اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی


(527) مُخْتَالًا فَخُورًا کا ترجمہ

قرآن مجید میں تین جگہ مختال کا لفظ آیا ہے اور تینوں جگہ اس کے ساتھ فخور آیا ہے۔ ان دونوں لفظوں کے درمیان اگر فرق سامنے رہے تودرست ترجمہ کرنے میں مدد ملے گی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی اور بعض دیگر اہل علم کا خیال ہے کہ اختیال کا مطلب ہے اترانا یعنی جسمانی حرکت سے اپنے تکبر کو ظاہر کرنا اور فخر کا مطلب ہے فخر جتانا اور شیخی بگھارنا یعنی زبان سے اپنے تکبر کا اظہار کرنا۔ اختیال فعل ہے اور فخر قول ہے۔ فخر اور اختیال کے استعمالات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ احادیث میں خیلاء کا لفظ آیا ہے، جنگ کے وقت اور صدقے کے وقت اسے پسندیدہ بتایا گیا اور ظلم و زیادتی کے وقت اسے ناپسندیدہ بتایا گیا۔  

وإن مِن الخُیلاء ما یُبغضُ اللہُ، ومنہا ما یحبُّ اللہُ فأما الخُیلاءُ التی یحبُّ اللہُ فاختیالُ الرجلِ نفسَہ عند اللقاءُ، واختیالُہ عند الصدقۃِ، وأما التی یُبغِضُ اللہُ فاختیالُہ فی البغیِ۔ (سنن أبی داود)

اسی طرح لباس گھسیٹ کر چلنے کے سیاق میں خیلاء کا لفظ آیا۔

إِنَّ الَّذِی یَجُرُّ ثَوْبَہُ مِنَ الْخُیَلَاءِ، لَا یَنْظُرُ اللَّہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (سنن ابن ماجہ)

اترانے والی چال کو مشیۃ الاختیال کہتے ہیں۔گویا اختیال اور خیلاء کے الفاظ وہاں آئے ہیں جہاں اترانے اور جسمانی حرکتوں سے تکبر کا اظہار کرنے کا موقع ہے۔

دوسری طرف فخر کا استعمال وہاں ہوا ہے جہاں آدمی زبان سے اظہار کرتا ہے جیسے حسب و نسب کے معاملے میں فخر۔

أَرْبَعٌ فِی أُمَّتِی مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ، لَا یَتْرُکُونَہُنَّ: الْفَخْرُ فِی الْأَحْسَابِ...الحدیث۔ (صحیح مسلم)

إِنَّ اللَّہَ أَذْہَبَ عَنْکُمْ عُبِّیَّۃَ الجَاہِلِیَّۃِ وَفَخْرَہَا بِالآبَاءِ۔ (سنن الترمذی)

 ان استعمالات کی روشنی میں مختال کا ترجمہ اترانے والا اور فخور کا ترجمہ بڑائی جتانے والا اور شیخی بگھارنے والا ہوگا۔ عام طور سے لوگوں نے فرق کا لحاظ کیے بغیر الگ الگ جگہوں پر الگ الگ طرح سے ترجمہ کیا ہے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:

(۱)  إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ۔ (لقمان: 18)

بے شک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی  اتراتا بڑائیاں کرتا (شاہ عبدالقادر)

’’بیشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اِتراتا فخر کرتا‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’خدا کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (سید مودودی)

’’کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)

پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔

(۲)  وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ۔ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ۔ (الحدید: 23، 24)

’’اور خدا کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا جو (خود بھی) بخل کریں اور دوسروں کو (بھی) بخل کی تعلیم دیں‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)

’’اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل پر اکساتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔

(۳)  إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا. الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ۔ (النساء: 36، 37)

’’اللہ کو خوش نہیں آتا جو کوئی ہو اتراتا اور بڑا ئی کرتا وہ جو بخل کرتے ہیں اور سکھاتے ہیں لوگوں کو بخل‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’بیشک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا جو آپ بخل کریں اور اوروں سے بخل کے لیے کہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا، جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)

پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔

آخر الذکر ترجمے میں ایک بات اور قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ دیگر مترجمین کے برخلاف اس میں الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ سے پہلے ’’اور‘‘ لگاکر وہاں سے نیا جملہ بنایا گیا ہے اور پھر وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ عَذَابًا مُہِینًا کو خبر بنایا گیا ہے، جب کہ وہ جملہ جسے خبر بنایا گیا ہے خود واؤ سے شروع ہورہا ہے۔ زمخشری نے خبر کو محذوف مانتے ہوئے اس توجیہ کو ممکن بتایا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس میں حذف ماننے کا غیر ضروری تکلف ہے۔ ’’الذین‘‘ کو ’’مَن‘‘  کا بیان مان لینے میں کسی تکلف کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ سورہ حدید کی اسی طرح کی عبارت والی آیتوں میں بیان والی توجیہ قوی تر ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہاں صاحب تفہیم نے بیان والا ترجمہ کیا ہے، وہی ترجمہ یہاں بھی ہونا چاہیے۔ سورہ حدید والی آیتیں سورہ نساء والی آیتوں کی توجیہ کرنے میں مدد کرتی ہیں۔

(528) ثُمَّ جَائُوکَ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ

درج ذیل آیت میں إِذَا آیا ہے۔ یہ فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے، لیکن اسے مستقبل کا معنی دیتا ہے۔ جیسے: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ۔ (النصر: 1)، درج ذیل آیت میں یہ پہلو نظر انداز ہوگیا اور لوگوں نے حال کا ترجمہ کردیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں نحوی ترکیب کے لحاظ سے یَحْلِفُونَ حال ہے جَاءُوکَ سے۔ لیکن ترجمہ حال کا نہیں ہوگا بلکہ ترجمہ اس طرح ہوگا کہ وہ آکر قسمیں کھاتے ہیں۔بعض صورتوں میں حال فعل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے فورًا بعد واقع ہوتا ہے، اس کی قرآن میں بہت سی مثالیں ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہے:  

فَکَیْفَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیہِمْ ثُمَّ جَائُوکَ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ۔ (النساء: 62)

’’تو کیسی (ندامت کی) بات ہے کہ جب ان کے اعمال (کی شامت سے) ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو تمہارے پاس بھاگے آتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آکر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت کے بغیر حال کا ترجمہ کیا گیا ہے البتہ یحلفون کا ترجمہ مناسب اسلوب میں ہے۔

’’پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)

’’کیسی ہوگی جب ان پر کوئی افتاد پڑے بدلہ اس کا جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا پھر اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں، اللہ کی قسم کھاتے‘‘۔(احمد رضا خان)

درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت بھی نہیں ہے اور یحلفون کا ترجمہ بھی موزوں نہیں ہے۔ یہاں قسمیں کھاتے ہوئے آنے کا کیا مطلب ہے؟!

’’پھر وہ کیسا جب ان کو پہنچے مصیبت اپنے ہاتھوں کے کیے سے، پیچھے آویں تیرے پاس قسمیں کھاتے اللہ کی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اس وقت کیا ہوگا جب ان کے اعمال کی پاداش میں ان کو کوئی مصیبت پہنچے گی، پھر یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت تو ہے البتہ یحلفون کا ترجمہ موزوں نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

’’پھر اس وقت کیا ہوگا جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑے گی؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس آکر قسمیں کھائیں گے‘‘۔

(529) قُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا

اس عبارت سے دو مفہوم نکل سکتے ہیں، ایک یہ کہ فِی أَنْفُسِہِمْ کا تعلق قُلْ لَہُمْ سے مانا جائے، ترجمہ ہوگا ان سے ان کے سلسلے میں بلیغ بات کہو۔ دوسرا یہ کہ فِی أَنْفُسِہِمْ کا تعلق قَوْلًا بَلِیغًا سے مانا جائے، تب ترجمہ ہوگا ان سے ان کے دل میں اتر جانے والی بات کہو۔ موخر الذکر مفہوم زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے اپنے بارے میں بات کہنا مراد لیں تو بات محدود ہوجاتی ہے  اور اس کی مراد متعین کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔  ترجمے ملاحظہ ہوں:  

وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا۔ (النساء: 63)

’’اور ان سے کہہ ان کے حق میں بات کام کی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور ان سے خاص ان کی ذات کے متعلق کوئی مضمون کہہ دیجیے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’اور ان سے خود ان کے باب میں دل میں دھنسنے والی بات کہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’ اور ان کے معاملہ میں ان سے رسا بات کہو‘‘۔ (احمد رضا خان)

درج ذیل ترجمے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں ، کہ ان سے جو بات بھی کہو وہ ان کے دل میں اتر جانے والی ہو۔

’’اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے‘‘۔ (سید مودودی)

(530) خُذُوا حِذْرَکُمْ

درج ذیل عبارت میں بعض لوگوں نے خُذُوا حِذْرَکُمْ کا ترجمہ اسلحہ لے لو، ہتھیار لے لو کیا ہے۔ حذر کا مطلب اسلحہ نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی سے بچنے کے لیے ہوشیار اور بیدار رہنا ہوتا ہے۔ اسلحہ رکھنا اس کی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ زمخشری نے اس تعبیر کی اچھی وضاحت کی ہے:

یقال: أخذ حذرہ، إذا تیقظ واحترز من المخوف، کأنہ جعل الحذر آلتہ التی یقی بہا نفسہ ویعصم بہا روحہ۔ والمعنی: احذروا واحترزوا من العدوّ۔ (الکشاف)

یعنی اپنی ہوشیاری ہی کو اپنے بچاؤ کا سامان بنالینا۔  ترجمے ملاحظہ ہوں:

یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَکُمْ۔ (النساء: 71)

’’مومنو! (جہاد کے لیے) ہتھیار لے لیا کرو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اے ایمان والو، اپنے اسلحہ سنبھالو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا ترجمے لفظ کی وسعت کو محدود کردیتے ہیں۔ یہاں دشمنوں سے بچاؤ کرنے کی ساری صورتیں مراد ہیں۔

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو‘‘۔ (سید مودودی)

’’اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اپنے بچاؤ کا سامان کرو‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)

خُذُوا حِذْرَکُمْ کا مفہوم درج ذیل آیت سے بخوبی متعین ہوجاتا ہے۔ یہاں ہتھیار رکھ دینے اور خُذُوا حِذْرَکُمْ کہہ کر بچاؤ کا سامان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے:

وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِنْ کَانَ بِکُمْ أَذًی مِنْ مَطَرٍ أَوْ کُنْتُمْ مَرْضَی أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَکُمْ وَخُذُوا حِذْرَکُمْ۔ (النساء: 102)

’’اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا‘‘۔(فتح محمد جالندھری)، اس آیت میں خُذُوا حِذْرَکُم سے ہتھیار اٹھانا مراد نہیں ہے۔

(531) لَیُبَطِّئَنَّ کا ترجمہ

درج ذیل عبارت میں لَیُبَطِّئَنَّ فعل لازم ہے، باب تفعیل کی وجہ سے اس میں مبالغے کا مفہوم شامل ہے، یہاں اس کے معنی زیادہ سستی اختیار کرنے اور دیر لگانے کے ہیں۔ یہاں اس لفظ کا مطلب دوسروں کو روکنے یا دوسروں کی تاخیر کا سبب بننا نہیں ہے، کیوں کہ اس کے لیے باء کا صلہ آتا۔ جیسے حدیث میں ہے، مَنْ بَطَّأَ بِہِ عملُہ لَمْ یَنْفَعْہ نَسَبُہ۔ لسان العرب میں ہے: وبَطَّأَ فُلَانٌ بِفُلَانٍ: إِذا ثَبَّطَہ عَنْ أَمرٍ عَزَمَ عَلَیْہِ۔

دوسری بات یہ ہے کہ سیاق کلام اپنی خود کی تاخیر سے متعلق ہے، دوسروں کی ہمت شکنی اور دوسروں کے لیے تاخیر کا باعث بننے سے متعلق نہیں ہے۔ ترجمے ملاحظہ کریں:

وَإِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَیُبَطِّئَنَّ۔ (النساء: 72)

’’تم میں ایسے لوگ بھی گھس گئے ہیں جو لوگوں کو روکیں گے‘‘۔ (ذیشان جوادی)

ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ خود تو جی چراتا ہی ہے دوسروں کی بھی ہمتیں پست کرتا ہے اور ان کو جہاد سے روکنے کے لیے ایسی باتی کرتا ہے کہ وہ بھی اسی کی طرح بیٹھ رہیں۔ (تفہیم القرآن)

درج بالا ترجمے درست نہیں ہیں، جب کہ نیچے دیے ہوئے ترجمے مناسب ہیں:

’’ہاں، تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چراتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور تم میں کوئی ایسا بھی ہے کہ (عمداً) دیر لگاتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

(532) بَیَّتَ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ

درج ذیل عبارت میں ایک سوال یہ ہے کہ تَقُولُ کا فاعل کون ہے۔ بعض لوگوں نے رسول کو مانا ہے۔ لیکن اس صورت میں سوال یہ ہے کہ رسول کی کون سی بات مراد ہے، رسول کی کوئی بات تو پیچھے مذکور نہیں ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ تَقُولُ کا فاعل خود طائفۃ ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ طائفۃ  کی بات پیچھے مذکور ہے  وَیَقُولُونَ طَاعَۃٌ۔ اس لحاظ سے دوسری صورت اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔

ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں تبییت سے صرف مشورے کرنا اور سرگوشیاں کرنا مراد نہیں ہے، بلکہ سازشیں کرنا مراد ہے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:

وَیَقُولُونَ طَاعَۃٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللَّہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ۔ (النساء: 81)

’’اور کہتے ہیں کہ قبول کیا پھر جب باہر گئے تیرے پاس سے مشورت کرتے ہیں بعضے بعضے ان میں رات کو سوائے تیری بات کے اور لکھتا ہے اللہ جو ٹھہراتے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور یہ لوگ منھ سے تو کہتے ہیں کہ (آپ کی) فرمانبرداری (دل سے منظور ہے) لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان میں سے بعض لوگ رات کو تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور جو مشورے یہ کرتے ہیں خدا ان کو لکھ لیتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’وہ منھ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجموں میں تَقُولُ کا فاعل رسول کو مانا گیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں طائفۃ  کو اور یہی بہتر ہے۔

’’اور کہتے ہیں ہم نے حکم مانا پھر جب تمہارے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان میں ایک گروہ جو کہہ گیا تھا اس کے خلاف رات کو منصوبے گانٹھتا ہے اور اللہ لکھ رکھتا ہے ان کے رات کے منصوبے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’یہ کہتے تو ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان میں کی ایک جماعت، جو بات آپ نے یا اس نے کہی ہے اس کے خلاف راتوں کو مشورے کرتی ہے، ان کی راتوں کی بات چیت اللہ لکھ رہا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، ’’آپ نے یا اس نے‘‘، یہ دونوں تو نہیں ہوسکتا، صحیح ’’اس نے‘‘ ہے۔)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

’’یہ کہتے تو ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان کا ایک گروہ جو کچھ تمہارے پاس کہہ رہا تھا اس سے مختلف رویہ اختیار کرتا ہے، (یعنی تم سے اطاعت کا دم بھرتا اور بعد میں اس سے مختلف رویہ اختیار کرتا ہے)، اللہ ان کی یہ ساری سازشیں لکھ رہا ہے‘‘۔

(533) وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً

مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَکُنْ لَہُ نَصِیبٌ مِنْہَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَکُنْ لَہُ کِفْلٌ مِنْہَا۔ (النساء: 85)

’’جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمہ درست ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے میں کم زوری ہے۔

’’جو کسی اچھی بات کے حق میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو اس کی مخالفت میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً  سے اچھی بات کی مخالفت میں کہنا نہیں بلکہ بری بات کے حق میں کہنا مراد ہے۔

جو کسی اچھی بات کے حق میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو اس کی مخالفت میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے۔

(534) تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ

قرآن مجید میں یہ اسلوب متعدد بار استعمال ہوا ہے، جیسے: مَغْفِرَۃٌ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 157)،  فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِنَ اللَّہ۔ (آل عمران: 159)، یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 171)، وغیرہ۔

اسی طرح یہاں تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ آیا ہے۔ اللہ کی طرف سے توبہ کا مطلب اللہ کی بندوں پر مہربانی ہوتا ہے۔

بندہ جب اللہ سے توبہ کرے تو اس کے لیے توبۃ إلی اللہ  آتا ہے۔  ترجمہ کرتے ہوئے لوگوں کا ذہن اس طرف نہیں گیا اور انھوں نے مشکل ترجمے کیے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:

تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ۔ (النساء: 92)

’’بخشوانے کو اللہ سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لیے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’یہ اِس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے‘‘۔ (سید مودودی)

مذکورہ بالا ترجمے توبۃ من اللہ کے نہیں بلکہ توبۃ الی اللہ کے ہیں۔

’’یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لیے) ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

 درج بالا ترجمے میں توبہ کا ترجمہ توبہ کرکے پھر قوسین کے ذریعے اشکال کو دور کرنے کی پرتکلف کوشش کی گئی۔

’’یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی توبہ ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجمہ بھی کم زور ہے، کیوں کہ اوپر کفارے کا ذکر ہے، توبہ کا نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

’’یہ اللہ کی طرف سے مہربانی ہے۔‘‘ یعنی اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے اس مشکل صورت حال سے نکلنے کا یہ طریقہ بتایا۔

(535) تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا

درج ذیل آیت میں تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا حال واقع ہوا ہے وَلَا تَقُولُوا سے۔ گویا یہاں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ دنیا کے طلب گار ہیں، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ دنیا کی طلب کے سبب سے ایسا نہ کرو۔  

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللَّہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ۔ (النساء: 94)

’’اور مت کہو جو شخص تمہاری طرف سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں چاہتے ہو مال دنیا کی زندگ کا تو اللہ کے یہاں بہت غنیمتیں ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں تم جیتی دنیا کا اسباب چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہتری غنیمتیں ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اُسے فوراً نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور جو تم سے سلام علیک کرے تو اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا ترجموں میں کم زوری ہے۔ کیوں کہ تبتغون سے پہلے حرف استفہام نہیں ہے۔ اور اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر دنیا طلبی تھی۔

درج ذیل ترجمے مناسب ہیں، ان میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ دنیوی طلب تمھارے اندر ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ دنیوی طلب کی وجہ سے ایسا نہ کرنا۔  

’’اور جو تمہیں سلام کرے اس کو دنیوی زندگی کے سامان کی خاطر یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اللہ کے پاس بہت سامانِ غنیمت ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے نزدیک بہت سے غنیمتیں ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۹

مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرو
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مبارک ثانی کیس کا فیصلہ : دیوبندی قیادت کے لیے قابل توجہ پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مبارک ثانی کیس ہے کیا اور اب تک اس میں کیا ہوا؟
انڈپینڈنٹ اردو

مبارک ثانی کیس کیا تھا اور نظر ثانی کیوں ضروری تھی؟
بنوریہ میڈیا

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء
علامہ سید یوسف بنوریؒ

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہؒ کی شہادت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)
محمود الحسن عالمیؔ

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دنیا کی مسلمان آبادی
میٹا اے آئی

ماہ صفر اور توہم پرستی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

نُکتہ یا نُقطہ؟
ڈاکٹر رؤف پاریکھ

توہینِ مذہب کے مسائل کے حل کے لیے جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو کر ایک متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز

The Two Viable Paths for the Qadiani Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter