(598) غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں غیر کا تعلق صراط (راستے) سے ہے یا الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ (وہ لوگ جن پر اللہ کا انعام ہوا) سے؟ اس سلسلے میں ہمیں عربی تفاسیر میں دونوں موقف ملتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ صراط حالت نصب میں ہے، الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ حالت جر میں ہے اور غیر بھی حالت جر میں ہے۔ اس لیے اقرب توجیہ یہ ہے کہ غیر کو صراط کی صفت کے بجائے الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کی صفت بنانا چاہیے۔ جن لوگوں نے غیر کو صراط کی صفت بنایا ہے انھیں اس کی پرتکلف توجیہ کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود اردو تراجم میں زیادہ لوگوں نے غیر کو صراط کی صفت مان کر ترجمہ کیا ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:
صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ۔ (الفاتحہ: 7)
’’راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا، نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، وضاحتی قوسین حذف کرکے)
’’ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے، نہ رستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستہ سے گم ہوئے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا، ان کا نہیں جو تیرے غضب کا نشانہ بنے نہ ہی ان کا جو راہ راست سے بھٹک گئے‘‘۔ (صدرالدین اصلاحی)
درج بالا ترجموں میں غیر کو صراط کی صفت مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ البتہ درج ذیل ترجمے غیر کو الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کی صفت بنا کر ترجمہ کرتے ہیں:
’’ان لوگوں کی جن پر تونے فضل کیا نہ جن پر غصہ ہوا اور نہ بہکنے والے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
(599) وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُونَ کا ترجمہ
وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُونَ۔ (البقرۃ: 3)
’’اور اس رزق میں سے جو ہم نے انہیں بخشا ہے، ایک حصہ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (صدرالدین اصلاحی)
اس ترجمے میں’’ایک حصہ‘‘ مناسب تعبیر نہیں ہے۔
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اور ہمارے دیے ہوئے (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
(600) وَبِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں ’’ھم‘‘ کی معنویت کو کیسے ظاہر کیا جائے؟
درج ذیل ترجموں میں ’’بھی‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔
وَبِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ۔ (البقرۃ: 4)
’’اور (پھر یہ کہ) آخرت پر بھی گہرا یقین رکھتے ہیں‘‘۔ (صدرالدین اصلاحی)
’’اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں‘‘۔ (ذیشان جوادی)
مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی کا درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
’’اور آخرت پر وہی گہرا یقین رکھتے ہیں‘‘۔
گویا ھم کی وجہ سے ـ’ـوہی‘ کا معنی پیدا ہوگیا۔
(601) اشْتَرَوُا الضَّلَالَۃَ بِالْہُدَی کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں اشْتَرَوُا کا لفظ آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں معروف معنی میں دو چیزوں کا تبادلہ مراد نہیں ہے۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ ایک چیز سے دست بردار ہوکر دوسری چیز اختیار کرلی۔
أُولَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَۃَ بِالْہُدَی۔ (البقرۃ: 16)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت دے کر گمراہی خریدی ہے‘‘۔(صدرالدین اصلاحی)
’’یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کو دے کرگمراہی خرید لی ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
درج بالا دونوں ترجمے درست نہیں ہیں کیوں کہ ہدایت کسی کو دے کر اس سے گم راہی نہیں لی گئی۔
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا ‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
درج بالا دونوں ترجمے درست ہوسکتے ہیں اس معنی میں نہیں کہ دونوں چیزوں کا تبادلہ ہوا بلکہ اس معنی میں کہ انھیں ہدایت لینی چاہیے تھی لیکن انھوں نے ہدایت نہ لے کر گم راہی لے لی۔
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(602) ہُدًی کا ترجمہ
فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّی ہُدًی۔ (البقرۃ: 38)
’’پھر وہاں جو میری طرف سے کوئی ہدایت نامہ تمہارے پاس پہنچے‘‘۔ (صدرالدین اصلاحی)
اس ترجمے میں ھدی کا ترجمہ ہدایت نامہ کیا گیا ہے۔ لیکن ھدی عام ہے، اس میں ہر طرح کی ہدایت شامل ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ قدیم ترین زمانے میں رسولوں کے ساتھ زبانی ہدایت آتی رہی ہو کتاب کی صورت میں نہیں ہو۔ ہدایت نامہ کہنے سے بات محدود ہوجاتی ہے۔
’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے‘‘۔ (سید مودودی، ’’کوئی‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔)
’’جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، ’’میری ہدایت‘‘ نہیں بلکہ ’’میری طرف سے ہدایت‘‘ ہونا چاہیے۔)
’’جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(603) وَلَا تَسْقِی الْحَرْثَ کا ترجمہ
درج ذیل جملے میں الحرث یعنی کھیتی کا ذکر ہے۔ بعض ترجموں میں یہ نظر انداز ہوگیا ہے۔
وَلَا تَسْقِی الْحَرْثَ۔ (البقرۃ: 71)
’’ نہ پانی کھینچتی ہے‘‘۔(سید مودودی)
’’نہ پانی کھینچتی ہو‘‘۔ (صدرالدین اصلاحی)
درج ذیل ترجموں میں الحرث کا ترجمہ کیا گیا ہے:
’’اور نہ کھیتی کو پانی دیتا ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
(604) وَأَنْتُمْ تَشْہَدُونَ کا ترجمہ
درج ذیل جملے میں وَأَنْتُمْ تَشْہَدُونَ اقرار کے وقت کا بیان نہیں ہے بلکہ موجودہ حال کا بیان ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ اقرار کرتے وقت تم گواہ بنے تھے۔ بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ آج تم خود اس کے شاہد و گواہ ہو کہ تم نے یہ اقرار کیا تھا۔
ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْہَدُونَ۔ (البقرۃ: 84)
’’اور تم نے خود شاہد بنتے ہوئے اس کا اقرار بھی کرلیا تھا‘‘۔ (صدرالدین اصلاحی)
’’تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو‘‘۔(سید مودودی)
(605) فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی کا ترجمہ
أُجِیبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی۔ (البقرۃ: 186)
’’میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں‘‘۔ (سید مودودی)
فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی کے درج ذیل ترجمے توجہ طلب ہیں:
’’پس انھیں چاہیے کہ میری پکار کا بھی جواب دیں‘‘۔(صدرالدین اصلاحی)
یہاں جملے میں ’’بھی‘‘ کا محل درست نہیں ہے۔ درست محل کے لحاظ سے جملہ حسب ذیل ہونا چاہیے:
’’ پس انھیں چاہیے بھی کہ میری پکار کا جواب دیں‘‘۔(صدرالدین اصلاحی)
’’لہٰذا مجھ سے طلب قبولیت کریں‘‘۔ (ذیشان جوادی)
اگرچہ استجاب باب استفعال سے ہے، لیکن استجاب میں طلب نہیں بلکہ مبالغہ ہے۔ استجاب أجاب کے معنی میں ہے۔ اس لیے درج بالا ترجمہ موزوں نہیں ہے۔
(606) الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ کا ترجمہ
درج ذیل قرآنی عبارت کے ترجمے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مفہوم واضح ہوکر سامنے نہیں آتا ہے۔
الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ۔ (البقرۃ: 194)
’’(ایک) حرمت والا مہینہ (دوسرے) حرمت والے مہینے کے برابر ہے۔ (اور اصل یہ ہے کہ) حرمتوں میں برابری کا بدلہ ہے‘‘۔ (صدرالدین اصلاحی)
’’ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا‘‘۔ (سید مودودی)
’’ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’شہر حرام کا جواب شہر حرام ہے اور حرمات کا بھی قصاص ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی حسب ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
’’حرمت والے مہینے کی حیثیت حرمت والے مہینے ہی کی ہے اور حرمتوں میں برابری کا معاملہ ہے‘‘۔
(607) النَّسْلَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں الحرث کے ساتھ النسل آیا ہے۔ اس لیے اس کا امکان تو ہے کہ یہاں نسل سے مویشیوں کی نسل مراد ہو لیکن سیاق کے لحاظ سے انسانی نسل مراد ہو یہ بعید لگتا ہے۔ اگر لفظ کا خیال کیا جائے تو انسان اور مویشی وغیرہ سبھی جان دار مراد لیں، ورنہ پھر سیاق کے لحاظ سے مویشی مراد لیں۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِی الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۔ (البقرۃ: 205)
’’جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے‘‘۔ (سید مودودی)
’’کھیتوں اور انسانی نسلوں کو تباہ کرینے میں سرگرم عمل رہتا ہے‘‘۔ (صدرالدین اصلاحی)
’’اور کھیتی اور جانیں تباہ کرے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور کھیتی اور مویشی کو برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔ (احمد علی)
’’اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)