(539) وأحضرت الأنفس الشح
درج ذیل آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے بعض مترجمین نے نفس کا مائل ہونا ترجمہ کیا ہے۔ لیکن یہ ترجمہ لفظ ’أُحْضِرَتْ‘ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ نفس میں شامل ہوجانا اور رچ بس جانا اس کا صحیح مفہوم ہے۔ اسی طرح نیچے آپ دیکھیں گے کہ شحّ کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی اس کے لیے خود غرضی کا لفظ تجویز کرتے ہیں۔
وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ ۔(النساء: 128)
’’نفس تنگ دلی کے طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’طمع ہر ہر نفس میں شامل کردی گئی ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’طبیعتوں میں حرص رچی بسی ہوئی ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’خود غرضی نفوس میں رچی بسی ہے‘‘۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(540) ألم نستحوذ علیکم
قرآن مجید میں دو مقامات پر استحوذ مختلف صیغوں میں آیا ہے۔ درج ذیل آیت میں أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ کا مفہوم متعین کرنے میں مفسرین کو دشواری محسوس ہوئی ہے۔ کیوں کہ استحوذ کا مطلب غالب ہونا سمجھ لیا گیا۔ یہاں منافقین کا ذکر ہے اور منافقین تو مشرکین پر غالب ہوئے نہیں تھے۔ غالب ہونے کا مفہوم لینے کے بعد پرتکلف تاویلیں کرنی پڑتی ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی نے استحوذ کا مطلب حفاظت کرنا لیا ہے۔ اس مفہوم کو اختیار کرنے سے بات واضح ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ کافروں کو کبھی کچھ غلبہ ملنے کی صورت میں یہ ان سے کہتے کہ ہم نے تمہاری حفاظت کی اور مومنوں کو تم تک پہنچنے سے روکا۔
دراصل حوذ کے اصل معنی گھیرلینے کے ہوتے ہیں۔ گھیرا بندی کبھی حفاظت کے لیے ہوتی ہے جیسے محافظین قائد کے گرد حفاظتی گھیرا ڈالتے ہیں اور کبھی کسی کو قابو میں کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
امام لغت خلیل فراہیدی لکھتے ہیں:
حوذ: حاذ یَحُوذ حَوْذاً، أی حاط یَحُوط حَوْطا۔ (العین)
فیروزابادی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ لفظ حفاظت کا مفہوم بھی دیتا ہے:
الحَوْذُ: الحَوْطُ، والسَّوْقُ السَّریعُ، کالإِحواذِ، والمُحافَظَۃُ علی الشیئِ۔ (القاموس المحیط)
امام خطابی نے ایک روایت کے حوالے سے اس مفہوم کو پیش کیا ہے:
وَقَالَ أَبُو سُلَیْمَانَ فِی حَدِیثِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: ’’عَلَمُ الإِیمَانِ الصَّلاۃُ فَمَنْ فَرَّغَ لَہَا قَلْبَہُ وَحَاذَ عَلَیْہَا بِحُدُودِہَا فَہُوَ مُؤْمِنٌ‘‘ حَدَّثَنِیہِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ یَعْقُوبَ الشَّافِعِیُّ ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ نا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْحَرَشِیُّ نا بَکْرُ بْنُ بَکَّارٍ نا حَمْزَۃُ الزَّیَّاتُ نا أَبُو سُفْیَانَ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ المشہور من ہذا حافظ علیہا فإن صحّ قولُہ: حاذَ فمعناہ ومعنی الأَوَّل سواء یقال حاذ عَلَی الشیء إذا حافظ علیہ۔ (غریب الحدیث للخطابی)
اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل آیتوں کے ترجمے ملاحظہ ہوں:
(1) الَّذِینَ یَتَرَبَّصُونَ بِکُمْ فَإِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِنَ اللَّہِ قَالُوا أَلَمْ نَکُنْ مَعَکُمْ وَإِنْ کَانَ لِلْکَافِرِینَ نَصِیبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ۔ (النساء: 141)
’’یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ ا گر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو اُن سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا؟‘‘۔ (سید مودودی)
’’وہ جو تمہاری حالت تکا کرتے ہیں تو اگر اللہ کی طرف سے تم کو فتح ملے کہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کا حصہ ہو تو ان سے کہیں کیا ہمیں تم پر قابو نہ تھا اور ہم نے تمہیں مسلمانوں سے بچایا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں اگر خدا کی طرف سے تم کو فتح ملے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے۔ اور اگر کافروں کو (فتح) نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانوں (کے ہاتھ) سے بچایا نہیں۔ تو خدا تم میں قیامت کے دن فیصلہ کردے گا۔ اور خدا کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا سا غلبہ مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا؟‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’ان کو جو تمہارے لیے گردشوں کے منتظر ہیں۔ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے کوئی فتح حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کی کوئی جیت ہوجائے تو کہتے ہیں کیا ہم تم پر چھائے نہیں رہے اور ہم نے مسلمانوں سے تم کو بچایا نہیں؟‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں یَتَرَبَّصُونَ بِکُمْ صرف گردشوں کے منتظر ہونے کے لیے نہیں ہے، بلکہ ہر طرح کے انجام کا انتظار کرنے کے لیے ہے، وہ اچھا ہو یا برا ہو۔)
صاحب تدبر نے ترجمہ کیا ہے: ’’کیا ہم تم پر چھائے نہیں رہے‘‘۔ ان کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حفاظت کرنے کا مفہوم ان کے پیش نظر ہے۔
مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں، اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ ا گر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو اُن سے کہیں گے کہ کیا ہم تم کو اپنی حفاظت میں نہیں لیے رہے اور مومنین سے بچاتے رہے؟‘‘۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ المجادلۃ کی درج ذیل آیت میں اسْتَحْوَذَ کا مطلب غالب ہونا مان لیا گیا اور اسی بنا پر درج بالا سورۃ النساء کی آیت میں بھی اس لفظ کا ترجمہ غالب ہونا کیا گیا۔ حالاں کہ یہاں بھی غالب ہونا نہیں بلکہ گھیرے میں لینا مراد ہے۔
(2) اسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطَانُ فَأَنْسَاہُمْ ذِکْرَ اللَّہِ أُولَئِکَ حِزْبُ الشَّیْطَانِ۔ (المجادلۃ: 19)
’’شیطان اُن پر مسلط ہو چکا ہے اور ا ُس نے خدا کی یاد اُن کے دل سے بھلا دی ہے وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’شیطان نے ان کو قابو میں کرلیا ہے۔ اور خدا کی یاد ان کو بھلا دی ہے۔ یہ (جماعت) شیطان کا لشکر ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’ان پر شیطان غالب آگیا تو انہیں اللہ کی یاد بھلا دی، وہ شیطان کے گروہ ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
یہاں غالب آنے کے بجائے مسلط ہونا اور قابو میں کرلینا زیادہ موزوں ترجمہ ہے۔ یہاں بھی اس لفظ کا اصل معنی یعنی گھیرا بندی کرنا مراد ہے۔ لیکن ایسی گھیرا بندی جس سے وہ اس کے دام میں آجائے۔ یعنی کوئی کشمکش یا جنگ نہیں تھی جس میں شیطان کو ان پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ بلکہ شیطان نے ان کی گھیرا بندی کرکے انھیں اپنی پارٹی میں شامل کرلیا۔
(541) وہو خادعہم
خدع کا معنی دھوکہ دینا ہوتا ہے اور غرّ کا معنی دھوکے میں ڈالنا ہوتا ہے۔ درج ذ یل آیت میں خادعھم خدع سے ہے جس کا مطلب دھوکہ دینا ہے نہ کہ دھوکے میں ڈالنا۔ اللہ نے اپنے لیے خادعھم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ عربی کا اسلوب ہے۔ ان کا عمل خدعۃ (دھوکہ دینا) ہے اور اللہ تعالی اس دھوکے کا توڑ کرتا ہے، اس مناسبت سے دھوکے کے توڑ کو بھی خدعۃ یعنی دھوکہ کہا گیا۔ کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کی متعدد نظیریں ہیں۔
إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللَّہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ۔ (النساء: 142)
’’یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ در حقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، چالبازی کا بدلہ دینے والا لفظ کا ترجمہ نہیں بلکہ خادعھم کے مفہوم کی توجیہ ہے۔)
’’یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر تے ہیں حالاں کہ درحقیقت وہی ان کو دھوکہ دے رہا ہے‘‘۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(542) أن تجعلوا للہ
درج ذیل آیت کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
أَتُرِیدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مُبِینًا۔ (النساء: 144)
’’کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی صاف حجت قائم کرلو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو؟‘‘۔ (سید مودودی)
’’کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا صریح الزام لو؟‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’کیا یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کے لیے صریح حجت کرلو‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کی صریح حجت قائم کرالو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا تراجم میں أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّہِ کا دقیق ترجمہ نہیں کیا گیا۔ مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
’’کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت فراہم کر دو؟‘‘
(543) وما قتلوہ یقینا
سوال یہ ہے کہ درج ذیل آیت میں یقینًا کا تعلق قتلوہ سے ہے یا ما قتلوہ سے؟
وَمَا قَتَلُوہُ یَقِینًا۔ (النساء: 157)
’’انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا‘‘۔ (سید مودودی)
اس ترجمے سے مفہوم نکلتا ہے کہ انھیں شبہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا یا نہیں کیا، وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے قتل کیا۔ یعنی یقینًا کا تعلق قتلوہ سے ہے۔
’’اور اس کو مارا نہیں بے شک‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
ان ترجموں سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ان کا قتل کرنے کا دعوی یک سر غلط ہے اور انھوں نے یقینًا قتل نہیں کیا ہے۔ یعنی یقینًا کا تعلق ما قتلوہ سے ہے۔
یہ دوسرا مفہوم ہی زیادہ مناسب ہے۔ سیاق کلام اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ قرآن ان کے دعوے کی مکمل تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یقینًا انھوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا ہے۔
’’قتل اس کو انہوں نے ہرگز نہیں کیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں ہرگز کا محل نہیں ہے، ہرگز سے یقیناً کے مفہوم کی ادائیگی نہیں ہوتی ہے۔)
(544) فبظلم من الذین ہادوا
یہاں ظلم نکرہ ہے اور عام ہے، اسی طرح الذین ھادوا بھی عام ہے۔ نہ کسی مخصوص ظلم کا ذکر ہے اور نہ یہود کے کسی مخصوص گروہ کا ذکر ہے۔ اس لیے ترجمہ پورے عموم کے ساتھ کرنا چاہیے۔
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِینَ ہَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ۔ (النساء: 160)
’’سو یہود کے ان ہی بڑے بڑے جرائم کے سبب ہم نے بہت سی پاکیزہ چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں ان پر حرام کردیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’یہودیوں کے ایسے ہی مظالم اور زیادتیوں کی وجہ سے ہم نے وہ بہت سی پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں، جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’غرض اِن یہودی بن جانے والوں کے اِسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر‘‘۔ (سید مودودی)
درج بالا دونوں ترجموں میں ظلم کی بے جا تخصیص کردی گئی۔
’’پس ان یہودیوں کے ظلم کی بنا پر‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’پس ان یہود ہی کے ظلم کے سبب سے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، ’ہی‘ کی ضرورت نہیں ہے)
درج بالا ترجموں میں یہود کی بے جا تخصیص کردی گئی۔
’’پس یہودیوں کے ظلم کے سبب سے‘‘۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(545) لکن الراسخون فی العلم منہم والمؤمنون
درج ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
لَکِنِ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالْمُقِیمِینَ الصَّلَاۃَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أُولَئِکَ سَنُؤْتِیہِمْ أَجْرًا عَظِیمًا۔ (النساء: 162)
’’مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اُس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی اِس طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روز آخر پر سچا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے‘‘۔ (سید مودودی)
اس ترجمے میں کچھ کم زوریاں ہیں۔ الْمُؤْمِنُونَ کا ترجمہ ایمان دار کیا ہے۔ حالاں کہ اردو میں مومن کے لیے ایمان دار استعمال نہیں ہوتا ہے، ایمان والے کہا جاتا ہے۔
’اِس طرح کے ایمان لانے والے‘ یہ بھی اضافہ ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک اور کم زوری یہ ہے کہ ترجمے میں اصل جملے کے درو بست کی رعایت نہیں کی ہے۔ آخر میں أُولَئِکَ سَنُؤْتِیہِمْ أَجْرًا عَظِیمًا مستقل جملہ ہے، جب کہ ترجمے میں اس کی یہ کیفیت ختم ہوگئی ہے۔
’’البتہ ان میں سے جو علم میں پختہ ہیں اور جو ایمان دار ہیں، وہ سب اس پر ایمان لاتے ہیں، جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ نماز کو قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم بہت بڑا اجر و ثواب عطا کریں گے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
اس میں بھی الْمُؤْمِنُونَ کا ترجمہ ایمان دار کیا ہے۔
درج ذیل ترجمہ ان کم زوریوں سے خالی ہے:
’’البتہ ان میں جو علم میں راسخ اور صاحب ایمان ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی اور جو تم سے پہلے اتاری گئی اور خاص کر نماز قائم کرنے والے اور زکوۃ دینے والے اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے۔ یہ لوگ ہیں جن کو ہم اجر عظیم دیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(546) وَکَلَّمَ اللَّہُ مُوسَی تَکْلِیمًا
درج ذیل آیت میں تکلیما کا ترجمہ کرنے میں لوگوں نے الگ الگ راہیں نکالی ہیں:
کچھ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَکَلَّمَ اللَّہُ مُوسَی تَکْلِیمًا۔ (النساء: 164)
’’ہم نے موسیٰؑ سے اِس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور اللہ نے موسیٰ سے اس طرح کلام کیا جیساکہ کلام کرنے کا حق ہے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ اور موسیٰ سے تو خدا نے باتیں بھی کیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی یہاں ترجمہ کرتے ہیں:
’’اور اللہ نے موسی سے خصوصی گفتگو کی‘‘۔
اسی سے ملتا جلتا درج ذیل ترجمہ ہے:
’’اور موسیٰ سے اللہ تعالی نے خاص طور پر کلام فرمایا‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
(547) لن یستنکف
فعل مضارع سے پہلے جب لن آتا ہے تو فعل مضارع مستقبل کا معنی دیتا ہے۔ درج ذیل آیت میں اکثر مترجمین نے ماضی اور حال کا ترجمہ کیا ہے:
لَنْ یَسْتَنْکِفَ الْمَسِیحُ أَنْ یَکُونَ عَبْدًا لِلَّہِ وَلَا الْمَلَائِکَۃُ الْمُقَرَّبُونَ۔ (النساء: 172)
’’مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو، اور نہ مقرب ترین فرشتے اِس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ نفرت نہیں کرتا اور نہ مقرب فرشتے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’مسیح اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ خدا کے بندے ہوں اور نہ مقرب فرشتے (عار رکھتے ہیں)‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’نہ مسیح کو اس بات سے انکار ہے کہ وہ بندئہ خدا ہیں اور نہ ملائکہ مقربین کو اس کی بندگی سے کوئی انکار ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’عیسیٰ مسیح اللہ کا بندہ ہونے میں اپنے لیے عار نہیں سمجھتے اور نہ ہی مقرب فرشتے اس میں اپنے لیے کوئی عار محسوس کرتے ہیں‘‘۔(محمد حسین نجفی)
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
’’اور مسیح کو ہرگز اللہ کا بندہ بننے سے عار نہ ہوگا اور نہ مقرب فرشتوں کو عار ہوگا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)