(254) اَوَمَن یُنَشَّاُ فِی الحِلیَۃِ کس کا قول ہے؟
درج ذیل آیت کے ترجموں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھیں گے کہ کسی قول کے قائل کے تعین میں غلطی ہونے سے مفہوم اور اس سے نکلنے والے نتائج پر کتنا اثر پڑتا ہے؟ اَوَمَن یُنَشَّاُ فِی الحِلیَۃِ وَہُوَ فِی الخِصَامِ غَیرُ مُبِینٍ کو عام طور سے لوگوں نے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور پھر اس سے مختلف نتائج برآمد کیے ہیں، جیسے یہ کہ عورتیں ناقص جمال والی ہوتی ہیں اس لیے زیورات کے ذریعے ان کے اس نقص کو پورا کیا جاتا ہے، عورتیں ناقص عقل اور ناقص بیان والی ہوتی ہیں اسی لیے وہ بحث میں اپنی بات وضاحت سے اور دلیل کے ساتھ رکھ نہیں پاتی ہیں۔ عورتوں کے سلسلے میں ایسی باتیں اللہ کے فرمودات سے نکالے ہوئے قرآنی حقائق کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر امام رازی) اگر اس آیت کو اللہ کا قول نہ مان کر جاہلی سماج کے اس شخص کا قول مان لیں جو لڑکی کی پیدائش سے خوش نہیں ہوتا ہے، تو اللہ کی طرف منسوب کرکے یہ نتائج برآمد نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ بلکہ یہ محض جاہلی معاشرے کے انسانوں کی نفسیات کا بیان ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ درج ذیل ترجموں پر غور کریں:
وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحمَٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجہُہُ مُسوَدًّا وَہُوَ کَظِیم۔ اَوَمَن یُنَشَّاُ فِی الحِلیَۃِ وَہُوَ فِی الخِصَامِ غَیرُ مُبِینٍ۔ (الزخرف: 17-18)
”اور جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی بشارت دی جاتی ہے جس کو وہ خدا کی صفت بیان کرتا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ گھٹا گھٹا رہنے لگتا ہے کہ کیا (وہ پیدا ہوئی ہے) جو زیوروں میں پلتی اور مفاخرت میں بے زبان ہے؟“ (امین احسن اصلاحی)
یہ ترجمہ درست ہے۔ البتہ کچھ باتیں تصحیح طلب ہیں، جیسے:’جس کو وہ خدا کی صفت بیان کرتا ہے‘، کی بجائے ’جس کو وہ خدا کی طرف منسوب کرتا ہے‘۔’پلتی‘ کی بجائے’پالی جاتی‘ اور’مفاخرت‘ کی بجائے ’بحث مباحثہ‘ ہونا چاہیے۔
زیر گفتگو آیت کے وہ ترجمے دیکھیں جن میں اسے اللہ کا قول بنایا ہے:
”کیا (اللہ کی اولاد لڑکیاں ہیں) جو زیورات میں پلیں اور جھگڑے میں (اپنی بات) واضح نہ کرسکیں؟“ (محمد جوناگڑھی)
”کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟“۔ (سید مودودی)
”کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کرسکے (خدا کی) بیٹی ہوسکتی ہے؟“۔ (فتح محمد جالندھری)
”کیا جس کو زیورات میں پالا جاتا ہے اور وہ جھگڑے کے وقت صحیح بات بھی نہ کرسکے (وہی خدا کی اولاد ہے)“۔ (ذیشان جوادی)
”کیا (خدا کے لیے وہ ہے) جو زیوروں میں پرورش پائے اور بحث و تکرار میں اپنا مدعا واضح نہ کر سکے؟“۔ (محمد حسین نجفی)
اس مقولے کو اللہ کا قول اس لیے نہیں مانا جاسکتا ہے کیوں کہ اس میں مذکور باتیں فرشتوں پر صادق ہی نہیں آتی ہیں۔ مشرکین فرشتوں کو (نعوذ باللہ) اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے، لیکن ان اوصاف کے ساتھ نہیں کہتے تھے۔ یہ اوصاف تو وہ اپنی دانست میں اپنے یہاں پیدا ہونے والی لڑکیوں میں پاتے تھے۔ انھیں یہ لگتا تھا کہ لڑکیوں کی پرورش پر بہت زیادہ خرچ کرنا ہوتا ہے اور اس کا کوئی فائدہ انھیں حاصل نہیں ہوتا ہے۔
اس سے مختلف انداز میں اسی طرح کی بات دوسرے مقام پر آئی ہے:
وَاذَا بُشِّرَ اَحَدُہُم بِالاُنثَی ظَلَّ وَجہُہُ مُسوَدّاً وَہُوَ کَظِیم۔ یَتَوَارَی مِنَ القَومِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِہِ اَیُمسِکُہُ عَلَی ہُونٍ اَم یَدُسُّہُ فِی التُّرَابِ اَلاَ سَاء مَا یَحکُمُون۔ (النحل:58-59)
”ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔ اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟“۔ (محمد جوناگڑھی)
یہاں پر بھی بیٹی پیدا ہونے پر جاہلیت زدہ سماج کے لوگوں کی کیفیت کو بتایا گیا ہے۔
(255) زُبُرُ الاوَّلِینَ کا ترجمہ
وَانَّہُ لَفِی زُبُرِ الاوَّلِینَ۔ (الشعراء:196)
یہاں زُبُرِ الاوَّلِینَ مضاف اور مضاف الیہ ہے، اولین کا مطلب ہے اگلے لوگ، ترجمہ ہوگا اگلے لوگوں کی کتابیں۔ لیکن بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ موصوف صفت کا کردیا ہے، یعنی اگلی کتابیں۔ اگلی کتابوں کے لیے الزبر الاولی آئے گا، جیسے الصحف الاولی۔ اولین تو انسانوں کے لیے آتا ہے کتابوں کے لیے اولی آئے گا۔
And, verily, [the essence of] this [revelation] is indeed found in the ancient books of divine wisdom [as well]۔ (Asad)
”اور بیشک اس کا چرچا اگلی کتابوں میں ہے“۔ (احمد رضا خان)
ان دونوں ترجموں میں یہ غلطی موجود ہے۔ جب کہ درج ذیل دونوں ترجمے درست ہیں:
And lo! it is in the Scriptures of the men of old۔ (Pickthall)
”اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے“۔ (سید مودودی)
(256) لَبَسَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت کے مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَلَو جَعَلنَاہُ مَلَکاً لَّجَعَلنَاہُ رَجُلاً وَلَلَبَسنَا عَلَیہِم مَّا یَلبِسُونَ۔ (الانعام :9)
”اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں“۔ (سید مودودی)
”اگر ہم پیغمبر کو فرشتہ بھی بناتے تو بھی مرد ہی بناتے اور وہی لباس پہناتے جو مرد پہنا کرتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)
”و اگر او را فرشتہ ای قرارمی دادیم، حتماً وی را بصورت انسانی درمی آوردیم؛ (باز بہ پندار آنان،) کار را بر آنہا مشتبہ می ساختیم؛ ہمان طور کہ آنہا کار را بر دیگران مشتبہ می سازند!“ (مکارم شیرازی)
”و اگر می گردانیدیمش فرشتہ ای ہمانا می گردانیدیمش مردی و ہمی پوشانیدیم بر او آنچہ را می پوشند“۔ (معری)
Had we appointed him (Our messenger) an angel, We assuredly had made him (as) a man (that he might speak to men); and (thus) obscured for them (the truth) they (now) obscure۔ (Pickthall)
And if We had made him an angel, We would have made him [appear as] a man, and We would have covered them with that in which they cover themselves۔ (Sahih International)
مختلف زبانوں کے اکثر مترجمین نے اس آیت میں لبس کا ترجمہ شبہے میں ڈالنا کیا ہے، بعض لوگوں نے پہنانا کیا ہے۔
لَبِسَ جس کا فعل مضارع یلبَسُ ہوتا ہے اور لَبَسَ جس کا فعل مضارع یلبِسُ ہوتا ہے، دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ پہلے کا مطلب ہے پہننا (پہنانا نہیں)، اور دوسرے کا مطلب ہے مشتبہ بنادینا۔ یہاں آیت میں دوسرا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے مشتبہ بنادینا۔
پہلے لفظ کی قرآنی مثال درج ذیل ہے:
یَلبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَاستَبرَقٍ مُّتَقَابِلِینَ۔ (الدخان :53)
دوسرے لفظ کی قرآنی مثال درج ذیل ہے:
وَکَذَلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِّنَ المُشرِکِینَ قَتلَ اولاَدِہِم شُرَکَآؤہُم لِیُردُوہُم وَلِیَلبِسُوا عَلَیہِم دِینَہُم وَلَو شَاء اللّہُ مَا فَعَلُوہُ فَذَرہُم وَمَا یَفتَرُون۔ (الانعام:137)
”اور اسی طرح ان شریکوں نے بہت سے مشرکین کے لیے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کردیا ہے تاکہ ان کو تباہ و برباد کردیں اور ان پر دین کو مشتبہ کردیں“۔ (ذیشان جوادی، یہاں درست ترجمہ کیا ہے جب کہ اسی لفظ کا مذکورہ بالا آیت میں غلط ترجمہ کیا ہے۔)
مذکورہ بالا آیت (الانعام :9) اور اس آیت (الانعام:137) میں ایک ہی لفظ یعنی یلبِسُ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب مشتبہ کرنا ہے۔
پہنانے کے لیے ایک تیسرا لفظ آتا ہے اور وہ ہے: البَسَ جس کا مضارع یُلبِسُ آتا ہے۔
پہنانا مراد ہوتا تو عبارت اس طرح ہوتی: وَلَالبَسنَاہِم مَّا یَلبَسُونَ۔ لیکن ایسا تو یہاں نہیں ہے۔
ایک اور بات یہ ہے کہ وَلَلَبَسنَا عَلَیہِم مَّا یَلبِسُونَ میں ’علیھم‘ میں جمع کی ضمیر آئی ہے اگر فرشتہ مراد ہوتا تو واحد کی ضمیر آتی یعنی’علیہ‘ ہوتا۔
(257) زخرف کا ترجمہ
اہل لغت اور علمائے تفسیر لفظ زخرف کے دو معنی بتاتے ہیں، (الزینۃ والذھب) سامان زینت اور سونا۔ اس میں اختلاف ہے کہ اس کا اصل معنی زینت ہے یا سونا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ چار مقامات پر آیا ہے، دو مقامات پر تو یقینی طور پر زینت کے معنی میں آیا ہے۔
(1) وَکَذَلِکَ جَعَلنَا لِکُلِّ نِبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِینَ الانسِ وَالجِنِّ یُوحِی بَعضُہُم الَی بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرُوراً وَلَو شَاء رَبُّکَ مَا فَعَلُوہُ فَذَرہُم وَمَا یَفتَرُون۔ (الانعام:112)
”اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے رہتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)
(2) انَّمَا مَثَلُ الحَیَاۃِ الدُّنیَا کَمَاء انزَلنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاختَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الارضِ مِمَّا یَاکُلُ النَّاسُ وَالانعَامُ حَتَّیَ اذَا اخَذَتِ الارضُ زُخرُفَہَا وَازَّیَّنَت۔ (یونس: 24)
”دنیا کی زندگی کی مثال مینھ کی سی ہے کہ ہم نے اس کو آسمان سے برسایا۔ پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں مل کر نکلا یہاں تک کہ زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہوگئی“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل آیت میں سب نے زخرف کا ترجمہ سونا کیا ہے:
(3) اویَکُونَ لَکَ بَیت مِّن زُخرُفٍ۔ (الاسراء:93)
”یا تو تمہارا سونے کا گھر ہو“۔(فتح محمد جالندھری)
بعض مفسرین نے یہاں دونوں معنوں کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ گھر مراد لیا ہے جس کی سونے وغیرہ سے آرائش کی گئی ہو۔عبدالرحمن سعدی کہتے ہیں: ای: مزخرف بالذہب وغیرہ۔ (تفسیر السعدی) امام رازی کہتے ہیں: ولا شَیئَ فی تَحسِینِ البَیتِ وتَزیِینِہِ کالذَّہَبِ۔ (تفسیر الرازی)
دراصل یہاں ہمیں درج ذیل آیت کے سلسلے میں گفتگو کرنی ہے:
(4) وَلَولَا ان یَکُونَ النَّاسُ امَّۃً وَاحِدَۃً لَجَعَلنَا لِمَن یَکفُرُ بِالرَّحمَنِ لِبُیُوتِہِم سُقُفاً مِّن فَضَّۃٍ وَمَعَارِجَ عَلَیہَا یَظہَرُون۔ وَلِبُیُوتِہِم ابوَاباً وَسُرُراً عَلَیہَا یَتَّکِؤُونَ۔ وَزُخرُفاً وَان کُلُّ ذَلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الحَیَاۃِ الدُّنیَا وَالآخِرَۃُ عِندَ رَبِّکَ لِلمُتَّقِینَ۔ (الزخرف: 33-35)
اس آیت میں زخرف کا ترجمہ بعض لوگوں نے سونا کیا ہے اور بعض لوگوں نے زینت وآرائش کیا ہے۔
”اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جماعت ہوجائیں گے تو جو لوگ خدا سے انکار کرتے ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سیڑھیاں (بھی) جن پر وہ چڑھتے ہیں۔ اور ان کے گھروں کے دروازے بھی اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ہیں۔ اور (خوب) تجمل وآرائش (کردیتے) اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے۔ اور آخرت تمہارے پروردگار کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہو جائیں گے تو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنادیتے۔ اور زینوں کو (بھی) جن پر چڑھا کرتے۔ اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا لگا کر بیٹھتے۔ اور سونے کے بھی، اور یہ سب کچھ یونہی سا دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف) پرہیزگاروں کے لیے (ہی) ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
ان آیتوں میں شروع میں ’من فضۃ‘ آیا ہے اور آخر میں’ زخرفا‘ آیا ہے۔ زخرفا کا عطف فضۃ پر نہیں ہے، بلکہ پیچھے گزرے دیگر منصوب الفاظ پر عطف ہے جو جعلنا کا مفعول بہ ہیں۔ اس لیے یہاں سونا مراد لینے کے بجائے زینت و آرائش مراد لینا مناسب ہے۔ یعنی مذکورہ تمام چیزیں چاندی کی بناتے اور ان میں سونے وغیرہ کے نقش و نگار اور زینت و آرائش کا اضافہ کرتے۔
(258) نَادَیٰ فِرعَونُ فِی قَومِہِ کا ترجمہ
قرآن مجید میں لفظ نادی متعدد بار آیا ہے، اور ہرجگہ اس کا مطلب پکارنا سمجھا گیا ہے۔
جیسا کہ فرعون کے بارے میں آیا:
فَحَشَرَ فَنَادَیٰ۔ (النازعات :23)
”اور (لوگوں کو) اکٹھا کیا اور پکارا“۔ (فتح محمد جالندھری)
البتہ درج ذیل آیت میں نادی کا ترجمہ بعض لوگوں نے منادی کراناکیا ہے:
وَنَادَی فِرعَونُ فِی قَومِہِ قَالَ یَا قَومِ الَیسَ لِی مُلکُ مِصرَ وَہَذِہِ الانہَارُ تَجرِی مِن تَحتِی افَلَا تُبصِرُونَ۔ (الزخرف :51)
”اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی اور کہا اے میری قوم! کیا مصر کا ملک میرا نہیں؟ اور میرے (محلوں کے) نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں؟“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی“۔ (محمد حسین نجفی)
”ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا“۔ (سید مودودی، تفسیر میں منادی کرانے کا مطلب لیا ہے)
صحیح بات یہ ہے کہ یہاں منادی کرانا نہیں بلکہ پکار کر کہنا ہی درست ہے۔ اور قوم سے مراد پوری قوم نہیں بلکہ وہاں جمع لوگ مراد ہیں۔ جیسا کہ اوپر سورة النازعات والی آیت میں ہے۔ دراصل یہاں جو بات کہی جارہی ہے وہ سامنے کہنے کی ہے نہ کہ منادی کرانے کی۔