پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر

پہلگام حملہ اور بھارت کے بعد ازاں اقدامات

پہلگام میں پیش آنے والا واقعہ اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے یکطرفہ اقدامات محض اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک منظم اور مسلسل حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد خطے میں پاکستان کے کردار کو کمزور کرنا ہے۔ اس واقعے کا وقت، تاریخی مماثلتیں، اور اس کے فوراً بعد شروع ہونے والی مربوط میڈیا مہم اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ ایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔ اس ارادے کی مزید عکاسی ان اقدامات سے ہوتی ہے جو بغیر کسی ثبوت یا حملہ آوروں کی شناخت کے اٹھائے گئے، جیسے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور اٹاری سرحد کی بندش۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایک مدبر، متوازن اور پُرعزم حکمتِ عملی اپنائے ، اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کرے، غلط معلومات کا حقائق سے مقابلہ کرے، ایسے منظم تشدد کے پیچھے چھپے اسباب کو بے نقاب کرے، اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مؤثر رابطہ قائم کرے۔​

یہ مشاہدات انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد ، کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک سیشن بعنوان "پہلگام حملہ: مقاصد اور تزویراتی اثرات کا تجزیہ” کے دوران ماہرینِ حکمتِ عملی، دفاعی تجزیہ کاروں اور پالیسی اسکالرز کے ایک پینل نے پیش کیے۔ سیشن سے خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر اسماء شاکر خواجہ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز، آزاد جموں و کشمیر، شیخ ولید رسول، ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف ملٹی ٹریک ڈائیلاگ ڈیولپمنٹ اینڈ ڈپلومیٹک اسٹڈیز، ڈاکٹر نعمان ستار، وزیٹنگ فیکلٹی، ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی، سید نذیر، دفاعی اور اسٹریٹجک ماہر، سینئر صحافی افتخار گیلانی، خالد رحمن، چیئرمین (آئی پی ایس) ، اور سفیر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین (آئی پی ایس) ، شامل تھے۔​

ڈاکٹر اسماء خواجہ نے کہا کہ یہ واقعہ محض اتفاقیہ نہیں بلکہ "کشمیر کے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے ایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔” انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات اکثر بھارت میں اعلیٰ سطحی غیر ملکی دوروں کے دوران پیش آتے ہیں تاکہ عالمی توجہ کو اصل مسئلے سے ہٹایا جا سکے۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بڑھتے ہوئے ہائپر نیشنلزم کے کردار کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور خبردار کیا کہ ایسے اقدامات اسلاموفوبیا کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے علاقائی کردار کو کمزور کرنے کی وسیع تر حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔​

شیخ ولید رسول نے پہلگام کی تاریخی حساسیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اجیت ڈوول ڈاکٹرائن کا ذکر کیا، جو ریاستی عناصر کو نشانہ بنانے پر زور دیتا ہے۔ "یہ محض ایک الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک کثیر جہتی حکمتِ عملی ہے، جو ایک بڑے پیٹرن کا حصہ ہے، اور اسے عالمی اور علاقائی حرکیات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے،” انہوں نے کہا۔​

ڈاکٹر نعمان ستار نے اس واقعے کو ۱۱ /۹ کے بعد بھارت کے تزویراتی رویے کے فریم ورک میں دیکھتے ہوئے کہا کہ ایسے حملوں کو اکثر پاکستان کو مستقل مخالف کے طور پر پیش کرنے اور قوم پرستانہ جذبات کو ابھارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے اثرات مہینوں تک جاری رہ سکتے ہیں، جن میں پاکستان کے علاقائی کردار کو غیر مستحکم کرنا اور تعلقات کی معمول پر واپسی کو کمزور کرنا شامل ہے۔​

سید نذیر نے کہا کہ یہ واقعہ کشمیر کے سیاسی تانے بانے کو کمزور کرنے کی کوشش ہے، جس میں مسلم قیادت اور خودمختاری کے باقی ماندہ آثار کو ختم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کے حوالے سے بھارت کی تزویراتی پوزیشننگ کے خلاف خبردار کیا، جسے انہوں نے پاکستان کے قومی مفادات کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا۔​

مقررین نےسیاحوں کو نشانہ بنانے کی غیر معمولی نوعیت پر روشنی ڈالی، جو تاریخی طور پر حتیٰ کہ شدت پسندی کے عروج کے دوران بھی ممنوع تھا۔ مقررین نے کہا کہ یہ ایک آزمودہ فارمولا رہا ہے جس کے ذریعے بھارت نے پاکستان اور مسلمانوں کے نام پر معاشرے کو پولرائز کیا ہے۔ انہوں نے اسے مسلمانوں، کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف عوامی رائے کو بھڑکانے کی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیا، جو ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔​

مقررین نے پاکستان کو "ایک متوازن، مربوط اور پُرعزم رویہ” اپنانے اور قابلِ تصدیق حقائق سے مقابلہ کرنے، ایسے واقعات کے پیچھے چھپی تزویراتی وجوہات کو بے نقاب کرنے، اور پاکستان کے مؤقف کو بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پیش کرنے کے لیے دوست ممالک کو شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔​

اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے بھارتی بیانیے کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بغیر کسی ثبوت یا حملہ آوروں کی شناخت کے، فوری اور ہم آہنگ میڈیا مہم کا آغاز اس بات کا مظہر ہے کہ یہ محض ایک ردعمل نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا اور پیشگی منصوبہ بند بیانیہ تھا، جس کا مقصد عوامی رائے اور پالیسی بیانیے کو مخصوص انداز میں تشکیل دینا تھا۔

رپورٹ لنک

مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوششیں

کشمیر کے تنازعے کو محض پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دوطرفہ مسئلے کے طور پر پیش کرنے کا تصور اب بتدریج ایک زیادہ عالمی فہم میں ڈھل رہا ہے، جس میں اوورسیز کمیونٹی کی سرگرم مداخلت کا کردار نمایاں ہے۔ اسی دوران، پاکستان کی حالیہ سفارتی حکمت عملی میں مؤثر بیانیے اور عالمی میڈیا میں نمایاں موجودگی قابل توجہ ہے۔ کشمیر کے مقدمے کو مؤثر انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک مربوط پالیسی تشکیل دی جائے، سفارتی مشنز اور بیرونِ ملک موجود کشمیری و پاکستانی کمیونٹی کے مابین روابط کو مضبوط کیا جائے، پالیسی ریسرچ میں سرمایہ کاری کی جائے، اور علمی و ابلاغی پلیٹ فارمز کے ساتھ اشتراک کو مزید گہرا کیا جائے۔

ان خیالات کا اظہار ۱۶ مئی ۲۰۲۵ کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس ) اسلام آباد میں ‘مسئلہ کشمیر کا دوبارہ ابھرنا: نظریات اور مستقبل کے امکانات’ کے موضوع پر منعقدہ سمینار میں بیرون ملک مقیم کشمیری رہنماؤں اور سابق سفارتکاروں نے کیا۔ سیمینار سے بیرون ملک سے کشمیری قیادت تحریکِ کشمیر یورپ کے صدر محمد غالب، ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے صدر ڈاکٹر مزمل ایوب ٹھاکر، اور کشمیر کمپین گلوبل کے چیئرمین ظفر نذیر قریشی شریک ہوئے۔ اس موقع پر سابق صدر آزاد کشمیر اور امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر سردار مسعود خان مہمانِ خصوصی تھے، جبکہ آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن اور دیگر شرکاء بھی موجود تھے۔

مقررین نے زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر ایک انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر اجاگر کرنے کے لیے عوامی سطح کی سرگرمیوں اور ریاستی سفارت کاری کو ایک متفقہ بیانیے کے تحت ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔

امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر مسعود خان نے کہا کہ کشمیر کے مقصد کے لیے کام کرنے والے تمام اداروں کو ایک مشترکہ نظریاتی عزم متحد کرتا ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری تارکین وطن کے عزم کو تقویت دے اور کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پر نمایاں کرے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے تین اہم نتائج نکلے ہیں ،جن میں امریکہ دونوں ممالک کو اب حکمت عملی کے لحاظ سے برابر سمجھتا ہے، تجارت کے معاملات میں مساوات کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، اور کشمیر کا مسئلہ دوبارہ عالمی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے سفارتی، فوجی اور معاشی ستونوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اتحاد کو فروغ دینا ہوگا۔

محمد غالب نے پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں پر زور دیا کہ وہ کشمیر کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے کشمیری تارکین وطن کی کوششوں کی زیادہ فعال طور پر حمایت کریں۔ پاکستان کی عالمی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے کشمیر پر ایک واضح اور مستقل پالیسی ضروری ہے، اور حکومت کو اہم ممالک کے ساتھ رسمی طور پر مشغول ہونا چاہیے اور اپنے سفارتی اداروں کو فعال کرنا چاہیے۔ یورپ میں کشمیر کو ایک دوطرفہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے، پاک بھارت حالیہ واقعات نے اس تنازعے کے حل کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔

ظفر قریشی نے کشمیری رہنماوں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ان کی کوششوں کو ایک وسیع پلیٹ فارم کے تحت متحد کرنے پر زور دیا۔ پاکستان کی فعال اور مستقل حمایت اس جائز جدوجہد کے لیے نہایت اہم ہے، جس کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ مزمل ایوب ٹھاکر نے کہا کہ برطانیہ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عوامی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، بھارت کے بارے میں تصورات بھی بدل گئے ہیں۔ اسرائیل کے حق میں بیانیے سے بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے بھارتی غلط معلومات کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے، کشمیر کے حوالے سے اسی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے پیش رفت کو برقرار رکھنا ہوگا۔

اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے زور دیا کہ کشمیر کے مسئلے کو وسیع تر عالمی تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی نظام میں جامع حکمت عملی اپنانا ضروری ہے، جو پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کشمیر کے مقصد کو آگے بڑھائے۔ بیانیہ کی جنگ بین الاقوامی رائے کو تشکیل دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، لیکن مقامی عوام کے لیے تیار کیے گئے بیانیے اکثر عالمی سطح پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ عالمی سطح پر اپنا مؤقف مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے لیے حکمت عملی کو بہتر بنانا ہوگا، انہوں نے تاکید کی کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو مستقل اور واضح موقف، یکجہتی اور اعتماد کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر کشمیر کے لیے ایک منصفانہ مستقبل کی راہ ہموار کی جا سکے۔

رپورٹ لنک


(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter