(416) بلاء کا ترجمہ
قرآن مجید میں ب ل و کے مادے سے مشتق ہونے والے بہت سے صیغے آئے ہیں، یہاں خاص لفظ بلاء کے مفہوم پر گفتگو مقصود ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جہاں بھی آیا ہے وہاں انعامات کا تذکرہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں آزمائش کا بھی ذکر ہے، لیکن اصل سیاق آزمائشوں کے بیان کا نہیں بلکہ آزمائشوں کے حوالے سے انعامات کے بیان کا ہے۔ زیادہ تر یہ لفظ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے بچانے کے حوالے سے آیا ہے۔ایسی ہر جگہ ظلم کو فرعون کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور بلاء کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اس لیے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے کہ فرعون کے ظلم کو اللہ کی طرف سے آزمائش قرار دیا جائے جب کہ یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے ظلم سے نجات کو اللہ کی طرف سے انعام قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ کے اسلوب پر غور کریں تو امتحان کے مقابلے میں احسان کا پہلو بہت زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔
غور طلب بات ہے کہ اگر کسی نے ایک شخص کو مصیبت میں ڈالا اور پھر خود ہی مصیبت سے باہر نکالا تو اسے وہ احسان کے طور پر کیسے پیش کرے گا؟ اس کا احسان تو اس وقت ہوگا جب کوئی اپنی شامت اعمال یا کسی دوسرے کے ظلم و زیادتی کا شکار ہو اور اسے وہ بچالے۔ قرین قیاس بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ زیر نظر مقامات پر اللہ نے بلاء عظیم، بلاء مبین اور بلاءً حسنًا کہہ کر کے اپنے بڑے، خوب اور نمایاں احسانات کا ذکر کیا ہے۔
جہاں تک عربی لغات کی بات ہے، علمائے لغت صاف لکھتے ہیں کہ بلاء کا استعمال مصیبت و آزمائش کے لیے بھی ہوتا ہے اور احسان و انعام کے لیے بھی ہوتا ہے۔
لسان العرب میں ہے: قَالَ ابْنُ بَرِّیٍّ: والبَلاء الإِنعام؛ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی: وَآتَیْناہُمْ مِنَ الْآیاتِ مَا فِیہِ بَلَاء مُبِینٌ؛ أَی إِنْعَامٌ بَیِّن. وَفِی الْحَدِیثِ: مَنْ أُبْلِیَ فَذَکَرَ فَقَد شَکَرَ۔
القاموس المحیط میں ہے: والبَلاءُ یکونُ مِنْحَةً، ویکونُ مِحْنَةً۔
جاہلی دور کے مشہور شاعر زہیر کا یہ شعر بلاء کے انعام کے معنی میں استعمال ہونے کی واضح دلیل ہے:
رأی اللہُ، بالإحسانِ، ما فعلا بکمُ
فأبْلاہُما خَیرَ البَلاءِ الذی یَبْلُو
درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ بتاتا ہے کہ بعض مترجمین نے زیادہ تر مقامات پر بلاء کا ترجمہ آزمائش و امتحان کیا اور کہیں کہیں انعام کیا، جب کہ بعض نے زیادہ ترمقامات پر بلاء کا ترجمہ انعام کیا اور کہیں آزمائش بھی کردیا۔ بعض مترجمین نے سب جگہ آزمائش ترجمہ کیا ہے، تاہم صحیح بات یہ لگتی ہے کہ ان تمام ہی مقامات پر انعام یا اس مفہوم کے کسی لفظ سے ترجمہ کیا جائے۔
(۱) وَإِذْ نَجَّیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ۔ (البقرۃ: 49)
”اور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام)“۔(احمد رضا خان)
”اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)
”اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی آزمائش تھی“۔ (امین احسن اصلاحی)
”(اس واقعہ میں)ایک امتحان تھا تمہارے رب کی جانب سے بڑا بھاری“۔ (اشرف علی تھانوی)
(۲) وَإِذْ أَنْجَیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ۔ (الاعراف: 141)
”اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات بحشی کہ تمہیں بری مار دیتے، تمہارے بیٹے ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں باقی رکھتے، اور اس میں رب کا بڑا فضل ہوا“۔ (احمد رضا خان)
”اور اس میں احسان ہے تمہارے رب کا بڑا“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)
”اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سخت آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی“۔ (محمد جوناگڑھی، بالکل اسی مفہوم کی درج بالا آیت میں مہربانی ترجمہ کیا ہے۔)
”اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی آزمائش تھی“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اس (واقعہ) میں بڑی بھاری آزمائش تھی“۔ (اشرف علی تھانوی)
(۳) فَلَمْ تَقْتُلُوہُمْ وَلَکِنَّ اللَّہَ قَتَلَہُمْ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللَّہَ رَمَی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْہُ بَلَاءً حَسَنًا إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ۔ (الانفال: 17)
”تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا، اور اے محبوب! وہ خاک جو تم نے پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے، بیشک اللہ سنتا جانتا ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور کیا چاہتا تھا ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزمالے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”(اور مومنوں کے ہاتھ جو اِس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے“۔ (سید مودودی)
”بلکہ اللہ نے پھینکی کہ (اللہ اپنی شانیں دکھائے) اور اپنی طرف سے اہل ایمان کے جوہر نمایاں کرے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے“۔(اشرف علی تھانوی)
(۴) وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ أَنْجَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ۔ (ابراہیم: 6)
”اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا یاد کرو اپنے اوپر اللہ کا احسان جب اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تم کو بری مار دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں زندہ رکھتے، اور اس میں تمہارے رب کا بڑا فضل ہوا“۔ (احمد رضا خان)
”اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)
”اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور بے شک اس میں تمہارے رب کی جانب سے بہت بڑی آزمائش تھی“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑا امتحان تھا“۔(اشرف علی تھانوی)
(۵) فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ۔ وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَاإِبْرَاہِیمُ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ۔ إِنَّ هَذَا لَہُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِینُ۔ (الصافات: 103 - 106)
”جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا۔ تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم۔ تم نے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”بے شک یہی ہے صریح جانچنا“۔(شاہ عبدالقادر، سب جگہ انعام اور مدد وغیرہ ترجمہ کیا مگر یہاں جانچنا یعنی آزمائش ترجمہ کردیا)
”یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)
”بیشک یہ روشن جانچ تھی“۔ (احمد رضا خان)
”درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا“۔ (حمد جوناگڑھی)
”بے شک یہ کھلا ہوا امتحان تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”حقیقت میں یہ تھا بڑا امتحان“۔ (اشرف علی تھانوی)
(۶) وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِی إِسْرَاءِیلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِینِ۔ مِنْ فِرْعَوْنَ إِنَّہُ کَانَ عَالِیًا مِنَ الْمُسْرِفِینَ۔ وَلَقَدِ اخْتَرْنَاہُمْ عَلَی عِلْمٍ عَلَی الْعَالَمِینَ۔ وَآتَیْنَاہُمْ مِنَ الْآیَاتِ مَا فِیهِ بَلَاءٌ مُبِینٌ۔ (الدخان: 30 - 33)
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی۔ (یعنی) فرعون سے۔ بیشک وہ سرکش (اور) حد سے نکلا ہوا تھا۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا اور ان کو ایسی نشانیاں دی تھیں جن میں صریح آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اُنہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)
”ہم نے انہیں وہ نشانیاں عطا فرمائیں جن میں صریح انعام تھا“۔ (احمد رضا خان)
”اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں کھلا ہوا انعام تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح انعام تھا“۔(اشرف علی تھانوی، اکثر جگہ آزمائش ترجمہ کیا، مگر یہاں انعام ترجمہ کردیا)
(417) لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِہِ کا ترجمہ
وَجَعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِہِ۔ (ابراہیم: 30)
”اور اللہ کے کچھ ہم سر تجویز کر لیے تاکہ وہ انہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں“۔ (سید مودودی)
اس ترجمہ میں کم زوری ہے۔ یہ مفہوم درست نہیں لگتا ہے کہ مشرکین ہم سر تجویز کریں اور وہ تجویز کیے ہوئے ہم سر ان تجویز کرنے والے مشرکوں کو بہکائیں۔ مفہوم بالکل واضح ہے کہ شرک کے پیشوا اللہ کے ہم سر تجویز کرتے ہیں اور اس طرح وہ پیشوا عام لوگوں کو گم راہ کرنا چاہتے ہیں۔ درج ذیل ترجمہ درست ہے:
”انہوں نے اللہ کے ہم سر بنالیے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں“۔(محمد جوناگڑھی)
(جاری)