اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۱)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۹) باء کا ایک خاص استعمال

علمائے لغت کے قول کے مطابق حرف باء کم وبیش چودہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک ان مفہوموں کے علاوہ قرآن مجید میں کچھ مقامات پر حرف باء مزید ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے، ذیل میں مثالوں کے ذریعہ اسے واضح کیا جائے گا:

(۱) یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی۔ (البقرۃ: 178)

آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ حسب ذیل کیا گیا ہے:

’’اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے‘‘(محمد جوناگڑھی)

’’ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے ‘‘(سید مودودی)

’’اے ایمان والو، تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ، لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت‘‘(احمد رضا خان)

’’مومنو! تم کو مقتولوں کے باے میں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت‘‘(فتح محمدجالندھری)

عام طور سے ترجمہ کرنے والوں نے باء کا ترجمہ بدلہ کیا ہے، لیکن اس میں اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقتول آزاد ہو اور قاتل غلام ہو تو آزاد کے بدلے آزاد کس طرح ہوگا، اگر مقتول عورت ہو اور قاتل مرد ہو تو عورت کے بدلے عورت کس طرح ہوگا؟ غرض اس طرح کے کئی اشکالات سامنے آتے ہیں۔

ان ترجموں کے مقابلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کے ترجمہ پر غور فرمائیں:

’’تم پر مقتولین کے سلسلے میں برابری کرنا فرض کیا گیا ہے، آزاد کی حیثیت آزاد کی ہے، غلام کی حیثیت غلام کی ہے، اور عورت کی حیثیت عورت کی ہے‘‘۔

مطلب یہ ہوا کہ مقتول کی جواصولی حیثیت ہے، اس کے مطابق یکساں معاملہ کیا جائے ، اور اس میں کچھ بھی کمی بیشی نہیں کی جائے۔

آیت کے اس ترجمہ کی رو سے یہ آیت دیت کے سلسلے میں رہنمائی کرتی ہے، کہ ہر مقتول کی دیت اس کی اصولی حیثیت کے مطابق برابر ہونی چاہیے۔اس آیت میں تین طرح کے مقتولین کا ذکر ہے، جن کا خوں بہا الگ الگ ہوتا ہے۔کسی بھی اونچ نیچ کا ااعتبار کرکے ایسا کرنا جائز نہیں ہے کہ آزاد مقتول کی دیت غلام والی طے کردی جائے، یا غلام مقتول کے لیے آزاد والی دیت کا مطالبہ کیا جائے، یا مقتول عورت ہو اور مطالبہ مرد والی دیت کا کیا جائے۔اس طرح کی غیر اصولی اونچ نیچ سے دیت کا پورا نظام متأثر ہوگا، اور یہ کسی طرح انسانی معاشرے کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔برابری کے اصول کو برتنے میں ہی انسانوں کے لیے زندگی ہے۔

اس ترجمہ سے آیت کا بعد والا ٹکڑا (فمن عفي لہ من أخیہ شيء) اس پہلے والے ٹکڑے سے اچھی طرح مربوط ہوجاتا ہے، اوراس کی معنویت بھی اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔

مفسرین اور مترجمین عام طور سے قصاص سے مراد قتل کا بدلہ قتل لیتے ہیں، حالانکہ قصاص قرآن مجید میں ہر جگہ برابری کرنے کے مفہوم میں آیا ہے۔

(۲) الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاص۔ (البقرۃ: 194)

’’ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا‘‘(سید مودودی)

’’ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے ‘‘(احمد رضا خان)

’’حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے اور سب قابلِ تعظیم باتوں کا بدلہ ہے ‘‘(احمد علی)

’’ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں‘‘ (فتح محمدجالندھری)

’’حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں ‘‘(محمدجوناگڑھی)

یہاں بھی ترجمہ کرنے والوں نے عام طور سے باء کا ترجمہ بدلہ کیا ہے، تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہونے کا کیا مطلب ہے، آیا یہ مطلب ہے کہ مشرکین کسی ماہ حرام کی بے حرمتی کرتے ہیں تو مسلمان بھی کسی ماہ حرام کی بے حرمتی کرسکتے ہیں؟ یہ مفہوم مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے، مشرکین اگر ماہ حرام کی بے حرمتی کرتے ہیں تو اس سے اہل ایمان کو کسی دوسرے ماہ حرام کی بے حرمتی کا جواز تو نہیں ملے گا۔ زیادہ سے زیادہ مشرکین کی زیادتی کا مقابلہ کرنے کی اجازت رہے گی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں: ’’ماہ حرام کی حیثیت ماہ حرام کی ہے، اور تمام حرام چیزیں (سب کے لیے ) برابر ہیں‘‘۔ مطلب یہ ہوا کہ ماہ حرام اور دوسری تمام حرام چیزوں کی حرمت سب کے لیے یکساں ہے، ایسا نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں سے ان کی حرمت کی پاسداری کا مطالبہ کیا جائے اور مشرکین مکہ کو ان کی بے حرمتی کرنے کا جواز حاصل ہو۔ اس طرح جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ عام مفہو م سے پیدا ہونے والے تمام اشکالات کو دور کردیتا ہے۔

(۳) وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ۔ (المائدۃ: 45)

’’توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ‘‘ (سید مودودی)

’’اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے‘‘ (احمد رضا خان)

’’اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے‘‘(فتح محمدجالندھری)

’’اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے‘‘(محمدجوناگڑھی)

یہاں بھی عام طور سے لوگوں نے باء کا مطلب بدلہ لیا ہے، اور اس کی وجہ سے بڑے اشکالات سامنے آتے ہیں۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی اس آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں: اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا ہے کہ جان کی حیثیت جان کی ہے، اور آنکھ کی حیثیت آنکھ کی ہے، اور ناک کی حیثیت ناک کی ہے، اور کان کی حیثیت کان کی ہے، اور دانت کی حیثیت دانت کی ہے، اور تمام زخموں کے بدلے برابر برابر ہیں۔

اس ترجمہ کی رو سے یہ آیت بھی دیت کے سلسلے میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس آیت سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ جو چیز تلف ہوئی ہے اسی چیز کی دیت واجب الادا ہوگی، اس میں کسی طرح کی نابرابری نہیں ہوگی۔

باء کے اس خاص استعمال کا تذکرہ ہمیں اہل لغت کے یہاں نہیں ملتا ہے، تاہم مندرجہ بالا آیتوں میں اس مفہوم کو اختیار کرنے سے آیت کا مفہوم بہت واضح ہوجاتا ہے، اور اس کو اختیار کرنے سے آیت میں کسی طرح کا اشکال نہیں رہ جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل روایت میں بھی باء کا یہی مفہوم لینا مناسب معلوم ہوتا ہے:

الْبِکْرُ بالبکر جلد ماءَۃ وتغریب عَام وَالثیب بِالثیب جلد ماءَۃ وَالرَّجم۔ (مشکاۃ المصابیح)

اس روایت کا مشہور ترجمہ تو یہ ہے کہ بکر بکر کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے، اور ثیب ثیب کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے۔تاہم اس ترجمہ میں بعض بڑے اشکالات ہیں جیسے کہ اگر ثیب بکر کے ساتھ زنا کرے تو ان دونوں کی سزا کیا ہوگی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک اس کا ترجمہ یوں ہوگا: بکر کو بکر والی سزا ملے گی، یعنی سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی، اور ثیب کو ثیب والی سزا ملے گی، سو کوڑے اور سنگسار کرنا۔

انما الأعمال بالنیات میں بھی باء اسی مفہوم کے لیے ہے، ترجمہ ہوگا کہ اعمال ویسے ہی ہوں گے جیسی نیت ہوگی۔

(۱۴۰) الی برائے ظرف

جس طرح لام کبھی خالص ظرف کا مفہوم بتانے کے لیے آتا ہے، جیسے: 

فَکَیْْفَ إِذَا جَمَعْنَاہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْْبَ فِیْہِ۔ (آل عمران: 25) 

اسی طرح الی بھی کبھی خالص ظرف کا مفہوم بتانے کے لیے آتا ہے۔

مندرجہ ذیل آیتوں میں الی کا ترجمہ عام طور سے مترجمین نے ظرف کا کیا ہے، البتہ صاحب تدبر نے الی کا ترجمہ اس طرح کے مقامات پر غایت ہی کا کیا ہے:

(۱) لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (النساء: 87)

’’وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا ‘‘(سید مودودی)

’’وہ تم سب کو یقیناً قیامت کے دن جمع کرے گا ‘‘(محمد جوناگڑھی)

’’وہ ضرور تمہیں اکٹھا کرے گا قیامت کے دن ‘‘(احمد رضا خان)

’’وہ تم سب کو قیامت کے دن کی طرف لے جاکر رہے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۲) لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (الأنعام: 12)

’’بیشک ضرور تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا‘‘ (احمد رضا خان)

’’قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا ‘‘(سید مودودی)

’’تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’وہ تم کو جمع کرکے ضرور لے جائے گا قیامت کے دن کی طرف‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۳) ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ۔ (الجاثیۃ: 26)

’’پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’پھر وہی تم کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں‘‘ (سید مودودی)

’’پھر تم سب کو اکٹھا کرے گا قیامت کے دن جس میں کوئی شک نہیں‘‘ (احمد رضا خان)

’’پھر وہ تم کو روز قیامت تک، جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے، تم کو جمع کرے گا ‘‘(امین احسن اصلاحی)

(۴) لَمَجْمُوعُونَ إِلَی مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ۔ (الواقعۃ: 50)

’’ضرور اکٹھے کیے جائیں گے، ایک جانے ہوئے دن کی میعاد پر‘‘ (احمد رضا خان)

’’ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے‘‘ (سید مودودی)

’’ضرور جمع کئے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’سب جمع کئے جائیں گے، ایک معین دن کی مقررہ مدت تک‘‘ (امین احسن اصلاحی)

صاحب تدبر نے عام ترجموں سے ہٹ کر جو ترجمہ کیا ہے وہ کمزور معلوم ہوتا ہے۔ قیامت کے دن جمع کرنا ایک صاف اور واضح بات ہے، جبکہ قیامت کے دن تک جمع کرنے میں واضح طور پر تکلف دکھائی دیتا ہے۔ 

غرض جو مفہوم جَمَعْنَاہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْْبَ فِیْہِ میں لام کا ہے وہی مفہوم یَجْمَعُکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِِ میں إِلَی کا ہے۔

(۵) ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَإِلَی الْجَحِیْمِ۔ (الصافات: 68)

مذکورہ بالا مقامات کے برخلاف اس آیت میں عام طور سے لوگوں نے الی کا ترجمہ غایت کا کیا ہے: 

پھر ان کو لے جانا آگ کے ڈھیر میں (شاہ عبد القادر)

پھر ان کی بازگشت ضرور بھڑکتی آگ کی طرف ہے (احمد رضا خان)

پھر ان کو دوزخ کی طرف لوٹایا جائے گا (فتح محمدجالندھری)

اور اس کے بعد ان کی واپسی اسی آتش دوزخ کی طرف ہوگی (سید مودودی)

مذکورہ بالا ترجموں سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ وہ لوگ زقوم کھانے کے لیے دوزخ سے باہر کہیں جائیں گے، اور پھر دوزخ کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ لیکن یہ مفہوم لینا درست نہیں ہے، کیونکہ زقوم کا درخت جہنم کے باہر نہیں بلکہ جہنم کے بیچوں بیچ ہوگا، جیسا کہ اسی سیاق میں اس آیت سے پہلے واضح طور سے بتایا گیا ہے، اس لیے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ وہ کھانے پینے کے لیے دوزخ یا جحیم سے باہر کہیں جائیں گے۔مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک یہاں بھی الی برائے ظرف ہے، اور اس کے مطابق ترجمہ ہوگا: ’’پھر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگی‘‘ یہ بھی واضح رہے کہ یہاں ثم (پھر) زمانی ترتیب کے لیے نہیں ہے بلکہ (مزید برآں ) کے مفہوم میں ہے۔

مندرجہ ذیل ترجمہ میں بھی غالبا اسی کا لحاظ کیا گیا ہے:’’پھر ان سب کا آخری انجام جہنم ہوگا ‘‘(جوادی)

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(اپریل ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter