حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)

حضرت نیموی کی تصانیف

حضرت نیموی کی شعری تخلیقات کا آغاز تو ان کی متوسطات کی تعلیم سے ہوگیا، غازی پورو لکھنؤ میں ان کے اس ذوق نے بال و پر نکالے اور دسیوں منظوم تخلیقات وجود میں آئیں، لکھنؤ کے دورانِ قیام ان کی مشہور مثنوی ’’نغمۂ راز‘‘ شائع ہوئی، اور جس نے ادباء کے حلقہ میں بہت جلد شہرت حاصل کر لی، وہیں کے دورِ قیام میں انہوں نے اپنی مشہور اور معرکہ آرا کتاب ازاحۃ الاغلاط لکھی اور ان کے بقول جب ان کی مثنوی کو پذیرائی حاصل ہوئی تو ان کی ہمت بندھی اور انہوں نے یہ کتاب شائع کروائی۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جب ۱۳۰۳ھ[۱۸۸۶ء] نے قدم رکھا تو میرے حوصلے نے پاؤں نکالے، اردو میں ایک پُر درد مثنوی لکھی جس کا تاریخی نام نغمۂ راز (۱۳۰۳ھ) رکھا، اور لکھنؤ میں چھپوائی، شائع ہونا تھا کہ ماہرانِ فن نے ایسی داد دی کہ بیان سے باہر ہے، اور اخبار والوں نے ریویو میں وہ دھوم مچائی کہ یکایک ہندوستان میں اس کا ڈنکا بج گیا، شمس العلماء مولانا حسرت عظیم آبادی نے اس خط سے سرفراز فرمایا‘‘۔

اس کے بعد حضرت سعید حسرت کا خط نقل کیا گیا ہے، پھر اخبارات کے ریویو اور تبصرے نقل کئے ہیں، جن میں ہزار داستان حیدرآباد، مشیر قیصر لکھنؤ، شرف الاخبار بہار[شریف]، وغیرہ تھے۔ پھر لکھتے ہیں:

’’بہر کیف جب میری مثنوی نغمۂ راز پہلی دفعہ چھپی اور ملک نے قدردانی کی تو میں نے رسالہ ازاحۃ الاغلاط کو چھپوایا، یہ رسالہ عربی و فارسی کے غلط الفاظ کی تحقیقات میں ہے جس میں کے سیکڑوں شعر درج ہیں، برسوں اس کی تالیف میں میں نے محنتِ شاقہ اٹھائی ہے، مہینوں دماغ سوزی کی ہے، الحمد للہ کہ میری محنت ٹھکانے لگی، کہ ایک عالم نے جان و دل سے پسند کیا، اکثر اخبار والوں نے اس کتاب پر ریویو لکھا، مگر افسوس کہ دو ایک کے سوا اس کے پرچے بھی تلف ہو گئے‘‘۔51

یہ کتاب بھی اسی سال یعنی ۱۳۰۳ھ[۱۸۸۶ء] میں شائع ہوئی، اور ملک میں اس کی پذیرائی ہوئی، لیکن ان کی مذکورہ بالا تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت پہلے سے اس رسالہ کا منصوبہ بنا کر کام کر رہے تھے، اور اس کا مواد جمع کر رہے تھے، یہ ان کی برسوں کی محنت ہے، ممکن ہے کہ یہ شائع تو اس سال ہوا لیکن کئی سال پہلے مکمل ہو چکا ہو، یا اس کا آغاز ہو چکا ہو، عجب نہیں کہ غازی کے دورِ طالب علمی ہی میں ان کے ذہن میں اس کا خاکہ آیا ہو، اور جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے، مختلف کتبِ لسانیات و ادب کے مطالعہ نے ان کے ذہن کو اس کے لئے آمادہ کیا ہو، گویا ان کی تصنیفی زندگی کا آغاز ان کے دورِ طالب علمی ہی سے ہو گیا تھا۔ اور اسی وقت تخلیقی شعور کے ساتھ ان کا تحقیقی شعور بھی پختہ ہو چکا تھا، جو یقیناً‌ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔

اسی رسالہ کو دیکھ کر نواب رامپور نے ان کو بلا بھیجا اور خلعت و انعام سے سرفراز کیا، اپنے یہاں قیام پر اصرار کیا، اور اسی سفر میں داغ دہلوی سے رامپور میں ان کی ملاقات ہوئی۔52

دو سال کے بعد انہوں نے لسانیات ہی کے موضوع پر رسالہ اصلاح لکھا، ان کے بقول:

’’غرض کہ میں اعزاز کا خلعت حاصل کر کے [رامپور سے] پھر لکھنؤ پہنچا، اور پہنچتے ہی اردو انشاپردازی کے متعلق میں نے ایک رسالہ تالیف کیا، جس کا نام اصلاح ہے، اس کی تعریف میں بھی اخباروں والوں نے بہت کچھ عزت بخشی‘‘۔53

اس رسالہ کی تالیف پر اہل عظیم آباد نے بھی ان کو شکرگذاری اور مبارک بادی کا خط لکھا، اور حضرت شاد عظیم آبادی کے دستخط سے یہ خط ان کی خدمت میں لکھنؤ ارسال کیا گیا، جناب شوق قدوائی لکھنوی نے اپنے رسالہ افادات میں، جو شعری لسانیات پر ہے، جابجا اس کی عبارتیں نقل کیں اور اس کے حوالے دئے۔ اس موقع پر حضرت شوق نے یہ بھی لکھا ہے کہ شاد نے اپنی کتاب نوائے وطن میں جو یہ لکھا تھا کہ ہمارے صوبہ کے ادباء دیگر اہلِ زبان کے مقابلہ میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے رہے ہیں، اور یہاں سے اردو زبان کی کوئی ایسی تصنیف وجود میں نہیں آئی جس کی پورے ملک میں پذیرائی ہوئی ہو۔54

نوائے وطن میں شاد عظیم آبادی نے یہ بھی لکھا تھا، کہ دیہات سے لوگوں نے آکر شہر عظیم آباد کی زبان خراب کر دی ہے، جس پر عظیم آباد کے ان ادباء کا طبقہ جو مضافات سے تعلق رکھتے تھے شاد سے ناراض ہوگیا تھا، اسی گروہ سے حضرت شوق کا بھی تعلق تھا، کیوں وہ بھی مضافات کے رہنے والے تھے، یہ بات بھی ان اسباب میں سے ایک تھی جو ہفتہ وار اخبار الپنچ کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنے، اور شاد کے مقابلہ میں سب لوگ متحد ہوگئے تھے، اور ان کے اس نظریہ کی سختی سے تردید کی گئی۔

چند سالوں میں رسالہ اصلاح کا سابق ایڈیشن ختم ہوگیا، تو ۱۸۹۳ء[تقریباً ۱۳۰۹ھ] میں ناشر (نثار حسین مہتمم پیار یار، قومی پریس) نے دوبارہ چھاپنے کا مطالبہ کیا تو اس پر نظر ثانی کی گئی، انہوں نے مقدمہ میں تحریر فرمایا ہے:

’’المختصر اس رسالے نے بہت کچھ قبول پیدا کیا، اور بات کی بات میں ہاتھوں ہاتھ بک گیا، جناب نثار مہتمم پیامِ یار نے دوبارہ چھاپنے کی چند بار مجھ سے اجازت طلب کی، آخر ان کے اصرار سے پہلے نظر ثانی کی، پھر جا بجا محو و اثبات کا اتفاق ہوا، گھٹانے بڑھانے کی نوبت آئی ۔۔۔۔۔ جب یہ درست ہوگیا تو اس پر مختصر سا حاشیہ لکھا اور ایضاح نام رکھا‘‘۔55

یہ حاشیہ ان کی خود نوشت کے بعد لکھا گیا ہے اس لئے اس میں اس کا ذکر نہیں آسکا۔

سرمہ تحقیق

یہ رسالہ حضرت جلال لکھنوی کے اعتراض رد تردید کے جواب کے طور پر لکھا گیا ہے، اس کا ذکر حضرت شوق نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے کہ ان کے رسالہ میں ازاحۃ الاغلاط میں جلال لکھنوی کی تنقیح اللغات سے کچھ اختلاف رائے کا اظہار کیا گیا تھا جو جناب جلال کو پسند نہ آئے، اور انہوں نے رد تردید نامی رسالہ لکھ کر اس کی تغلیط کی، حضرت شوق کو یہ رسالہ اس وقت ملا جب وہ لکھنؤ سے تکمیل تعلیم کے وطن واپس ہو رہے تھے، انہوں نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا کہ گھر پہنچ کر باطمینان اس کا جواب لکھیں گے، وہ وطن پہنچ کر مطمئن ہوئے تو اس کا جواب لکھا، اور وہ دیگر رسائل کے ساتھ شائع ہوا، وہ خود لکھتے ہیں:

’’ازاحۃ الاغلاط میں کہیں کہیں جناب جلال لکھنوی کی تنقح اللغات سے اختلاف ہو گیا تھا، ضمناً بعض جگہ ان کے اقوال کی رد ہو جاتی تھی، ان سے اور مجھ سے وہاں صاحب سلامت تھی، میں کچھ نہ سمجھا کہ صرف اتنے اختلاف سے درپردہ مجھ سے صاف نہیں ہیں، انہوں نے ’’ردِ تردید‘‘ نام ایک رسالہ لکھا اور ازاحۃ الاغلاط پر بیجا خامہ فرسائی کی، اور اس کو اپنے ایک شاگرد کے نام سے چھپوایا، میں بفضلہ تعالیٰ علومِ عربیہ کی تحصیل سے فارغ ہو چکا تھا، آج کل میں فاتحہ فراغ پڑھ کر گھر آنے والا تھا کہ وہ رسالہ مجھ کو وہاں ملا، اس کو لے کر ۱۳۰۵ھ میں شوال کے مہینے مع الخیر وطن پہنچا، اور اس کے جواب میں قلم اٹھایا، آخر اس کی رد لکھ ڈالی، اور سرمہ تحقیق نام رکھا۔ چوں کہ جناب جلال کو اپنے اہلِ زبان ہونے پر غرا تھا، اور ردِ تردید میں مجھ کو پوربی سمجھ کر منھ آئے تھے، میں نے اس کتاب میں پوری خبر لی، بہت سی ایسی ایسی لغزشیں جو اردو محاورات میں ان سے شائع ہوئی تھیں شائع کر دیں، اور اس رسالے کے ساتھ جناب قدس پھرساٹاری کے دو رسالے طومار التوبیخ اور دندان شکن اسی رسالہ کی تردید میں شائع کئے گئے، اور منشی محمد بشیر پکاکوٹی کا ایک رسالہ ’’تذکرۃ الشوق‘‘ نام بھی اس کے ساتھ درج کیا گیا، اس رسالے میں مؤلف نے فقیر حقیر کے حالات قلمبند کئے ہیں، اور اس کا تاریخی نام ظہیر المحاسن رکھا ہے‘‘۔56

ازاحۃ الاغلاط اور اصلاح و ایضاح تینوں لسانی رسائل کو حسرت موہانی نے ایک مجموعہ میں ۱۹۱۸ء میں اردو پریس علی گڑھ سے شائع کیا تھا،57 یہ ایڈیشن راقم کی نظر سے نہیں گذرا۔

اس کے بعد علامہ نیموی نے لسانی موضوعات پر کچھ نہیں لکھا، اور علومِ اسلامیہ کی خدمت کے لئے یکسو ہو گئے، صرف چند سالوں کے بعد اپنے اہلِ وطن کا تذکرہ یادگارِ وطن لکھ کر شائع کروایا، جس میں اپنے حالات بھی تفصیل سے لکھے، اور بالکل آخری عمر میں بنگال کا ایک مختصر سفرنامہ لکھا۔ خود ان کے بقول اب ان شاعرانہ مناظروں اور معرکوں سے ان کی طبیعت سرد ہو گئی تھی، اور ان کے شاگرد مذکور الصدر کے بقول وہ اب اس طرح کے سارے مشغلے ترک کر کے خاموش رہنے لگے تھے۔ یعنی تکمیلِ تعلیم کے بعد وطن واپس آکر وہ پوری سنجیدگی سے علومِ اسلامیہ کی خدمت کے لئے یکسو ہوگئے تھے، اور علومِ اسلامیہ کی تحصیل کا مقصد بھی سمجھ میں آگیا تھا، گرچہ ان کا شعری سفر مسلسل جاری رہا، اور شعری مجلسوں میں حاضری بھی ہوتی رہی، اور ایک دو ادبی معرکے بھی ہوئے، انہوں نے جلد ہی زیارتِ نبوی کا شرف بھی پایا تھا، اس لئے اب تو اپنی توجہ حدیث و فقہ کی طرف مبذول کرنا چاہتے تھے، اس کے بعد ان انہوں نے جو کچھ لکھا وہ خالص دینی اور شرعی موضوعات پر لکھا، ان کے سوانح نگار ڈاکٹر عتیق الرحمٰن عظیم آبادی نے ان اسباب کا اجمالی جائزہ لیا ہے جو ان کے مذہبی تصانیف کا سبب بنے۔58

اس لئے مولانا سید عبدالحی حسنی مصنف نزہۃ الخواطر اور ان ہی اتباع میں مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی اور دیگر حضرات کا یہ کہنا درست نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مدت تک شعر و سخن کی دنیا ہی میں مست رہے اور زندگی کا بیشتر حصہ اسی میں گذار دیا۔ کیوں کہ ۱۳۰۵ھ میں وہ تکمیلِ تعلیم کے بعد لکھنؤ سے وطن آئے تھے اور کے تین سال بعد ۱۳۰۸ھ میں اپنی خود نوشت سوانح شائع کی تھی، جس میں انہوں نے شعر و سخن سے اپنی طبیعت کے سرد ہونے اور آثار السنن کی تالیف کے منصوبہ کا ذکر کیا ہے، نیز ان کے شاگرد منشی بشیر نے اس سے بھی پہلے ۱۳۰۷ھ میں ان کے ذکر میں لکھا تھا:

’’اب آپ لوگ مولانا شوق کا رنگِ کلام ملاحظہ کر چکے تو یہ بھی عرض کر دینا ضرور ہے کہ کئی مہینہ سے جناب موصوف کو شاعری سے بالکل نفرت ہو گئی ہے، مدت کے بعد نعمت عظی فارسی میں ایک پرزور قصیدہ نعتیہ نظم فرمایا ہے جس کی ایک مختصر شرح موسوم بہ حل القصیدہ لکھی ہے، سبحان اللہ کیسا متبرک قصیدہ ہوا ہے کہ جس کا ہر شعر باوضو اور نہایت احتیاط سے لکھا گیا، جس کی برکت سے حضرت مصنف کو عالمِ خواب میں زیارتِ نبوی حاصل ہوئی‘‘۔59

اخیر میں لکھتے ہیں:

’’آج کل جناب ممدوح اپنے وطن میں تشریف رکھتے ہیں، اور وعظ و تلاوتِ قرآن، و تدریسِ احادیث و فقہ و کتبِ دینیہ میں مشغول ہیں، اللہ تعالیٰ عمر میں برکت عطا کرے اور ہمیشہ مکروہات سے محفوظ رکھے، آمین‘‘۔ 60

وہ ۱۳۰۵ھ میں اپنے وطن واپس آکر عظیم آباد میں طرح اقامت ڈالی، ۱۳۱۲ھ[۹۷۔۱۸۹۶ء] میں ان کی نثری یادگار ’’یادگارِ وطن‘‘ منظرعام پر آئی، جس میں انہوں نے اپنے اہلِ وطن کا ذکر کیا ہے۔

۱۳۰۸ھ میں ان کا رسالہ مقالۂ کاملہ بھی شائع ہوا تھا، اس کے ساتھ اخیر میں تین صفحات کا مختصر رسالہ یا مضمون تذییل دربیان تقبیل بزرگوں کی قدم بوسی و دست بوسی کے استحباب میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے ادبیات و لسانیات پر کچھ نہیں لکھا، اور پوری طرح علومِ اسلامیہ کی خدمت کے لئے یکسو ہو گئے، تدریس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فقہی مسائل پر کئی رسائل لکھے اور اپنی جامع کتاب آثار السنن کی ترتیب و تدوین میں مشغول رہے۔

در حقیقت ان رسائل اور آثار السنن کی تصنینف کا محرک بھی ان کے شہر عظیم آباد کا ماحول تھا، ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس شہر اور اس کے مضافات میں علمائے اہلِ حدیث اور مولانا سید نذیر حسین دہلوی کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی، جن میں بہت سے جید علماء تھے اور بہت سرگرم تھے، بالخصوص ان علماء کے سرِگروہ علامہ شمس الحق عظیم آبادی تھے، جو علامہ شوق نیموی کے ہم نسب اور قرابت دار بھی تھے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مراسم بھی اچھے تھے جس کا کچھ ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ شاید اسی ماحول نے ان کو فقہ حنفی کی تائید میں احادیثِ احکام کے ایک جامع مجموعہ کی ترتیب پر آمادہ کیا۔ پھر اس دوران دیگر مباحث بھی زیر بحث آئے اور ان پر رسائل منظرعام پر آئے اور لوگوں نے ان سے سوالات شروع کئے تو انہوں نے ان مسائل پر مستقل رسائل لکھے پھر جواب در جواب کی نوبت آئی اور ان کے علمی رسائل اردو میں بھی بڑی تعداد میں وجود میں آگئے۔ ان کے اصل رسائل تین چار ہی ہیں جو اس دور کے مابہ النزاع مسائل پر ہیں، جن پر اہلِ حدیث و حنفی میں مناظروں کا سلسلہ جاری تھا، ان میں تقلید، آمین بالجہر، رفع یدین، ہاتھ باندھنے کی جگہ اور دیہات میں جمعہ کا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک رسالہ ان کے شیخ پر اعتراض کے جواب میں ہے جس میں مباحثِ تصوف بھی ہیں۔

۱۳۱۲ھ تک خالص علمی و فقہی مسائل پر ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں جس کا ذکر ان کی خود نوشت میں ملتا ہے۔

اوشحۃ الجید فی اثبات التقلید

اس میں طبقۂ اہلِ حدیث کے تقلید پر اعتراض کا پوری تحقیق سے جواب دیا گیا ہے، اور تقلید کا وجوب ثابت کیا گیا ہے، سیکڑوں کتابوں کے حوالے درج ہیں۔ اخیر کے ایک ثلث کتاب میں امام ابوحنیفہ کے حالات و کمالات ہیں، اور ان کے مناقب بیان کئے گئے ہیں۔ پہلی (بار) قومی پریس لکھنؤ سے اس پریس کے ذمہ دار جناب نثار حسین صاحب مالک رسالہ پیامِ یار نے شائع کیا، اس پر سنہ طباعت درج نہیں ہے لیکن علامہ نیموی نے اپنی خود نوشت میں اس کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۳۰۸ھ [۱۸۹۱ء] سے قبل تحریر کی جا چکی تھی، لکھتے ہیں:

’’چنانچہ تقلید کی بحث میں اوشحۃ الجید اور آمین کے باب میں حبل المتین یہ دو رسالے ایسے پرزور لکھے کہ جو لوگ تقلید کو مذموم سمجھتے تھے یا آمین بالجہر کی قوت کے قائل تھے ان میں سے اکثر غیر متعصب حضرات کے خیالات پلٹ گئے‘‘۔61

یہ رسالہ پہلی طباعت کے بعد مصنف کے دور میں یا ان کے فرزند کے دور میں میرے علم میں دوبارہ شائع نہیں ہوا، ان کے فرزند مولانا عبد الرشید نیموی کے قلم سے ایک نسخہ پر کچھ تصحیحات اور اضافے ملتے ہیں اور اس کی اشاعت کے اشارے بھی معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ اس ارادہ کو علمی جامہ نہ پہنا سکے، اور وہی نسخہ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں آگیا۔ اس کے بعد ۲۰۱۹ء میں راقم نے بہار شریف سے اس کو نئی ترتیب کے ساتھ شائع کیا، پھر دارالعلوم دیوبند سے ۲۰۲۲ء میں حواشی کے ساتھ شائع ہوا ہے، پھر بعد میں مجموعہ رسائل حضرت نیموی میں حواشی کے ساتھ شائع ہوا۔

حبل المتین

اوپر اس رسالہ کا ذکر آچکا ہے کہ یہ آمین بالجہر کی بحث پر مشتمل ہے، اس میں پوری بحث کو محققانہ اور نہایت مدلل انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس موضوع پر یہ نہایت مفید اور معلوماتی کتاب ہے۔62 میرے علم میں پہلی اشاعت کے بعد اس کی کوئی اشاعت نہیں ہوئی، ابھی حال میں مجموعہ رسائل کے ضمن میں شائع ہوئی ہے۔ پہلی اشاعت ۱۳۱۱ھ میں ہوئی تھی، اس کے ناشر بھی محمد نثار حسین مالک قومی پریس لکھنؤ ہیں، جہاں سے ان کی دیگر کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ یہ کتاب ۷۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رسالہ کے اخیر میں لکھنؤ کے مشہور عالم مولانا عبد العلی آسی مدراسی کا قطعہ طباعت بھی ہے۔

جامع الآثار فی اختصاص الجمعۃ بالامصار

یہ رسالہ ۱۸ صفحات میں مکمل ہوا ہے، اس کا پہلا ایڈیشن احسن المطابع پٹنہ سے غالباً‌ ۱۳۱۱ھ یا اس کے قریب شائع ہوا تھا، اخیر میں ایک استفتا اور اس کا جواب ہے، جس کے جواب میں علامہ شوق نے فرمایا ہے کہ جب دیہاتوں میں جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں، اور وہ مکروہِ تحریمی ہے، اور مکروہِ تحریمی پر اصرار گناہِ کبیرہ بن جاتا ہے، کتبِ فقہ و فتاویٰ کے حوالہ سے انہوں نے اختصار کے ساتھ نصف صفحہ میں اپنے مدعا کو ثابت کیا ہے۔ اس کی تائید میں متعدد علماء کی تحریریں ہیں، یہ استفتا اور جواب غالباً ۱۳۱۰ھ کا ہے جیسا کہ مولانا رشید احمد گنگوہی کی تحریر میں وضاحت ہے۔ اس جواب کے اخیر میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی ڈیڑھ صفحہ کی تحریر ہے اور تائید میں علمائے دیوبند و کانپور و عظیم آباد کے تائیدی دستخط و مہر۔ مولانا بریلوی لکھتے ہیں:

’’صح الجواب۔ فی الواقع ایسی جگہ جمعہ یا عیدین پڑھنا مذہب حنفی میں گناہ ہے، نہ ایک گناہ بلکہ چند گناہ۔ 
اولاً: جب نماز جمعہ و عیدین وہاں صحیح نہیں تو یہ امر غیر صحیح میں مشغولی ہوئی، اور وہ ناجائز ہے، فی الدرالمختار، تکرہ تحریماً لانہ اشتغال بما لا یصح لان المصر شرط الصحۃ۔ 
ثانیاً: اقول، فقط مشغولی نہیں بلکہ اس ناجائز کو موجبِ شوکتِ اسلام جاننا بلکہ بہ قصد و نیت فرض و واجب ادا کیا، یہ مفسدہ عقیدہ ہے، جس سے علما نے تحذیر شدید فرمائی۔ حتیٰ اوصوا بترک التزام مستحب اذا خیف ان یظنہ العوام واجباً فی اخف منہ۔ قال سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لا یجعل احدکم للشیطان شیئاً من صلاتہ یریٰ ان حقاً علیہ ان لا ینصرف الا عن یمینہ، لقد رایت رسول اللہ ﷺ کثیراً ینصرف عن یسارہ، رواہ الشیخان۔ فاذا کان فی ما ھو مشروع باصلہ فما ظنک بما لم یجز من راسہ۔ 
ثالثاً: جب کہ واقع میں نماز جمعہ و عیدین نہ تھی تو نماز نفل ہوئی کہ باجماعت و اعلان و تداعی ادا کی گئی، یہ ناجائز ہوا، فی درالمختار، عن العلامۃ الحلبی محشی الدر ھو نفل مکروہ لادائہ بالجماعۃ۔ یہ تینوں وجہیں جمعہ و عیدین سب کو شامل ہیں۔ 
رابعاً: اقول، جمعہ میں اس کے سبب جو ظہر نہ پڑھیں، ان پر تو فرض ہی رہ گیا، ترکِ فرض اگرچہ ایک ہی بار ہو خود کبیرہ ہے، اور جو بزعمِ خود اختیاطی رکعات پڑھیں وہ بھی تارکِ جماعت ضرور ہوئے، اور جماعت مذہب معتمد میں واجب ہے جس کا ایک بار ترک بھی گناہ ہے، اور متعدد بار ہو کر وہ بھی کبیرہ۔ کما نصوا علیہ والامر اوضح من ان یوضح۔ 
خامساً: وہ احتیاطی رکعات والے کہ حقیقتاً مذہب حنفی میں آج ہی ظہر پڑھ رہے ہیں، فانھا اذا لم تصح الجمعۃ بقیت فریضۃ الظھر فی اعناقھم، فاذا نووا آخر ظھر ادرکوھا ولم یودوھا وجب انصرافھا الی ظھر الیوم۔ باآن کہ مسجد میں جمع ہیں، جماعت پر قادر ہیں، تنہا پڑھتے ہیں، یہ دوسری شناعت ہے کہ مجتمع ہو کر ابطالِ جماعت جسے شارع نے خوف جیسی حالتِ ضرورت شدیدہ میں بھی روا نہ رکھا، بلکہ ابطال درکنار موجودین میں بلا وجہ شرعی تفریق جماعت کو ناجائز رکھ کر ایک ہی جماعت کرنے کا طریقہ تعلیم فرمایا۔ کما نطق بہ القرآن العظیم وباللہ الھدایۃ الی صراط مستقیم واللہ تعالیٰ اعلم۔ 
کتبہ عبدہ المذنب احمد رضا البریلوی عفا عنہ محمد المصطفیٰ النبی الامی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔
اصاب المجیب الجواب صحیح الجواب صحیح 
وتوکل علی العزیز الرحمٰن بندہ محمود عفی عنہ رشید احمد ۱۳۰۱ھ
آپ کی مہر بخط طغرا ہے مدرس اول مدرسہ دیوبند محدث گنگوہی‘‘

ان کے علاوہ مولانا احمد حسن عفی عنہ (استاذ الفضلاء صدر ندوۃ العلماء مقیم کانپور) [مولانا] محمد فاروق [چریاکوٹی] (مدرس اول دارالعلوم ندوہ) [مولانا] عبداللطیف عفی عنہ [رحمانی] (مفتی ندوہ و مدرس دارالعلوم) کی تصویبات ہیں۔ اخیر میں دو مختصر تائیدی تحریریں حضرت شاہ سلیمان پھلواروی، اور مولانا ابوالمحامد عبدالمجید لکھنوی فرنگی محلی مفتی ندوہ کی ہیں۔

جلاء العین فی رفع الیدین

اس کا بھی پہلا ایڈیشن قومی پریس لکھنؤ سے شائع ہوا تھا، جو ان کی دیگر بہت سی کتابوں کا ناشر ہے، سنہ طباعت ندارد۔

اس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ لوگوں نے اس سلسلہ میں سوالات پوچھے اس لئے یہ رسالہ لکھنے کی ضرورت پیش آئی ورنہ آج کل آثار السنن کی ترتیب سے فرصت کہاں۔ موضوع نام سے ظاہر ہے۔

الدرۃ الغزۃ فی وضع الیدین علی الصدر وتحت السرۃ

تبیان التحققیق فی ما یتعلق بالتعلیق

اس کے ساتھ ہی الدرۃ الغزۃ فی وضع الیدین علی الصدر وتحت السرۃ اور تبیان التحققیق فی ما یتعلق بالتعلیق شائع ہوئی ہے۔

تبیان التحقیق کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

فیقول الخادم للحدیث النبوی محمد بن علی المکنی بابی الخیر والمدعو بظہیر احسن النیموی، ان کتابی آثار السنن من ابکار المنن الذی اولفہ فی آناء ھذہ الاعصار واصنفہ من الاحادیث والآثار مع تحقیق الروایات وتنقید الاسانید منتقیا من الکتب الحدیثیۃ کالسنن والمعاجم والمسانید وقضی اللہ سبحانہ لاتمامہ وجعلہ مقبولا بین انامہ، قد بلغ من کتاب الطہارۃ الی آخر ابواب الصلاۃ، وأسلوبہ کبلوغ المرام والمشکاۃ وأعلق علیہ تعلیقا حسنا وأشرح لہ شرحا مستحسنا مسمیا بالتعلیق الحسن علی آثارالسنن، وقد تفردت فی مواضع من ہذا التعلیق بتحقیقات عجیبۃ ووفوائد غریبۃ خلت عنہا زبر المحدثین ولم یظفر بہا أحد من المتقدمین والمتأخرین۔

یہ درحقیقت ان کی آثار السنن کی چند تحقیقات کو علامہ نیموی نے اصل کتاب کی اشاعت سے قبل چند اوراق میں شائع کر کے اہلِ علم کے سامنے پیش کرنا چاہا تھا تاکہ اہلِ علم کی رائے آئے، اس کی سنہ تاریخ نہیں معلوم لیکن یہ ان کی کتاب الدرۃ الغرۃ کے بعد لکھی گئی ہے اس لئے اس میں اس کتاب کا حوالہ ان الفاظ میں ملتا ہے:

وقد بینتہ فی رسالتی الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدر وتحت السرۃ فعلیک أن تراجعہا۔

الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین فی وضع الیدین علی الصدر وتحت السرۃ کا عنوان بھی ظاہر ہے، اور یہ بھی حضرت نیموی نے خود ہی تحریر فرمایا تھا، اس کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے:

’’خادمِ حدیثِ نبوی ابوالخیر محمد ظہیر احسن شوق نیموی عرض کرتا ہے کہ وہ احادیث و آثار جو محلِ وضع الیدین کے باب میں کتبِ احادیث میں مروی ہیں اور فقیر کو نہایت تلاش و تفحص سے ملے ہیں مع جرح و تعدیل شائقینِ سنت کی خدمت میں پیش کرتا ہے اور اس رسالے کا نام الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدر و تحت السرۃ رکھتا ہے، وما توفیقی الا باللہ‘‘۔

حضرت نیموی کے اصل رسائل یہی ہیں اور ان رسائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی کے جواب میں یہ رسائل نہیں لکھے ہیں، ہاں اس موضوع پر بعض کتابوں کی تردید ان میں ضرور ملتی ہے، پھر اس کے جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ان رسائل کی تعداد دوگنی ہو گئی۔ ہاں ان کا رسالہ مقالہ کاملہ ضرور ایک رسالہ کے جواب میں مستقل تحریر کیا گیا ہے۔

رد السکین

حبل المتین نامی کتاب جب چھپ کر منظر عام پر آئی تو احناف کے علمی حلقہ میں تو اس کی پذیرائی ہوئی لیکن اہلِ حدیث طبقہ میں برہمی پیدا ہوئی، اور مولانا محمد سعید بنارسی نے اس کے رد میں السکین لقطع حبل المتین نامی کتاب لکھی، اور حبل المتین کے حوالوں کو غلط ثابت کیا، اس کا جواب پھر حضرت نیموی نے رد السکین لکھ دیا۔ ۱۸ صفحات کا یہ رسالہ ۱۳۱۲ھ [۹۶۔۱۸۹۵ء] میں مولانا کی کتابوں کے ناشر نثار حسین صاحب نے اپنے قومی پریس سے شائع کیا۔63

سرورق:

’’رد السکین یعنی حبل المتین کی تائید اور جناب مولوی محمد سعید صاحب بنارسی کے رسالہ کا جواب باصواب ۔۔ مولفہ علامۂ زمن جناب مولانا ابوالخیر محمد ظہیر احسن صاحب شوق محدث نیموی عظیم آبادی ۔۔ حسب الحکم ناصر الملۃ امیر الامراء عالی جناب شیخ محمد بہاء الدین خاں بہادر وزیر اعظم ریاست جوناگڑھ باہتمام خاکسار محمد نثار حسین نثار مالک کارخانہ عطر و قومی پریس و مہتمم پیامِ یار ۔۔۔ ۱۳۱۲ہجری ۔۔ قومی پریس لکھنؤ میں چھپی۔‘‘

مقدمہ میں لکھتے ہیں:

’’اما بعد خادمِ حدیثِ نبوی محمد ظہیر احسن شوق نیموی عرض کرتا ہے کہ جب میں نے بحث آمین میں رسالہ حبل المتین لکھ کر شائع کیا تو اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عنایت سے ملک پر اس کا بڑا اثر پڑا، کہ بہتیرے مذبذبین سنبھل گئے، اکثر قائلینِ بالجہر کے خیالات پلٹ گئے، اہلِ علم میں سے کسی نے لکھا کہ بیشک یہ رسالہ نہایت قابلِ قدر تالیف ہوا ہے، ……‘‘۔

اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ کس طرح اہل حدیث حضرات کی طرف سے اس کا جواب لکھا گیا اور پھر اس کے جواب میں یہ کتاب لکھی گئی۔

رد الرد

اس کے جواب در جواب میں ایک اور رسالہ علامہ نیموی کے قلم سے رد الرد کے عنوان سے شائع ہوا۔

المجلی علی المحلی

یہ رسالہ درحقیقت حضرت نیموی کے رسالہ جلاء العین فی رفع الیدین کے جواب میں مولانا محمد علی مؤی کے رسالہ المحلی بکل زین فی رد جلاء العین کا جواب ہے۔ سرورق:

’’المجلیٰ مع ضیاء العین والکلام المستحسن مؤلفہ محدث کامل الفن صاحبِ آثار السنن جناب مولانا محمد ظہیر احسن صاحب شوق نیموی حسبِ فرمائش مجمع اخلاقِ صوری و معنوی جناب منشی محمد ظہور احسن صاحب نیموی باہتمام مولوی محمد عبدالقادر صاحب مالک مطبع احسن المطابع پٹنہ محلہ گوبند عطار دراحسن المطابع طبع شد۔‘‘

اس کے آغاز میں حسبِ ذیل الفاظ ملتے ہیں:

’’اما بعد، خادمِ حدیثِ نبوی محمد ظہیر احسن شوق نیموی عرض کرتا ہے کہ فی الحال ہمارے قدیم کرم فرما جناب مولوی محمد علی ساکن مؤ ضلع اعظم گڑھ نے ہمارے رسالہ جلاء العین فی رفع الیدین کا جواب لکھ کر شائع کیا ہے، جس کا نام القول المحلیٰ بکل زین رکھا ہے۔‘‘

یہ چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔

ضیاء العین علی ازالۃ الشین

جلاء العین کا ایک جواب مولانا محمد سعید بنارسی نے بھی دیا تھا جس کا عنوان تھا، ازالۃ الشین۔ حضرت شوق نیموی نے اس کے جواب میں ضیاء العین علی ازالۃ الشین تحریر فرمایا۔

الغرہ علی القرہ

ضیاء العین کا جواب پھر مولانا بنارسی نے سید محمد حسن کے نام سے لکھ کر قرۃ العین کے نام سے شائع کیا، اس کی تردید میں حضرت نیموی نے یہ رسالہ الغرہ علی القرہ لکھا۔

الکلام المستحسن فی رد التعقیب الحسن

گذر چکا کہ حضرت نیموی نے تبیان التحقیق کے نام سے آثار السنن کے چند مباحث کو شائع کیا تھا، اس کے رد میں مولانا محمد علی مؤی نے التعقیب الحسن علی المولوی ظہیر احسن لکھی، اس کے جواب میں حضرت نیموی نے الکلام المستحسن فی رد التعقیب الحسن لکھی۔ یہ رسالہ بھی اردو میں ہے۔

تبصرۃ الانظار

جامع الآثار کا ذکر گذر چکا ہے، اس کے جواب میں مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری نے تنویر الابصار لکھی جس کا جواب حضرت نیموی نے اس عنوان سے دیا۔ یہ حضرت مصنف کے رسالہ سیرِ بنگال کے ساتھ شائع ہوا ہے۔

لامع الانوار

جامع الآثار کا دوسرا جواب مولانا محمد علی مؤی نے المذہب المختار کے عنوان سے لکھا جس کا جواب حضرت مصنف نے اس رسالہ کے ذریعہ دیا۔ یہ رسالہ ان کے دیگر مذکورہ جوابی رسائل کے مقابلہ میں کسی قدر مفصل اور ضخیم ہے۔

یہ سارے رسائل شائع ہوچکے ہیں، جس میں بیشتر مختصر ہیں، ان میں بہت سے علمی مباحث ہیں لیکن پھر یہ کہنا درست ہے کہ ان مناظروں کا کیا حاصل ہوا، سمجھ میں نہیں آتا۔

المقالۃ الکاملہ فی رد الاجوبۃ الفاضلۃ الفاخرہ

یہ کتاب مولانا محمد علی مؤوی کی کتاب الاجوبۃ الفاضلۃ الفاخرہ کے جواب میں لکھی گئی ہے، اس لئے اس کا پورا نام ہے المقالۃ الکاملہ فی رد الاجوبۃ الفاضلۃ الفاخرہ، یہ رسالہ مولانا مؤوی نے نواب نورالحسن بن نواب صدیق حسن خاں کے دس رسائل کی تردید میں لکھا تھا، خاص طور پر جہاں جہاں ان کے شیخ حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی کی تعریف تھی اس پر تنقید کی گئی تھی۔ اس لئے علامہ شوق نیموی نے اپنے شیخ سے غایتِ عقیدت و محبت میں ان اعتراضات کا جواب دینا ضروری سمجھا اور یہ کتاب لکھی جس میں ان کا ہر اہم اعتراض نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ بیشتر مسائل فقہ و تصوف سے متعلق ہیں۔ 

تذییل در بیان تقبیل

حضرت گنج مراد آبادی کی دست بوسی کی اجازت پر مصنف اول کو سخت اعتراض تھا اس لئے اخیر میں الگ سے علماء کی دست بوسی کے جواز و استحباب پر تین صفحات میں دلائل کی روشنی میں گفتگو کی گئی ہے، جو مستقل مضمون یا رسالہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اس کو خود مصنف نے تذییل در بیان تقبیل کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس سے اپنے شیخ سے ان کی عقیدت و محبت بھی واضح ہے، اور جوابات کے ساتھ حضرت والا سے متعلق انہوں نے اپنے مشاہدات کا بھی ذکر کر دیا ہے۔ یہ رسالہ بھی قومی پریس لکھنؤ سے ۱۳۰۸ھ میں شائع ہوا تھا۔64

وسیلۃ العقبیٰ

حضرت نیموی کا ایک رسالہ وسیلۃ العقبیٰ بھی ہے جو مناظراتی موضوعات سے الگ خالص تذکیر و وعظ کے موضوع پر ہے، جس میں ازاحۃ الاغلاط کے علاوہ یہ فارسی زبان میں ان کی دوسری یادگار ہے، اور بالکل آخری دور کی تحریر ہے، اسی لئے نامکمل ہے، پتہ نہیں انہوں اتنے اہم اور عام موضوع کے لئے اپنے رسائل کے برخلاف اردو کے بجائے فارسی زبان کا انتخاب کیوں کیا۔ اس کی اشاعت ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا عبد الرشید فوقانی کے اہتمام سے اور انہی کی کتابت کے ساتھ ہوئی، سرورق کے بالکل اخیر ان کے قلم سے یہ شعر ہے

خود وسیلہ را نوشتم در نہاد
تا بماند خط دستم یادگار

اور اس کی کتابت بھی عام مطبوعہ کتابوں سے بالکل الگ ہے، اور بادی النظر میں قلمی کتاب معلوم ہوتی ہے، سرورق کے الفاظ یہ ہیں:

’’ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ ۔۔۔ لن یوخر اللہ نفساً اذا جاء اجلھا ۔۔ وسیلۃ العقبیٰ فی احوال المرضیٰ والموتیٰ تصنیف لطیف علامۂ کامل الفنّ فہامۂ مشہورِ زمن صاحبِ آثار السنن محقق یلمعی، محدث لوذعی جناب مولانا محمد ظہیر احسن شوق نیموی علیہ رحمۃ اللہ القوی۔ باہتمام محمد عبدالرشید فوقانی بن شوق نیموی غفر اللہ ذنوبھما در مطبع قومی پریس واقع شہر لکھنؤ ۔۔ مطبوع گردید ۔۔۔ قیمت تین روپے علاوہ محصول ۔۔ کاتب کتاب ھذا فوقانی بقلم خود۔‘‘

حاشیہ پر دائیں جانب باریک خط میں تحریر ہے: ’’آغازِ طبع در جنوری ۱۹۶۵ء و شعبان ۱۳۸۴ھ‘‘۔ کتاب ۳۲ صفحات میں ہے۔ مقدمہ میں خطبہ کے بعد تحریر ہے:

’’امابعد! می گوید امیدوار رحمت پروردگار رہادی ابوالخیر محمد ظہیر احسن شوق نیموی عظیم آبادی بن واصل بارگاہ لم یزلی جناب شیخ سبحان علی افاض اللہ علیہ شآبیب الرحمۃ والغفران وسقاہ اللہ بامطار الکرم والرضوان کہ چون این رسالہ را کہ در احکام اہل علل واموات است از آیات واحادیث واقوال مشاہیر بنوک قلم آوردم وباسم وسیلۃ العقبیٰ فی احوال المرضیٰ والموتیٰ موسوم کردم چشم کہ چون ناظرین بمطالعہ این کتاب پردازند جامع الاوراق را از دعائے حسن خاتمہ محروم نہ سازند۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ولا تجعل فی قلوبنا غلاً للذین آمنوا انک غفور رحیم۔‘‘

رسالہ میں موت کے تذکیری مباحث کے ساتھ علمی و فقہی مباحث بھی درج ہیں۔ فصلِ اول حقیقتِ موت و اتباعِ شریعت کے عنوان سے ہے۔ دوسری فصل فضیلتِ ذکرِ موت کے عنوان سے۔ تیسری فصل کا عنوان ہے کراہت از موت۔ فصل چہارم، ممانعتِ تمنی موت۔ چھٹی فصل، حرمتِ خود کشی۔ ساتویں فصل، فضیلتِ مرض۔ فصل ہفتم، در تحریکِ عیادت۔ فصل ہشتم، ثوابِ عیادت۔ فصل نہم، آدابِ عیادت۔ فصل دہم، حکمِ طاعون۔ گیارہویں فصل، تحریکِ علاج و اجتناب از ادویہ محرمہ۔ بارہویں فصل، رقی وتمائم۔ تیرہوں فصل، ذکر افسونھائے مذمومہ یعنی مذموم و ممنوع گنڈے اور تعویذات۔ اسی پر یہ رسالہ مکمل ہو جاتا ہے۔

اس کی تاریخِ تصنیف کا پتہ نہیں چل سکا کہ آیا یہ ابتدائی دور کی ہے یا بالکل اخیر دور کی، بہ ظاہر ثانی الذکر رائے قرینِ قیاس ہے، شاید وفات سے قبل ہی تحریر کیا گیا ہو۔ اس میں ایک دو جگہ فرزندِ مصنف مولانا فوقانی کا حاشیہ بھی ہے لیکن انہوں نے اپنی تصانیف کے ضمن میں تکملہ وسیلۃ العقبیٰ کے عنوان سے ایک کتاب کا ذکر کیا ہے، پتہ نہیں وہ اس میں شامل ہے، یا اس کے علاوہ تھی، اور شائع ہوئی یا نہیں ہو سکی، معلوم نہیں۔

جلاء العین دوسرے ایڈیشن (۱۹۳۵ء،۱۳۵۴ھ) کے دوسرے صفحہ کے حاشیہ پر اس کتاب کے متعلق حسبِ ذیل اشتہار درج ہے:

’’وسیلۃ العقبیٰ: فارسی زبان میں موتیٰ کے حالات اور ان کے سماع کی بحث، بعدِ تدفین قرآن پڑھنے کا حدیث صحیح مرفوع سے ثبوت، زیارتِ قبور وغیرہ کی بحث قابلِ دید ہے، نیموی نے فصل سماعِ موتیٰ تک لکھا تھا، ابنِ نیموی محمد عبدالرشید نے دس فصل اضافہ کر کے کتاب کو تمام کر دیا ہے، یہ بھی ان شاء اللہ مطبوع ہوا چاہتی ہے۔‘‘

لیکن راقم کے پیش نظر جو نسخہ ہے اس میں نہ سماعِ موتیٰ کی بحث ہے نہ ایصالِ ثواب وغیرہ کا ذکر، نہ دس فصلوں کے اضافہ کی کوئی وضاحت، حالاں کہ یہ کتاب اس اشتہار کے بہت بعد شائع ہوئی، پتہ نہیں مولانا فوقانی نے مرتب کر لیا تھا یا محض عزم کی بنیاد پر ہی اشتہار دے دیا تھا، جیسا بہت سے موقعوں پر نظر آتا ہے۔ بہرحال کتاب کا جو حصہ موجود ہے وہ اس لائق ہے کہ اردو میں اس کا ترجمہ کر کے شائع کیا جائے، بالخصوص فضائل کی بحثیں۔

ایک فتویٰ

علامہ نیموی کا ایک فتویٰ جو کتب خانہ خدا بخش میں قلمی ذخیرہ میں محفوظ ہے، ان کی اہم اور آخری دور کی یادگار ہے، اسے پہلی بار یہاں نقل کیا جا رہا ہے:

’’استفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے انتقال کیا اور چھوڑا دو بیٹیاں اور دو حقیقی بہنیں، اور دو حقیقی پھوپھیاں، اور ماں اور علاتی چچا کا ایک بیٹا، ایسی حالت میں ترکہ متوفیہ سے کس کو کس قدر پہنچے گا، بینوا توجروا۔
الجواب: بعد تقدیم ما تقدم علی الارث کل متروکہ ہندہ بارہ سہم پر منقسم ہو کر چار چار سہم دونوں بیٹویوں کو اور دو سہم ماں کو اور باقی یعنی دو سہم دونوں بہنوں کو ملے گا۔ اور دنوں پھوپھیاں اور علاتی چچا کا بیٹا محروم۔ ہکذا حکم الکتاب واللہ اعلم بالصواب۔ کتبہ محمد ظہیر احسن النیموی۔ (مہر۔۔۔محمد ظہیر احسن۱۳۰۴ھ)‘‘

ان کی ادبی باقیات میں ان کی لسانی کتابوں کے علاوہ یادگارِ وطن اور سفرنامہ سیرِ بنگال اہم ہیں، اور تیسرے ان کا دیوان۔

یادگارِ وطن

علامہ نیموی کے نثری باقیات و آثار میں دو ہی قابلِ ذکر کتابیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ ان کے اسلوب کا تعین ممکن ہے، اور ان دونوں کا تعلق غیر افسانوی نثر سے ہے، اور ان سے ان کا نثری اسلوب سمجھنا اور اس پر بحث کرنا ممکن ہے۔ جن میں ایک ابتدائی دور کی اور ایک ان کے آخری دور کی یادگار ہے۔ اول الذکر ان کے اہلِ وطن کے حالات و تذکرہ پر مشتمل ہے، جس میں خود ان کی مفصل خود نوشت بھی ہے۔ ان کے اسلوبِ تحریر پر روشنی ڈالنا تو کسی ماہرِ فن کا کام ہے البتہ یہ کہنے میں تامل نہیں کہ معاصر اسلوب پر انہیں پوری قدرت تھی، اور زبان زولیدگی اور بوجھل تعبیرات و الفاظ سے بہت حد تک صاف نظر آتی ہے، البتہ اس وقت کے ماہر و معروف انشا پردازوں کے مقابلہ میں ان کا اسلوب بہت زیادہ ممتاز نہیں نظر آتا، معاصر ادباء بالخصوص دبستان عظیم آباد کے نثر نگاروں، شاد، آزاد سے ان کے اسلوب کا موازنہ مستقل موضوع ہے۔

جہاں تک کتاب کے مشمولات و مندرجات کا تعلق ہے، یا موضوعی تجزیہ کی بات ہے تو سلسلہ میں راقم کی رائے یہ ہے کہ اردو میں کسی ایک بستی کے افراد و باشندگان کے تذکرہ کے اعتبار سے کم از کم صوبہ بہار کی سطح پر یہ اپنی نوعیت کی اولین کوشش نہیں تو ابتدائی کتابوں میں ضرور ہے، تاریخِ رمضان پور اور آثارِ ترہت وغیرہ اسی دور میں لکھی گئیں۔ اس کے بعد آثارِ کاکو، آثارِ منیر، جیسی کتابیں وجود میں آئیں۔ فارسی میں پھلواری شریف کے بزرگوں کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن اردو میں وہاں کے بزرگوں پر اعیانِ وطن اس کے کتاب تقریباً‌ نصف صدی بعد وجود میں آئی۔ اس میں انہوں نے اپنے اہلِ وطن کا اجمالی ذکر کیا ہے، آثارِ ترہت، شاد عظیم آبادی کی تاریخِ بہار، اور اس جیسی ایک دو کتابیں اس سے قبل شائع ہو چکی تھیں، لیکن کسی ایک بستی کے افراد پر اردو میں میرے علم میں یہ پہلی کتاب ہے۔ 

اس کتاب میں ان کے لسانی مباحث، قطعات اور ان کی تشریحات کو نکال دیا جائے اور خود ان کی خود نوشت نکال دی جائے، جو کتاب کے ایک چوتھائی کو ضرور محیط ہوگی، تو کتاب کے چند صفحات ہی بچ جائیں گے جس میں ان کے والد، اعمام و اجداد کا ذکر ہے، دیگر اہلِ وطن کا اجمالی ذکر ہے۔ اس میں حضرت نیموی کے کا معیارِ انتخاب کیا رہا ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے کچھ افراد کا ذکر کیا اور کچھ کو نظر انداز کیا، اس کا پتہ نہیں چلتا، بہ ظاہر انہوں نے اپنے قریبی اعزہ کے تذکرہ کو ہی ترجیح دی ہے، جن میں فارسی تعلیم کے حاملین کا ذکر تو ملتا ہے لیکن کوئی ایسا نام بادی النظر میں نہیں نظر آتا جس نے علومِ عربیہ و اسلامیہ کی، جو اس وقت اعلیٰ تعلیم سمجھی جاتی تھی، یا انگریزی کی اعلیٰ اسانید، جن کا اس وقت تک بہت حد عظیم آباد میں رواج ہو چکا تھا، حاصل کی تھی، اس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ اس وقت تک حضرت نیموی کے وطن میں کوئی نامور فاضل نہیں تھا، ورنہ وہ اس کا ذکر ضرور کرتے۔ البتہ ان کے بعد کئی نام نظر آتے ہیں جنہوں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، البتہ ان کی بستی کو تعلیم سے بالکل بے بہرہ بھی نہیں کہا جا سکتا، فارسی تعلیم جو کہ انٹرمیڈیٹ یا گریجویشن کی تعلیم کے مساوی تھی ان کے وطن میں پوری طرح رائج نظر آتی ہے۔ کچھ ایسے نام بھی ہیں جو زمینداری یا پہلوانی کی وجہ سے نامور تھے، اور قیاس غالب ہے کہ جن لوگوں کا انہوں نے ذکر کیا ہے وہ سب ان کے ہم برادری صدیقی النسب ہیں۔

حضرت نیموی کی وطن سے محبت اس کتاب کی سطر سطر سے نمایاں ہے، لیکن انہوں نے اس کی تاریخ پر کوئی خاطر خواہ روشنی نہیں ڈالی ہے، کہ یہ بستی کب آباد ہوئی، اور کن علاقوں کے زیر انتظام رہی، البتہ جابجا حواشی میں اپنے علاقہ کے مختلف قصبات و دیہات اور شہروں کا بھی تعارف کرایا ہے۔ اس کا سب سے بڑا حصہ ان کے خود نوشت پر مشتمل ہے، جو انہوں نے حروفِ تہجی کی ترتیب کے مطابق حرف ظ کے ذیل میں اپنے نام ظہیر احسن نام کے تحت لکھا ہے، اس میں انہوں نے بہت تفصیل سے اپنے لکھنؤ کے ادبی معرکہ کا ذکر کیا ہے، اور لسانی مباحث اور قطعات تاریخ بھی اس قدر ذکر کئے ہیں، کتاب کا آدھا حصہ شاید اسی کو محیط ہو۔ حواشی میں اس کے علاوہ بھی جابجا تاریخی اور علمی مفید معلومات ہیں۔ انہوں نے اپنے شعری متروکات اور تلامذہ شاعری کی فہرست بھی درج کی ہے۔ اگر ان سب کو نکال دیا جائے تو کتاب شاید موجودہ ضخامت کا نصف حصہ رہ جائے۔ یہ کتاب بھی ان کے قیام پٹنہ کے بالکل ابتدائی دور کی یادگار ہے، اور اس پہلے ایڈیشن کے بعد اب تک اس کا کوئی اور ایڈیشن منظر عام پر نہیں آیا ہے، یہ بھی قومی پریس لکھنؤ سے ۱۳۱۲ھ میں شائع ہوئی تھی۔

سیرِ بنگال

ان کا دوسرا نثری کام ان کا چند ورقی سفرنامۂ بنگال ہے، جو بالکل ان کے اخیر دور کی یادگار ہے۔ سیرِ بنگال کے عنوان سے ۲۶ صفحات کا یہ رسالہ احسن المطابع پٹنہ سے ۱۳۱۹ھ (۱۹۰۱ء) میں اسی سال اس کی اشاعت ہوئی جس سال ان کا سفر ہوا تھا۔ غیر منقسم بنگال کے اس سفرنامہ کو ایک مفصل مضمون سے تعبیر کرنا زیادہ موزوں ہوگا، یہ سفر درحقیقت کلکتہ کی ایشیاٹک سوسائیٹی کے کتب خانہ سے استفادہ اور آثار السنن کی تالیف کے لئے مواد کی فراہمی اور تحقیقِ کتب کے لئے کیا گیا تھا، لیکن کلکتہ کے علاوہ انہوں نے دوسرے مقامات کی بھی سیر کی۔ یہیں ان کی مولانا ابوالکلام آزاد کے والد سے ملاقات ہوئی تھی، جس کا ذکر علامہ شوق نیموی کے فرزند سے مولانا آزاد نے کیا تھا اور انہوں نے اپنے مضامین میں جا بجا اس کا ذکر کیا ہے، آزاد کا علامہ شوق سے پہلے سے غائبانہ تعلق اور استفادہ کا سلسلہ تھا۔ اس سفرنامہ میں ان کا اسلوبِ نگارش دیکھا جا سکتا ہے، جو ارتقائی مراحل طے کر کے اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا، سفرنامہ نگاری کے جو لوازم ہیں، دقتِ نظر، منظر نگاری، وہ اس میں نظر آتے ہیں، اس سے ان کا شعری ذوق بھی بہت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔

ہم نے ان کی تصانیف کے ذیل میں صرف ان کے نثر باقیات کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ ان کا منظوم سرمایہ بھی بڑی تعداد میں ہے، ان میں سے مثنوی نغمہ راز ان کی بالکل ابتدائی تخلیق ہے جس کا ذکر گذر چکا ہے، اور بھی ایک دو طویل مثنویاں چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی صورت میں شائع ہو کر عام ہو چکی تھیں لیکن بقیہ منظومات شائع نہیں ہو سکے تھے۔ اس سلسلہ میں ان کا معیارِ انتخاب بہت بلند تھا، انہوں نے بہت کچھ حذف کر کے ایک مجموعہ تیار کیا تھا، جس کے بارے میں خود لکھتے ہیں:

’’میں نے اپنا دیوان چار دفعہ مرتب کیا، اور ہر دفعہ بیسیوں غزلیں اور سیکڑوں اشعار جن پر مجھ کو پیشتر ناز تھا، خارج کر دئے، اب چھوٹا سا دیوان رہ گیا ہے، ہر چند ملک والے قدردانی سے برابر میرے دیوان کا اشتیاق ظاہر کیا کرتے ہیں اور برابر خط بھیج کر طبع کا حال دریافت کرتے ہیں، مگر حق بات یہ ہے کہ مجھے موجودہ دیوان بھی باوجود اس قدر انتخاب کے پسند نہیں، پھر چھپواؤں تو کیا چھپواؤں، اب وہ اگلا شوق نہ رہا۔‘‘65

آخر ان کی وفات تک یہ دیوان نہیں شائع ہو سکا، ان کی وفات پر لکھی گئی تعزیتی تحریر اوپر گذر چکی ہے اس میں بھی اسی دیوان کی اشاعت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بہرحال ان کی وفات کے بعد ان کے ہم وطن جناب نورالہدیٰ نیموی نے ان کا دیوان دیگر منظومات اور قطعات تاریخ کے ساتھ دیوان شوق کے نام سے پٹنہ سے شائع کیا۔

ان کی مشہور زمانہ تصنیف آثار السنن پر ہم اخیر میں روشنی ڈالیں گے۔

کتابوں کے ایڈیشن

ان کی تصانیف کے عام طور پر ایک ہی ایڈیشن شائع ہوئے، لیکن ۱۹۳۰ کے بعد جب ان کے فرزند مولانا عبدالرشید فوقانی جوان ہو چکے تھے، ان کی تصانیف کی از سر نو اشاعت کا منصوبہ بنایا، اور پٹنہ سیٹی میں اپنے ایک عزیز عبدالمقیت نیموی کے جدید پریس گذری بازار پٹنہ سیٹی سے ان کی اشاعت کا آغاز کیا، جن میں جلاء العین فی ترک رفع الیدین اور اس کے ساتھ الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدر وتحت السرۃ ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد اسی سال دوسری کتاب جامع الآثار بھی شائع ہوئی۔ 

ان کی کتاب اوشحۃ الجید بھی شاید تیار تھی، اور اس پر مولانا فوقانی کے قلم سے تصحیحات، اضافات اور اشتہارات، اور کہیں کہیں استدراکات لکھے گئے، لیکن شاید اس ان دونوں کتابوں کے بعد اشاعت کا سلسلہ رک گیا۔ یہ نسخہ جس پر مولانا فوقانی کے قلم سے مذکورہ بالا تحریریں ہیں، کتب خانۂ خدابخش کی زینت ہے، جو ان کے کتب خانہ کے ضمن میں یہاں منتقل ہوا ہوگا، اس کا نمبر ACC1879 ہے۔ 

ان کی کتاب جامع الآثار کے اخیر میں حضرت نیموی کی کتابوں کے اشتہارات ہیں، لیکن غالب گمان یہ ہے کہ وہ شائع نہیں ہو سکے۔ اوشحۃ الجید کے اشتہار میں لکھا گیا ہے:

’’یہ رسالہ نہایت ہی عمدہ محققانہ لکھا گیا ہے، پہلی بار ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء قومی پریس لکھنؤ میں چھپا تھا، غالباً ۱۸۹۸ء میں اس کے کل نسخے ختم ہوگئے تھے، مدت سے نایاب ہوگیا ہے، اب بفضلہ دوسری بار پھر مطبوع ہوا چاہتا ہے، اس رسالے میں مولانائے مرحوم نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو لوگ پابندِ تقلیدِ شخصی نہیں گو کیسے ہی برے ہوں مگر صرف انکارِ تقلید کے سبب وہ دائرۂ اہلِ سنت سے ہرگز خارج نہیں ہو سکتے۔‘‘

ان کے لسانی رسائل کے بھی متعدد ایڈیشن شائع ہوئے جن کی تفصیل ان کے ضمن میں گذر چکی ہے۔66

حضرت نیموی کی کتابوں کی تردید

حضرت نیموی کی کتابوں کی تردید میں بھی متعدد کتابیں آئیں جن کا ذکر ان کی تصانیف کے ضمن میں ہے لیکن یہاں اجمالی طور پر بھی ذکر کر دینا مناسب ہوگا، اور یہ ان کی سوانح حیات کا اہم باب ہے۔ عام طور پر کسی مصنف کی کتابوں کی تردید اتنی کثرت سے نہیں ہوتی جتنی حضرت شوق کی تصانیف کی ہوئی۔

ان کی ادبی تصانیف میں ازاحۃ الاغلاط کی تردید میں رد تردید لکھی گئی تھی، جس کا جواب انہوں نے سرمہ تحقیق کے ذریعہ دیا تھا، معلوم نہیں پھر اس کا بھی کوئی جواب لکھا گیا یا نہیں، اس کا ذکر نہیں ملتا۔ پھر جب وہ عظیم آباد میں مستقل قیام کے بعد علمی و شرعی مباحث پر رسائل لکھ کر فقہ حنفی کی وکالت کرنے لگے تو اس وقت بھی اہلِ حدیث علماء کی طرف سے متعدد جوابات لکھے گئے۔

چنانچہ ان کی پہلی اوشحۃ الجید فی اثبات التقید کا جواب مولانا ابوالمکام محمد علی مؤوی نے الجواب السدید عما اوردہ فی اوشحۃ الجید کے نام سے لکھا، حضرت نیموی نے اس کے جواب میں شاید کچھ نہیں لکھا۔67

دوسری کتاب حبل المتین کے جواب میں السکین لقطع حبل المتین لکھی گئی جس کے مصنف مولانا سعید بنارسی تھے، انہوں نے السکین لقطع حبل المتین لکھی، اس کا جواب حضرت نیموی نے ردالسکین کے عنوان سے لکھا، اس کے جواب میں پھر مولانا بنارسی سیف الموحدین علی عنق راد السکین لکھی، علامہ شوق نیموی نے اس کا جواب اپنے شاگرد کے نام سے تردید السیف الی راس اہل الخیف کے نام سے لکھا، جن کا پورا نام سید ابوالبقا محمد یوسف بسمل عظیم آبادی تھا، یہ رسالہ بھی بہ ظاہر حضرت نیموی ہی کا لکھا ہوا ہے، بہار میں اردو نثر کا ارتقاء کے مصنف ڈاکٹر مظفر اقبال لکھتے ہیں:

’’مطبوعہ مطبع احسن المطابع پٹنہ سنہ طبع ۱۳۱۲ھ،۱۸۹۴ء تعداد صفحات ۸ ۔۔۔ رد السکین کے جواب میں مولانا محمد سعید بنارسی نے سیف الموحدین علی عنق رد السکین کے نام سے ایک رسالہ لکھا اس کے جواب میں مولانا نے یہ رسالہ لکھ کر اپنے ایک شاگرد بسمل عظیم آبادی کے نام سے چھپوایا، اس رسالہ کا پورا نام تردید السیف الی راس اہل الحیف ہے۔‘‘68

اس کا جواب پھر مولانا بنارسی کی طرف سے رد التردید الی اہل التقلید مع قرۃ العین برد ما وقع فی ضیاء العین کے نام سے لکھا، اس کا جواب حضرت نیموی نے ردالرد کے نام سے لکھا ہے، مولانا بنارسی نے پھر اس کا جواب الرد لرد الرد کے عنوان سے لکھا۔69

اسی طرح حضرت نیموی کی جلاء العین کے جواب میں مولانا محمد سعید بنارسی نے ازالۃ الشین اور مولانا ابوالمکارم محمد علی مؤوی نے المحلی بکل زین لکھی۔ اول الذکر کے جواب میں حضرت نیموی نے ضیاء العین اور دوسرے کے جواب میں المجلی فی رد المحلی لکھی۔ ضیاء العین کے جواب میں مولانا بنارسی نے پھر قرۃ العین برد ما وقع فی ضیاء العین لکھی جس کے جواب میں پھر حضرت نیموی نے الغرہ علی القرہ لکھی۔

جمعہ فی القریٰ کے مسئلہ میں جب حضرت نیموی نے اپنی کتاب جامع الآثار فی اختصاص الجمعۃ بالامصار لکھی جس پر مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا احمد رضا بریلوی دونوں حضرات کی تقریظ و تصویب موجود ہے تو اس کے جواب میں ان کے ہم وطن مشہور عالم و محدث علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی ایما پر مشہور محدث مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری نے نورالابصار فی اقامۃ الجمعۃ فی القریٰ والامصار لکھی، اور ابوالمکارم مولانا محمد علی مؤوی نے المذہب المختار فی اقامۃ الجمعۃ فی القری والامصار لکھی۔ اس کے بعد پھر علامہ مبارک پوری نے تنویرالابصار فی تائید نورالابصار لکھی۔ علامہ نیموی نے اس کے جواب میں تبصرۃ الانظار لکھی، جس کے جواب میں پھر شیخ عبدالرحمٰن مبارک پوری نے ضیاء الابصار فی رد تبصرۃ الانظار لکھی۔ اور مولانا ابوالمکارم محمد علی مؤوی کی المذہب المختار کے جواب میں انہوں نے لامع الانوار لکھی۔

علامہ نیموی نے الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدر وتحت السرۃ لکھی تو اس کا جواب مولانا مبارک پوری نے تنقید الدرۃ کے عنوان سے لکھنا شروع کیا لیکن مکمل نہیں ہو سکی۔ 

آثار السنن کی تنقید میں علامہ مبارک پوری کی ابکار المنن فی تنقید آثار السنن بہت مشہور ہے لیکن اس سے قبل انہوں نے ایک رسالہ لکھا جس کا عنوان تھا اعلام اھل الزمن، جو علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی ایما پر لکھا گیا تھا، ۱۳ صفحات پر مشتمل ہے۔70 یہ بہ ظاہر ان کی ان کی تیبان التحقیق کے جواب میں ہوگا جو انہوں نے آثار السنن کی اشاعت سے قبل چند اوراق میں شائع کی تھی، اس کا دوسرا جواب مولانا محمد علی مؤوی نے التقب الحسن علی المولوی ظہیر احسن کے نام سے لکھا تھا، جس کے رد میں حضرت نیموی نے الکلام المستحسن فی رد التعقیب الحسن لکھی۔

ان تمام مباحث میں تین ہی بزرگ ان کے حریف نظر آتے ہیں جن سے ان کا معرکہ رہا، اور وہ تینوں مشرقی یوپی (اترپردیش) سے تعلق رکھتے ہیں: مولانا سعید بنارسی، مولانا محمد علی مؤوی اور مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری۔ ہم نے ذکر کیا ہے ان کے شہر پٹنہ اور اس کے اطراف میں اہلِ حدیث علماء کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی، اور یہاں سے آثار السنن کے نام سے ایک رسالہ بھی نکل رہا تھا، لیکن میں سے کوئی بھی اس معرکہ میں نظر نہیں آتا، بالخصوص ان کے ہم وطن بزرگ علامہ شمس الحق عظیم آبادی تو بالکل اس سے الگ رہے اور شاید قرابت کے تعلق کو مکدر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے لکھا ہے کہ آثار السنن کی تصنیف کے بعد علمائے اہلِ حدیث علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے گھر میں جمع ہوئے اور اس کے جواب کے لئے مشورہ ہوا اور مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کے نام قرعہ فال نکلا۔71 لیکن انہوں نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا ہے، اور بہ ظاہر یہ بات اس طرح درست نہیں ہے، بلکہ علمائے اہلِ حدیث نے ان کو اس کتاب کا جواب لکھنے کی طرف توجہ دلائی تھی، جس کا اندازہ مختلف تحریروں سے ہوتا ہے۔


حوالہ جات

  1. دیکھئے القول الحسن ص ۶۷
  2. حوالہ سابق
  3. حوالہ سابق، ص ۷۱
  4. حوالہ سابق، ص ۷۳
  5. بحوالہ علامہ شوق نیموی حیات و خدمات از مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمٰن، ص ۱۰۹
  6. یادگارِ وطن ص ۷۵
  7. القول الحسن ص ۱۷۰
  8. دیکھئے علامہ شوق نیموی حیات و خدمات، ص ۲۲۴۔
  9. تذکرہ الشوق، برحاشیہ سرمۂ تحقیق، ص ۵۵
  10. ص ۵۶ قومی پریس لکھنؤ
  11. یادگارِ وطن، ص ۱۱۹
  12. علامہ شوق نیموی حیات و خدمات ص ۲۳۲
  13. حوالہ سابق
  14. ان تمام دینی رسائل کے پہلے ایڈیشن کا ہم نے ذکر کیا ہے، لیکن ابھی حال ہی ان کا بہت ہی جامع اور تحقیقی مجموعہ، جس بہت علمی حواشی بھی درج ہیں، رسائلِ نیموی کے عنوان سے دارالشیبانی للافتاء والتحقیق پہاڑ پور ڈیرہ اسماعیل خاں صوبہ خیبرپختون خوان پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔ جس کے مرتب و محقق مفتی فضل الرحمٰن صاحب ہیں، ان کے حواشی بہت علمی ہیں اور تمام روایات کی تخریج بھی کی گئی ہے، لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ان رسائل کا پہلا ایڈیشن کہاں سے شائع ہوا تھا، جب کہ اس کی ضرورت تھی، نیز انہوں حبل المتین فی الاخفاء بآمین کو المحبل المتین لکھا ہے۔ ان کے لسانی رسائل مجموعہ پٹنہ کے معروف عالم مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی مدظلہ مرتب کر رہے ہیں۔
  15. یادگارِ وطن ص ۱۱۲
  16. ان کے بعد حال میں ان رسائل کے مجموعہ کی اشاعت اور لسانی رسائل کی ترتیب کا ذکر گذشتہ حواشی میں آچکا ہے۔
  17. مقالات از شیخ عزیر شمس، ص ۳۲۸ دارابی الطیب گوجراں والا پنجاب پاکستان۔ ۲۰۲۰
  18. یہ مجموعہ بھی رسائل نیموی میں شامل ہے۔
  19. مولانا سعید بنارسی کے یہ سارے رسائل یکجا شائع ہوگئے ہیں، دیکھئے رسائل خمسہ از مولانا محمد سعید بنارسی مرتبہ ڈاکٹر بہاء الدین محمد سلیمان، الدارالاثریہ نئی دہلی ۲۰۲۳
  20. مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کے ان رسائل کی معلومات معروف اہلِ حدیث عالم و مصنف مولانا راشد حسن مبارک پوری نے فراہم کی، فجزاہ اللہ خیرً‌ا۔
  21. تفہیم السنن۔ عنوان، آثار السنن کی تردید۔

(جاری)


شخصیات

(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter