(۴۶) حال کا ایک خاص استعمال
عربی زبان میں حال کا عام استعمال تو فعل کی انجام دہی کے وقت ذو الحال کی حالت بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے، جیسے جاء زید راکبا یعنی زید سوار ہوکر آیا۔ لیکن حال کا ایک استعمال اس وقت بھی ہوتا ہے جب ایک فعل کے فورا بعد دوسرا فعل شروع ہوتا ہے، ترجمہ میں اس کی رعایت سے ترجمہ کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ بعض مترجمین نے کچھ مقامات پر اس استعمال کے مطابق ترجمہ کیا ہے، جبکہ بعض دوسرے مقامات پر اس طرح ترجمہ نہیں کیا گیا، حالانکہ وہاں بھی اسی طریقہ پر ترجمہ کرنا زیادہ مناسب لگتا ہے، مثالیں حسب ذیل ہیں:
(۱) فَکَیْْفَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْْدِیْہِمْ ثُمَّ جَآؤُوکَ یَحْلِفُونَ بِاللّٰہِ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ إِحْسَاناً وَتَوْفِیْقاً۔ (النساء :۶۲)
’’پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہو جائے‘‘۔ (سید مودودی)
’’پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آکر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا‘‘۔(محمد جونا گڑھی)
پہلے ترجمہ میں’’ قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں‘‘ ہے، جس کے مقابلے میں دوسرا ترجمہ زیادہ مناسب ہے، یعنی آکر قسمیں کھاتے ہیں۔
(۲) مَا یَأْتِیْہِم مِّن ذِکْرٍ مَّن رَّبِّہِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوہُ وَہُمْ یَلْعَبُون۔ (الانبیاء :۲)
’’ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
اس ترجمے کے مقابلے میں ذیل کے ترجمے زیادہ مناسب ہیں:
’’ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نئی یاد دہانی نہیں آتی مگر یہ کہ کان لگا کر سن لیتے ہیں اور پھر کھیل تماشے میں لگ جاتے ہیں‘‘۔(ذیشان جوادی)
’’ان کے پروردگار کے پاس سے کوئی بھی نئی سے نئی نصیحت آئے ، یہ اسے سن کر کھیل تماشے میں لگے رہتے ہیں‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳) وَنَادَیْْنَاہُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَیْْمَنِ وَقَرَّبْنَاہُ نَجِیّاً۔ (مریم : ۵۲)
’’ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے ندا کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور اسے ہم نے طور کی داہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا‘‘۔(احمد رضا خان)
’’راز گوئی کرتے ہوئے‘‘، یا ’’راز گوئی کرنے کو‘‘، کے بجائے ترجمہ حسب ذیل ہونا چاہئے:
’’اور ہم نے اس کو طور کے مبارک کنارے سے آواز دی اور قریب کرکے اس سے سرگوشی کی‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(۴) وَلاَ تَقْعُدُواْ بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِہِ وَتَبْغُونَہَا عِوَجًا۔ (الاعراف:۸۶)
’’اورہر راہ میں دھمکیاں دیتے، اہل ایمان کو اللہ کی راہ سے روکتے اور اس راہ کو کج کرتے نہ بیٹھو‘‘۔ (اصلاحی)
اس آیت میں تین افعال بطور حال آئے ہیں ، ان کا ترجمہ حسب ذیل ہونا چاہئے:
’’اور ہر راستے میں بیٹھ کر جو ایمان لائے انہیں دھمکیاں نہ دو اور اللہ کی راہ سے نہ روکو اس میں کجی کی خواہش کے ساتھ‘‘۔(امانت اللہ اصلاحی)
(۵) وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِیْنَ إِلَی جَہَنَّمَ وِرْدا۔ (مریم: ۸۶)
’’اور مجرموں کو جہنم کی طرف ہانکیں گے پیاسے‘‘۔(احمد رضا خان)
درست ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’اور مجرموں کو ہانک کر جہنم کے گھاٹ پر پہنچائیں گے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(۵) فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْن۔ (البقرۃ : ۲۱۳)
’’پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے جو خوشخبری سناتے اور خبردار کرتے آئے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
درست ترجمہ یوں ہوگا:
’’تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے جنھوں نے آکر خوش خبری سنائی اور خبردار کیا‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
بعض مترجمین نے یہاں حال کے بجائے صفت کا ترجمہ کردیا ہے لیکن ایسا کرنا زبان کے قواعد سے مطابقت نہیں رکھتا، جیسے:
’’تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے‘‘(سید مودودی)
(۴۷) سَرِیعُ الحِسَابِ اور سَرِیعُ العِقَابِ کا مطلب
قرآن مجید میں اللہ تعالی کی ایک صفت کے طور پر سَرِیعُ الحِسَابِ کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ سَرِیعُ العِقَابِ بھی آیا ہے۔ سَرِیعُ الحِسَابِ کے مفہوم کی تشریح کرتے ہوئے علامہ قرطبی نے لکھا ہے:
والمعنی فی الآیۃ: ان اللہ سبحانہ سریع الحساب، لایحتاج الی عد ولاالی عقد ولا الی اعمال فکر کما یفعلہ الحساب...فاللہ جل وعز عالم بما للعباد وعلیہم فلا یحتاج الی تذکر وتأمل، اذ قد علم ما للمحاسب وعلیہ، لان الفائدۃ فی الحساب علم حقیقتہ۔۔۔ وقیل: معنی الآیۃ سریع بمجیء یوم الحساب، فالمقصد بالآیۃ الانذار بیوم القیامۃ. (تفسیر القرطبی،البقرۃ،الآیۃ:۲۰۲)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرطبی نے آیت کے جس مفہوم کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ جب کسی کا حساب کرتا ہے تو اسے حساب کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ دوسرا مفہوم جو بعض لوگوں نے لیا ہے، وہ یہ ہے کہ حساب کا دن اللہ بہت جلدی لے آئے گا۔ لیکن اس دوسرے مفہوم کے لئے جو تکلف آمیز تاویل کرنا پڑتی ہے، وہ مخفی نہیں ہے، اسی لیے قرطبی نے اسے صیغہ تضعیف سے ذکر کیا ہے۔
شبیر احمد عثمانی نے دونوں مفہوم بیک وقت مراد لیے ہیں، وہ لکھتے ہیں: ’’یعنی حساب کا دن کچھ دور نہیں ، جلد آنے والا ہے اور جب حساب شروع ہوگا، تمام دنیا کا پائی پائی کا حساب بہت جلد بے باق کردیا جائے گا‘‘۔(شبیر احمد عثمانی)
لیکن یہ دونوں معنی بیک وقت لینا صحیح نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید میں ایسے ہر مقام پر ایک ہی مفہوم لینا درست ہے اور وہ یہ کہ اللہ کو حساب لینے میں دیر نہیں لگتی ہے۔کیونکہ لفظ سریع کسی کام کو جلدی سے انجام دینے کے لئے آتا ہے، نہ کہ کسی کام کے وقت کے قریب آجانے کے لئے۔مثال کے طور پر اگر یہ کہنا ہو کہ زید کھانا جلدی کھالیتا ہے تو کہیں گے: زید سریع الاکل۔ لیکن اگر یہ کہنا ہو کہ زید جلد ہی کھانا کھالے گا ( مراد یہ ہو کہ وہ عنقریب کھانا کھالے گا) تو اس کے لیے زید سریع الاکل نہیں کہا جائے گا۔ سریع کے لفظ کا مفہوم انگریزی مترجمین نے زیادہ تر Swift کے لفظ سے کیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ یہ سریع کے مفہوم کی انگریزی زبان میں ادائیگی کے لئے بہت مناسب لفظ ہے۔
تراجم قرآن کا جائزہ لیتے ہوئے کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی ترجمۂ قرآن میں مختلف مقامات پر اس ایک لفظ کا مختلف طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے، مثالیں حسب ذیل ہیں:
(۱) وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا أَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَحْسَبُہُ الظَّمْآنُ مَاءً ا حَتَّی إِذَا جَاء ہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْْئاً وَوَجَدَ اللَّہَ عِندَہُ فَوَفَّاہُ حِسَابَہُ وَاللَّہُ سَرِیْعُ الْحِسَاب۔ (النور:۳۹)
’’اورجو لوگ کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کہ پیاسا (آدمی) اس کو (دور سے) پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اس کو (جو سمجھ رکھا تھا) کچھ بھی نہ پایا اور قضاء الٰہی کو پایا، سو اللہ تعالی نے اس (کی عمر) کا حساب اس کو برابر سرابر چکادیا (یعنی عمر کا خاتمہ کردیا) اور اللہ تعالی دم بھر میں حساب (فیصل) کردیتا ہے‘‘۔(اشرف علی تھانوی، یہاں ترجمہ صحیح کیا ہے)
(۲) أُولَئِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُواْ وَاللّہُ سَرِیْعُ الْحِسَاب۔ (البقرۃ:۲۰۲)
’’ایسے لوگوں کو (دونوں جہان میں) بڑا حصہ ملے گا، بدولت ان کے عمل کے، اور اللہ تعالی جلد ہی حساب لینے والے ہیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی، یہاں ترجمہ صحیح نہیں ہے)
(۳) أُوْلَئِکَ لَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ إِنَّ اللّہَ سَرِیْعُ الْحِسَاب۔ (آل عمران:۱۹۹)
’’ایسے لوگوں کو ان کا نیک عوض ملے گا ان کے پروردگار کے پاس، بلاشبہہ اللہ تعالی جلدی ہی حساب کردیں گے‘‘۔(اشرف علی تھانوی، یہاں ترجمہ صحیح نہیں ہے)
بہت سارے مترجمین سریع الحساب کا ترجمہ کرتے ہیں : بے شک اللہ جلد حساب چکانے والا ہے، یا جلدی حساب چکانے والا ہے، اس ترجمہ سے واضح نہیں ہوتا کہ مراد کیا ہے، کیونکہ اردو زبان کے لحاظ سے ذہن دونوں طرف جاسکتا ہے، یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ حساب کا وقت جلدآنے والا ہے، اور یہ بھی کہ جب اللہ حساب چکائے گا تو بہت جلدی چکادے گا اور اس کام میں اس کو ذرا دیر نہیں لگتی ہے۔ ذہن کو دوسری طرف جانے سے بچانے کے لئے ترجمہ یہ ہونا چاہیے کہ ’’اللہ کو حساب چکاتے دیر نہیں لگتی‘‘، بعض مترجمین اس امر کا لحاظ کرتے ہیں لیکن بعض کے یہاں اس کا لحاظ نہیں ملتا۔
سریع الحساب کی طرح سریع العقاب کا مطلب بھی یہ ہوگا کہ اس کو سزا دینے میں دیر نہیں لگتی، نہ یہ کہ وہ جلد اورعنقریب سزا دینے والا ہے:
إِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ (الانعام:۱۶۵)
’’بیشک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بیشک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)
(۴۸) فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ
فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْْسَرَ مِنَ الْہَدْی۔ (البقرۃ:۱۹۶)
اس آیت کا ترجمہ لوگوں نے عام طور سے یوں کیا ہے:
’’تو جو کوئی حج تک عمرہ سے فائدہ اٹھائے تو وہ قربانی پیش کرے جو میسر آئے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
عام طور سے مترجمین اور مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ، اور پھر تکلف سے بھرپور تاویلوں پر مجبور ہوئے، کیونکہ حج تک عمرہ سے فائدہ اٹھانے کا مطلب واضح نہیں ہوپاتا۔ کیونکہ جب ایک شخص عمرہ کرکے احرام کی پابندیوں سے حج تک کے لیے آزاد ہوگیا، تو اس میں حج تک عمرہ سے فائدہ اٹھانے کا کیا مطلب ہوا؟
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے آیت کا ترجمہ اس طرح تجویز کیا ہے :
’’تو جو کوئی حج کے ساتھ ساتھ پہلے عمرہ سے فائدہ اٹھائے تو وہ قربانی پیش کرے جو میسر آئے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
حج کے ساتھ عمرہ سے فائدہ اٹھانے کا مطلب بہت واضح ہے کہ جو ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کرلے۔ اس مفہوم کو اختیار کرنے سے سارے اشکالات اور تکلفات ازخود دور ہوجاتے ہیں، اور مطلب یہ ہوا کہ اس نے ایک ہی سفر میں عمرہ کا بھی فائدہ حاصل کیا اور ساتھ ہی حج کا بھی فائدہ حاصل کرلیا۔
مخصوص مقامات پر الی، مع کے معنی میں آتا ہے، اس پر نحو قرآنی کے امام فراء نے بہت اچھی گفتگو کی ہے ،وہ کہتے ہیں:
وانما یجوز ان تجعل (الی) موضع (مع) اذا ضممت الشیء الی الشیء مما لم یکن معہ؛کقول العرب: ان الذود الی الذود ابل، أی اذا ضممت الذود الی الذود صارت ابلا. فاذا کان الشیء مع الشیء لم تصلح مکان مع الی، ألا تری أنک تقول: قدم فلان ومعہ مال کثیر، ولا تقول فی ھذا الموضع: قدِم فلان والیہ مال کثیر. (معانی القرآن للفراء:۱/۲۱۸)
الی بمعنی مع کی کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں:
(۱) وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَہُمْ إِلَی أَمْوَالِکُمْ۔ (النساء :۲)
’’اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ‘‘۔ (سید مودودی)
(۲) وَأَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْساً إِلَی رِجْسِہِمْ وَمَاتُواْ وَہُمْ کَافِرُون۔ (التوبۃ : ۱۲۵)
’’اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی‘‘۔(محمد جونا گڑھی)
(۳) وَیَزِدْکُمْ قُوَّۃً إِلَی قُوَّتِکُم۔ (ھود : ۵۲)
’’اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا‘‘۔(سید مودودی)
(۴) قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ إِلَی نِعَاجِہ۔ (ص :۲۴)
’’آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ظلم ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
(۴۹) إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا۔ (البقرۃ:۱۵۸)
اس آیت کا ترجمہ عموماً یوں کیا گیا ہے:
’’یقیناًصفا اور مروہ ، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ اِن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے‘‘۔(سید مودودی)
’’صفااور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناہ نہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی حرف باء کو معیت کا مان کر اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’یقیناًصفا اور مروہ ، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس پر کوئی حرج نہیں کہ (بیت اللہ ) کا طواف ان دونوں (صفا ومروہ) کے ساتھ کرے‘‘۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ طواف کا لفظ خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانے کے لئے تو آتا ہے، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کے لئے نہیں آتا، مزید یہ کہ حرف باء دو چیزوں کے درمیان کے معنی میں نہیں آتا ہے۔ اس ترجمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کوئی علیحدہ اور مستقل عمل نہیں ہے بلکہ خانہ کعبہ کے طواف سے ملحق عمل ہے۔یعنی یا تو صرف خانہ کعبہ کا طواف ہوگا، جو عام حالات میں ہوتا ہے، اور یا پھر حج اور عمرہ کے ذیل میں خانہ کعبہ کا طواف صفا اور مروہ کی سعی کے ساتھ ہوگا۔
(۵۰) دُعِیَ اللہ کا ترجمہ
دعا کا مطلب بلانا اور پکارنا ہوتا ہے، جس کو بلایا جائے وہ مفعول بہ یا نائب فاعل بنتا ہے، اگر کسی کی طرف بلایا جانا مقصود ہو تو جس کی طرف بلایا جانا ہے اس پر الی کا صلہ لگتا ہے، اس کی مثالیں قرآن مجید میں خوب ہیں، جیسے:
وَإِذَا دُعُوا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ لِیَحْکُمَ بَیْْنَہُمْ إِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُم مُّعْرِضُون۔ (النور:۴۸)
’’جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف، تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے‘‘۔(سید مودودی)
یہاں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جانے کی بات ہے اس لئے الی کا استعمال کیا گیا ہے۔
وَلَکِنْ إِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوا۔ (الاحزاب:۵۳)
’’ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو‘‘۔(احمد رضا خان)
یہاں مخاطب کو بلائے جانے کی بات ہے اس لئے مخاطب کی ضمیر بغیر الی کے مذکور ہے۔
مذکورہ ذیل آیت میں دعی کے بعد اللہ کا لفظ بغیر الی کے آیا ہے، اس کے باوجود بعض مترجمین نے اللہ کو پکارنے کے بجائے اللہ کی طرف بلانے کا ترجمہ کیا، جو زبان کے قواعد کے خلاف ہے۔
ذَلِکُم بِأَنَّہُ إِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِن یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا فَالْحُکْمُ لِلَّہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ۔ (غافر:۱۲)
’’یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اِس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اُس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’یہ انجام تمہارے سامنے اس وجہ سے آیا کہ جب اللہ واحد کی دعوت دی جاتی تو تم اس کا انکار کرتے اور اگر اس کے شریک ٹھہرائے جاتے تو تم مانتے۔ تو اب فیصلہ خدائے بلند وعظیم ہی کے اختیار میں ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
یہ دونوں ترجمے درست نہیں ہیں، دراصل آیت میں نہ اللہ کی طرف بلایا جانا مراد ہے اور نہ اللہ کی دعوت دینا، کیونکہ دونوں صورتوں میں الی کا صلہ آنا ضروری تھا، دراصل آیت میں تو تنہا اللہ کو پکارنا مراد ہے۔ اور پکارنے سے بھی دراصل عبادت کرنا مراد ہے۔
اکثر مترجمین نے آیت کا درست ترجمہ کیا ہے جیسے:
’’یہ اس پر ہوا کہ جب ایک اللہ پکارا جاتا تو تم کفر کرتے اور ان کا شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے تو حکم اللہ کے لیے ہے جو سب سے بلند بڑا‘‘۔(احمد رضا خان)
آیت کے دوسرے حصے وَإِن یُشْرَکْ بِہِ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ پہلے حصے میں تنہا اللہ کی عبادت کی بات کی جارہی ہے نہ کہ اللہ کی طرف دعوت دینے کی بات۔
اس آیت کے مضمون سے ملتا جلتا مضمون سورہ زمر کی مذکورہ ذیل آیت میں بیان ہوا ہے:
وَإِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ وَإِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِن دُونِہِ إِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ۔ (الزمر:۴۵)
’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں، اور جب اُس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)