں کوئی حرف بھی زائد نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی حرف بظاہر زائد نظر آتا ہے تو وہ بھی زبان کے معروف ضابطہ کے تحت کسی خلا کو بھرنے کے لیے آیا ہے۔ اس طرح کے حروف مخصوص ہیں۔ ہر حرف کو بغیر کسی سند کے زائد نہیں قرار نہیں دیا جاسکتا، من کے زائد آنے کی کوئی مثال قرآن یا مستند کلام میں موجود نہیں ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’میرے نزدیک یہاں من اپنے معروف معنی یعنی تبعیض ہی کے لیے آیا ہے۔ پوری بات گویا یوں ہے کہ یغفر لکم ما تقدم من ذنوبکم (اگر تم میری باتیں مان لوگے تو اللہ تعالی تمہارے وہ سارے گناہ معاف فرمادے گا جو اب تک تم سے صادر ہوئے ہیں) یہاں وضاحت قرینہ کی بنا پر ما تقدم کے الفاظ حذف ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔اس آیت میں حرف من اسی حقیقت کے اظہار کے لیے آیا ہے کہ اگر تم اس دعوت کو قبول کرکے ایمان میں داخل ہوجاؤ گے تو دور جاہلیت کے تمہارے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ اگر یہ من یہاں نہ ہوتا تو آیت کے یہ معنی نکل سکتے تھے کہ تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ درآنحالیکہ یہ بات صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ کفر کے بعد ایمان صرف پچھلے گناہوں ہی کا ہادم بنتا ہے۔ آگے کے گناہوں کا ہادم نہیں بنتا۔‘‘
صاحب تدبر کی یہ بات کہ ’’من کے زائد آنے کی کوئی مثال قرآن یا مستند کلام میں موجود نہیں ہے‘‘ خلاف واقعہ بھی ہے اور تمام اہل لغت کے موقف کے بھی خلاف ہے، مذکورہ ذیل قرآنی مثالوں میں من کے زائد ہونے پر تو تمام نحویوں کا اتفاق ہے:
(ما جاء نا من نذیر) (وَمَا تسْقط من ورقۃ اِلَّا یعلمہا) (مَا تری فِی خلق الرَّحْمٰن من تفَاوت) (فَارْجِع الْبَصَر ھَل تری من فطور)
البتہ نحویوں کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ من بلا شرط زائد ہوسکتا ہے یا اس کے لیے کچھ شرطیں بھی ہیں، زیر بحث جملہ یعنی (یغفر لکم من ذنوبکم) میں من ابوعبیدہ اور اخفش کے نزدیک زائد ہوسکتا ہے۔
صاحب تدبر کا یہ خیال ہے کہ ’’اگر یہ من یہاں نہ ہوتا تو آیت کے یہ معنی نکل سکتے تھے کہ تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے‘‘ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو ان آیتوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا جہاں یہی جملہ من کے بغیر آیا ہے۔ جیسے:
قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ۔ (آل عمران: ۳۱)
کیا اس آیت میں اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردینے کی بات کہی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صاحب تدبر یوں تواس جملے میں من کو تبعیض کا مانتے ہیں، لیکن ترجمہ عام طور سے زائد کا کرتے ہیں، سورہ ابراہیم والی آیت میں ترجمہ کرتے ہیں: ’’تاکہ تمہارے گناہوں کو بخشے‘‘۔سورہ احقاف والی آیت میں ترجمہ کرتے ہیں: ’’اللہ تمہارے گناہوں کو بخشے گا‘‘ البتہ سورہ نوح والی آیت میں ترجمہ کرتے ہیں: ’’اللہ تمہارے (پچھلے) گناہ معاف کردے گا‘‘ وہ اس وجہ سے کہ وہ یہاں ما تقدم کو محذوف مانتے ہیں، حالانکہ صرف من کو بنیاد بنا کر اس طرح سے محذوف ماننا خود دلیل کا محتاج ہے۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ صاحب تدبر سورہ نوح والی آیت میں تو من سے پہلے ما تقدم محذوف مان کر من ذنوبکم سے پچھلے گناہ مراد لیتے ہیں۔ لیکن سورہ احقاف والی آیت میں ان کی رائے بالکل مختلف ہے، لکھتے ہیں: ’’من تبعیض کے لیے ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ بعض گناہ ایسے بھی ہیں جن کی معافی کا معاملہ اس ایمان کے بعد بھی محول رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ وہ سنگین قسم کے گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔‘‘
درست بات یہ ہے کہ مذکورہ تینوں آیتوں میں من تاکید کے لئے ہے، اور ان میں تمام گناہ معاف کئے جانے کا وعدہ ہے، ان تینوں آیتوں کاخطاب غیر مسلموں سے ہے، اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت یہ کہنا کسی طور مناسب نہیں لگتا ہے کہ اگر تم ایمان لے آئے تو تمہارے کچھ گناہ معاف کیے جائیں گے اور کچھ گناہ معاف نہیں کیے جائیں گے۔ کسی نبی کی دعوت میں ہمیں اس طرح کی بات نہیں ملتی ہے۔ نہ ہی یہ دعوتی حکمت کے مطابق ہے، اور نہ ہی یہ قرآن مجید کی دوسری تصریحات کے موافق ہے۔ موقع ومحل کا تقاضا صاف طور سے یہی ہے کہ من کو تبعیض کے بجائے تاکید کے لیے مانا جائے۔ قرآن میں اسی مفہوم کو یوں بھی ادا کیا گیا ہے: قُل لِلَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِن یَنتَہُواْ یُغَفَرْ لَہُم مَّا قَدْ سَلَفَ (الانفال: ۳۸) یعنی جتنے گناہ اب تک ہوچکے ہیں سب معاف کردیئے جائیں گے۔ یہاں بھی ما قد سلف سے تحدید نہیں ہورہی ہے بلکہ عموم کی تاکید ہورہی ہے، کیونکہ معافی چاہنے والے کا مدعا یہی ہوتا ہے کہ جتنے گناہ ہوچکے ہیں وہ سب معاف کردیئے جائیں۔
ان تینوں مقامات پر من کو زائد ماننے والوں پر امام رازی نے سخت تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کلام الٰہی کے کسی لفظ کو زائد ماننا درست نہیں ہے۔
أما قولہ: اِنَّھَا صِلَۃ فَمَعْنَاہُ الحکم عَلی کلِمَۃٍ مِن کلَامِ اللَّہِ تَعَالَی بِأَنَّھَا حَشْوٌ ضَائِعٌ فَاسِدٌ، وَالْعَاقِل لَایُجَوِّزُ الْمَصِیرَ اِلَیہِ مِنْ غَیرِضَرْورَۃٍ۔ (التفسیرالکبیر،۱۹؍۷۲)
اس لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب من کو زائد کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ فضول اور بے مصرف ہے، بلکہ اس سے ایک فائدہ حاصل ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ اس لفظ کے عموم کی تاکید ہوتی ہے جس پر من داخل ہوتا ہے، یعنی ذنوبکم کا مطلب ہوگا تمہارے گناہ اور من ذنوبکم کا مطلب ہوگا تمہارے تمام گناہ۔ چنانچہ علامہ ابن ہشام نے من کے اس مفہوم کے بارے میں یوں لکھا ہے: توکید العُمُوم وَھِی الزَّائِدَۃ۔ اس لیے امام رازی کا یہ کہنا کہ من کو یہاں زائد ماننا کلام الٰہی کی شان کے منافی ہے درست نہیں ہے۔سورہ ابراہیم والی آیت کا ذیل کا ترجمہ تاکیدکے اس مفہوم کو بخوبی ادا کررہا ہے: ’’وہ تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرمادے‘‘ (محمد جوناگڑھی) مولانا امانت اللہ اصلاحی وضاحت کرتے ہیں کہ من یہاں پر نہ زائد ہے اور نہ تبعیض کے لئے ہے، بلکہ فصل اور تاکید کے لئے ہے ، یعنی پہلے مغفرت کا اعلان کردیا پھر بیان کیا کہ نہ صرف خطائیں بلکہ سارے گناہ معاف کردے گا۔
یہ بات اوپر ذکر کی جاچکی ہے کہ قرآن مجید میں یغفر لکم من ذنوبکم تین بار آیا ہے اور یغفر لکم ذنوبکم بھی تین بار آیا ہے، اس پر مزید امام زمخشری نے یہ نکتہ بھی دریافت کیا کہ جہاں من کے ساتھ آیا ہے وہاں مخاطب غیر مسلمین ہیں، اور جہاں من کے بغیر آیا ہے، وہاں مخاطب اہل ایمان ہیں۔
چونکہ امام زمخشری من کو تبعیض کا مانتے ہیں، اس لیے وہ اس فرق کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کرسکے، اور محض اتنا کہا کہ ایسا اس لیے کیا ہے کہ قیامت کے دن دونوں فریقوں میں فرق وامتیاز رہے۔ وَکَأَنَّ ذَلِکَ لِلتَّفْرِقَۃِ بَین الْخِطَابَینِ، وَلِئَلَّا یُسَوَّی بَینَ الْفَرِیقَینِ فِی الْمَعَادِان کی اس رائے پر امام رازی نے سخت تنقید کی۔ اور کہا فھُوَ مِنْ بَابِ الطَّامَّاتِ۔ تاہم خود امام رازی اور دیگر مفسرین نے من کو تبعیض کا مان کر جو توجیہیں کی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رائے کے نتیجے میں مفسرین کو کتنی زیادہ الجھنوں کا شکار ہونا پڑا۔
لیکن اگر من کو برائے تاکید مانیں تو اس فرق کی واضح توجیہ سامنے آجاتی ہے، اہل کفر کے گناہ بہت زیادہ اور بہت بڑے ہوتے ہیں، اور وہ وحی کے اور وحی کے ہر وعدے کے منکر بھی ہوتے ہیں، اس لیے ان کو یہ یقین دلانا کہ ایمان لانے کی صورت میں ان کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے توکید کے اسلوب کا تقاضا کرتا ہے۔ جبکہ اہل ایمان کے گناہ کفر وشرک سے آلودہ زندگی کے مقابلے میں بہت معمولی درجے کے ہوتے ہیں، اور صاحب ایمان ہونے کی وجہ سے وہ اللہ کے ہر وعدے پر فوراً یقین کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں، اس لیے توکید کے اسلوب کے بغیر بھی ان کے یقین کے لیے ہر وعدہ کافی ہوتا ہے۔ غرض گناہ تو ہر توبہ کرنے والے کے معاف ہوجائیں گے تاہم کافروں سے جو معافی کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں تاکید اور زور زیادہ ہے۔
من ذنوبکم کے اسلوب اور اس کے اندر موجود تاکید کو سمجھنے کے لیے ذیل کی آیت قول فیصل اور بہترین رہنما ہے:
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ۔ (الزمر:۵۳)
(جاری)