(225) القاسیۃ قلوبہم من ذکر اللہ کا ترجمہ
اَفَمَن شَرَحَ اللَّہُ صَدرَہُ لِلاِسلَامِ فَہُوَ عَلَیٰ نُورٍ مِّن رَّبِّہِ فَوَیل لِّلقَاسِیَةِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکرِ اللَّہِ اُولَٰئِکَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ۔ (الزمر: 22)
“اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے (اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟) تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے، وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں”۔ (سید مودودی)
“تو خرابی ہے ان کی جن کے دل یادِ خدا کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں”۔ (احمد رضا خان)
“پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)
“اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے (اثر نہیں لیتے بلکہ) سخت ہو گئے ہیں”۔(محمد جوناگڑھی، قوسین کا اضافہ الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔)
“تو ہلاکی ہے ان کے لیے جن کے دل اللہ کی یاددہانی قبول کرنے کے معاملے میں سخت ہوچکے ہیں”۔(امین احسن اصلاحی، من کا ترجمہ عن سے کیا گیا ہے۔)
مذکورہ بالا ترجموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو القَاسِیَۃِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکرِ اللَّہِ کا ترجمہ کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ کیونکہ اللہ کی یاد سے تو دل سخت نہیں ہوتے ہیں۔ اسی لیے بعض لوگوں نے من کو عن کے معنی میں لیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کی رائے عام مفسرین سے مختلف ہے، وہ یہاں تضمین مانتے ہیں، یعنی ایسا لفظ محذوف مانتے ہیں جس کا صلہ من ہو، کیونکہ القاسیة کا صلہ من نہیں آتا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق یہاں الخالیۃ کی تضمین مان لی جائے یعنی الخالیۃ من ذکر اللہ۔ اس طرح ترجمہ ہوگا “تباہی ہے ان کے لیے جن کے دل سخت ہیں ،اللہ کے ذکر سے خالی ہیں”۔بالفاظ دیگر “جن کے دل اللہ کے ذکر سے خالی ہونے کی وجہ سے سخت ہوگئے ہیں”۔ درج ذیل ترجمہ اس مفہوم سے قریب تر ہے:
“پس اُن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہو کر) سخت ہوگئے”۔ (طاہر القادری)
(226) اَسوَا الَّذِی عَمِلُوا کا ترجمہ
لِیُکَفِّرَ اللَّہُ عَنھُم اَسوَا َ الَّذِی عَمِلُوا وَیَجزِیَھُم اَجرَھُم بِاَحسَنِ الَّذِی کَانُوا یَعمَلُونَ۔ (الزمر: 35)
“تاکہ اللہ ان سے دفع کردے ان کاموں کے بدتر انجام کو جو انھوں نے کیے اور ان کو ان کے کاموں کا خوب تر صلہ دے جو انھوں نے کیے”۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمے میں اَسوَا الَّذِی عَمِلُوا کا ترجمہ ’کاموں کا بدتر انجام‘ کیا گیا ہے۔ یہ تکلف ہے۔ یہ سادہ لفظی ترکیب ہے جس کا مطلب ’بدترین کام‘ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تکفیر کا مطلب انجام کو دفع کرنا نہیں ہوتا ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے اور سب جگہ سیئات کے ساتھ آیا ہے۔ اس کا مطلب برائیوں پر پردہ ڈال دینا ہے۔ اسی طرح بِاَحسَنِ الَّذِی کَانُوا یَعمَلُونَ کا ترجمہ ’کاموں کا خوب تر صلہ‘ درست نہیں ہے، صلے کے لیے تو اَجرَہُم آیا ہے۔ درست مفہوم ’بہترین کام‘ ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجمہ صحیح ہے:
“تاکہ جو بد ترین اعمال انہوں نے کیے تھے انہیں اللہ ان کے حساب سے ساقط کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے اُن کے لحاظ سے اُن کو اجر عطا فرمائے”۔ (سید مودودی)
(227) وَالَّذِینَ ظَلَمُوا مِن ھَؤُلَاءِ کا ترجمہ
قَد قَالَہَا الَّذِینَ مِن قَبلِہِم فَمَا اَغنَیٰ عَنہُم مَّا کَانُوا یَکسِبُونَ۔ فَاَصَابَہُم سَیِّئَاتُ مَا کَسَبُوا وَالَّذِینَ ظَلَمُوا مِن ھَؤُلَاءِ سَیُصِیبُہُم سَیِّئَاتُ مَا کَسَبُوا۔ (الزمر: 50۔51)
“یہی بات ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی کہہ چکے ہیں، مگر جو کچھ وہ کماتے تھے وہ ان کے کسی کام نہ آیا۔ پھر اپنی کمائی کے برے نتائج انہوں نے بھگتے، اور اِن لوگوں میں سے بھی جو ظالم ہیں وہ عنقریب اپنی کمائی کے برے نتائج بھگتیں گے، یہ ہمیں عاجز کر دینے والے نہیں ہیں”۔ (سید مودودی)
“اور جو لوگ ان میں سے ظلم کرتے رہے ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)
“اوران میں سے بھی جو گناہ گار ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا آیت میں وَالَّذِینَ ظَلَمُوا مِن ھَؤُلَاءِ میں مِن کو تبعیضیہ مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہاں اشکال یہ ہے کہ سیاق کلام میں جن لوگوں کے بارے میں بات ہورہی ہے وہ سب منکرین ہیں اور سبھی ظلم میں ملوث ہے۔ مفسرین نے ھَؤُلَاءِ سے مراد زمانہ رسول ﷺ کی پوری انسانی امت کو لیا ہے۔ حالانکہ گفتگو سب کے بارے میں نہیں صرف اس دور کے ظالموں کے بارے میں ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کی رائے کے مطابق یہاں مِن بیانیہ ہے۔ اس طرح ترجمہ ہوگا:
“اور یہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا عنقریب اپنی کمائی کے برے نتائج بھگتیں گے”۔
(228) بِمَفَازَتِہِم کا ترجمہ
وَیُنَجِّی اللَّہُ الَّذِینَ اتَّقَو ا بِمَفَازَتِہِم لَا یَمَسُّہُمُ السُّوءُ وَلَا ہُم یَحزَنُونَ۔ (الزمر: 61)
“جن لوگوں نے یہاں تقویٰ کیا ہے ان کے اسباب کامیابی کی وجہ سے اللہ ان کو نجات دے گا، ان کو نہ کوئی گزند پہنچے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (سید مودودی، ایک اور غلطی یہ ہے کہ کامیابی کے بجائے اسباب کامیابی ترجمہ کیا گیا)
“اور جو پرہیزگار ہیں ان کی (سعادت اور) کامیابی کے سبب خدا ان کو نجات دے گا نہ تو ان کو کوئی سختی پہنچے گی اور نہ غمناک ہوں گے”۔(فتح محمد جالندھری)
“اور اللہ بچائے گا پرہیزگاروں کو ان کی نجات کی جگہ نہ انہیں عذاب چھوئے اور نہ انہیں غم ہو”۔ (احمد رضا خان)
“اور اللہ نجات دے گا ان لوگوں کو جو ڈرتے رہتے ہیں ان کے مامن میں۔ نہ ان کو کوئی گزند پہنچے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا آیت میں مفازۃ کا ترجمہ بعض لوگوں نے’کامیابی‘ اور بعض لوگوں نے’نجات کی جگہ‘ یا ’مامن‘ کیا ہے۔ مفازۃ کے دونوں معنی آتے ہیں۔ جن لوگوں نے کامیابی ترجمہ کیا ہے انھوں نے باءکو سبب کے مفہوم میں لیا ہے۔ لیکن کامیابی کی وجہ سے نجات ملنے کا مطلب واضح نہیں ہوتا ہے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات اور کامیابی دونوں تقوی کی وجہ سے حاصل ہوں گے۔ مفازۃ کا ترجمہ مامن کرنے سے کوئی خاص مفہوم سامنے نہیں آتا۔ کیونکہ نجات کا تذکرہ تو ہوہی چکا ہے۔ صحیح توجیہ یہ ہے کہ مفازۃ کو کامیابی کے معنی میں لیا جائے اور باءکو سبب کے بجائے مصاحبت کے معنی میں لیا جائے۔ درج ذیل ترجمہ اس توجیہ کے مطابق ہے:
“اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وہ کسی طرح غمگین ہوں گے”۔ (محمد جوناگڑھی)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوی اختیار کرنے والوں کو نجات بھی ملے گی اور ساتھ میں کامیابی بھی ملے گی۔ آگے لَا یَمَسُّہُمُ السُّوءُ وَلَا ہُم یَحزَنُونَ میں دونوں باتیں آگئیں۔ لَا یَمَسُّہُمُ السُّوءُ (نجات) اور لَا ہُم یَحزَنُونَ (کامیابی)۔
(229) مُتَشَاکِسُونَ کا ترجمہ
ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیہِ شُرَکَاءُ مُتَشَاکِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ہَل یَستَوِیَانِ مَثَلًا الحَمدُ لِلَّہِ بَل اَکثَرُہُم لَا یَعلَمُونَ۔ (الزمر: 29)
“اللہ ایک مثال دیتا ہے ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے، کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتاہے؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں”۔ (سید مودودی)
“اللہ ایک مثال بیان فرماتا ہے ایک غلام میں کئی بدخو آقا شریک”۔ (احمد رضا خان)
“خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک ہیں۔ (مختلف المزاج اور) بدخو”۔ (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ بالا ترجموں میں متشاکسون کے مفہوم میں کج خلق اور بدخو کا بھی ذکر کیا گیا ہے، بعض نے تو بد خو ہی پر اکتفا کیا ہے۔ لغت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ میں بدخو کا مفہوم نہیں ہے، بلکہ ایسے اختلاف کا مفہوم ہے جس میں ضد شامل ہوجائے اور کوئی حل نہ نکلے۔ لسان العرب میں ہے: والشرکاءالمُتَشاکِسُون: العَسِرُونَ المختلفون الذین لا یتفقون۔
اس پہلو سے درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:
“اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
“اللہ تمثیل بیان کرتا ہے ایک غلام کی، جس میں کئی مختلف الاغراض آقا شریک ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
(230) وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِہِ کا ترجمہ
وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِہِ اُولٰئِکَ ہُمُ المُتَّقُونَ۔ (الزمر: 29)
“اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی، یہی ڈر والے ہیں”۔ (احمد رضا خان)
“اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جنہوں نے اس کو سچ مانا، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں”۔ (سید مودودی، متقون کا مطلب’عذاب سے بچنے والے‘ بھی محل نظر ہے۔)
“اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ متقی ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)
“اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
“اور جو سچی بات لے کر آیا اور جنھوں نے اس کی تصدیق کی، وہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا آیت میں الذی ایک بار آیا ہے لیکن عام طور سے لوگوں نے اسم موصول کا دوبار ترجمہ کیا ہے، یعنی صَدَّقَ بِہِ سے پہلے بھی الذی اسم موصول محذوف مانا ہے۔ اور پھر بعض نے اس کا ترجمہ’جس نے‘ اور بعض نے’جنہوں نے‘ کیا ہے۔ تفاسیر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم موصول کو محذوف ماننے کی وجہ یہ ہے کہ بعض مفسرین نے الَّذِی جَاءَ بِالصِّدقِ سے اللہ کے رسول کو مراد لیا ہے جو حق لے کر تشریف لائے اور صَدَّقَ بِہِ سے مراد آپ کی تصدیق کرنے والے کو مراد لیا ہے۔ حالانکہ اسم موصول کو محذوف ماننا اور صلے کو باقی رکھنا عربی قواعد کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ علامہ آلوسی نے لکھا ہے: وعَلی الاقوالِ الثَّلاثَۃَ یَقتَضِی اضمارُ الَّذِی وہو غَیرُ جائِزٍ عَلی الاصَحِّ عِندَ النُّحاةِ مِن انَّہُ لا یَجُوزُ حَذفُ المَوصُولِ وابقاءُ صِلَتِہِ مُطلَقًا ای سَواء عُطِفَ عَلی مَوصُولٍ آخَرَ ام لا۔ (تفسیر روح المعانی)
دراصل اس تکلف کی ضرورت اس لیے پڑی کہ جاء بالصدق کا محدود مفہوم پیش نظر رکھا گیا، یعنی رسول کا سچا پیغام لانا۔ حالانکہ جو بھی‘سچ بات’کا علم بردار ہو وہ اس تعبیر میں شامل ہوجائے گا۔ ایک مومن سچائی کی تصدیق بھی کرتا ہے اور اس کا داعی و علم بردار بھی ہوتا ہے۔ اگر اس آیت کو اس سے پہلے والی آیت سے ملاکر دیکھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے۔
فَمَن اَظلَمُ مِمَّن کَذَبَ عَلَی اللَّہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدقِ اِذ جَاء َہُ اَلَیسَ فِی جَہَنَّمَ مَثوی لِّلکَافِرِین۔ وَالَّذِی جَائَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِہِ اولَئِکَ ہُمُ المُتَّقُونَ۔
علامہ ابوحیان نے توجہ دلائی کہ جاء بالصدق مقابلے میں آیا ہے کَذَبَ عَلَی اللَّہِ کے، جس طرح صَدَّقَ بِہِ مقابلے میں آیا ہے کَذَّبَ بِالصِّدقِ کے۔ یعنی ایک وہ ہے جو اللہ کے بارے میں جھوٹ باتیں منسوب کرتا ہے اور سچ بات کی تکذیب کرتا ہے، اور ایک وہ ہے جو سچ بات کہتا ہے اور سچ بات کی تصدیق کرتا ہے۔
اس وضاحت کی روشنی میں ترجمہ ہوگا:
“اور جس نے سچی بات پیش کی اور اس کی تصدیق کی، وہی لوگ تقوی اختیار کرنے والے ہیں”۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(231) وَیَحِلُّ عَلَیہِ عَذَاب مُّقِیم کا ترجمہ
قُل یَا قَومِ اعمَلُوا عَلَیٰ مَکَانَتِکُم اِنِّی عَامِل فَسَوفَ تَعلَمُونَ۔ مَن یَاتِیہِ عَذَاب یُخزِیہِ وَیَحِلُّ عَلَیہِ عَذَاب مُّقِیم۔ (الزمر:39۔ 40)
“کہہ دیجیے کہ اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کیے جاو میں بھی عمل کر رہا ہوں، ابھی ابھی تم جان لوگے کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی مار اور ہمیشگی کی سزا ہوتی ہے”۔(محمد جوناگڑھی)
“کہ کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں”۔ (سید مودودی)
“کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے گا اور کس پر اترتا ہے عذاب کہ رہ پڑے گا”۔ (احمد رضا خان)
“کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا۔ اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہوتا ہے”۔ (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ بالا آیت میں‘من’ ایک بار آیا ہے،’مَن یَاتِیہِ عَذَاب یُخزِیہِ‘ میں، اس کے بعد ’وَیَحِلُّ عَلَیہِ عَذَاب مُّقِیم‘ میں ’من‘ نہیں آیا ہے۔ لیکن ترجمہ کرنے والوں نے اس طرح ترجمہ کیا ہے گویا دو گروہوں کا تذکرہ ہو جن پر الگ الگ طرح کا عذاب آئے۔ حالانکہ یہاں ایک گروہ کا تذکرہ ہے اور اس پر آنے والے عذاب کے دو پہلووں کا بیان ہے، یعنی عذاب آئے گا جو رسوا کردے گا، اور وہ عذاب ٹک جانے والا عذاب ہوگا۔ درست ترجمہ اس طرح ہے:
“کہ کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور ایسا عذاب نازل ہوتا ہے جو کبھی ٹلنے والا نہیں”۔
(232) یتوفی کا ترجمہ
اللّہُ یَتَوَفَّی الاَنفُسَ حِینَ مَوتِہَا وَالَّتِی لَم تَمُت فِی مَنَامِہَا فَیُمسِکُ الَّتِی قَضَیٰ عَلَیہَا المَوتَ وَیُرسِلُ الاُخرَیٰ اِلَیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی۔ (الزمر: 42)
“اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سوتے میں پھر جس پر موت کا حکم فرمادیا اسے روک رکھتا ہے اور دوسری ایک میعاد مقرر تک چھوڑ دیتا ہے”۔ (احمد رضا خان)
“اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت، اور جن کی موت نہیں آئی ہونی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں۔ تو جن کی موت کا فیصلہ کرچکا ہوتا ہے ان کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اُس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اُسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے”۔ (سید مودودی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں یتوفی کا ترجمہ کرتے ہیں’اپنے قبضے میں کرلیتا ہے‘۔ اس سے یہ آیت کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ نیند کی حالت میں موت آجاتی ہے، یا روح جسم سے نکل جاتی ہے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی نیند کی حالت میں بالکل بے اختیار ہوجاتا ہے، ایک طرح سے اللہ کے قبضے میں چلا جاتا ہے اور دوبارہ بیدار ہونا اس کے اپنے اختیار میں نہیں رہتا ہے۔ اس کی جان اللہ کے قبضے میں ہوتی ہے اور اسی کی مشیت سے وہ دوبارہ بیدار ہوتا ہے۔ آیت میں توفی کا بھی ذکر ہے اور موت کا ذکر بھی ہے۔ اس مفہوم سے دونوں کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ مزید یہ کہ یتوفی کو یمسک اور یرسل کے ساتھ ملاکر دیکھنے سے مفہوم کو سمجھنے میں زیادہ مدد مل سکتی ہے۔ درج ذیل ترجمہ ملاحظہ کریں:
“اللہ اپنے قبضے میں کرلیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت، اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ہے ان کو ان کی نیند کی حالت میں۔ تو جن کی موت کا فیصلہ کرچکا ہوتا ہے ان کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے”۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(233) عما یشرکون کا ترجمہ
قرآن میں یہ تعبیر متعدد مقامات پر آئی ہے۔ اس میں مفسرین نے عام طور سے ’ما‘ کو مصدریہ مانا ہے، جس سے پورے جملے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے پاک اور بالاتر ہے کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ یعنی اس کے ساتھ شرک کرنا اس کی شان کے خلاف ہے۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا پستی اور گندگی ہے، اللہ کی ذات اس سے بہت بلند اور پاک ہے۔
اس تعبیر کی دوسری ممکنہ توجیہ یہ ہے کہ ’ما‘ کو موصولہ مانا جائے کا، جس سے پورے جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ جن چیزوں کو اللہ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے اللہ ان چیزوں سے پاک اور بالاتر ہے۔ نحوی لحاظ سے تو اس توجیہ میں کوئی خامی نہیں ہے، لیکن معنی و مفہوم کے لحاظ سے یہ توجیہ کم زور معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ کا شرک سے پاک ہونا اور بالاتر ہونا تو بالکل واضح ہے۔ صاحب تدبر کے الفاظ میں: ”خدا کی صفات کے ساتھ ایسی صفات کا جوڑ ملانا جو اس کی بنیادی صفات کو باطل کردیں بالکل خلاف عقل ہے۔ شرک، جس نوعیت کا بھی ہو، تمام صفات کمال کی نفی کردیتا ہے اس وجہ سے خدا ایسی تمام نسبتوں اور شرکتوں سے منزہ اور ارفع ہے۔”(تدبر قرآن، سورة الاعراف: 190 کی تفسیر میں) لیکن جن چیزوں کو شریک کیا جاتا ہے ان سے پاک ہونے کا مطلب بتانے کے لیے تاویل کا تکلف کرنا پڑتا ہے۔
مترجمین کے یہاں عام طور سے تو ’ما‘ مصدریہ کا ترجمہ ملتا ہے لیکن بہت سے مترجمین نے کہیں کہیں ’ما‘ موصولہ کا ترجمہ بھی کردیا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ وہ توجہ کی کمی کا نتیجہ ہے۔ البتہ خاص بات یہ ہے کہ صاحب تفہیم نے ہر جگہ ’ما‘ مصدریہ کا ترجمہ کیا ہے اور صاحب تدبر نے ہر جگہ ’ما‘ موصولہ کا ترجمہ کیا ہے۔ بہرحال موزوں تر مفہوم وہی معلوم ہوتا ہے جو ’ما‘ کو مصدریہ ماننے سے سامنے آتا ہے۔ ذیل میں ایسے مقامات کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
فَتَعَالَی اللَّہُ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الاعراف: 190)
“سو اللہ پاک ہے ان کے شرک سے”۔ (محمد جوناگڑھی)
“اللہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
سُبحَانَہُ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (التوبة: 31)
“وہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے”۔(محمد جوناگڑھی)
سُبحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (یونس: 18)
“وہ پاک اور ارفع ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے”۔(محمد جوناگڑھی)
سُبحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (النحل: 1)
“وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے”۔ (احمد رضا خان)
“وہ برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
“پاک ہے وہ اور بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں”۔ (سید مودودی)
تَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (النحل: 3)
“وہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک گردانتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی، یہ ترجمہ درست نہیں ہے، مشرک جو کرتے ہیں اس کی بات نہیں ہے بلکہ وہ جو شرک کرتے ہیں اس کی بات ہے۔)
“وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔ (سید مودودی)
“وہ ان کے شرک سے برتر ہے”۔ (احمد رضا خان)
فَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (المومنون: 92)
“برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ تجویز کر رہے ہیں “۔(سید مودودی، تجویز کرنا درست نہیں ہے، بلکہ کررہے ہیں۔)
تَعَالَی اللَّہُ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (النمل: 63)
“اللہ بہت ہی برتر ہے ان چیزوں سے جن کویہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند وبالاتر ہے”۔ (محمد جوناگڑھی)
“بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔(سید مودودی)
سُبحَانَ اللَّہِ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (القصص: 68)
“اللہ پاک وبرتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں”۔(محمد جوناگڑھی)
“اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔ (سید مودودی)
سُبحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الروم: 40)
“وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ پاک ہے اور (اس کی شان) ان کے شریکوں سے بلند ہے”۔ (فتح محمد جالندھری)
“اللہ تعالیٰ کے لیے پاکی اور برتری ہے ہر اس شریک سے جو یہ لوگ مقرر کرتے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
“پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔(سید مودودی)
سُبحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الزمر: 67)
“وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک بناتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
“پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔ (سید مودودی)
سُبحَانَ اللَّہِ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الطور: 43)
“اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک گردانتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے”۔(محمد جوناگڑھی)
سُبحَانَ اللَّہِ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الحشر: 23)
“اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں”۔(محمد جوناگڑھی)
“پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں” ۔ (سید مودودی)