مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی

امریکہ کے صدر جناب ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگی ماحول میں مداخلت کرتے ہوئے جنگ بندی پر دونوں فریقوں کو آمادہ کیا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ہم نے اس سلسلہ میں (ٹویٹر پر) عرض کیا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ کی کوششوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہوتی ہے اور کشمیری عوام کو آزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق ملتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے لیکن اگر ٹال مٹول اور وقت گزاری کے لیے یہ سب کچھ ہونا ہے تو گذشتہ پون صدی سے یہی کچھ مسلسل ہوتا آ رہا ہے، اس سے حالات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

البتہ تین عشرے قبل کی ایک تحریر قارئین کی خدمت میں دوبارہ پیش کرنے کو جی چاہ رہا ہے جس سے کشمیر کے حوالہ سے امریکہ کے اصل مقاصد کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، جو ماہنامہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شمارہ اگست ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی تھی:


نوائے وقت لاہور ۲۲ جولائی ۱۹۹۶ء نے خبر رساں ایجنسی این این آئی کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے خودمختار کشمیر کا منصوبہ بنا لیا ہے اور اس کے لیے اس کے سفارتکار متحرک ہو گئے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کے ساتھ امریکہ اور دیگر مغربی قوتوں کی دلچسپی صرف اس قدر رہی ہے کہ وہ اسے جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان حالتِ جنگ کو مسلسل برقرار رکھنے کے لیے ایک ضرورت سمجھتے رہے ہیں، اور ان کی اب تک کی پالیسیاں اسی ضرورت کے گرد گھومتی رہی ہیں۔ لیکن اب کچھ عرصہ سے امریکہ بہادر کی طرف سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی خواہش سامنے آ رہی ہے۔ اس کے پس منظر میں بھی امریکہ کی ایک ضرورت صاف جھلک رہی ہے کہ اسے چین سے نمٹنے کے لیے اس کے پڑوس میں ایک مضبوط فوجی بیس درکار ہے، جو ظاہر ہے کہ کشمیر سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

چنانچہ اس قسم کی تجاویز سامنے آ رہی ہیں کہ کشمیر کا جو علاقہ پاکستان کے پاس ہے وہ اس کے پاس رہنے دیا جائے، اور جموں کا علاقہ بھارت کو دے کر وادئ کشمیر کو خودمختار ریاست بنا دیا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ نوزائیدہ خودمختار کشمیر کو اپنے تحفظ اور بقا کے لیے عالمی طاقتوں کی امداد اور سہارے کی ضرورت ہو گی، اور امریکہ بہادر اسے اپنی گود میں لے کر یہ تحفظ آسانی کے ساتھ فراہم کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ اپنے بہتر تعلقات کے باوجود عالمی فورم پر کچھ عرصہ سے کھچا کھچا سا نظر آ رہا ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں امریکی سفارت کاروں کی سرگرمیوں میں جس طرح اضافہ ہوا ہے اس کے پیش نظر آزادکشمیر کے وزیراعظم سردار محمد عبد القیوم خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’کشمیر میں ضرور کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے‘‘۔ اور لگتا ہے کہ امریکہ بہادر اب اس مسئلہ کو آخری انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔

ہمیں کشمیری عوام اور مجاہدین سے ہمدردی ہے جو نصف صدی سے اپنے دینی تشخص کے تحفظ اور خود ارادیت کے مسلّمہ حق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور ہم نے ان کی جدوجہد کی ہمیشہ حمایت کی ہے، لیکن ان کی طویل جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے اس انجام سے بھی ڈر لگ رہا ہے۔ گزشتہ روز جہادِ کشمیر کے محاذ پر کام کرنے والے ایک راہنما سے اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے اس خدشہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اب چونکہ خود کشمیری عوام جہاد میں شریک ہیں اس لیے ان کی مرضی کے بغیر کوئی حل ان پر مسلط نہیں کیا جا سکے گا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا ہی کر دیں کہ ان کے ہاں کوئی بات مشکل نہیں ہے، آمین یا رب العالمین۔

(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter