اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۵)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(431) شَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا

شھد شاھد کا ترجمہ کچھ لوگوں نے فیصلہ کرنا اور زیادہ تر لوگوں نے گواہی دینا کیا ہے۔

وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا۔ (یوسف: 26)

”اس کے قبیلے میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی“۔ (سید مودودی)

”اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی“۔ (احمد رضا خان)

”اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی“۔ (محمد جوناگڑھی)

شھد کے معنی فیصلہ کرنے کے نہیں آتے، گواہی دینے کے آتے ہیں لیکن اس شخص نے مشاہدہ نہیں کیا تھا کہ گواہی دیتا۔ اس شخص نے نہ تو فیصلہ کیا اور نہ ہی گواہی دی، اس نے تو اپنی بات رکھی تھی، اس لیے شاھد کا ترجمہ گواہ کرنا درست نہیں ہوگا، وہ شخص گواہ تھا بھی نہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے اور یہ اللہ کی طرف سے حضرت یوسف کے حق میں خاص انتظام ہی تھا   کہ وہ اس خاص اس موقع پر کہیں سے وہاں آ گیا تھا اور اسی لیے اسے اپنی بات رکھنے کا موقع مل گیا تھا۔ تو شھد شاھد کا ترجمہ ہوگا ایک شخص جو وہاں آگیا تھا۔  شھد کا معنی موجود ہونا ہوتا بھی ہے۔ اور چوں کہ اس کا قول موجود ہے اس لیے قال وہاں مقدر ہوگا۔ ترجمہ ہوگا:

”اس عورت کے کنبے میں سے ایک موجود شخص نے جو وہاں آگیا تھا، کہا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(432) قَالَ إِنَّہُ مِنْ کَیْدِکُنَّ

درج ذیل آیت میں زیادہ تر لوگوں نے رأی اور قال کا فاعل عورت کے شوہر کو بناکر ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ ضمائر میں تبدیلی کا کوئی سبب نہیں ہو تو تبدیلی نہیں کی جاتی ہے۔ شھد شاھد کے بعد آنے والے ضمائر کو شاھد کی طرف لوٹانا چاہیے۔ بعض لوگوں نے کید کا ترجمہ چالاکی کیا ہے، جب کہ یہاں چالاکی کا محل نہیں ہے اور کید کا معنی چالاکی ہوتا بھی نہیں ہے۔

فَلَمَّا رَأَی قَمِیصَہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّہُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ۔(یوسف: 28)

”سو جب (عزیزنے) ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو (عورت سے) کہنے لگا کہ یہ تم عورتوں کی چالاکی ہے، بے شک تمہاری چالاکیاں بھی غضب ہی کی ہوتی ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی، یہاں کید کا ترجمہ چالاکی کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔)

”جب شوہر نے دیکھا کہ یوسفؑ کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا،یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں“۔ (سید مودودی، یہاں چالاکیاں نہیں، بلکہ چالبازیاں ترجمہ ہوگا۔)

”خاوند نے جو دیکھا کہ یوسف کا کرتا پیٹھ کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم عورتوں کی چال بازی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمے میں ضمیر کا ترجمہ شوہر یا عزیز سے نہیں کیا ہے اور یہی درست طریقہ ہے۔

(433) مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْہِ

یہاں یدعون مذکر ضمیر استعمال ہوئی ہے لیکن مراد تو زنانِ مصر ہی ہیں۔ اس لیے اردو میں ترجمہ مونث کا کیا جائے گا۔ ’جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں‘ کی بجائے ’جو یہ عورتیں مجھ سے چاہتی ہیں‘۔

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْہِ۔  (یوسف: 33)

”یوسفؑ نے کہا،اے میرے رب، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں“۔ (سید مودودی، لوگ نہیں بلکہ عورتیں)

”یوسف نے عرض کی اے میرے رب! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”یوسف نے کہا کہ پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہی ہیں“۔ (ذیشان جوادی، لوگ نہیں بلکہ عورتیں۔)

”یوسف نے کہا اے میرے رب میرے لیے قید حانہ بہتر ہے اس کام سے کہ جس کی طرف مجھے بلا رہی ہیں“۔ (احمد علی، بہتر نہیں بلکہ زیادہ پسند۔)

”یوسف نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے“۔ (محمد جوناگڑھی، ”بہت پسند ہے“ نہیں کہا ہے، ”اس عمل سے زیادہ پسند ہے“ کہا ہے۔)

(434)  فَتَیَانِ کا ترجمہ

وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیَانِ۔ (یوسف: 36)

”اور یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ (یعنی اسی زمانہ میں) اور بھی دو غلام (بادشاہ کے) جیل خانہ میں داخل ہوئے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے“۔ (سید مودودی)

مولانا تھانوی کی طرح مولانا مودودی نے فَتَیَانِ کا ترجمہ دو غلام کیا اور اس کے بعد تفسیر میں اسی بنیاد پر استدلال کی ایک عمارت بھی کھڑی کی ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہاں فتیان کا ترجمہ دو غلام نہیں بلکہ دو جوان ہوگا۔ فتی کا لفظ جب کسی شخص کی طرف مضاف ہو تو اس میں غلام کا مفہوم پیدا ہوسکتا ہے، ورنہ اس کا اصل مطلب غلام نہیں بلکہ نوجوان ہی ہے۔ لگتا ہے انھیں زمخشری کی عبارت سے غلط فہمی ہوگئی، زمخشری نے لکھا ہے: فَتَیانِ عبدان للملک ”دو جوان جو بادشاہ کے غلام تھے“، یہ زمخشری کی طرف سے تفسیری اضافہ ہے، لفظ فَتَیَانِ کا یہ معنی نہیں ہے۔ تفسیر جلالین میں ہے: غُلَامَانِ لِلْمَلِکِ، لیکن عربی میں غلام کا مطلب اردو کا غلام نہیں بلکہ نوجوان ہی ہوتا ہے۔

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(435) إِنِّی أَرَانِی کا ترجمہ

أَرَانِی فعل مضارع ہے نہ کہ فعل ماضی، اس کا ترجمہ حال والا کیا جائے گا نہ کہ ماضی والا۔ حال والے ترجمے سے ایک تو یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جلد ہی یہ خواب دیکھا ہے، مزید یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ وہ خواب کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ بہرحال قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، ترجمے میں اس کی رعایت ہونی چاہیے۔

(۱) قَالَ أَحَدُہُمَا إِنِّی أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّی أَرَانِی أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِی خُبْزًا تَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْہُ۔ (یوسف: 36)

”ان میں ایک بولا میں نے خواب میں دیکھا کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرند کھاتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا: میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں“۔ (سید مودودی)

یہ ماضی کا ترجمہ ہے جو عربی عبارت کے مطابق نہیں ہے۔

”ایک نے ان میں سے کہا کہ (میں نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ شراب (کے لیے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ (میں نے بھی خواب دیکھا ہے) میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور جانور ان میں سے کھا رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

اس ترجمے میں جتنے قوسین ہیں ان کے مشمولات غیر ضروری ہیں۔

”کہنے لگا ان میں سے ایک کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں نچوڑتا ہوں شراب اور دوسرے نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ اٹھارہا ہوں اپنے سر پر روٹی کہ جانور کھاتے ہیں اس میں سے“۔ (شاہ عبدالقادر)

مذکورہ بالا دونوں ترجموں میں الطیر کا ترجمہ جانور کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ الطیر کا ترجمہ پرندے ہونا چاہیے۔ شاہ رفیع الدین نے بھی الطیر کا ترجمہ جانور کیا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں جانور کا ایک معنی پرندہ بھی دیا ہے۔ ممکن ہے پہلے یہ استعمال رائج رہا ہو۔

(۲) وَقَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ۔ (یوسف: 43)

”بادشاہ نے کہا، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائیں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور بادشاہ نے کہا کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری ترجمہ آیت کے اسلوب کے مطابق ہے یعنی حال کے صیغے میں ہے۔

(436)  قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیہِ تَسْتَفْتِیَانِ

قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیہِ تَسْتَفْتِیَانِ۔ (یوسف: 41)

”فیصلہ ہو گیا اُس بات کا جو تم پوچھ رہے تھے“۔ (سید مودودی)

”حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے“۔ (احمد رضا خان)

”جو امر تم مجھ سے پوچھتے تھے وہ فیصلہ ہوچکا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا ترجموں میں تستفتیان کا ترجمہ ماضی سے کیا گیا ہے، جب کہ وہ حال کی بات ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

”فیصلہ ہوچکا اس بات کے بارے میں جو تم پوچھ رہے ہو“۔

(437) فَأَرْسِلُونِ کا ترجمہ

ارسال کا ایک مطلب تو بھیجنا ہوتا ہے اور ایک مطلب جانے دینا ہوتا ہے۔ موقع و محل کی مناسبت سے مفہوم متعین ہوتا ہے۔ درج ذیل آیت میں بھیجنے کے مقابلے میں جانے دینے کا مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے:

أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِہِ فَأَرْسِلُونِ۔  (یوسف: 45)

”میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے میں یوسفؑ کے پاس) بھیج دیجیے“۔ (سید مودودی)

”میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا مجھے بھیجو“۔ (احمد رضا خان)

”میں آپ کو اس کی تعبیر (لا) بتاتا ہوں مجھے (جیل خانے) جانے کی اجازت دے دیجیے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا مجھے جانے کی اجازت دیجئے“۔ (محمد جوناگڑھی)

بھیجنے اور اجازت دینے سے زیادہ بہتر’جانے دینا‘ ہے۔

”مجھے جانے دیجیے“۔

(438) لعلّ کا ترجمہ

لعلّ کا ترجمہ ہمیشہ شاید نہیں ہوتا ہے، درج ذیل آیت میں شاید کا استعمال جملے کے مفہوم کو عجیب سا بنادیتا ہے۔

لَعَلِّی أَرْجِعُ إِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَعْلَمُونَ۔ (یوسف: 46)

”شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں“۔ (سید مودودی)

”شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”شاید میں لوگوں کے پاس باخبر واپس جاؤں تو شاید انہیں بھی علم ہوجائے“۔ (ذیشان جوادی)

”تاکہ میں واپس جاکر ان لوگوں سے کہوں کہ وہ سب جان لیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(439) بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ

درج ذیل آیت میں سوتیلا بھائی مناسب تعبیر نہیں ہے، باپ کی طرف سے ایک بھائی کی تعبیر بہتر ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے میں یہاں مراد یہ ہے کہ وہ بھائی جو تمہارے باپ کے پاس ہے، جس کے نام سے تم نے غلہ مانگا ہے اسے لے کر آنا۔

ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ۔ (یوسف: 59)

”اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا“۔ (سید مودودی)

”اپنا سوتیلا بھائی میرے پاس لے آؤ“۔(احمد رضا خان)

”جو باپ کی طرف سے تمہارا ایک اور بھائی ہے اسے بھی میرے پاس لیتے آنا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تم میرے پاس اپنے اس بھائی کو بھی لانا جو تمہارے باپ سے ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تم اپنے باپ کے پاس سے اپنے بھائی کو لے آنا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(جاری)


قرآن / علوم القرآن

(اکتوبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter