(511) لَا یَتَنَاہَوْنَ کا ترجمہ
لغت کے لحاظ سے ’تناھی عن‘ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک کسی کام سے باز آنا اور دوسرا کسی کام سے ایک دوسرے کو منع کرنا۔ درج ذیل آیت میں دونوں طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ لیکن موخر الذکر معنی زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس لفظ کا زیادہ استعمال ایک دوسرے کو منع کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تناھی اور انتھی دو الفاظ ہیں، جن میں سے تناھی زیادہ تر ایک دوسرے کو منع کرنے کے لیے اور انتھی باز آنے کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں باز آنے کے لیے انتھی کثرت کے ساتھ آیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں تناھی کا مطلب اگر باز آنا لیتے ہیں تو کسی خاص مفہوم کا اضافہ نہیں ہوتا ہے لیکن اگر ایک دوسرے کو منع کرنا مراد لیتے ہیں تو ان کی مزید ایک بڑی برائی کا علم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ برائیوں کے ارتکاب کے علاوہ ان کے اندر سے نھی عن المنکر کی صفت بھی معدوم ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے برائیوں کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا تھا۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
کَانُوا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ فَعَلُوہُ۔ (المائدۃ: 79)
’’جو برا کام انھوں نے کررکھا تھا اس سے باز نہ آتے تھے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’جس برائی کو اختیار کرلیتے اس سے باز نہ آتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے بہتر ہیں:
’’آپس میں منع نہ کرتے برے کام سے جو کررہے تھے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اُنہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا‘‘۔ (سید مودودی)
’’(اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(512) مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ترجمہ کیا گیا ہے: ’’جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَإذْ قَالَ اللّہُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ أأنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاُمِّیَ إلَہَیْنِ مِنْ دُونِ اللّہِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی أنْ أقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ۔ (المائدۃ: 116)
’’اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ ’’اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنالو؟‘‘ تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا‘‘۔ (سید مودودی)
مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ’’جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’جو میرے لیے درست نہیں ہے‘‘۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جو میرے لیے ہرگز درست نہیں ہے‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ وہ بات میں کیسے کہہ سکتا ہوں جو میرے لیے کسی بھی طرح درست ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ ایک بندے کے لیے یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ وہ خود کو معبود کہے۔ گویا یہ تو بعد کی بات ہے کہ یہ کہنے کا حق تھا یا نہیں، اس سے پہلے تو یہ بات کسی طرح درست ہی نہیں تھی کہ اسے کہنے کا سوال پیدا ہوتا۔
(513) تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا
درج ذیل آیت میں لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا بیان ہے لَنَا کا، نہ کہ لَنَا پر معطوف ہے۔ اگر معطوف ہوتا تو لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا سے پہلے واو ہوتا۔
قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللَّہُمَّ رَبَّنَا أنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَۃً مِنَ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِنْکَ۔(المائدۃ: 114)
’’عیسیٰ بن مریم(ع) نے (دعا کرتے ہوئے) کہا اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے قدرتی نشانی بن جائے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو‘‘۔ (سید مودودی)
درج بالا دونوں ترجموں میں غلطی سے عطف کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمہ (اور کی بجائے یعنی) درست ہے:
’’(تب) عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(514) لَا أُعَذِّبُہُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں لَا اُعَذِّبُہُ آیا ہے، جو حال یا مستقبل کے لیے ہے۔ اگر لَمْ اُعَذِّبْہُ ہوتا تو ماضی کا مفہوم ہوتا۔ بعض مترجمین نے غلطی سے یہاں ماضی کا ترجمہ کردیا، ملاحظہ ہو:
قَالَ اللّہُ إنِّی مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإنِّی اُعَذِّبُہُ عَذَابًا لَا اُعَذِّبُہُ أحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ۔ (المائدۃ: 115)
’’اللہ نے جواب دیا میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی‘‘۔ (سید مودودی)
’’ جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہو گی‘‘۔ (احمد علی)
’’کہ عالمین میں کسی پر نہیں کیا ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’جیسی دنیا جہان میں کسی کو بھی نہیں دی ہوگی‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے کہ لَا اُعَذِّبُہُ کا ترجمہ مستقبل کا کیا ہے:
’’خدا نے فرمایا میں تم پر ضرور خوان نازل فرماؤں گا لیکن جو اس کے بعد تم میں سے کفر کرے گا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ اہل عالم میں کسی کو ایسا عذاب نہ دوں گا‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
(515) وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ
کفّ عن فلان سوءًا کا مطلب ہوتا ہے: فلاں شخص سے برائی کو دور کردیا، دفع کردیا۔ فیروزابادی لکھتے ہیں: وکفَفْتُہ عنہ: دَفَعْتُہ وصَرَفْتُہ (القاموس المحیط)
درج ذیل آیت میں اللہ تعالی حضرت عیسی سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: وَإذْ کَفَفْتُ بَنِی إسْرَائِیلَ عَنْکَ۔ الفاظ کی رو سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو یعنی ان کے شر کو حضرت عیسی سے دور رکھا، یا بنی اسرائیل کو حضرت عیسی پر قابو پانے سے دور رکھا۔
وَإذْ کَفَفْتُ بَنِی إسْرَائِیلَ عَنْکَ إذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْہُمْ إنْ ہَذَا إلَّا سِحْر مُبِین۔ (المائدۃ: 110)
’’اور یاد کرو جب کہ بنی اسرائیل کے شر کو میں نے تم سے دور رکھا جب کہ تم ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو ان کے کافروں نے کہا کہ یہ تو بس صریح جادو ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے میں الفاظ کی رعایت نہیں ہوسکی:
’’پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادو گری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا‘‘۔ (سید مودودی)
ایک تو یہ کہ کفّ کا مطلب بچانا نہیں بلکہ دفع کرنا اور دور رکھنا ہے۔
دوسرے یہ کہ إنْ ہَذَا إلَّا سِحْر مُبِین میں ہَذَا کا ترجمہ ’یہ نشانیاں‘ نہیں ہوگا بلکہ ’جو کچھ پیش کررہا ہے‘ وہ ہوگا۔ کیوں کہ ہَذَا ہے ہَذہ نہیں ہے۔
(516) أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں غَیْرِکُمْ کا ترجمہ غیر مسلم کرنا مناسب نہیں ہے۔ جب آدمی اپنے مقام پر ہوتا ہے تو اپنے جان پہچان کے لوگوں کو گواہ بناتا ہے، لیکن جب وہ سفر میں ہوتا ہے تو اجنبی لوگوں کو گواہ بنانے پر مجبور ہوتا ہے، وہ مسلم بھی ہوسکتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔
یَاأیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ إذَا حَضَرَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّۃِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ أوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ إنْ أنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْأرْضِ فَأصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃُ الْمَوْتِ۔ (المائدۃ: 106)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم (مسلمانوں) میں سے دو عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کرلو)‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
(517) الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْأَوْلَیَانِ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں الْأوْلَیَانِ کا مفہوم اور اعراب سمجھنے میں لوگوں کو کافی دشواری پیش آئی اور انھوں نے تکلف سے بھرپور تاویلات اختیار کیں۔
زمخشری لکھتے ہیں: والْأوْلَیانِ الأحقان بالشہادۃ لقرابتہما ومعرفتہما۔ وارتفاعہما علی: ہما الأولیان کأنہ قیل ومن ہما؟ فقیل: الأولیان۔ وقیل: ہما بدل من الضمیر فی یقومان، أو من آخران۔ ویجوز أن یرتفعا باستحق، أی من الذین استحق علیہم انتداب الأولیین منہم للشہادۃ لاطلاعہم علی حقیقۃ الحال۔ (الکشاف)
کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
فَإنْ عُثِرَ عَلَی أنَّہُمَا اسْتَحَقَّا إثْمًا فَآخَرَانِ یَقُومَانِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْأوْلَیَانِ۔ (المائدۃ: 107)
’’لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص جو ان کی بہ نسبت شہادت دینے کے لیے اہل تر ہوں ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’پھر اگر پتہ چلے کہ وہ کسی گناہ کے سزاوار ہوئے تو ان کی جگہ دو اور کھڑے ہوں ان میں سے کہ اس گناہ یعنی جھوٹی گواہی نے ان کا حق لے کر ان کو نقصان پہنچایا جو میت سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول کر) گناہ حاصل کیا ہے تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ اور دو گواہ کھڑے ہوں جو (میت سے) قرابت قریبہ رکھتے ہوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں وصی گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’پھر اگر خبر ہوجاوے کہ وہ دونوں حق دباگئے گناہ سے تو دو اور کھڑے ہوں ان کی جگہ جن کا حق دبا ہے ان میں سے جو بہت نزدیک ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
یہاں لوگوں نے الْأوْلَیَانِ کو آخَرَانِ کا بدل بنایا، یعنی دوسرے وہ دو کھڑے ہوں جو زیادہ قریب ہوں یا زیادہ اہل تر ہوں۔ حالاں کہ الْأوْلَیَانِ واضح طور سے اسْتَحَقَّ کا فاعل ہے۔ اگر اسے فاعل نہ بناکر کچھ اور بنائیں گے تو یہ سوال باقی رہے گا کہ اسْتَحَقَّ کا فاعل کون ہے اور اسْتَحَقَّ مثنی کے بجائے واحد کے صیغے میں کیوں ہے۔
دراصل اس آیت میں الْأوْلَیَانِ کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ دو افراد جو گواہ بننے کے لیے زیادہ اہل ہیں، مفسرین و مترجمین کا ذہن عام طور سے ادھر ہی گیا ہے۔ الْأوْلَیَانِ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دو افراد جو گواہی دینے کے لیے زیادہ اہل تر قرار دیے گئے۔ یعنی جنھوں نے دوسروں کی حق تلفی کرکے آگے بڑھ کر گواہی دی۔ اگر یہ دوسرا مطلب اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور اعراب کی پیچیدگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک ان کا مرتکب گناہ ہونا سامنے نہیں آیا تھا وہی گواہی دینے کے لیے اہل تر اور زیادہ حق دار تھے۔
الْأوْلَیَانِ کے موخر الذکر مطلب کے مطابق ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’پس اگر پتہ چلے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کی جگہ دوسرے دو ان میں سے کھڑے ہوں جن کی مقدم گواہوں نے حق تلفی کی ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی انھوں نے کی ہے جو شہادت کے زیادہ حق دار تھے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(518) انتقم کا ترجمہ
اردو میں انتقام کا لفظ بدلہ لینے کے معنی میں مشہور ہوگیا، اس کا اثر اردو میں ترجمہ کرنے والوں پر بھی محسوس ہوتا ہے۔ عربی زبان میں انتقم کا اصل مطلب ہوتا ہے سزا دینا۔ جب زیادتی کرنے والے کو اس کی زیادتی کی سزا دی جاتی ہے اور سزا دینے والا وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی تو خاص اس صورت میں بدلہ لینے کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے۔ ایک پہلو سے وہ سزا دینا ہوتا ہے اور دوسرے پہلو سے بدلہ لینا بھی ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی یہ لفظ اللہ کے لیے آیا ہے وہاں سزا دینا ہی درست ترجمہ ہے۔ اللہ کے لیے بدلہ لینے کی تعبیر نہ مناسب ہے اور نہ ہی حقیقت لفظ اور حقیقت حال کے مطابق ہے۔ اللہ کو کوئی گزند نہیں پہنچاسکتا کہ اللہ اس کا بدلہ لے۔ قرآن میں جہاں جہاں انتقم کے مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں وہاں مجرموں کو سزا دینے کا سیاق ہے۔
القاموس المحیط میں ہے: وانْتَقَمَ: عاقَبَہ۔
لسان العرب میں ہے: وانْتَقَمَ اللہُ مِنْہُ أیْ عاقَبَہ۔
اس تفصیل کے بموجب بہتر یہ ہے کہ انتقم کا ترجمہ سزا دینا کیا جائے۔ مختلف آیتوں کے کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:
(۱) إنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ۔ (السجدۃ: 22)
’’بیشک ہم مجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ہم گنہگاروں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’(یقین مانو) کہ ہم بھی گناہ گاروں سے انتقام لینے والے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درست ترجمہ ہوگا:
’’بیشک ہم مجرموں کو سزا دینے والے ہیں‘‘۔
(۲) فَإمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَإنَّا مِنْہُمْ مُنْتَقِمُونَ۔ (الزخرف: 41)
’’تو اگر ہم تمہیں لے جائیں تو ان سے ہم ضرور بدلہ لیں گے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اگر ہم تم کو (وفات دے کر) اٹھا لیں تو ان لوگوں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اب تو ہمیں اِن کو سزا دینی ہے خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں‘‘۔ (سید مودودی)
(۳) یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَی إنَّا مُنْتَقِمُونَ۔ (الدخان: 16)
’’جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے تو بیشک انتقام لے کر چھوڑیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جس دن ہم سب سے بڑی پکڑ پکڑیں گے بیشک ہم بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔(احمد رضا خان)
’’جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ اس دن ہم پورا بدلہ لے کر رہیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درست ترجمہ ہے:
’’جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ اس دن ہم سزا دے کر رہیں گے‘‘۔
(۴) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الاعراف: 136)
’’تب ہم نے اُن سے انتقام لیا‘‘۔(سید مودودی)
’’تو ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے ان کو کیفر کردار کو پہنچادیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۵) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الحجر: 79)
’’تو ہم نے ان سے بھی بدلہ لیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جن سے (آخر) ہم نے انتقام لے ہی لیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’تو ہم نے ان سے بھی انتقام لیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے انھیں سزا دی‘‘۔
(۶) فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِینَ أجْرَمُوا۔ (الروم: 47)
’’پھر ہم نے مجرموں سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ پھر ہم نے گناہ گاروں سے انتقام لیا‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے مجرموں کو سزا دی‘‘۔
(۷) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الزخرف: 25)
’’تو ہم نے ان سے انتقام لیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’تو ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’آخر کار ہم نے اُن کی خبر لے ڈالی‘‘۔ (سید مودودی)
(۸) فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الزخرف: 55)
’’پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر جب انہوں نے وہ کیا جس پر ہمارا غضب ان پر آیا ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’ہم نے انھیں سزا دی‘‘۔
(۹) وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّہُ مِنْہُ وَاللّہُ عَزِیز ذُو انْتِقَامٍ۔ (المائدۃ: 95)
’’لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور جو پھر (ایسا کام) کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا اور خدا غالب اور انتقام لینے والا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درست ترجمہ ہے:
’’اور جس نے دوبارہ یہ حرکت کی تو اللہ اسے سزا دے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور سزا دینے والا ہے‘‘۔