اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۴)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(423) وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں بعض لوگوں نے وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ گویا وہ اسے حال مان رہے ہوں۔ ایسی صورت میں یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جن پر اللہ صواعق بھیجتا ہے وہ اللہ کے بارے میں جدال میں مصروف ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ بجلیاں تو کسی پر بھی کسی بھی حالت میں گرسکتی ہیں۔ صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لیے وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کو حال نہیں بلکہ نیا جملہ ماننا ہوگا۔ یعنی اللہ تعالی نے اپنی قدرت کے کرشموں کا ذکر کرنے کے بعد یہ بات کہی کہ ایک طرف اللہ کی قدرت کے یہ زبردست مظاہر ہیں اور دوسری طرف یہ اللہ کے بارے میں جدال کررہے ہیں۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِیفَتِہِ وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیبُ بِہَا مَنْ یَشَاءُ وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ وَہُوَ شَدِیدُ الْمِحَالِ۔ (الرعد: 13)

”بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں، فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے“۔ (سید مودودی)

”اور وہ خدا کے باب میں جھگڑتے ہی ہوتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور وہ اللہ میں جھگڑتے ہوتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کو حال مان کر ترجمہ کیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”اور وہ خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کفار اللہ کی بابت لڑ جھگڑ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یہ لوگ جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور یہ لوگ اللہ کے باب میں جھگڑتے ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

ایک اور بات قابلِ توجہ ہے۔ اس آیت میں سبھی لوگوں نے یجادلون کا ترجمہ جھگڑا کرنا کیا ہے، جدال کا اصل معنی جھگڑا کرنا نہیں بلکہ بحث کرنا ہے۔ یہاں بھی بحث کرنے کا محل ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”اور وہ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں“۔

(424) فَلَا مَرَدَّ لَہُ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں فَلَا مَرَدَّ لَہُ  کا ایک ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ”کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی“ یا ”کوئی ٹال نہیں سکتا ہے“۔ جب کہ الفاظ میں کسی کے ٹالنے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ صرف اس کے نہیں ٹلنے کا ذکر ہے۔ دونوں باتوں میں بہرحال فرق ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ درج ذیل آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ جب ایسا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ پھر ہوکر رہتا ہے۔

وَإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِقَوْمٍ سُوءً ا فَلَا مَرَدَّ لَہُ۔ (الرعد: 11)

”اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کرلیتا ہے تو کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی“۔ (سید مودودی)

”اور جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”اور جب کسی قوم سے برائی چاہے تو وہ پھر نہیں سکتی“۔ (احمد رضا خان)

”اور جب خدا کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو پھر وہ پھر نہیں سکتی“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری دونوں ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں۔

(425) یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ کا ترجمہ عام طور سے یہ کیا گیا ہے: ”اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔“ حالاں کہ اس جملے میں مثال کا ذکر ہی نہیں ہے۔ مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں:  

أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ. (الرعد: 17)

”اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئے اور ویسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے“۔ (سید مودودی)

”اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے“۔(فتح محمد جالندھری)

”اللہ تعالی حق (یعنی ایمان وغیرہ) اور باطل (یعنی کفر وغیرہ) کی اسی طرح کی مثال بیان کررہا ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اللہ بتاتا ہے کہ حق و باطل کی یہی مثال ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اسی طرح اللہ تعالیٰ حق وباطل کی مثال بیان فرماتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

جب ہم آیت پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جملے سے پہلے اللہ نے کوئی مثال بیان نہیں کی ہے بلکہ اس امر کا مشاہدہ کرایا ہے کہ جھاگ کہاں کہاں نمودار ہوتا ہے، اس کے بعد حق اور باطل کو ٹکرانے کا ذکر کیا ہے، اور اس کے بعد جھاگ کے اڑ جانے کی مثال سے باطل کی بے بضاعتی کو واضح کیا ہے۔ جس کے بعد کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ کہا ہے۔ گویا مثال بعد میں ہے نہ کہ پہلے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ میں مثال کے مفہوم پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ نہیں ہے۔ اس لیے کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ کا درج ذیل ترجمہ صحیح ہے:  

”اسی طرح اللہ حق اور باطل کو ٹکراتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(426) سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْرًا کا ترجمہ

یہ تعبیر سورہ یوسف میں دو جگہ آئی ہے۔ اس لفظ کی لغوی توضیح اور زیر نظر آیت کے متعلقہ جملے کی تشریح لسان العرب میں عمدہ طریقے سے بیان کی گئی ہے:

التَّسْوِیل: تَحْسِینُ الشَّیْءِ وتزیینُہ وتَحْبِیبُہ إِلی الإِنسان لِیَفْعَلَہُ أَو یَقُولَہُ. وَفِی التَّنْزِیلِ الْعَزِیزِ: بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْراً فَصَبْرٌ جَمِیلٌ؛ ہَذَا قَوْلُ یَعْقُوبَ، عَلَیْہِ السَّلَامُ، لِوَلَدِہِ حِینَ أَخبروہ بأَکل الذِّءْبِ یوسفَ فَقَالَ لَہُمْ: مَا أَکَلَہُ الذءْب بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفسکم فِی شأْنہ أَمراً أَی زَیَّنَتْ لَکُمْ أَنفسکم أَمراً غَیْرَ مَا تَصِفُون، وکأَنَّ التَّسْوِیلَ تَفْعِیلٌ مِنْ سُوِلَ الإِنسان، وَہُوَ أُمْنِیَّتہ أَن یَتَمَنَّاہا فتُزَیِّن لِطَالِبِہَا الباطلَ وغیرَہ مِنْ غُرور الدُّنْیَا۔ (لسان العرب)

یعنی تسویل کہتے ہیں کسی کام کو اچھا بنا کر پیش کرنا اور اسے کرنے پر آمادہ کرنا۔

درج ذیل دونوں آیتوں میں تسویل سے مراد کیا وہ بات ہے جو اپنے والد کے سامنے انھوں نے بیان کی، جس کے بارے میں والد نے کہا کہ یہ تمہاری گھڑی ہوئی یا بنائی ہوئی بات ہے؟

یا تسویل سے مراد وہ پورا حیلہ ہے جو ان کے والد کے اندازے کے مطابق ان کے نفس نے انھیں سجھایا اور جس حیلے کو استعمال کرکے ان کے والد کے اندازے کے مطابق انھوں نے پہلے یوسف اور بعد میں ان کے بھائی کو غائب کردیا۔

لفظ تسویل کی رو سے دوسرا مفہوم صحیح معلوم ہوتا ہے، لیکن مترجمین نے عام طور سے پہلا مفہوم اختیار کیا ہے۔ جیسے:

(۱) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْرًا۔ (یوسف: 18)

”اس نے کہا کہ (نہیں!) بلکہ یہ تو تمہارے جی کی ایک گھڑی ہوئی بات ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بلکہ تم اپنے دل سے (یہ) بات بنا لائے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”بلکہ تم نے اپنے دل ہی سے ایک بات بنا لی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی حسب ذیل ترجمہ کرتے ہیں:

”بلکہ تمہارے نفس نے تم کو کوئی چال سجھائی ہے“۔

(۲) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْرًا۔ (یوسف: 83)

”اس نے کہا: بلکہ تمہارے دل نے یہ بات گھڑ لی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”انہوں نے کہا کہ (حقیقت یوں نہیں ہے) بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے بنالی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کہا یہ تو نہیں، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنالی“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی دونوں جگہ حسب ذیل ترجمہ کرتے ہیں:

”بلکہ تمہارے نفس نے تم کو کوئی چال سجھائی ہے“۔

اس ترجمے کے حق میں ایک بات تو یہ ہے کہ أَمْرًا  نکرہ آیا ہے، اس لیے اس سے مراد وہ بات ہوگی جو سامنے نہیں ہے۔ وہ بات ان کی خفیہ چال ہوسکتی ہے نہ کہ ان کی وہ بات جو انھوں نے سامنے پیش کردی تھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس واقعہ میں ان بھائیوں کا باتیں بنانا زیادہ اہم نہیں تھا، زیادہ اہم تو ان کی وہ چال تھی جو ان کے نفس نے انھیں سجھائی ہے، جسے چھپانے کے لیے وہ باتیں بنارہے تھے۔

(427) وَأَسَرُّوہُ بِضَاعَةً کا ترجمہ

درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَأَسَرُّوہُ بِضَاعَةً۔ (یوسف: 19)

”اور انھوں نے اس کو ایک پونجی سمجھ کر محفوظ کرلیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا“۔ (سید مودودی)

”اور اسے ایک پونجی بناکر چھپالیا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا لیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور چھپالیا اس کو پونجی سمجھ کر“۔ (شاہ عبدالقادر)

”انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپا دیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

ان ترجموں کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ قافلے والوں نے یوسف کو پونجی سمجھا نہیں، بلکہ پونجی بنالیا تھا۔ وہاں سمجھنے کا معاملہ ہی نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انھوں نے یوسف کو نہیں چھپایا بلکہ اس بات کو چھپایا کہ وہ ان کی پونجی نہیں تھے بلکہ کنویں میں ملے تھے۔

ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”انھوں نے خاموشی سے اسے پونجی (مال تجارت) بنالیا“۔

(428) وَکَانُوا فِیہِ مِنَ الزَّاہِدِینَ کا ترجمہ

درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَکَانُوا فِیہِ مِنَ الزَّاہِدِینَ۔ (یوسف: 20)

”اور وہ اس کے معاملے میں بالکل بے پروا تھے“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں بے پروا ہونے کی بات نہیں ہے، بے رغبت ہونے کی بات ہے)

”اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے“۔ (سید مودودی، کم یا زیادہ قیمت کی بات نہیں ہے، بات یہ ہے کہ وہ یوسف کو اپنے ساتھ رکھنے کی رغبت نہیں رکھتے تھے)

”اور ہورہے تھے اس سے بے زار“۔ (شاہ عبدالقادر، یہاں بیزار ہونے کی نہ کوئی بات ہے نہ اس کی کوئی وجہ ہے۔ رغبت نہ ہونا ایک بات ہے اور بے زار ہونا دوسری بات ہے۔)

”اور وہ لوگ ان کے کچھ قدر دان تو تھے ہی نہیں“۔ (اشرف علی تھانوی، یہاں قدر دانی کی بات نہیں ہے، قدر دانی سے قطع نظر انھیں حضرت یوسف کو اپنے پاس رکھنے میں کوئی رغبت نہیں تھی)

درج ذیل ترجمے الفاظ کی بہتر ترجمانی کررہے ہیں:

 ”اور انہیں اس میں کچھ رغبت نہ تھی“۔ (احمد رضا خان)

”اور انھیں اس کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہ تھی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(429) آتَیْنَاہُ حُکْمًا کا ترجمہ

درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّہُ آتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْمًا۔ (یوسف: 22)

”اور جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا ہم نے اس کو حکومت اور علم عطا کیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم بخشا“۔(فتح محمد جالندھری)

”اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا“۔ (اشرف علی تھانوی)

 حکم حکومت واقتدار کے لیے بھی آتا ہے اور حکمت و دانائی کے لیے بھی۔ زیر نظرمقام پر وہ حکمت و دانائی کے لیے آیا ہے، کیوں کہ اس وقت تک انھیں اقتدار حاصل نہیں ہوا تھا۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے حضرت یحییٰ کے بارے میں فرمایا: یَایَحْیَی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا۔ (مریم: 12)

اس پہلو سے آخری دونوں ترجمے بہتر ہیں۔

(430) وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ کا بظاہر عطف یخل پر ہے، یعنی وہ جواب امر ہے۔ گویا ایک طرح سے نتیجے کا بیان ہے۔ وہ یہ کہ یوسف کو راستے سے ہٹادو گے تو یہ دو فائدے تمھیں حاصل ہوں گے، ایک تو والد کی پوری توجہ تمھیں ملے گی اور دوسرے تم ان کی نظر میں نیک ہوجاؤ گے، ابھی تو یوسف ان کی نگاہ میں نیک ہے۔ بعض لوگوں نے وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ کا ترجمہ امر کا کیا ہے، یعنی یہ کرنے کے بعد تم نیک بن جانا۔ آیت کی ترکیبی ہیئت میں اس مفہوم کے لیے زیادہ گنجائش نہیں نکلتی ہے۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

اقْتُلُوا یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوہُ أَرْضًا یَخْلُ لَکُمْ وَجْہُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ۔ (یوسف: 9)

”چلو یوسفؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا“۔ (سید مودودی)

”اور ہو رہیو اس کے پیچھے نیک لوگ“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اس کے بعد پھر نیک ہوجانا“۔ (احمد رضا خان)

”اس کے بعد تم نیک ہو جانا“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج ذیل ترجمے زیادہ بہتر ہیں:

”اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تمہارے سب کام بن جاویں گے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور اس کے بعد تم بالکل ٹھیک ہوجاؤ گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(ستمبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter