(500) القلائد کا ترجمہ
قلائد قلادۃ کی جمع ہے۔ اس کا مطلب وہ پٹّا ہے جو کسی کے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ لسان العرب میں ہے: والقِلادَۃ: مَا جُعِل فِی العُنُق یَکُونُ للإنسان والفرسِ والکلبِ والبَدَنَۃِ الَّتِی تُہْدَی ونحوِہا.
راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والْقِلَادَۃُ: المفتولۃ التی تجعل فی العنق من خیط وفضّۃ وغیرہما۔ (المفردات فی غریب القرآن)
درج ذیل دو آیتوں میں دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ایک الْہَدْی ہے، جس کا مطلب قربانی کا جانور ہے۔ دوسرا لفظ الْقَلَائِد ہے، جس کا معنی گلے کے پٹے ہے۔ مترجمین نے الھدی کا ترجمہ تو قربانی کے جانور کیا، لیکن القلائد کا ترجمہ پٹے کے بجائے پٹے پڑے ہوئے جانور کیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ پٹوں کی حرمت کا مفہوم ان کے ذہن نے قبول نہیں کیا تو انھوں نے پٹے پڑے ہوئے جانور مراد لے لیا۔ لیکن اس توجیہ کو کم زور کرنے والی بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں الھدی اور القلائد کا مصداق ایک ہی ہوجائے گا۔ دونوں سے مراد قربانی کے جانور جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں۔ کیوں کہ اس بات کی ہمیں صراحت ملتی ہے کہ قربانی کے جانور جسے ہدی کہتے ہیں اس کے گلے میں بھی یہ پٹے ڈالے جاتے تھے۔
بہتر یہ ہے کہ القلائد کا ترجمہ پٹے ہی کیا جائے۔ پٹے کی اہمیت یہ ہے کہ وہی اصل نشانی ہے،اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانور قربانی کے لیے خاص کیا گیا ہے۔ اس لیے دل میں اس کا بھی احترام ہونا چاہیے۔
(۱) یَاأیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّہِ وَلَا الشَّہْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْہَدْیَ وَلَا الْقَلَائِدَ۔ (المائدۃ: 2)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خد ا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کر لو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ اُن جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ جن کے گلے میں علامتیں آویزاں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان کے گلے پر بندھے ہوئے پٹوں کی‘‘۔
(۲) جَعَلَ اللَّہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلَائِدَ۔ (المائدۃ: 97)
’’اللہ نے مکان محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی (اِس کام میں معاون بنا دیا)‘‘۔ (سید مودودی)
’’حرم کی قربانی اور گلے میں علامت آویزاں جانوروں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’قربانی کے جانوروں اور گلے میں پٹے پڑے جانوروں کو شعیرہ ٹھہرایا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں شعیرہ کہنے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ جس طرح اللہ نے بیت حرام کو قیاما للناس بنایا ہے اسی طرح باقی چیزوں کو بھی قیاما للناس یعنی قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:
’’قربانی کے جانوروں اور گلے میں پڑے ہوئے پٹوں کو‘‘۔
(501) وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ کا ترجمہ
شَنَآنُ شنأ سے ہے، اس کے اندر بغض و نفرت کا مفہوم ہے۔ راغب اصفہانی کے مطابق: شَنِئْتُہُ: تقذّرتہ بغضا لہ، اس لفظ کا صحیح ترجمہ غصہ نہیں بلکہ دشمنی اور نفرت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ کا ترجمہ مشتعل نہ کردے، اس لفظ کی صحیح عکاسی نہیں کرتا ہے۔ اس کا صحیح مفہوم ہے ’’تم سے ایسا نہ کرائے‘‘ زمخشری لکھتے ہیں: جرم یجری مجری کسب فی تعدیہ إلی مفعول واحد واثنین. تقول: جرم ذنبا، نحو کسبہ. وجرمتہ ذنبا، نحو کسبتہ إیاہ۔ (تفسیر الکشاف)
(۱) وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أنْ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أنْ تَعْتَدُوا ۔(المائدۃ: 2)
’’اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تواس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو‘‘۔ (سید مودودی)
درج ذیل دونوں ترجمے اس پہلو سے مناسب ہیں:
’’اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر نہ ابھارے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری، ’ان پر‘ کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے، مطلق زیادتی سے منع کیا گیا ہے۔)
’’اور خبردار کسی قوم کی عداوت فقط اس بات پر کہ اس نے تمہیں مسجد الحرام سے روک دیا ہے تمہیں ظلم پر آمادہ نہ کردے‘‘۔ (ذیشان جوادی، یہاں فقط کا لفظ نامناسب ہے۔ یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ ان کا مسجد حرام سے روکنا چھوٹا جرم تھا، اس لیے فقط اس وجہ سے ایسا نہ کرو۔ بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ جرم تو بہت بڑا ہے پھر بھی وہ زیادتی کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتا)
(۲) وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی ألَّا تَعْدِلُوا۔ (المائدۃ: 8)
’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ‘‘۔ (سید مودودی، یہاں شَنَآنُ کا ترجمہ دشمنی تو درست ہے، البتہ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ کا ترجمہ مشتعل نہ کردے مناسب نہیں ہے۔)
’’ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(۳) وَیَاقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِی أنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلُ مَا أصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أوْ قَوْمَ ہُودٍ أوْ قَوْمَ صَالِحٍ۔ (ہود: 89)
’’اور اے برادران قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخر کار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آیا تھا‘‘۔ (سید مودودی، یہاں لَا یَجْرِمَنَّکُمْ کا ترجمہ مناسب ہے۔)
(502) النَّطِیحَۃُ کا ترجمہ
نطح کا مطلب ہے سینگ سے مارنا۔ نَطیحۃُ کہتے ہیں اس جانور کو جو سینگ مارنے سے مر جائے۔ فیروزابادی لکھتے ہیں:
نَطَحَہ، کمنعہ وضَرَبَہ: أصابَہ بقَرْنِہ. وانْتَطَحَتِ الکِباشُ: تَناطَحتْ. والنَّطیحۃُ: التی ماتَتْ منہ۔ (القاموس المحیط)
قرآن میں النَّطِیحَۃُ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا صحیح ترجمہ ہے: وہ جانور جس کی سینگ لگنے سے موت ہوجائے۔ سینگ کے علاوہ کسی ٹکر سے اگر کسی جانور کی موت ہوجاتی ہے تو اس کا بھی وہی حکم ہوگا مگر قیاس کے تحت نہ کہ لفظ کے حقیقی معنی کی رو سے۔ درج ذیل میں پہلے دونوں ترجمے لفظ کے مطابق نہیں ہیں:
وَالنَّطِیحَۃُ۔ (المائدۃ: 3)
’’یا ٹکر کھا کر مرا ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور جو کسی ٹکر سے مرجاوے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اور جو سینگ لگ کر مرجائے ‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
نطیحۃ کا مخصوص لفظ شاید اس لیے استعمال کیا گیا کہ جانوروں کی موت کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے۔
(503) تَعَاوَنُوا کا ترجمہ
عربی کے تعاون اور اردو کے تعاون میں فرق ہے۔ عربی میں تعاون کا مطلب ہوتا ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ اگر کوئی گروہ دوسرے گروہ کی کام میں مدد کرتا ہے تو اس کے لیے تعاون کا لفظ نہیں أعان کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ درج ذیل آیت کے ترجمے میں سب سے تعاون کرو اور کسی سے تعاون نہ کرو اس لفظ کا درست ترجمہ نہیں ہے۔
وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (المائدۃ: 2)
’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘۔ (سید مودودی)
سب سے تعاون کرو، مدد واعانت کے یک طرفہ عمل کو بتاتا ہے۔ جب کہ یہاں لفظ تعاون آیا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس فعل کی انجام دہی میں سب شریک ہیں۔
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیز گاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور زیادتی پر‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(504) یَبْحَثُ فِی الْأَرْضِ کا ترجمہ
بحث کا مطلب ہوتا ہے تلاش کرنا۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: البحث الکشف والطلب، یقال بحثت عن الأمر وبحثت کذا، قال اللہ تعالی: فبعث اللہ غرابا یبحث فی الأرض۔ (المفردات)
درج ذیل آیت میں کوّے کے لیے یبحث فی الأرض کے الفاظ استعمال ہوئے۔ اس کا ترجمہ بہت سے لوگوں نے ’کھودنا‘ کیا ہے۔ لیکن لفظ کی بھرپور رعایت ’کریدنا‘ سے ہوتی ہے۔ آیت کے الفاظ سے ایسا لگتا ہے کہ کوّا اس طرح سے زمین کرید رہا تھا گویا وہ زمین میں چھپائی ہوئی کوئی چیز تلاش کررہا ہو۔ اس سے اس قاتل بھائی کا ذہن اس طرف گیا کہ زمین چھپانے کے لیے مناسب جگہ ہے۔ گویا کوّے سے کھودنے کی تعلیم نہیں بلکہ چھپانے کی تعلیم ملی۔
فَبَعَثَ اللَّہُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْأرْضِ لِیُرِیَہُ کَیْفَ یُوَارِی سَوْءَ ۃَ أَخِیہِ۔ (المائدۃ: 31)
’’پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے‘‘۔ (سید مودودی)
’’پھر خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھود رہا تھا کہ اسے دکھلائے کہ بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے گا‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپا دے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودتا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اب خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیونکر چھپائے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’پھر بھیجا اللہ نے ایک کوا کریدتا زمین کو کہ اس کو دکھاوے کس طرح چھپانا ہے عیب اپنے بھائی کا‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(505) سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا ترجمہ
سمع کا مطلب سننا ہے اور اطاع کا مطلب ماننا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ دونوں الفاظ ایک ساتھ آئے ہیں، اس لیے نہیں کہ سمع اور اطاعت دونوں ہم معنی لفظ ہیں، بلکہ اس لیے کہ دونوں ساتھ مل کر ایک خاص مفہوم ادا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ سننے کے بعد فورًا اطاعت کی، ذرا دیر نہیں کی۔ اردو میں سمع و طاعت کا مرکب اس طرح عام ہوا کہ گویا دونوں کا معنی ایک ہے۔ صاحب تدبر قرآن سے بھی یہ تسامح ہوگیا۔ انھوں نے سمعنا کا ترجمہ کیا ہم نے مانا، قرآن مجید میں سمع کے متعدد استعمالات میں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی ہے۔ لغت بھی اس کی تائید نہیں کرتی ہے۔ خود صاحب تدبر نے دو جگہ ماننا اور دو جگہ سننا ترجمہ کیا ہے۔
(۱) وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأطَعْنَا۔ (البقرۃ: 285)
’’اور کہتے ہیں کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۲) إذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأطَعْنَا۔ (المائدۃ: 7)
’’جب کہ تم نے اقرار کیا کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا دونوں مقامات پر درست ترجمہ ہے ’’ہم نے سنا اور اطاعت کی‘‘۔
(۳) أنْ یَقُولُوا سَمِعْنَا وَأطَعْنَا۔ (النور: 51)
’’تو کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۴) وَاسْمَعُوا وَأطِیعُوا۔ (التغابن: 16)
’’اور سنو اور مانو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(506) فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِینَ
جب ہم اردو میں وہ نادم ہوا، شرمندہ ہوا اور پشیمان ہوا کہتے ہیں، تو ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ وہ تائب ہوگیا۔ قرآن مجید میں أصْبَحَ مِنَ النَّادِمِینَ جیسی تعبیرات جہاں آئی ہیں وہاں مراد یہ ہے کہ پچھتانا اب اس کا مقدر ہوگیا۔ بعض لوگوں نے ترجمے میں اس مفہوم کو نمایاں کرنے کا اہتمام کیا ہے، بعض ترجمے پیش ہیں:
(۱) فَأصْبَحَ مِنَ النَّادِمِینَ۔ (المائدۃ: 31)
’’اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا‘‘۔ (سید مودودی)
’’ پھر تو (بڑا ہی) پشیمان اور شرمندہ ہوگیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’ پھر وہ پشیمان ہوا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’تو پچھتاتا رہ گیا‘‘۔ (احمدرضا خاں)
آخری ترجمے میں جملے کے مفہوم کو خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
(۲) فَعَقَرُوہَا فَأصْبَحُوا نَادِمِینَ۔ (الشعراء: 157)
’’مگر انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ دیں اور آخرکار پچھتاتے رہ گئے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اس پر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر صبح کو پچھتاتے رہ گئے‘‘۔ (احمد رضا خان)
یہ دونوں ترجمے مفہوم کو خوبی سے بیان کرتے ہیں۔
(507) یُسَارِعُونَ فِیہِمْ کا ترجمہ
سارع فیہ کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھنا۔ قرآن میں اس کی کئی واضح مثالیں ہیں۔ جیسے: یُسَارِعُونَ فِی الْکُفْرِ (آل عمران: 176)، یُسَارِعُونَ فِی الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدۃ: 62)، یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ (الانبیاء: 90)۔ درج ذیل آیت میں یسارعون فیھم آیا ہے، اس سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہاں فی برائے ظرف ہوگا۔ لیکن یہاں بھی یہ صلہ مفعول ہی ہے۔
فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَض یُسَارِعُونَ فِیہِمْ۔ (المائدۃ: 52)
’’تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھس رہے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں فی کو ظرفیہ مانا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُن کی طرف لپک رہے ہیں‘‘۔
(508) اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ کا ترجمہ
اتَّبَعَ کا مطلب پیروی کرنا ہوتا ہے، طلب کرنا نہیں۔ لغت کے علاوہ قرآن کے تمام استعمالات سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ درج ذیل آیت میں چوں کہ اتَّبَعَ کا مفعول بہ رضوان ہے، شاید اس لیے بعض لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ یہاں اتَّبَعَ طلب کے معنی میں ہے۔ کیوں کہ رضائے الٰہی کی پیروی کیسے کی جائے گی، اس کی تو طلب کی جائے گی۔
یَہْدِی بِہِ اللَّہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلَامِ۔ (المائدۃ: 16)
’’اس کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں سلامتی کی راہیں دکھا رہا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالی ایسے شخصوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
تاہم اگر اس پہلو سے دیکھا جائے کہ رضائے الٰہی کی پیروی یہ ہے کہ وہ کام کیے جائیں جن سے رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہو تو اتَّبَعَ کا لغت کے مطابق ترجمہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں رہ جاتا ہے۔ درج ذیل ترجمہ مناسب ہے۔ اس میں لفظ کے لغوی معنی کی رعایت کی گئی ہے:
’’جس سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
(509) یَمْلِکُ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا کا ترجمہ
ملک لہ شیئا کا مطلب ہوتا ہے کسی کے سلسلے میں کوئی اختیار رکھنا۔ جیسے آیا ہے:
قُلْ إنِّی لَا أمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا۔ (الجن: 21)
’’کہہ دو میں نہ تمہارے لیے کسی ضرر پر کوئی اختیار رکھتا نہ کسی نفع پر‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
جب اس میں من بھی آجائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کسی کے مقابلے میں کوئی اختیار رکھنا۔
قرآن کی کئی آیتوں میں یہ اسلوب آیا ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں ’من‘ ’سے‘ کے معنی میں لیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اختیار ملنا۔ جن آیتوں میں یہ اسلوب آیا ہے ان کے سیاق وسباق پر غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سے اختیار پانے کی بات نہیں بلکہ اللہ کے مقابلے میں اختیار رکھنے اور اللہ کے اختیار میں دخل دینے کی بات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مَنْ یَمْلِکُ مِنَ اللہِ شَیْئًا کا مطلب اللہ پر اختیار رکھنا نہیں ہے بلکہ اللہ کے مقابل اختیار رکھنا اور اپنی چلانا ہے۔
مختلف مقامات پر یہ دونوں غلطیاں مختلف ترجموں میں نظر آتی ہیں۔
(۱) قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنَ اللہِ شَیْئًا إنْ أرَادَ أنْ یُہْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَأمَّہُ وَمَنْ فِی الْأرْضِ جَمِیعًا۔ (المائدۃ: 17)
’’پوچھو، کون اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح ابن مریم کو، اس کی ماں کو اور جو زمین میں ہیں ان سب کو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، ’کون اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہے‘ کی جگہ ’کسے اللہ کے فیصلے کو بدلنے کا اختیار ہے‘ ہونا چاہیے۔)
’’ ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اُس کو اِس ارادے سے باز رکھ سکے؟‘‘۔ (سید مودودی، اللہ کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کی بات نہیں ہے، درست ترجمہ ہے: کس کی اس کے آگے کچھ چل سکتی ہے؟)
’’پھر اللہ کا کوئی کیا کرسکتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو‘‘۔ (احمد رضا خان، ’اللہ کا کوئی کیا کرسکتا ہے‘ درست نہیں ہے۔ ’اللہ کے مقابلے میں کیا کرسکتا ہے‘ درست ترجمہ ہے۔)
’’آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، ’اللہ پر اختیار رکھتا ہو‘ غلط ترجمہ ہے۔ درست ترجمہ ہے ’اللہ کے مقابلے میں اختیار رکھتا ہو‘)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’کہہ دو کہ اگر خدا عیسیٰ بن مریم کو اور ان کی والدہ کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو اس کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے؟‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(۲) وَمَنْ یُرِدِ اللہُ فِتْنَتَہُ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہُ مِنَ اللہِ شَیْئًا۔ (المائدۃ: 41)
’’جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو تو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔ (سید مودودی، یہاں فتنہ میں ڈالنے کی بات ہے تو گرفت سے بچانے کی بات کہاں سے آگئی؟)
’’اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لیے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، یہ ترجمہ الفاظ سے الگ ہٹ کر کیا گیا ہے۔)
’’ اور اگر کسی کو خدا گمراہ کرنا چاہے تو اس کے لیے تم کچھ بھی خدا سے (ہدایت کا) اختیار نہیں رکھتے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری، ’خدا سے اختیار‘ ترجمہ کرنا درست نہیں ہے)
’’اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہرگز تو اللہ سے اس کا کچھ بنا نہ سکے گا‘‘۔ (احمد رضا خان، یہاں ’اللہ سے‘ درست نہیں ہے، اللہ کے مقابلے میں ہونا چاہیے)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور جس کو اللہ فتنہ میں ڈالنا چاہے تو تم اللہ کے مقابل اس کے معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۳) فَلَا تَمْلِکُونَ لِی مِنَ اللہِ شَیْئًا۔ (الاحقاف: 8)
’’تو تم میرے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں ’اللہ کی طرف سے‘ درست نہیں ہے۔ ’اللہ کے مقابلے‘ میں ہونا چاہیے۔)
’’تو تم اللہ کے سامنے میرا کچھ اختیار نہیں رکھتے‘‘۔ (احمد رضا خان، ’میرا اختیار نہیں رکھتے‘ کے بجائے ’میرے حق میں کچھ نہیں کرسکتے‘ ہونا چاہیے)
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
’’تو تم میرا بھلا نہیں کرسکتے اللہ کے سامنے کچھ‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۴) قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللہِ شَیْئًا إنْ أرَادَ بِکُمْ ضَرًّا أوْ أرَادَ بِکُمْ نَفْعًا۔ (الفتح: 11)
’’ان سے کہ، کون ہے جو تمہارے لیے اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہو اگر وہ تم کو کوئی نقصان یا نفع پہنچانا چاہے؟‘‘۔(امین احسن اصلاحی، ’اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہو‘ کے بجائے ’اللہ کے مقابلے میں کچھ اختیار رکھتا ہو‘ ہونا چاہیے۔)
’’آپ جواب دے دیجئے کہ تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں ’اللہ کی طرف سے‘ کے بجائے ’اللہ کے مقابلے میں‘ ہونا چاہیے۔)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
(۵) وَمَا أمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْئٍ۔ (الممتحنہ: 4)
’’اگرچہ میں آپ کے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں رکھتا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں ’اللہ کی طرف سے‘ کے بجائے ’اللہ کے مقابلے میں‘ ہونا چاہیے۔)
’’اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کرلینا میرے بس میں نہیں ہے‘‘۔ (سید مودودی، یہ ترجمہ الفاظ سے ہم آہنگ نہیں ہے)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(۶) لَا یَمْلِکُونَ مِنْہُ خِطَابًا۔ (النبأ: 37)
’’جس کی طرف سے یہ کوئی بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، ’جس کی طرف سے‘ کے بجائے ’جس کے سامنے‘ ہونا چاہیے)
درج ذیل ترجمے درست ہیں:
’’جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اس سے بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے‘‘۔ (احمد رضا خان)
(510) فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ کا ترجمہ
متعدد مترجمین نے درج ذیل جملے میں فَافْرُقْ کا ترجمہ جدائی ڈال دے کیا ہے۔
فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ۔(المائدۃ: 25)
’’پس تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان علیحدگی کردے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’ پس تو ہم میں اور ان نافرمانوں میں جدائی کردے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی کردے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’پس تو ہمیں اِن نافرمان لوگوں سے الگ کر دے‘‘۔ (سید مودودی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں فرق جدائی اور علیحدگی کرنے کے مفہوم میں نہیں بلکہ فرق اور امتیاز کرنے کے معنی میں ہے۔ وہ ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
’’پس تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان الگ الگ معاملہ کر‘‘۔
درج ذیل ترجمہ بھی اسی مفہوم کی ادائیگی کرتا ہے:
’’سو فرق کر ہمارے اور بے حکم قوم میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)