اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۳)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(285) تِسْعَۃُ رَھْطٍ کا ترجمہ

قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں تِسْعَۃُ رَھْطٍ آیا ہے۔ رھط اور نفر قریب قریب ہم معنی الفاظ ہیں۔ بخاری اور مسلم میں مذکور حدیث میں بنی اسرائیل کے تین آدمیوں کے واقعہ میں ثلاثۃ نفر کے الفاظ آئے ہیں، جس کا مطلب تین آدمی ہے، اسی طرح تِسْعَۃُ رَہْطٍ کا مطلب نو آدمی ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے تِسْعَۃُ رَہْطٍ کا مطلب نو گروہ یا نو خاندان مان کر ترجمہ کیا۔ یہ درست نہیں ہے۔

وَکَانَ فِی الْمَدِینَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ۔ (النمل: 48)

”اُس شہر میں نو جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے“۔ (سید مودودی، نو آدمیوں کا جتھا صحیح ترجمہ ہے، الفاظ سے یہ بات نہیں نکلتی ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کے پاس جتھا تھا۔)

”اور شہر میں نو خاندان تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور (اس) شہر میں نو گروہ تھے“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور تھے اس شہر میں نو شخص“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور شہر میں نو شخص تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری دونوں ترجمے درست ہیں۔ درج ذیل انگریزی ترجمے میں بھی یہ غلطی ہے کہ نو اشخاص کو ایک خاندان کا سمجھ لیا گیا ہے، الفاظ میں یہ بات نہیں ہے۔

There were in the city nine men of a family (Yusuf Ali)

عام طور سے مفسرین نے تِسْعَۃُ رَھْطٍ کا مطلب نو اشخاص لیا ہے۔ البتہ رازی نے اس خیال کو ترجیح دی ہے کہ یہاں نو گروہ مراد ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والأقْرَبُ أنْ یَکُونَ المُرادُ تِسْعَۃَ جَمْعٍ؛ إذِ الظّاہِرُ مِنَ الرَّہْطِ الجَماعَۃُ لا الواحِدُ، ثُمَّ یُحْتَمَلُ أنَّہم کانُوا قَبائلَ (تفسیر رازی) لگتا ہے وہیں سے بعض اردو مترجمین کے یہاں یہ غلطی در آئی۔ لیکن زبان کے قواعد کے لحاظ سے یہ درست نہیں ہے، تِسْعَة کا معدود واحد نہیں بلکہ جمع آتا ہے۔ اگر یہاں رھط گروہ یا قبیلے کے لیے ہوتا تو تِسْعَة أرَهاطٍ آتا۔ جیسے تسعة اقوام کہیں گے، نہ کہ تسعة قوم۔ یہ تو ثلاثة نفر کی طرح تِسْعَة رَہْطٍ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نو افراد جن سے مل کر ایک رھط یعنی گروہ بنا۔

زمخشری کی درج ذیل توجیہ اسلوب کلام کو واضح کردیتی ہے:

وإنما جاز تمییز التسعۃ بالرہط لأنہ فی معنی الجماعۃ، فکأنہ قیل: تسعۃ أنفس. والفرق بین الرہط والنفر: أن الرہط من الثلاثۃ إلی العشرۃ، أو من السبعۃ إلی العشرۃ والنفر من الثلاثۃ إلی التسعۃ۔ (زمخشری)

(286) مطر کا ترجمہ

مطر کا مطلب بارش ہے، جس کے اردو مترادفات میں مینھ اور برساؤ بھی ہیں۔ جب کہ برسات کا مطلب بارش کا موسم ہوتا ہے نہ کہ خود بارش۔ درج ذیل آیتوں میں مطر کا ترجمہ برسات درست نہیں ہے:

(۱) وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِم مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ۔ (النمل: 58)

”اور برسائی اُن لوگوں پر ایک برسات، بہت ہی بری برسات تھی وہ اُن لوگوں کے حق میں جو متنبہ کیے جا چکے تھے“۔ (سید مودودی، دونوں جگہ برسات کے بجائے بارش ہونا چاہیے۔)

”اور برسایا ہم نے ان پر ایک برساؤ برسایا پھر کیا برا برساؤ تھا ڈرائے ہوؤں کا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور برسایا ہم نے اوپر ان کے مینھ، پس برا تھا مینھ ڈرائے گیوں کا“۔ (شاہ رفیع الدین)

(۲) وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِم مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ۔ (الشعراء:173)

”اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جو اُن ڈرائے جانے والوں پر نازل ہوئی“۔ (سید مودودی، جس طرح موخر الذکر مطر کا ترجمہ بارش کیا ہے، اول الذکر کا بھی بارش کرنا چاہیے۔)

”اور ہم نے ان پر ایک خاص قسم کا مینھ برسایا، پس بہت ہی برا مینھ تھا جو ڈرائے گئے ہوئے لوگوں پر برسا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۳) وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِم مَّطَرًا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِینَ۔ (الاعراف: 84)

”اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا“۔(سید مودودی، یہاں مطر کا درست ترجمہ کیا ہے۔)

(۴) وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَی الْقَرْیَۃِ الَّتِی أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ۔ (الفرقان: 40)

”اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی“۔ (سید مودودی، یہاں بھی مطر کا درست ترجمہ کیا ہے۔)

(287) وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃ وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ

وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃ وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ (النمل: 88)

مذکورہ بالا عبارت میں تین جملے ہیں، پہلا جملہ تَرَی الْجِبَالَ ہے، دوسرا تَحْسَبُہَا جَامِدَۃ ہے اور تیسرا جملہ وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ہے۔ اس میں سے کون سا جملہ زمانہ حال کا ہے اور کون سا جملہ زمانہ مستقبل یعنی قیامت کے برپا ہونے کے وقت کا ہے، یہ طے کرنے سے پوری عبارت کا مفہوم طے ہوتا ہے۔ درج ذیل ترجموں پر غور کریں:

”اور تو دیکھتا ہے پہاڑ جانتا ہے وہ جم رہے ہیں اور وہ چلیں گے جیسے چلے بادل“۔ (شاہ عبدالقادر)

”آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے“۔ (سید مودودی)

”اور آپ پہاڑوں کو دیکھ کر اپنی جگہ جمے ہوئے خیال کرتے ہیں لیکن وہ بھی بادل کی طرح اڑتے پھریں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں پہلے دونوں جملوں کو زمانہ حال کا مانا گیا ہے اور تیسرے جملے کو زمانہ مستقبل کا مانا گیا ہے۔ اس توجیہ میں کم زوری یہ ہے کہ تیسرا جملہ حالیہ ہے، لیکن اس کا ترجمہ جملہ حال کا نہیں کیا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ لیکن اور مگر مترجم کی طرف سے اضافہ ہے، جس کے لیے عبارت میں کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔

”اور تو دیکھے گا پہاڑوں کو خیال کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں اور وہ چلتے ہوں گے بادل کی چال“۔ (احمد رضا خان)

”اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرو گے کہ وہ ٹکے ہوئے ہیں حالاں کہ وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا دونوں ترجموں میں پوری عبارت یعنی تینوں جملوں کو زمانہ مستقبل کا مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس میں جملہ حالیہ والا مسئلہ تو نہیں رہتا، لیکن ایک اشکال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جب وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے اور آدمی اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ رہا ہوگا تو پھر وہ انھیں جما ہوا کیوں خیال کرے گا؟

مولانا امانت اللہ اصلاحی ایسا ترجمہ تجویز کرتے ہیں جس میں یہ دونوں اشکالات دور ہوجاتے ہیں۔ وہ تیسرے جملے کو پہلے جملے کا حال مان کر دونوں جملوں کو زمانہ مستقبل کا مانتے ہیں، اور دوسرے جملے کو زمانہ حال کا مانتے ہیں، ترجمہ کرتے ہیں:

”اور تم ان پہاڑوں کو بادلوں کی طرح اڑتے ہوئے دیکھو گے جنھیں تم سمجھتے ہو کہ وہ جمے ہوئے ہیں“۔

مطلب یہ ہوا کہ ابھی دنیا میں جن بادلوں کو تم جامد سمجھتے ہو، کیوں کہ وہ بظاہر جامد ہی ہیں انھیں قیامت کے دن بادلوں کی طرح اڑتا ہوا دیکھو گے۔

(288) قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّہِ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں تقاسموا امر کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور خبر کا صیغہ بھی۔ امر کی صورت میں وہ قالوا کا مقولہ بنے گا، جب کہ خبر کی صورت میں وہ قالوا کا حال بنے گا۔ مفسرین نے دونوں احتمالات ذکر کیے ہیں۔ زمخشری لکھتے ہیں:  تَقاسَمُوا یحتمل أن یکون أمرا وخبرا فی محل الحال بإضمار قد، أی: قالوا متقاسمین۔

لیکن بعض قرائن کی بنیاد پر اسے خبر مانتے ہوئے مقولہ ماننا زیادہ مناسب ہے۔ ایک تو یہ کہ حال ماننے کی صورت میں تقاسموا سے پہلے وقد محذوف ماننا پڑے گا، جب کہ مقولہ ماننے کی صورت میں کچھ محذوف نہیں ماننا پڑے گا، گویا اپنی اصل صورت میں یہ مقولہ ہی بن رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ کہنا ہو کہ انھوں نے اس بات کا عہد کیا تو پھر قالوا کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے صرف تقاسموا سے مفہوم ادا ہوجاتا ہے، جیسے سورۃ القلم میں آیا ہے: إِذْ أَقْسَمُوا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِینَ (آیت:17) ”جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

تیسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں قالوا کا استقرا بتاتا ہے کہ قرآن میں ہر جگہ اس کے بعد مقولہ ہی آیا ہے، اگر کہیں حال آیا ہے تو واضح علامت کے ساتھ آیا ہے، جیسے: قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَیْہِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ (یوسف: 71)، آخری بات یہ ہے کہ تقاسموا  کو مقولہ مان لینے سے معنویت بڑھ جاتی ہے، اور یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے کس طرح سازش رچی تھی، کہ پہلے کچھ لوگوں نے منصوبہ بنایا اور اس پر سب سے قسمیں لیں۔ اس گفتگو کے بعد درج ذیل ترجمے دیکھیں:

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَأَہْلَہٗ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِیِّہِ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ أَہْلِہِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ۔ (النمل: 49)

”بولے آپس میں قسم کھاؤ اللہ کی، مقرر رات کو پڑیں ہم اس پر اور اس کے گھر پر، پھر کہہ دیں گے اس کے دعوے کرنے والے کو ہم نے نہیں دیکھا جب تباہ ہوا اس کا گھر اور ہم بے شک سچے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے، اور اس کے وارثوں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”آپس میں اللہ کی قسمیں کھا کر بولے ہم ضرور رات کو چھاپہ ماریں گے صا لح اور اس کے گھر والوں پر پھر اس کے وارث سے کہیں گے اس گھر والوں کے قتل کے وقت ہم حاضر نہ تھے اور بیشک ہم سچے ہیں“۔ (احمد رضا خان)   

”انھوں نے اللہ کی قسم کھاکر عہد کیا کہ ہم اس کو اور اس کے لوگوں کو چپکے سے ہلاک کردیں گے پھر ہم اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے آدمی کی ہلاکت میں شریک نہیں ہیں اور ہم بالکل سچے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، ولی اور وارث میں فرق ہے۔)

پہلے ترجمے میں تقاسموا، قالوا کا مقولہ ہے۔ جب کہ آخری تینوں ترجموں میں تقاسموا، قالوا کا حال ہے۔ قالوا تقاسموا کا پہلا ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔

(289) مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ أَہْلِہِ

مذکورہ بالا آیت میں شھدنا  آیا ہے، اس کا مطلب موجود ہونا اور حاضر ہونا ہے نہ کہ شریک ہونا۔ اس لیے درج ذیل دونوں ترجموں میں اول الذکر درست نہیں ہے۔

”ہم اس کے آدمی کی ہلاکت میں شریک نہیں ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(290) بطش کا مفہوم

بطش کے معنی سخت گرفت اور شدید پکڑ کے ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے:  البَطْش التناول بشدۃ عند الصَّوْلۃ والأَخذُ الشدیدُ فی کل شیء۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے، بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ کہیں کہیں حملہ کرنے اور ضرب لگانے کا کیا ہے۔ لیکن انھوں نے بھی دیگر مقامات پر اس کا ترجمہ پکڑ اور گرفت کیا ہے۔

(1) وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِینَ۔ (الشعراء: 130)

”اور جس وقت پکڑتے ہو تم پکڑتے ہو سرکش ہوکر“۔ (شاہ رفیع الدین)

”اور جب حملہ کرتے ہو تو نہایت جابرانہ حملہ کرتے ہو“۔ (ذیشان جوادی)

”اور جب بھی تم کسی پر حملہ آور ہوتے ہو تو جبارانہ حملہ آور ہوتے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

(2) یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَیٰ إِنَّا مُنتَقِمُونَ۔ (الدخان: 16)

”جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے“۔ (سید مودودی)

”جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے، بالیقین ہم بدلہ لینے والے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ اس دن ہم پورا بدلہ لے کر رہیں گے“۔ (مولانا امین احسن اصلاحی)

(3) فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن یَبْطِشَ بِالَّذِی ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَا۔ (القصص: 19)

”پھر جب موسیٰؑ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے“۔ (سید مودودی)

”پس جب اس نے ارادہ کیا کہ پکڑے اس کو جو ان دونوں کا دشمن تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

(4) أَمْ لَہُمْ أَیْدٍ یَبْطِشُونَ بِہَا۔ (الاعراف: 195)

”کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں؟“۔ (سید مودودی)

”حملہ کرنے کے قابل ہاتھ“۔ (ذیشان جوادی)

(5) إِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیدٌ۔ (البروج: 12)

”بے شک آپ کے پروردگار کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے“۔ (ذیشان جوادی)

(6) وَلَقَدْ أَنذَرَہُم بَطْشَتَنَا۔ (القمر: 36)

”وہ ڈرا چکا ان کو ہماری پکڑ سے“۔(شاہ عبدالقادر)

قرآن / علوم القرآن

(دسمبر ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter