یکم مئی کو دارالعلوم حقانیہ میں خطاب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ اشرف الانبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ وصحبہ ومن تبعھم باحسان الیٰ یوم الدین۔
میرے برخوردار عزیز مکرم مولانا عبد الحق ثانی اور میرے عزیز مکرم مولانا راشد الحق صاحب، اس اجتماع میں موجود تمام اکابرین، علماء کرام، زعماءِ قوم، دانشورانِ وطن! بہت ضروری تھا کہ مولانا حامد الحق صاحب اور مولانا سمیع الحق صاحب شہیدینِ مکرمین کی یاد میں نخبہ شخصیات پر مشتمل اس اجتماع کا اہتمام ہوا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا تعلق اس سلسلے کے ساتھ ہے جہاں رحلتوں اور شہادتوں پر ماتم برپا نہیں کیے جاتے بلکہ ان کے مشن کو زندہ رکھنے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا جاتا ہے۔ سو آج کا اجتماع بھی ہمیں یہی درس دے رہا ہے کہ ہم اپنے اسلاف اپنے اکابرین کے اس مشن کو زندہ بھی رکھیں، اسے ہم نے آگے بھی بڑھانا ہے، اور ہم تحریک ہیں۔ تحریک سمندر میں کوئی بہت بڑا پتھر پھینک کر ایک بڑے دھماکے کا نام نہیں، ایک بڑے بھونچال کا نام نہیں ہے، بلکہ تحریک سمندر کی لہروں کا نام ہے۔ لہروں میں نشیب و فراز آتا ہے، لہریں کبھی ڈوب جاتی ہیں لیکن پھر ابھرتی ہیں اور لہریں بالآخر ساحل پر جا کر دم لیتی ہیں۔
حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے سند یافتہ، وہاں پر چھ سال مدرس رہے، اور جس سال وہ اپنے گھر اکوڑہ خٹک تشریف لائے تو اسی رمضان شریف میں پاکستان بن گیا اور وہ واپس نہ جا سکے، اور اکوڑہ خٹک کے ایک محلے کی مسجد میں انہوں نے بیٹھ کر درس و تدریس کا آغاز کیا۔ اب ظاہر ہے کہ ہماری یہ دانش گاہیں، یہ تعلیم گاہیں، یہ محض تعلیم گاہیں نہیں ہیں بلکہ یہ نظریاتی ادارے ہیں، یہ فکری ادارے ہیں، اور ہمہ جہت وہ اپنے علم سے بھی اور اپنے علم سے بھی امت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ انگریز کے خلاف ڈیڑھ سو سال تک میدان میں جہاد لڑا گیا، تحریکیں چلیں، پچاس ہزار علماء کرام سولیوں پر لٹکائے گئے، توپوں سے اڑا دیے گئے۔ اور ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ ایک انگریز جو اس وقت انہیں سزا دینے کے موقع پر ڈیوٹی پر تھا کہ ہم نے ہزاروں علماء کرام سے تنہائی میں ایک ایک سے پوچھا کہ اگر آپ اتنا کہہ دیں کہ اس جہاد سے میرا تعلق نہیں تھا تو آپ کی سزا ابھی معاف ہو جائے گی۔ وہ کہتا ہے کہ تمام کے تمام اُڑ گئے لیکن کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ میرا اس جہاد سے تعلق نہیں تھا۔ یہ ہے قربانیوں کی وہ تاریخ جس سے ہم اور آپ وابستہ ہیں، ہم اس نسبت کے لوگ ہیں۔
اور ظاہر ہے کہ جس کی یہ نسبت ہو ، جن کی یہ تعلیم ہو، جن کی یہ تربیت ہو، تو آج کے امت مسلمہ کے حکمرانوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان کی روش کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اور آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ یہی جو آج ہمارے حکمران ہیں یہ اس وقت بھی انگریز کے وفادار تھے، اور یہی جو آج میدان میں بڑے عزم کے ساتھ بات کرتے ہیں یہی اُس وقت میدانِ جہاد میں تھے۔ تو اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم اپنی اور اسلامی دنیا کے حکمرانوں کی تاریخ کو جانتے ہیں۔ کن وفاداریوں کے نتیجے میں انہیں مراعات ملیں، انہیں ملک ملے، او ران مراعات کا آج بھی ہمارے حکمران حقِ نمک ادا کر رہے ہیں۔ تو اس حوالے سے اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کے بعد، ستائیس عرب ممالک کے وجود میں آنے کے بعد، جغرافیائی تقسیم نے ہمارے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، اور منقسم جسم پھر دفاع میں کمزور ہو جاتا ہے، وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔
میرے محترم دوستو! اس وقت ہم ہمہ جہت مشکل میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف افغانستان میں بیس سال سے امریکہ کے خلاف جنگ رہی، وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی، فتح سے ہمکنار ہوئی، لیکن ابھی وہ مشکل برقرار ہے کہ فلسطین کا موضوع سامنے آگیا۔ دنیا اب اس طرف متوجہ ہوئی، حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا، جس طرح طالبانِ افغانستان کو دہشت گرد کہا گیا تھا۔ انہیں بلیک لسٹ قرار دیا گیا تھا اور دنیا ہچکچا رہی تھی اس بات سے کہ حماس کے ساتھ حمایت کیسے کی جائے؟ مجھے یاد ہے سات اکتوبر کو جنگ شروع ہوئی اور چودہ اکتوبر کو حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی یاد میں پشاور میں ملین مارچ تھا، جلسہ تھا بہت بڑا، جسے ہم نے طوفانِ اقصیٰ کے نام میں تبدیل کر دیا اور اس میں حماس کے نمائندے نے آ کر تقریر کی۔ اور پھر یہاں سے ہم بلوچستان گئے، وہاں سے کراچی گئے، اور کراچی سے میں سیدھا دوحہ گیا اور حماس کی قیادت سے میں نے ملاقات کی ، کھل کر ملاقات کی اور دنیا کو پیغام دے دیا کہ آپ کسی کو دہشت گرد کہیں، بلیک لسٹ کہیں، لیکن میں اس کو مجاہد کہتا ہوں اور اپنے حق کا پرستار کہتا ہوں۔
امریکی وزیر خارجہ آیا تل ابیب اور اس نے کہا کہ میں وزیر خارجہ کے طور پر نہیں آیا ہوں میں ایک یہودی کے طور پر آیا ہوں تمہارے پاس۔ تو میں نے بھی بیان میں کہا کہ میں کسی جماعت یا مکتبِ فکر کی نمائندگی نہیں کر رہا بلکہ ایک مسلم مجاہد کے طور پر آپ کے پاس آیا ہوں اور آپ سے مل رہا ہوں۔ اس مقام پر آ کر پھر سیاسی مصلحتیں ختم ہو جاتی ہیں، اگر ایمان کو بچانا ہو تو، پھر گروہی مصلحتیں نہیں رہتیں۔
اور پھر میں اسماعیل ہنیہؒ کی شہادت پر تعزیت کے لیے گیا۔ مکمل یکجہتی آج بھی برقرار ہے۔ اور مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم تمام مکاتبِ فکر ہوں، سیاسی مذہبی جماعتیں ہوں، ایک جگہ بیٹھ کر ہم جو آواز بلند کر رہے ہیں، یہ صرف پاکستان کی متفقہ آواز نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی متفقہ آواز ہے۔ ہم ان کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور میں یہ بھی بتا دوں آپ کو کہ ایسے حالات میں ہمیشہ دنیا کی توقع پاکستان سے ہوتی ہے، کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ایک ایسا ماحول یہاں نصیب ہے کہ جہاں ہم اکٹھے بھی ہوتے ہیں، ہم میدان میں بھی اترتے ہیں، ہم نعرہ بھی بلند کرتے ہیں، ہماری آواز بھی اٹھتی ہے، اور پوری دنیا کو پاکستان کی سرزمین سے آواز کا انتظار ہوتا ہے۔ شاید دنیا کے دوسرے مسلمانوں کو ایسے مواقع حاصل نہیں ہیں۔ مشکلات ہوتی ہیں، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی تکلیف بما لا یطاق نہیں دی، اپنی استطاعت سے زیادہ اللہ نے کسی کو مجبور نہیں کیا۔ مشکلات آسکتی ہیں، بے بسیاں آ سکتی ہیں۔
لیکن ہمیں صرف اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ پچاس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو گئے، یقیناً وہ باعثِ کرب ہے، جیسے مشتاق بھائی نے کہا کہ کتنے بچے ہیں کہ جو بالکل شیرخوار اور ان کا پورا خاندان نہیں ہے اور ان کو کل یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ میرے ماں باپ کون تھے، میں کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا، جب بڑا ہو جائے گا تو۔ تو کرب کا باعث تو یقیناً ہے۔ لیکن اس پہلو پر بھی ہمیں نظر رکھنی چاہیے کہ جب دنیا غور کر رہی تھی اس بات پر کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے، لابیاں کام کر رہی تھیں، ہمارے ملک میں لابی کام کر رہی تھی، ٹیلی ویژن پر آ کر بات کرتی تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے کراچی میں ایک ملین مارچ کر کے یہ زبان بند کی، اور ہمارے اس جلسے میں اسماعیل ہنیہؒ نے وہاں سے خطاب کیا براہ راست، مسجدِاقصیٰ کے خطیب نے وہاں سے خطاب کیا، لبنان کے مفتی نے وہاں سے خطاب کیا، اور وہ اتنی مؤثر ثابت ہوئیں کہ یہاں پر اس لابی کو دھچکہ لگا۔ لیکن پوری دنیا میں قضیۂ فلسطین کی ہیئت اور اس کی نوعیت کو، اس کی سفارتی نوعیت کو، اس کی سیاسی نوعیت کو، اس کی زمینی نوعیت کو، اگر تبدیل کیا ہے تو حماس کی طرف سے سات اکتوبر سے شروع ہونے والے جہاد نے کیا ہے۔
اب ذرا کوئی کوشش کرے نا، کہے نا کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہاں نئی باتیں کی جا رہی ہیں، دو ریاستی حل، ایک ریاستی حل۔ سوال یہ ہے کہ اگر فلسطینی کہتا ہے کہ صرف فلسطین، اور یہ میری زمین ہے، اور اسرائیل قابض ہے، تو ایک فلسطین کی بات کرنے والا، اس موقف کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اسرائیل کے موقف کو بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کہتا ہے ایک اسرائیل، کوئی فلسطین نہیں۔ اگر فلسطینی بھی ایک ریاست کی بات کرے اور اسرائیلی بھی ایک ریاست کی بات کرے، ہم کون ہوتے ہیں کہ ہم دو ریاستی حل کی بات کریں ، ہم بھی ڈٹ کر کہتے ہیں کہ ایک فلسطین اور کوئی اسرائیل نہیں۔ مسئلہ واضح ہونا چاہیے۔
ایک صدی پہلے سرزمینِ عرب پر بلکہ کرۂ ارض پر اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہیں تھی۔ جنگِ عظیم اول کے بعد جب یورپ میں یہودی پیٹا گیا مارا گیا تو ایک انسانی مسئلہ پیدا ہوا کہ ان لُٹے پِٹے یہودیوں کا اب کیا کریں ہم؟ اس وقت اقوامِ متحدہ نہیں بنی تھی، لیگ آف نیشنز ، اس نے ایک کمیٹی بنائی، اور اس کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں واضح طور پر اس نے کہا ہے کہ ان لٹے پٹے یہودیوں کو بحال کرنا یہ انٹرنیشنل ریسپانسبلیٹی ہے، بین الاقوامی ذمہ داری ہے۔
- جہاں ایک بین الاقوامی ذمہ داری کی سفارش کی گئی وہاں صرف فلسطین کو اس کا ذمہ دار کیوں کہا گیا کہ آپ نے یہودیوں کو بسانا ہے؟
- جہاں یہ بھی کہا گیا کہ یہودیوں کو بھی مجبور نہیں کیا جائے گا کہ کہاں بستے ہو، اور ان ممالک کو بھی مجبور نہیں کیا جائے گا جہاں ان کو بسیا جا رہا ہے، باہمی رضامندی کی بنیاد پر ان کو بسایا جائے گا۔ پھر جبراً فلسطین میں کیوں آباد کیا گیا؟
- جہاں یہ بھی کہا گیا کہ فلسطین میں آباد نہ کیا جائے کیونکہ یہ over populated area ہے، ضرورت سے زیادہ آبادی ہے یہاں کی، مزید آبادی کے متحمل نہیں ہے، اس کے باوجود فلسطین کو کیوں منتخب کیا گیا؟
- جہاں یہ بھی کہا گیا ان سفارشات میں کہ فلسطین اقتصادی لحاظ سے کمزور ملک ہے، وہاں کوئی زیادہ دباؤ نہ ڈالا جائے، پھر کیوں فلسطین پر یہ دباؤ ڈالا گیا؟
اور ۱۹۱۷ء میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ایک معاہدے کے تحت اسرائیلی ریاست کا اعلان کر دیا۔ آج پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ صاحب یہ تو فلسطینیوں نے خود زمینیں بیچیں۔ اب خود زمینیں بیچ کر اس پر یہودی آباد ہو گئے تو یہ کیا آپ لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ بہت بڑا مغالطہ ہے تاریخی لحاظ سے۔ آپ ریکارڈ دیکھیں، ۱۹۱۷ء میں پورے فلسطین کی سرزمین کے دو فیصد علاقے پر یہودی آباد ہیں، اٹھانوے فیصد علاقے پر مسلمان آباد تھا، عرب آباد تھا۔ اور ۱۹۴۸ء میں یہ بنا، ۱۹۴۷ء کے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ پورے فلسطین کی سرزمین کی صرف چھ فیصد پر یہودی آباد تھا۔ چورانوے فیصد فلسطینیوں کے ہاتھ میں تھا۔ اور پھر یہ کہنا کہ انہوں نے زمینیں بیچیں اور اس پر یہودی آباد ہو گئے، تاریخ کو جھٹلایا جاتا ہے، اعداد و شمار کو جھٹلایا جاتا ہے، حقائق کو جھٹلایا جاتا ہے۔
تو اس حوالے سے اب اقوامِ متحدہ کیا کہتا ہے؟ آج کا اقوامِ متحدہ کہتا ہے کہ ۱۹۶۷ء کے بعد اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے یہ ناجائز قبضہ ہے۔ پاکستان تو اس کے وجود کو ناجائز کہتا ہے نا، لیکن ۱۹۶۷ء کے بعد اقوامِ متحدہ کی قرارداد کہتی ہے کہ مقبوضہ علاقے ناجائز ہیں اور اسرائیل نے قبضہ کیے ہیں، اس سے ان کو واپس ہونا ہو گا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود امریکہ اور یورپ اس کے برعکس اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کے قبضے کا تحفظ کر رہے ہیں۔ آج عالمی عدالتِ انصاف (عالمی فوجداری عدالت) کہتا ہے کہ یہ انسانی مجرم ہے، جنگی مجرم ہے اور اس کو گرفتار کر لیا جائے۔ گھوم رہا ہے دنیا میں، حالانکہ یہ فیصلہ آنے کے بعد کوئی بھی ملک کہ جس سے اس شخص کا جہاز گزر رہا ہو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے جہاز کو اتارے اور گرفتار کر لے۔ نہ اقوامِ متحدہ کو سنا جا رہا ہے، نہ عالمی عدالتِ انصاف کو سنا جا رہا ہے، یہ دنیا ہمارے اوپر کیا مسلط کرتی ہے؟ یہ صرف ہمارے لیے ہے کہ کویت پر اگر قبضہ ہو جائے تو صدام کو ختم کر دو، عراق کو تباہ کر دو۔ یہ صرف ہمارے لیے ہے، کشمیر پر قرارداد پر کوئی عملدرآمد نہیں؟ وہاں آئے روز مظالم ہو رہے ہوں۔ تو عالمی اداروں کو امریکہ اور مغربی دنیا نے غیر مؤثر بنایا ہوا ہے، حالانکہ اصول کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی ماضی بھی ہمارے موقف کی حمایت کرتی ہے اور عالمی عدالت انصاف کے آج کے فیصلے بھی ہمارے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ پھر اس کے باوجود کہاں سوئی ہوئی ہے دنیا، کیوں مردہ ہو گئی ہے؟ اور ہم یہاں پر اپنے معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھاتے چلے جا رہے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ ہے، لیکن کشمیر کے مسئلے سے پہلے ہمیں افغانستان کے حوالے سے سوچنا ہو گا کہ پاکستان نے بحیثیت ریاست کے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بہتر کیوں نہیں بنائے؟ یہ بات یاد رکھیں کہ ظاہر شاہ سے لے کر اشرف غنی تک جتنی حکومتیں آئی ہیں پرو انڈین تھیں، سوائے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے۔ اگر ہم کوئی سیاست جانتے، اگر ہم کوئی سفارت جانتے، ہم اپنا کوئی ملکی مفاد جانتے تو آج افغانستان کو ایک پرو پاکستان افغانستان ہونا چاہیے تھا۔ ہم ان کو بھی دھکیل رہے ہیں کہ جاؤ تم روس کے ساتھ کہیں بات کرو، چائنہ کے ساتھ بات کرو، انڈیا کے ساتھ بات کرو۔ کس بات پر؟ سرحدیں روک دی ہیں، ہزاروں گاڑیاں مال لیے ہوئے اُدھر کھڑی ہیں، ہزاروں اِدھر کھڑی ہیں۔ عوام کا مال تباہ و برباد ہو رہا ہے، سرحد پر وہاں ٹینشن پیدا کر دی گئی ہے۔
یہ وہ غلط پالیسیاں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری ریاستی قوتیں یا تو سفارتی ذہن کے ساتھ غلام ہیں، یا پھر ان کی سفارتی ذہنیت صفر ہے، ان کو سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور میں نے تو ان کو کمیٹی میں کہا ہے کہ جناب اگر ہر مسئلے کے لیے فوج کی سوچ یا فوج کی اپروچ ہو، کبھی بھی آپ یہ مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے، جب تک کہ آپ کے ساتھ پولیٹیکل سوچ نہ ہو، اکنامک سوچ نہ ہو۔ آپ کیسے اکانومی کو ٹھیک کر سکتے ہیں؟ انڈیا کی اکانومی اوپر جا رہی ہے، چائنہ کی اکانومی اوپر جا رہی ہے، بنگلہ دیش کی اکانومی اوپر جا رہی ہے، انڈونیشیا کی اوپر جا رہی ہے، ملائیشیا کی اوپر جا رہی ہے، افغانستان کی اوپر جا رہی ہے، ایران کی اوپر جا رہی ہے، اور ان سب کے بیچ میں صرف پاکستان کی اکانومی گر رہی ہے، کیوں؟ ہم تو جو کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے صرف اس کو دیکھتے ہیں، ہم اس پر تنقید کرتے ہیں۔ ریاستی پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے ہم تباہ ہو رہے ہیں۔ آج بھی میں اپنی فوج کو اس محاذ سے ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس کا اعتراف کر لو کہ موجودہ صورتحال میں آ پ کی پشت پر طاقتور سیاسی قوت نہیں ہے۔ آپ کو بھی سیاسی قوت کی ضرورت ہے، آپ کو بھی عوام کی پشت پناہی کی ضرورت ہے، زبانی بیانات جاری کر دینا، قوم ایک ہے قوم ایک ہے۔
اب جو ہمیں انڈیا نے چھیڑ دیا اور اُدھر سے معاملات خراب ہو گئے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج پوری قوم ایک صف پر ہے، ملکی دفاع کے لیے ایک ایک مجاہد تیار ہے، ایک ایک پاکستانی مجاہد بن گیا ہے۔ ملک کے ساتھ سب وفادار ہیں۔ لیکن ہمیں تجزیہ کرنا چاہیے، لوگ بے وقوف نہیں ہوتے، ہر چیز کو سمجھتے ہیں لوگ۔ اگر انڈیا کے ساتھ معاملہ ہو گا، قوم ایک صف پر ہو گی۔ اگر افغانستان کے ساتھ معاملہ ہو گا، قوم ایک صف پر نہیں ہو گی۔ سیدھی بات ہے۔ اس چیز کو ذرا جانچنا چاہیے، تجزیہ کرو اس بات کا، دونوں کے پس منظر مختلف ہیں، دونوں کی زمینی صورتحال مختلف ہے۔ سو وہ بھی دیکھا، سو یہ بھی دیکھ لو۔
آج کشمیر کے مسئلے پر انڈیا کی دھمکیوں کے بعد پوری قوم ایک ہے۔ لیکن کیا یہ سوچ افغانستان کے ساتھ معاملات بگاڑنے کے وقت بھی موجود تھی؟ نہیں۔ کچھ ذرا سوچ سمجھ کر موقف اختیار کیا جائے۔ پروپیگنڈے سے کچھ نہیں بنتا۔ میڈیا کے ذریعے دباؤ ڈالو ہمارے اوپر، نہیں، اس سے کچھ نہیں ہو گا۔ ہم اب اتنے چھوٹے بچے نہیں ہیں کہ آپ میڈیا پر ایک فضا بنانے کی کوشش کریں اور ہم اس سے مرعوب ہو جائیں۔ ہم آپ سے بہتر سوچتے ہیں، ہماری اپروچ آپ سے بہتر ہے، معاملات تک رسائی آپ سے ہماری بہتر ہے۔ آپ کو اپنی قوم کے ساتھ بیٹھنا ہو گا، آپ کو اپنی سیاست کے ساتھ بیٹھنا ہو گا، آپ کو اپنے اقتصاد کے ساتھ، اپنے وسائل کے ساتھ بیٹھنا ہو گا۔ تب جا کر ہم وہ ملک حاصل کر سکیں گے کہ جس کے لیے مولانا سمیع الحقؒ نے بھی جان دی، مولانا حامد الحقؒ نے بھی جان دی۔ حملے ہم سب پہ ہوئے ہیں، کوئی بچا تو نہیں ہم میں سے۔ تین خودکش تو میرے اوپر ہوئے ہیں، دو تین میرے گھر پہ ہوئے ہیں، لیکن اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں۔ کتنے ہمارے ساتھی شہید ہوئے، کتنے علماء شہید ہوئے، کس جرم میں؟ اور پھر ان کا خیال یہ ہے کہ ہم علماء کو بھی قتل کریں گے اور پھر ہم مجاہد بھی کہلائیں گے۔
تو میرا موقف واضح ہے کہ جس عالمِ دین کو میں نے شہید کہنا ہے اس کے قاتل کو میں مجاہد نہیں کہتا، یہ دہشت گرد ہیں، یہ سفاک ہیں، یہ قاتل ہیں۔ میں مولانا سمیع الحقؒ کے قاتل کو مجاہد نہیں مانتا، میں حامد الحقؒ کے قاتل کو مجاہد نہیں مانتا، میں مولانا نور محمد صاحبؒ، وانا کے بزرگ کو شہید مانتا ہوں تو اس کے قاتل کو میں مجاہد نہیں مان سکتا، میں مولانا حسن جانؒ کے قاتل کو مجاہد نہیں کہہ سکتا، میں مولانا معراج الدینؒ کے قاتل کو مجاہد نہیں کہہ سکتا۔ بات صاف ہے بالکل۔ مجاہدوں کی طرح آؤ، بات کرو۔ دو آدمی بیٹھ کر حلال و حرام کے مالک بن جاتے ہیں، انسانی خون کو حلال کرنے کا فتویٰ پانچ آدمی بیٹھ کر طے کرتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’لزوال الدنیا اہون علی اللہ من قتل رجل مسلم‘‘ ۔ پوری دنیا تباہ ہو جائے اللہ کے لیے آسان ہے ایک مسلمان کے خون کے مقابلے میں۔ انہوں نے اتنا آسان بنا دیا ہے کہ جب چاہے کسی کو قتل کرتے ہیں اور اس کو جہاد بھی کہیں!
تو اس حوالے سے میں یہ بھی عرض کر دوں کہ دارالعلوم حقانیہ، جہاں یہ دارالعلوم دیوبند کا تسلسل ہے، وہاں مجھے شرف حاصل ہے کہ میں نے آٹھ سال دارالعلوم حقانیہ میں پڑھا ہے، کافیہ سے دورۂ حدیث تک، اور میں آج جو کچھ ہوں اس دارالعلوم کی برکت سے ہوں، اور حضرت شیخ عبد الحق صاحب رحمہ اللہ کی سرپرستی، نگرانی اور ان کی شفق کی نیچے۔ میں ان کے احسان کو نہیں بھول سکتا، میں اس تعلق کو کہاں بھول سکتا ہوں؟ میری زندگی دارالعلوم حقانیہ سے تعبیر ہے۔ یہ نقصان صرف ان کے خانوادے کا نقصان نہیں ہے، یہ ہمارا نقصان ہے، میرے گھر کا نقصان ہے، میرے خاندان کا نقصان ہے، اور اس میں یہ تنہا نہیں ہیں، ہم سب اس نقصان میں ان کے ساتھ شریک ہیں، اور ان شاء اللہ اس کی تلافی میں بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
www.facebook.com/MoulanaOfficial
۹ مئی کو قومی اسمبلی میں خطاب
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔
جناب سپیکر، معزز اور فاضل اراکینِ ایوان! یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان بھارتی جارحیت کے مقابلے میں محاذ پر ہے۔ ہندوستان نے مساجد پر مدارس پر اور سویلین علاقوں پر راکٹ داغے، ہمارے بھائی شہید ہوئے، بہنیں شہید ہوئیں اس میں، لیکن پاکستان کی فوج نے، چاہے بری افواج ہوں چاہے فضائی افواج ہوں، انہوں نے جس بہادری کے ساتھ اور جس خوبصورت حکمتِ عملی کے ساتھ دفاع کیا ہے، میں ان حالات میں انہیں خراجِ تحسین پیش کروں گا۔
آج جمعہ کا دن ہے، جمعیت علماء اسلام نے پورے ملک میں آج یومِ دفاعِ وطن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام آئمہ و خطباء سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی جارحیت کی بھرپور الفاظ میں مذمت کریں۔ جو بھی پاکستان کا موقف ہے، پاکستان کے موقف کو اس وقت اجاگر کریں اور قوم کو متحد ہونے کا درس دیں۔ اسی حوالے سے ان شاء اللہ گیارہ مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہوگا بہت بڑا، جہاں پاکستان کے عوام بھرپور طور پر اپنی یکجہتی کا اظہار کریں گے اور پاکستانی موقف کو اجاگر کریں گے۔ اور پھر پندرہ مئی کو کوئٹہ میں ان شاء اللہ ملین مارچ ہوگا اور پورے بلوچستان کا عوام اس میں اپنی یکجہتی کا اظہار کرے گا۔
حکومت نے ابھی حال ہی میں کہا ہے کہ نوجوان نام لکھوائیں شہری دفاع کے لیے، الحمد للہ ہمارے پاس ’’انصار الاسلام‘‘ کا شعبہ موجود ہے اور ہم نے اپنے انصار الاسلام کے شعبے کو شہری دفاع کی ذمہ داریوں کی ہدایات دے دی ہیں۔ جہاں جہاں بھی، خدا نہ کرے خدا نہ کرے، کوئی نقصان ہوتا ہے، کوئی پاکستانی شہری متاثر ہوتا ہے، تو اس کی مدد کے لیے پہنچنا، ان کو طبی امداد مہیا کرنا، ان کو ریلیف دینا، جو بھی ممکن صورت ہو، ایک عام شہری کے ہاتھوں، ان شاء اللہ ہم وہ کردار ادا کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
ہندوستان نے ہماری مساجد کو نشانہ بنایا ہے، مدارس کو نشانہ بنایا ہے۔ اور میں پورے ایوان کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آج اگر پاکستان کی دفاع میں صفحہ اول پر پہلے مورچے میں اگر کوئی لڑ رہا ہے یا لڑنے کا عزم رکھتا ہے تو وہ آپ کے دینی مدرسے کا نوجوان ہے، جو بین الاقوامی دباؤ میں بھی رہتا ہے، حکومتِ پاکستان کے دباؤ میں بھی رہتا ہے۔ میں یہ تجویز کروں گا کہ اس تصادم کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے اور مدارس کے حوالے سے جو کمٹمنٹس آپ نے کی ہیں، جو قانون سازی آپ نے کی ہے، میری گفتگو کو محض سیاسی بات نہ سمجھی جائے بلکہ حقیقی معنی میں یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جو آپ کے لیے بھی ہے، آپ نے بھی اس کو طے کرنا ہے، گورنمنٹ نے بھی اس کو طے کرنا ہے اور دنیا کو دکھانا ہے کہ ہم ایک ہیں۔ اگر میں ملکی مفاد میں اور ملکی دفاع میں آپ کے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہوں تو پھر آپ کو بھی میرے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا، تعاون وہ دو طرفہ معاملات کا نام ہے یہ یکطرفہ معاملات کا نام نہیں ہے۔ ہم اپنے تعاون اور شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں، پتہ نہیں آپ دینی مدارس کو کب اپنے پاکستانی سمجھیں گے اور کب پاکستانی کے طور پر آپ ان کے ساتھ روش اختیار کریں گے۔
جناب سپیکر، میرے گفتگو کو تنقید نہ سمجھا جائے، میرے گفتگو کو تجویز سمجھا جائے، میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ پورے ایوان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ہی قومی بیانیہ ہونا چاہیے ان حالات میں، بھانت بھانت کی بولیاں، پھر آج سوشل میڈیا ہے، ہر شخص آزاد ہے جو چاہے کہے، اس کی میں حوصلہ شکنی کروں گا اور یہ ضرور کہوں گا کہ یہ جنگ ہے، جنگ میں پھول نہیں بکھیرے جاتے، جنگ میں آگ برستی ہے۔ اور یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہماری اس جنگ کی سطح کیا ہے۔ کیا صرف ہم ایک دوسرے کو دھمکیوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں؟ ہم چھوٹی موٹی کاروائی کر کے اور بس یہاں تک رکھنا چاہتے ہیں (یا) اس سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم کشمیر کی سرزمین آزاد کرا سکیں گے (اور) اس میں ہم کچھ پیشرفت کر سکیں گے؟ یہ ساری حکمتِ عملی حکومت کے ایوانوں میں جہاں بنتی ہے یہ وہی بتا سکیں گے۔ اور میں حکومت سے یا اسٹیبلشمنٹ سے یہ مطالبہ بھی نہیں کر رہا کہ آپ کی جنگی حکمتِ عملی کیا ہے۔ کیونکہ جنگ لڑنے والا خود اپنی جنگی حکمتِ عملی اس وقت کے لیے خود بنایا کرتا ہے اور اس میں اگر اس کو اِفشا کیا جائے، اس کو پبلک کیا جائے، تو اس کے نقصانات بھی ہوا کرتے ہیں۔ لیکن سیاسی لیول پر ہم کہاں کھڑے ہیں ہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
ہمارا اس وقت تک کوئی سفارتی مشن باہر نہیں ہے، ہم صرف ٹیلی فونوں پر باتیں کر رہے ہیں، ان حالات میں ہمارے سفارتی مشن باہر ہونے چاہئیں تھے، ملکوں کا دورہ ان کو کرنا چاہیے تھا، ہمیں چائنہ کو بڑی مضبوطی کے ساتھ انگیج کرنا چاہیے تھا، ہمیں سعودی عرب کو انگیج کرنا چاہیے تھا، ہمیں ایران کو انگیج کرنا چاہیے تھا، ہمیں متحدہ امارات کو انگیج کرنا چاہیے تھا، ہمیں افغانستان کو بھی انگیج کرنا چاہیے تھا۔ ہم نے اپنے پڑوسی ممالک میں بھی آج تک وہ سفارتی سرگرمیاں نہیں دکھائی ہیں جو اِن دنوں کا حق ہے۔ تو اس حوالے سے کیا ہمیں بتایا جا سکے گا کہ پاکستان کی اس وقت تک سفارتی جو کوششیں ہیں وہ کیا ہیں، کس حد تک ہیں، اور پاکستان کی قوم کو وہ اس حوالے سے کس حد تک مطمئن کر سکتے ہیں؟ کم از کم میں بحیثیت رکن پارلیمان کے اس وقت تک میں سفارتی سرگرمیوں کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔
جناب سپیکر، اس بات کو بھی واشگاف کیا جائے کہ جہاں فلسطین میں اسرائیل جارحیت کر رہا ہے، عام شہریوں کو قتل کر رہا ہے، ساٹھ ہزار تک فلسطینیوں کو وہ قتل کر چکا ہے، غزہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، لوگ بے گھر ہیں کیمپوں میں جاتے ہیں تو وہاں پر بھی بمباری۔ اور آج شاید وزیر دفاع صاحب ہمیں بہتر بتا سکیں گے کہ کیا اسرائیلی دیا ہوا اسلحہ آج بھارت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر رہا؟ اس حوالے سے یہود و ہنود کا اتحاد، بھارت اسرائیل اتحاد ہمارے نشانے پر ہونا چاہیے اور ہمارے قومی بیانیے کا حصہ ہونا چاہیے کہ ہم دونوں کے بارے میں ایک زبان استعمال کریں، ایک گفتگو کریں، جب اس پر تفاوت آتا ہے تو پھر عام آدمی کے اندر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے دفاعی اداروں کو مضبوط کریں، ان کے پشت پر کھڑے ہوں۔ ہر چند کے ہمارے ملک میں ہمارے آپس میں اختلافات ہیں، اُدھر حکومت بیٹھی ہے تو اِدھر حزبِ اختلاف ہے، معنی یہ کہ حکومت کی سوچ اور ہوتی ہے، حزب اختلاف کی سوچ اور ہوتی ہے، لیکن آج ہم ملک کے لیے ایک ہیں، ملک کی وحدت کے لیے ہم ایک صف ہیں۔ ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے گلے ہیں شکوے ہیں وہ اپنی جگہ پر رہیں گے لیکن جب وطنِ عزیز کا سوال آئے گا تو وطنِ عزیز کے معاملے پر وہ ہمیں اپنے سے آگے پائیں گے، پیچھے نہیں ہوں گے۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر انفرادی طور پر بہت سے لوگ اس قسم کے کچھ پوسٹیں لگا رہے ہیں جس سے کہ وہ جنگ کو مذاق سمجھتے ہیں، فوج پر بڑا ناپسندیدہ قسم کا تبصرہ ان کا ہوتا ہے۔ ان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور اس پروپیگنڈے پر حکومت کو قدغن لگانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے، سو ملک کے اندر بھی امن و امان کا مسئلہ اپنی جگہ پر موجود ہے، بلوچستان میں بھی، کے پی میں بھی، اس کے لیے ہم کیا سفارتی کوشش کر رہے ہیں؟ کون سا ایسے حکمتِ عملی ہم نے بنائی ہے کہ ہم ملک کے اندر کم از کم فوج کو جنگ سے نکالیں اور محاذ کی طرف ان کو متوجہ کریں تاکہ بھارت کی جارحیت کے مقابلے میں ملک کا دفاع ہو۔
ہم نے کیا جواب دیے ہیں ان کو آج تک ان کی جارحیت کے؟ ابھی تک قوم پر کوئی زیادہ واضح نہیں ہے، ہم نے ان کے مقابلے میں کیا نقصان کیا ہے اب تک؟ قوم پر یہ باتیں واضح نہیں ہیں، تو ہمارے وزیر دفاع صاحب ماشاء اللہ اس وقت تشریف فرما ہیں، پارٹی کے ہمارے اکابرین بھی موجود ہیں، حکومت کے لوگ بھی آج موجود ہیں، کسی کو تو اپنا دکھ کچھ سنانے کا مجھے موقع مل گیا، تو اس ایوان کو ذرا سنجیدہ لینا چاہیے آج کے وقت میں، بھرپور ہمارے یہاں پر نمائندگی ہونی چاہیے، وزراء کی یہاں موجودگی ضروری ہوتی ہے، حکومت جو بات کرتی ہے آپ سے مخاطب ہوتی ہے، لیکن اس کا خطاب آپ کے واسطے سے ایوان کی طرف ہوتا ہے، حکومت کے طرف ہوتا ہے، اور اگر حکومت کا کوئی سننے والے ہی نہ ہو، کوئی ذمہ دار اس کا ریسپانس کرنے والا نہ ہو تو پھر ظاہر ہے شکایتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمیں اس وقت ان تمام کمزوریوں سے بچنا چاہیے اور ایک طاقتور پاکستانی پارلیمنٹ کا کردار ہمیں ادا کرنا چاہیے میں۔ بہت شکر گزار ہوں۔
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔