اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۱)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

(559) یُخَوِّفُ أَوْلِیَاءَہُ کا ترجمہ

درج ذیل آیت کے بعض ترجموں میں کچھ کم زوریاں در آئی ہیں، جن کی نشان دہی نیچے کی جائے گی:

إِنَّمَا ذَلِکُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ أَوْلِیَاءَہُ فَلَا تَخَافُوہُمْ وَخَافُونِ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ۔ (آل عمران: 175)

ترجمہ (۱)

’’یہ شیطان صرف اپنے چاہنے والوں کو ڈراتا ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو‘‘۔ (ذیشان جوادی)

یُخَوِّفُ أَوْلِیَاءَہُ کا ترجمہ ’’اپنے چاہنے والوں کو ڈراتا ہے‘‘ درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہے: ’’اپنے چاہنے والوں سے ڈراتا ہے‘‘۔

إِنَّمَا حصر کے لیے ہے، لیکن یہاں أَوْلِیَاءہُ کے حصر کے لیے نہیں ہے، ذَلِکُمُ الشَّیْطَانُ کے حصر کے لیے ہے۔ ’’صرف اپنے چاہنے والوں‘‘ کے بجائے ’’اپنے چاہنے والوں‘‘ اور ’’یہ شیطان‘‘ کی جگہ ’’شیطان ہی ہے‘‘ کہا جائے گا۔

إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ کا تعلق صرف خَافُونِ سے نہیں ہے، بلکہ فَلَا تَخَافُوہُمْ وَخَافُونِ دونوں سے ہے۔ ’’ لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو‘‘ کے بجائے ترجمہ ہوگا: ’’لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو‘‘۔  

ترجمہ (۲)

’’اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو‘‘۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں شیطان کے ڈرانے کا ماضی میں پیش آنے والا واقعہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ترجمے میں بہت سے پر تکلف اضافوں کی ضرورت پڑگئی۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ماضی کا واقعہ نہیں بلکہ ایک مستقل ہدایت ہے۔ 

فَلَا تَخَافُوہُمْ کا ترجمہ ’’تم انسانوں سے نہ ڈرنا‘‘ درست نہیں ہے۔ ھم کی ضمیر شیطان کے اولیاء کی طرف ہے۔ ترجمہ ہوگا: ’’تم ان سے نہ ڈرنا‘‘۔

’’خواہ مخواہ‘‘ اور ’’آئندہ‘‘ اور ’’حقیقت میں‘‘ جیسے اضافوں کی ضرورت نہیں ہے۔ 

ترجمہ (۳)

’’یہ خبر دینے والا صرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مومن ہو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’یہ خبر دینے والا‘‘ بے جا اضافہ ہے۔ الفاظ عام ہیں۔

’’ان کافروں‘‘ کے بجائے ’’ان سے‘‘  درست ترجمہ ہے۔ ضمیر شیطان کے دوستوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔  

ترجمہ (۴)  

’’دراصل یہ تمہارا شیطان تھا جو تمہیں اپنے حوالی موالی (دوستوں) سے ڈراتا ہے۔ اور تم ان سے نہ ڈرو اور صرف مجھ سے ڈرو۔ اگر سچے مومن ہو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

ذَلِکُمُ الشَّیْطَانُ کا ترجمہ ’’تمہارا شیطان‘‘ کرنا درست نہیں ہے۔ ذَلِکُمُ میں ضمیر ’کم‘ خطاب کے لیے ہے۔

ترجمہ (۵)  

’’یہ شیطان ہے جو اپنے رفیقوں کے ڈراوے دے رہا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو، اگر تم مومن ہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’یہ شیطان ہے‘‘ کی جگہ ’’یہ شیطان ہی ہے‘‘۔ کیوں کہ یہاں حصر ہے۔ ’’مجھی سے ڈرو‘‘ کی جگہ ’’مجھ سے ڈرو‘‘ ہونا چاہیے کیوں کہ جملے میں حصر کی علامت نہیں ہے۔

’’ڈراوے دے رہا ہے‘‘ کے بجائے ’’ڈراوے دیتا ہے‘‘ ہونا چاہیے کیوں کہ یہ ہمیشہ کی بات ہے۔ 

الفاظ کے مطابق ترجمہ ہوگا:

’’وہ تو شیطان ہی ہے کہ اپنے دوستوں سے دھمکاتا ہے تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (احمد رضا خان)

(560) تکفیر سیئات کا مطلب

مغفرت اور تکفیر سیئات دونوں کے مفہوم میں فرق ہے۔ لیکن کبھی اس کا لحاظ نہیں ہوپاتا ہے۔ جیسے: 

لَأُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ۔ (آل عمران: 195)

’’اُن کے سب قصور میں معاف کر دوں گا‘‘۔ (سید مودودی)

یہاں کچھ باتیں توجہ طلب ہیں:

سیئات کا مطلب قصور نہیں بلکہ برائیاں ہے۔ قصور اور برائی میں فرق ہوتا ہے۔

’سب‘ اضافہ ہے، الفاظ میں اس کے لیے دلالت نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ تکفیر کا مطلب معاف کرنا نہیں بلکہ دور کرنا یا پردہ پوشی کرنا ہے۔ 

واضح رہے کہ دیگر مقامات پر مترجم موصوف سے یہ غلطی نہیں ہوئی ہے، صرف اسی ایک مقام پر ہوئی ہے۔ باقی کہیں اس لفظ کا ترجمہ معاف کرنا نہیں کیا ہے۔

درج ذیل ترجمہ درست ہے:   

’’میں ضرور ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کردوں گا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

(561) ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ کا ترجمہ

 ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ۔ (آل عمران: 195)

’’یہ ہے اللہ کے ہاں ان کی جزا‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

 ’’ یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں‘‘۔ (سید مودودی)

مذکورہ بالا دونوں ترجموں میں یہ بات نظر انداز ہوگئی ہے کہ ’عِنْد اللَّہِ‘ سے پہلے ’من‘ بھی ہے۔ اگر من نہ ہوتا تو یہ ترجمہ درست ہوتا۔ درج ذیل ترجمہ درست ہے: 

’’یہ ہے ثواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

(562) سَارِعُوا کا ترجمہ

وَسَارِعُوا إِلَی مَغْفِرَۃٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ۔ (آل عمران: 133)

’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی) 

سَارِعُوا میں دوڑنا ضروری نہیں ہے، تیزی سے بڑھنا اس کا صحیح مفہوم ہے۔

’’اور اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے لیے مسابقت کرو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے عرض کی طرح ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی) 

سَارِعُوا دوسروں سے مسابقت کے لیے نہیں ہے، بلکہ خود تیز بڑھنے کے لیے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک دوسرے مقام پر کعرض  آیا ہے، یہاں نہیں آیا ہے۔ یہاں ’’کی طرح‘‘ کے بجائے ’’کے برابر‘‘ زیادہ مناسب ترجمہ ہے۔ 

’’دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں دو باتیں قابل توجہ ہیں، ایک تو سَارِعُوا کا ترجمہ ’’دوڑ کر چلو‘‘ کے بجائے ’’تیز بڑھو‘‘ ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ آیت کے الفاظ میں بخشش اور جنت کی طرف جانے والی ’راہ‘ کا ذکر نہیں ہے۔ بخشش اور جنت کی طرف لپکنے کا ذکر ہے۔ 

’’اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری) آسمان کے بجائے آسمانوں ہونا چاہیے۔

(563) ہَذَا بَیَانٌ لِلنَّاسِ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں بیان کا ترجمہ بعض لوگوں نے تنبیہ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ بیان کا اصل مطلب واضح تذکرہ ہے، وہی یہاں بھی موزوں ہے۔ تنبیہ سے مفہوم بہت محدود ہوجاتا ہے جس کی ضرورت نہیں ہے۔ ھذا سے پورا قرآن مراد ہے یا اس آیت سے پہلے کئی باتیں دو ٹوک انداز میں کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں، وہ سب کچھ مراد ہے۔ 

ہَذَا بَیَانٌ لِلنَّاسِ۔ (آل عمران: 138)

’’یہ تنبیہ ہے لوگوں کے لیے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہ ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’یہ (عام) لوگوں کے لیے تو واضح تذکرہ اور تنبیہ ہے‘‘۔ (محمد حسین نجفی) واضح تذکرہ کہنا کافی ہے۔

’’عام لوگوں کے لیے تو یہ (قرآن) بیان ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی) عام لوگوں کہنے کے بجائے لوگوں کہنا چاہیے، تاکہ مومن و غیر مومن سبھی اس میں شامل ہوجائیں۔

(564) وَیَأْتُوکُمْ مِنْ فَوْرِہِمْ ہَذَا

درج ذیل آیت میں فور کا لفظ آیا ہے۔ اس کا اصل معنی جوش ہے۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: 

الفَوْرُ: شِدَّۃُ الغَلَیَانِ۔ (المفردات فی غریب القرآن) جوش میں انسان جلدی کام کرتا ہے تو وہیں سے اس میں دفعتًا اور اسی دم کا مفہوم پیدا ہوگیا۔

درج ذیل آیت میں دونوں مفہوم لیے گئے ہیں۔ تاہم ’’اسی دم‘‘ کے مقابلے میں ’’اسی جوش میں‘‘ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ دشمن اسی دم آئیں یا تاخیر سے آئیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جوش میں حملہ زیادہ زور دار ہوتا ہے اور اس کے مقابلے کے لیے زیادہ نفری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:

بَلَی إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَیَأْتُوکُمْ مِنْ فَوْرِہِمْ ہَذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُسَوِّمِینَ۔ (آل عمران: 125)

’’کیوں نہیں، بلکہ اگر تم صبر و پرہیزگاری کرو اور یہ لوگ اسی دم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا جو نشان دار ہوں گے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’ہاں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’ہاں اگر تم دل کو مضبوط رکھو اور (خدا سے) ڈرتے رہو اور کافر تم پر جوش کے ساتھ دفعتہً حملہ کردیں تو پروردگار پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہوں گے تمہاری مدد کو بھیجے گا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

آخر الذکر ترجمے میں جوش اور دفعتہً دونوں کا ذکر کردیا۔ من فورھم ھذا کا کوئی ایک ہی مفہوم ہوگا۔ 

مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

’’بے شک، اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو اور دشمن اگر اسی جوش میں تمہارے اوپر چڑھ کر آئیں گے تو تمہارا رب پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا‘‘۔

من فورھم ھذا کا درج ذیل ترجمہ کسی طرح درست نہیں ہے۔

’’بے شک، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ کر آئیں گے اُسی آن تمہارا رب (تین ہزار نہیں) پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا‘‘۔ (سید مودودی)

من فورھم کا ترجمہ ’’جس آن‘‘ درست نہیں ہے۔ آیت کے الفاظ یہ مفہوم نہیں رکھتے کہ دشمن جس وقت آئیں گے اللہ کی مدد اسی وقت آجائے گی۔ یعنی اللہ کی مدد کا وقت نہیں بتایا جارہا ہے۔ بلکہ اللہ کی مدد کے وعدے کا ذکر ہے کہ اگر دشمن حملہ آور ہوں گے تو اللہ کی اتنی مدد آئے گی۔

  (565) وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں ما موصولہ بھی ہوسکتا ہے اور مصدریہ بھی ہوسکتا ہے۔ موصولہ کا مطلب ہوگا کہ جو چیز تمھیں مصیبت سے دوچار کرے انھیں پسند ہے، مصدریہ کا مطلب ہوگا تمھارا مصیبت سے دوچار ہونا انھیں پسند ہے۔ درج ذیل پہلے دونوں ترجمے ما کو موصولہ مان کر کیے گئے ہیں:

یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَۃً مِنْ دُونِکُمْ لَا یَأْلُونَکُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ۔ (آل عمران: 118)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے‘‘۔ (سید مودودی، لَا یَأْلُونَکُمْ خَبَالًا کا درست ترجمہ ہے: ’’وہ تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھیں گے‘‘۔ ’’موقع سے فائدہ اٹھانا‘‘ الفاظ کے موافق نہیں ہے۔)

’’اے ایمان والو! اپنے (لوگوں کے) سوا دوسرے ایسے لوگوں کو اپنا جگری دوست (رازدار) نہ بناؤ جو تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ جو چیز تمہیں مصیبت وزحمت میں مبتلا کرے وہ اسے محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

ان دونوں ترجموں سے یہ مفہوم نکل سکتا ہے کہ مومنوں کو جن چیزوں سے نقصان پہنچے وہ چیزیں یہ لوگ اپنے لیے پسند کرتے ہیں، محبوب رکھتے ہیں۔ یہ مفہوم قابل قبول نہیں ہے۔ جو چیز کسی کو بھی نقصان پہنچانے والی ہو اسے کوئی محبوب کیسے رکھ سکتا ہے۔

یہاں نقصان پہنچانے والی چیز مراد نہیں ہے بلکہ خود نقصان پہنچنا مراد ہے۔ یعنی ان لوگوں کو یہ بات پسند ہے کہ مومنوں کو نقصان پہنچے۔ درج ذیل ترجمہ ما کو بجا طور پر مصدریہ مان کر کیا گیا ہے:

’’اے ایمان والو! اپنے سے باہر والوں کو اپنا محرم راز نہ بناؤ، یہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے۔ یہ تمہارے لیے زحمتوں کے خواہاں ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

الفاظ کی مکمل رعایت کی جائے تو ترجمہ ہوگا: ’’تمہارا مصیبت میں پڑنا انھیں محبوب ہے‘‘۔

(566) تَبْغُونَہَا عِوَجًا کا ترجمہ

بغی یبغی جب مفعول بہ کے ساتھ آتا ہے تو کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو چاہنا اور طلب کرنا۔

فیروزآبادی لکھتے ہیں: بَغَیْتُہُ أبْغیہِ...طَلَبْتُہُ (القاموس المحیط)

قرآن مجید میں متعدد بار یبغون آیا ہے اور اس کا مطلب واضح طور پر چاہنا اور طلب کرنا ہے اور اسی کے مطابق ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ البتہ درج ذیل آیت میں اس لفظ کا ترجمہ اس طرح نہیں کیا گیا: 

قُلْ یَاأَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَہَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُہَدَاء۔ (آل عمران: 99)

’’کہو کہ اہلِ کتاب تم مومنوں کو خدا کے رستے سے کیوں روکتے ہو اور باوجود یہ کہ تم اس سے واقف ہو اس میں کجی نکالتے ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’ان اہل کتاب سے کہو کہ تم اللہ تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو کیوں روکتے ہو؟ اور اس میں عیب ٹٹولتے ہو، حالانکہ تم خود شاہد ہو‘‘۔(محمد جوناگڑھی)

’’کہہ دواے اہلِ کتاب اللہ کی راہ سے کیوں روکتے ہو اس شخص کو جو ایمان لائے اس میں عیب ڈھونڈتے ہو اورتم خود جانتے ہو‘‘۔(احمد علی)

ایک تو عوج کا مطلب عیب نہیں ہوتا، کجی اور ٹیڑھ ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تَبْغُونَہَا عِوَجًا  کا مطلب کجی نکالنا، عیب ٹٹولنا اور عیب ڈھونڈنا نہیں ہوگا۔ 

درج ذیل ترجمہ میں ’’اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے‘‘ درست نہیں ہے۔ تبغون کا ترجمہ ’’تم چاہتے ہو درست کیا گیا ہے، تاہم تَبْغُونَہَا عِوَجًا کا ترجمہ ’’چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے‘‘ درست نہیں ہے۔ یہاں مفعول بہ چلنے والا نہیں ہے بلکہ خود راستہ ہے۔ کیوں کہ ضمیر ’ھا‘ ہے۔ 

’’کہو، اے اہل کتاب! یہ تمہاری کیا روِش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اُسے بھی تم اللہ کے راستہ سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے، حالانکہ تم خود (اس کے راہ راست ہونے پر) گواہ ہو‘‘۔ (سید مودودی)

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

’’کہو، اے اہل کتاب تم ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے کیوں روک رہے ہو، تم اس میں کجی پیدا کرنی چاہتے ہو حالانکہ تم گواہ بنائے گئے ہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی) البتہ ’’پیدا کرنا‘‘ زائد ہے۔  

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں: ’’تم چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ ہوجائے‘‘۔


قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter