(۹۱) ’’وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ‘‘ کا ترجمہ
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَسْجُدُ لَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ۔ (الحج: ۱۸)
اس آیت کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو عام طور سے مترجمین نے کیا ہے، بطور مثال ذیل میں ایک ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
’’تو نے نہ دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے، اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت آدمی۔ اور بہت ہیں کہ ان پر ٹھہر چکا ہے عذاب‘‘۔ (شاہ عبد القادر)
اس ترجمہ کی رو سے پہلا جملہ وکثیر من الناس، پر جاکر مکمل ہوگیا ہے، او ر اس کے بعد وکثیر حق علیہ العذاب ایک مستقل جملہ ہے۔ اس ترجمہ میں کوئی اشکال نہیں ہے اور بات بہت واضح ہے، کہ کائنات میں تمام چیزیں اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں، بہت سے انسان بھی سجدہ ریز ہیں، اور جو بہت سے نہیں ہیں ان کے سلسلے میں عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
دوسرا ترجمہ ہمیں تفہیم القرآن میں ملتا ہے:
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اورجو زمین میں ہیں، سورج، چاند، اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں؟‘‘ (سید مودودی)
اس ترجمہ کی رو سے وکثیر حق علیہ العذاب مکمل جملہ نہیں بلکہ موصوف صفت ہے، اور کثیر من الناس پر معطوف ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جن انسانوں کے بارے میں عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے وہ بھی خدا کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر انسان خواہ مومن ہو یا کافر، اس طور سے سجدہ ریز ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے بہت سارے اعضاء حکم الٰہی کے پابند ہوتے ہیں۔
اس ترجمہ کی گنجائش عربی قواعد کے لحاظ سے نکل سکتی ہے، لیکن کئی وجوہ سے یہ ترجمہ نامناسب ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کافروں کے لیے اللہ کی طرف سجدہ کرنے کی نسبت کہیں نہیں کی گئی ہے۔ غیر انسانی مخلوقات کے سجدہ کی نوعیت کیا ہوتی ہے، اس سے قطع نظر ایک انسان سجدہ سے متصف اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ وہ حقیقت میں اللہ کے لیے سجدہ کرتا ہو، وہ سجدہ جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے، اگر کسی انسان کا دل ودماغ اور اس کی پیشانی غیر اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہوں تو خود وہ انسان اللہ کے لیے سجدہ کرنے والا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ جب انسانوں کی دو تقسیم کردی گئی تو اس سے خود یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک گروہ سجدہ نہیں کرنے والوں کا ہے۔ ورنہ ایسی تقسیم کی ضرورت نہیں تھی۔ کثیر من الناس کہہ دینے کا صاف مطلب ہے، کہ باقی سجدہ نہیں کرتے ہیں، ورنہ اگر سب سجدہ کرتے ہیں، تو صرف الناس کہہ دیا جاتا۔
(۹۲) ’’وَلْیُوفُوا نُذُورَہُمْ‘‘ کا مطلب
سورہ حج کی مذکورہ ذیل آیت کے دو ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَأَذِّن فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ۔ ثُمَّ لْیَقْضُوا تَفَثَہُمْ وَلْیُوفُوا نُذُورَہُمْ وَلْیَطَّوَّفُوا بِالْبَیْْتِ الْعَتِیْقِ۔ (الحج: ۲۷۔۲۹)
’’اور لوگوں میں حج کی منادی کردو وہ تمہارے پاس آئیں گے، پیادہ بھی اور نہایت لاغر اونٹنیوں پر بھی جوپہنچیں گی دوردراز گہرے پہاڑی رستوں سے تاکہ لوگ اپنی منفعت کی جگہوں پر بھی پہنچیں اور خاص دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ پس اس میں سے کھاؤ اور فاقہ کش فقیروں کو کھلاؤ۔ پھر وہ اپنے میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت قدیم کا طواف کریں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذن عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں، جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘۔ (سید مودودی)
ان آیتوں کے ترجمے کے سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات حسب ذیل ہیں:
ضامر کا ترجمہ لاغر اونٹنی کیا جاتا ہے، صحیح ترجمہ ہوگا سدھائی ہوئی اونٹنی، جس کو سدھانے سے پیٹ اندر چلا جاتا ہے، یہ اونٹنیاں دور دراز کے سفر میں کام آتی ہیں۔
من کل فج عمیق کا ترجمہ دور دراز مقام اور دور دور دراز راستوں کیا جاتا ہے، فج عمیق سے مراد مکہ میں داخل ہونے والے راستے ہیں جو کہ آنے والوں کی کثرت سے گہرے ہوگئے، من کل فج عمیق کا ترجمہ ہوگا ہر گہرے راستے سے گزر کر۔
لیشھدوا منافع لھم کا ترجمہ ہوگا فائدے دیکھنا یا فائدوں کی جگہ پر پہونچنا نہیں ہوگا بلکہ یہ کہ وہ شریک ہوں ان فائدوں میں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔
بہیمۃ الانعام کا ترجمہ جانوروں نہیں بلکہ چوپایوں کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا امور کے علاوہ ان آیتوں کے ترجمہ میں بہت اہم بحث یہ ہے کہ ولیوفوا نذورھم کا کا ترجمہ کیا ہو؟
عام طور سے لوگوں نے ترجمہ کیا ہے:’’ اور اپنی نذریں پوری کریں‘‘۔
اس میں کئی اشکال ہیں، ایک تو یہ کہ نذر پوری کرنے کے لیے أوفی کے ساتھ باء کا صلہ آتا ہے، جیسے یوفون بالنذر۔ جبکہ یہاں باء کے بغیر استعمال ہوا ہے۔
دوسرا اشکال یہ ہے کہ نذر پوری کرنے کا مناسک حج، ایام حج اور مکہ مکرمہ سے کیا تعلق ہے؟
تیسرا اشکال یہ کہ نذریں پوری کرنے کا نمبر سارے کاموں کے بعد کیوں؟
مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے کے مطابق یہاں ترجمہ ہوگا: حج کے مناسک کو مکمل سمجھ کر اپنے پرہیز ختم کریں، یا احرام کے لوازم سے باہر نکل آئیں۔ أوفی بنذرہ کا مطلب ہوگا جو کام اس پر واجب تھا اس کو انجام دیا، اور أوفی نذرہ کا مطلب ہوگا، اپنے پرہیز کو مکمل کرکے اس سے باہر آگیا۔
مقامات حریری کی ذیل کی عبارت میں غالباً اسی بات کی طرف اشارہ ہے:
حکی الحارثُ بنُ ھَمّامٍ قال: نھضتُ من مدینۃِ السّلام. لحِجّۃِ الاسلامِ. فلمّا قضیتُْ بعَونِ اللہِ التّفَثَ. واستبَحتُ الطّیبَ والرَّفَثَ. (مقامات الحریری، ص:۱۳۲)
(۹۳) ترجمہ میں تقدیم وتاخیر کی غلطی
وَمَن یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخَافُ ظُلْماً وَلَا ہَضْما۔ (طہ:۱۱۲)
’’اور جو نیک اعمال کرے گا اور وہ مومن بھی ہے، تو اس کو نہ کسی حق تلفی کا اندیشہ ہوگا اور نہ کسی زیادتی کا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمہ میں نص کی مطابقت میں بھی اور ترتیب کے عام اصول کے لحاظ سے بھی ’’زیادتی‘‘ پہلے ہونا چاہیے اور ’’حق تلفی‘‘ بعد میں، کیونکہ ظلم جو پہلے آیا ہے اس کا مطلب زیادتی اور ہضم جو بعد میں آیا ہے اس کا مطلب حق تلفی ہے۔
ذیل کا ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
’’اور جو کچھ نیک کام کرے اور ہو مسلمان تو اسے نہ زیادتی کا خوف ہوگا نہ نقصان کا‘‘۔ (احمد رضا خان)
(۹۴) موصوف کی تعیین میں غلطی
فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَکْمَامِ۔ (الرحمن:۱۱)
’’اس میں میوے اور کھجور ہیں، جن پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمہ میں غلطی یہ ہے کہ ذات الاکمام کو فاکھۃ اور النخل دونوں کی صفت بنادیا گیا ہے، حالانکہ وہ صرف النخل کی صفت ہے، تمام پھل اور میوے تو خوشے والے نہیں ہوتے ہیں۔ اس پہلو سے ذیل کا ترجمہ درست ہے۔
اس میں ہر طرح کے بکثرت لذیذ پھل ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ (سید مودودی)
بعض لوگ ذات الاکمام کا ترجمہ خوشے والے کرتے ہیں، اور بعض لوگ غلاف والے، ذیل میں دونوں کی مثالیں ہیں:
’’بیچ اس کے میوہ ہے، اور کھجوریں خوشوں والے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’اس میں میوہ ہے اور کھجوریں جن کے میوے پر غلاف‘‘ (شاہ عبدالقادر)
راغب اصفہانی لکھتا ہے: والکِمُّ: مایغطّی الثّمرۃَ، وجمعہ: الاکمَام. (المفردات فی غرائب القرآن،ص:۷۲۶)
جوہری لکھتا ہے: والکِمُّ والکِمَّۃُ بالکسر والکِمامَۃُ: وعاءُ الطلع وغطاء النَوْرِ، والجمع کِمامٌ وأکِمَّۃٌ وأکمام۔ (الصحاح)
(۹۵) معطوف کی تعیین میں غلطی
وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّیْْحَان۔ (الرحمن:۱۲)
’’طرح طرح کے غلے ہیں، جن میں بھوسا بھی ہوتا ہے، اور دانہ بھی‘‘۔ (سید مودودی)
اس ترجمہ میں غلطی یہ ہے کہ الریحان کو العصف پر معطوف مان لیا گیا ہے، حالانکہ الریحان مرفوع ہے، اگر الریحان مجرور ہوتا تو یہ ترجمہ درست ہوتا، اس کے علاوہ ریحان کے ترجمہ کے لیے دانہ کا استعمال بھی محل نظر ہے۔ اس پہلو سے ذیل کے ترجمے درست ہیں:
’’اور بھس والے اناج بھی ہیں، اور خوشبودار پھول بھی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور (اس میں) غلہ ہے جن میں بھوسا (بھی) ہوتا ہے اور (اس میں) غذا کی چیز (بھی) ہے۔‘‘ (اشرف علی تھانوی)
(۹۶) أمثال کا ترجمہ
أمثال جمع ہے مِثْل اور مَثَل کی، اول الذکر کا مطلب ہے ’’جیسا‘‘ اور ثانی الذکر کا مطلب ہے تمثیل۔
مثال کی جمع أمثال نہیں ہوتی بلکہ أمثلۃ ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں أمثال کا لفظ کئی جگہ آیا ہے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ مثالیں کیا ہے، جو درست نہیں ہے، صحیح ترجمہ امثال یا تمثیلیں یا کہاوتیں ہوگا۔
(۱) وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ۔ (العنکبوت:۴۳)
’’ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرمارہے ہیں انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
یہ ترجمہ لفظ کے اعتبار سے بھی اور سیاق کے پیش نظر بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اوپر کسی مثال کا نہیں بلکہ تمثیل کا ذکر ہے۔ اس پہلو سے ذیل کے ترجمے درست ہیں:
’’اور یہ تمثیلیں ہیں جن کو ہم لوگوں کے غوروفکر کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں، لیکن ان کو صرف اہل علم ہی سمجھتے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور یہ کہاوتیں بٹھاتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو بوجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ ہے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۲) لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ۔ (الحشر:۲۱)
’’اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر تو تو دیکھتا وہ دب جاتا پھٹ جاتا اللہ کے ڈر سے اور یہ کہاوتیں ہم سناتے ہیں لوگوں کو شاید وہ دھیان کریں‘‘۔(شاہ عبد القادر)
’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے، یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں، کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں‘‘۔ (سید مودودی، اس ترجمہ میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ امثال کا ترجمہ مثالیں کیا گیا ہے، جبکہ تمثیلیں ہونا چاہیے۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ ترجمے میں ’’اپنی حالت پر‘‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے، اور بے محل بھی ہے، کیونکہ آیت میں تمثیل ذکر کرکے اس پر غور کرنے کی دعوت ہے، نہ کہ اپنی حالت پر غور کرنے کی۔)
’’اگر اس قرآن کو ہم کسی پہاڑ پر اتارتے تو تم دیکھتے کہ وہ خشیت الٰہی سے پس اور پاش پاش ہوجاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ امثال کا ترجمہ مثالیں کیا گیا ہے، مزید یہ کہ متصدعا کا ترجمہ پاش پاش ہوجاتا درست نہیں ہے، پھٹا جاتا درست ترجمہ ہے)
سعدی شیرازی کا ترجمہ ہے:’’ شگافتہ از ترس خدا‘‘۔ جبکہ شاہ ولی اللہ کا ترجمہ ہے’’ پارہ پارہ شدہ از خوف خدا‘‘۔
تصدع کا عربی میں قریب ترین متبادل تشقق ہے۔ راغب اصفہانی نے تصدع کی بہت اچھی وضاحت کی ہے۔
الصَّدْعُ: الشّقّ فی الْجسام الصّلبۃکالزّجاج والحدید ونحوھما. قال: صَدَعْتُہ فَانْصَدَعَ، وصَدَّعْتُہُ فَتَصَدَّعَ، قال تعالی: یَوْمَئِذٍ یَصَّدَّعُونَ. (الروم: ۴۳)، وعنہ استعیر: صَدَعَ الأمرَ، أی: فَصَلَہُ، قال: فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ. (الحجر:۹۴)، وکذا استعیر منہ الصُّدَاعُ، وھو شبہ الاشتقاق فی الرّأس من الوجع. قال: لا یصَدَّعُونَ عَنھا وَلایُنْزِفُونَ. (الواقعۃ:۱۹)، ومنہ الصَّدِیعُ للفجر، وصَدَعتُ الفلاۃ: قطعتھا، وتَصَدَّعَ القومُ أی: تفرّقوا. (المفردات فی غریب القرآن)
(جاری)