اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۵۰) لفظ أمثال کے قرآنی استعمالات

لفظ أمثال قرآن مجید میں کئی جگہ آیا ہے اور مختلف معنوں میں آیا ہے، سیاق وسباق سے یہ طے ہوتا ہے کہ کس جگہ کیا مفہوم مراد ہے، جیسے:

أمثال جب مَثَل کی جمع ہوتا ہے تو مثالوں کے معنی میں آتا ہے جیسے:

کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَہُمْ۔ (محمد:۳)

’’اس طرح اللہ لوگوں کے لئے ان کی مثالیں بیان کررہا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’اسی طرح خدا لوگوں سے ان کے حالات بیان فرماتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

أمثال جب مِثل کی جمع ہوتا ہے تو ’’ اسی طرح‘‘کے معنی میں آتا ہے، جیسے:

إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ عِبَادٌ أَمْثَالُکُمْ۔ (الاعراف :۱۹۴)

’’جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری) 

اسی طرح مذکورہ ذیل آیت میں بھی أمثال کا یہی مفہوم لینا درست ہے: 

أَفَلَمْ یَسِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَیَنظُرُوا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ دَمَّرَ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ وَلِلْکَافِرِیْنَ أَمْثَالُہَا۔ (محمد :۱۰)

’’ کیا انہوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا؟ خدا نے ان پر تباہی ڈال دی۔ اور اسی طرح کا (عذاب) ان کافروں کو ہوگا‘‘(فتح محمد جالندھری)

صاحب تدبر نے یہاں مثالوں کا ترجمہ کیا جو درست نہیں ہے۔

’’ کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ کیا انجام ہوچکاہے ان لوگوں کا جو ان سے پہلے گزرے ہیں ، اللہ نے ان کو پامال کرچھوڑا اور ان کافروں کے سامنے بھی انہی کی مثالیں آنی ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

لفظ کی رعایت سے بالکل صحیح ترجمہ یہ ہے: اور کافروں کے لئے اسی طرح کا انجام ہے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی )

(۵۱) قوموں کو بدلنا یا انسانوں کی شکل وصورت کو بدلنا

نَحْنُ خَلَقْنَاہُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَہُمْ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلاً۔ (الانسان : ۲۸)

نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِیْن۔ عَلَی أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنشِئَکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔ (الواقعۃ :۶۰۔۶۱)

کَلَّا إِنَّا خَلَقْنَاہُم مِّمَّا یَعْلَمُونَ۔ فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ۔ عَلَی أَن نُّبَدِّلَ خَیْْراً مِّنْہُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِیْن۔ (المعارج:۳۹۔۴۱)

مذکورہ بالا تین آیتوں میں عام طور سے مترجمین نے جو ترجمہ کیا ہے، اس سے یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ اللہ اس پر قادر ہے کہ انسانوں کے موجودہ گروہ کی جگہ دوسرے انسانوں کو لے آئے۔

جو بات ان مترجمین و مفسرین نے اختیار کی ہے وہ اپنے آپ میں صد فی صد درست ہے ، اور قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر بہت واضح لفظوں میں بیان کی گئی ہے، جیسے:

وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ۔ (محمد:۳۸)

البتہ مذکورہ تینوں آیتوں میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ گفتگو ایک گروہ کو ہٹاکر دوسرے گروہ کو لانے کی نہیں ہورہی ہے، بلکہ انسانوں کی تخلیق کی ہورہی ہے، اور موقعہ کا تقاضا اللہ کی اس قدرت کو بتانا ہے کہ انسانوں کی جس طرح کی تخلیق اللہ نے کی ہے ، اس سے مختلف تخلیق پر بھی اللہ قادر ہے۔تینوں آیتوں کے سیاق پر محض سرسری نظر ڈالنے سے بھی بآسانی واضح ہوجاتا ہے کہ تینوں آیتوں میں بدل دینے کے ذکر سے اللہ کی کس قدرت کا بیان ہے۔

ان تینوں آیتوں کا ترجمہ عام طور سے کس طرح کیا گیا ہے اور کس طرح ہونا چاہیے، ذیل کی تفصیل سے سمجھا جا سکتا ہے۔

نَحْنُ خَلَقْنَاہُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَہُمْ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلاً۔ (الانسان : ۲۸)

’’ہم نے انہیں پیدا کیا اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے اور ہم جب چاہیں ان جیسے اور بدل دیں‘‘۔(احمد رضا خان)

’’ ہم ہی نے ان کو پیدا کیا اور ان کے جوڑ بند مضبوط کئے، اور جب ہم چاہیں گے ٹھیک ٹھیک انہی کے مانند بدل دیں گے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

’’ ہم نے ان کو پیدا کیا اور ان کے مقابل کو مضبوط بنایا۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کے بدلے ان ہی کی طرح اور لوگ لے آئیں‘‘(فتح محمد جالندھری)

’’ ہم ہی نے ان کو پیدا کیا ہیاور ہم ہی نے ان کے جوڑ بند مضبوط کئے اور (نیز) جب ہم چاہیں انہی جیسے لوگ ان کی جگہ بدل دیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

جبکہ سیاق وسباق اور خود اس جملے کے الفاظ کے لحاظ سے درست ترجمہ یہ ہے:

’’ ہم نے ہی اِن کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں، اور ہم جب چاہیں اِن کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں‘‘۔(سید مودودی)

نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِیْن۔ عَلَی أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنشِئَکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔ (الواقعۃ :۶۰۔۶۱)

’’ ہم نے تم میں مرنا ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس (بات) سے عاجز نہیں کہ تمہاری طرح کے اور لوگ تمہاری جگہ لے آئیں اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کر دیں‘‘۔(فتح محمد جالندھری)

’’ ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کی ہے اور ہم عاجز رہنے والے نہیں ہیں۔ (بلکہ قادر ہیں) اس بات پر کہ ہم تمہاری جگہ تمہارے مانند بنادیں، اور تم کو اٹھائیں اس عالم میں جس کو تم نہیں جانتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

درست ترجمہ یہ ہے:

’’ ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے، اور ہم اِس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمہیں پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے‘‘۔(سید مودودی)

’’ ہم نے تمہارے درمیان موت کا نظام رکھا ہے، اور ہم اِس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری شکل وصورت بدل دیں اور تم کو نشوونما دیں ایسی حالت میں جسے تم نہیں جانتے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی )

کَلَّا إِنَّا خَلَقْنَاہُم مِّمَّا یَعْلَمُونَ۔ فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ۔ عَلَی أَن نُّبَدِّلَ خَیْْراً مِّنْہُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِیْن۔ (المعارج:۳۹۔۴۱)

’’ ہرگز نہیں ہم نے جس چیز سے اِن کو پیدا کیا ہے اْسے یہ خود جانتے ہیں۔ پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی، ہم اِس پر قادر ہیں کہ اِن کی جگہ اِن سے بہتر لوگ لے آئیں اور کوئی ہم سے بازی لے جانے والا نہیں ہے‘‘۔(سید مودودی)

درست ترجمہ یہ ہے:

اور ہم پوری قدرت رکھتے ہیں اور ہمارے بس سے باہر نہیں کہ ان کی موجودہ صورت کو اس سے بہتر شکل دے دیں‘‘۔(محمد امانت اللہ اصلاحی)

(۵۲) فَبِأَیِّ آلَاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان

فَبِأَیِّ آلَاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان۔ (الرحمن:۱۳)

یہ آیت سورہ رحمان میں اکتیس مرتبہ آئی ہے، عام طور سے مترجمین نے اس آیت میں أَیّ کا ترجمہ کس کس یا کن کن یا کون کون سی کیا ہے، تدبر قرآن میں امین احسن اصلاحی کے ترجمہ میں بھی زیادہ تر یہی ترجمہ ہے، البتہ کچھ آیتوں میں کن کن کے بجائے کتنی یا کتنے ترجمہ کیا ہے جیسے:

’’ تم اپنے رب کی کتنی رحمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔ (۹۴)

’’ تو تم اپنے رب کی کتنی نعمتوں کی تکذیب کرو گے‘‘۔(۵۵)

’’ تو تم اپنے رب کی کتنی نوازشوں کو جھٹلاؤگے‘‘۔ (۷۵)

الغرض اکتیس میں سے دس مقامات ایسے ہیں جہاں کن کن کے بجائے کتنی یا کتنے ترجمہ کیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ایسا عجلت میں ہوگیا ہے۔

(۵۳) سبق کا ایک خاص مفہوم

لفظ سبق کا ایک معنی کسی سے آگے نکل جانا ہوتا ہے اور اس کی قرآن مجید میں نظیریں بھی ہیں، جیسے:

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَان۔ (الحشر:۱۰)

’’ اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اْن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں‘‘۔(سید مودودی)

’’ اے ہمارے رب ہم کو بھی بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش جنھوں نے ایمان لانے میں ہم پر سبقت کی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

تاہم اسی لفظ کا ایک اور معنی ہے ، اور وہ ہے کسی کی پہونچ اور قابو سے باہر نکل جانا۔ اور اس کی بھی قرآن مجید میں نظیریں ہیں۔

وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَبَقُواْ إِنَّہُمْ لاَ یُعْجِزُونَ۔ (الانفال :۵۹)

’’ اور کافر یہ گمان نہ کریں کہ وہ نکل بھاگیں گے، وہ ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

اس ترجمہ میں ایک خامی یہ رہ گئی کہ فعل ماضی ہے اور بنا کسی سبب یا قرینے کے ترجمہ مستقبل کا کردیا ہے، درست ترجمہ یوں ہے:

’’ اور کافر یہ گمان نہ کریں کہ وہ اللہ کی پہونچ سے باہر نکل گئے، وہ ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکیں گے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی )

بعض لوگوں نے یہاں بھی بازی لے جانے کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:

’’ منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناًوہ ہم کو ہرا نہیں سکتے‘‘۔(سید مودودی)

یہ ترجمہ درست نہیں ہے، کیونکہ یہاں کوئی دوڑ کا مقابلہ موضوع گفتگو نہیں ہے جس میں کوئی بازی لے جائے، بلکہ اللہ کی پہونچ سے باہرنکلنے کی بات ہورہی ہے۔

أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ أَن یَسْبِقُونَا سَاءَ مَا یَحْکُمُون۔ (العنکبوت:۴)

’’ کیا جو لوگ برائیوں کا ارتکاب کررہے ہیں وہ گمان رکھتے ہیں کہ ہمارے قابو سے باہر نکل جائیں گے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَلَقَدْ جَاءَ ہُم مُّوسَی بِالْبَیِّنَاتِ فَاسْتَکْبَرُوا فِیْ الْأَرْضِ وَمَا کَانُوا سَابِقِیْنَ۔ (العنکبوت :۳۹)

’’ اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہم نے ہلاک کردیا، اور موسی ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے ملک میں گھمنڈ کیا اور وہ ہمارے قابو سے باہر نکل جانے والے نہ بن سکے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

اس آیت میں بھی بعض لوگوں نے آگے بڑھ جانے اور سبقت لے جانے کا ترجمہ کیا ہے جو درست نہیں ہے۔

’’ اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا موسیٰ اْن کے پاس بیّنات لے کر آیا مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے‘‘۔(سید مودودی)

’’ اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی، ان کے پاس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے‘‘۔(محمد جونا گڑھی)

(۵۴) وَلَا اللَّیْْلُ سَابِقُ النَّھَارِ کا ترجمہ 

اس سلسلے میں ایک آیت پر خصوصی گفتگو کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اور وہ سورہ یٰسین کی مندرجہ ذیل آیت ہے: 

لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُون۔ (یس: ۴۰)

’’ نہ سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت کرسکتی ہے، ہر ایک اپنے خاص دائرے میں گردش کرتا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

’’ سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے اور ہر ایک، ایک گھیرے میں پیر رہا ہے‘‘۔(احمد رضا خان)

’’ نہ تو سورج ہی سے ہوسکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے۔ اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں‘‘۔(فتح محمد جالندھری)

’’ نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پرآگے بڑھ جانے والی ہے، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا تمام ترجموں کی رو سے آیت میں رات کے دن پر سبقت کرنے ، دن سے پہلے آنے اور دن پر آگے بڑھ جانے کی بات کہی گئی ہے، اور اس کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ دن کے لئے مقرر وقت ختم ہونے سے پہلے رات نہیں آسکتی۔اس پر اشکال یہ وارد ہوتا ہے کہ کسی کے آنے سے پہلے کسی دوسرے کے آجانے کے لئے تو سبق کا استعمال درست ہے لیکن کسی کے جانے سے پہلے کسی دوسرے کے آجانے کے لئے لفظ سبق کا استعمال محل نظر ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:

’’نہ سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن کی پہونچ سے باہر ہوسکتی ہے ، ہر ایک اپنے خاص دائرے میں گردش کرتا ہے‘‘۔ گویا یہ نہیں ہوسکتا کہ دن کی پہونچ سے رات اس طرح باہر ہوجائے کہ پھر آئے ہی نہیں ، بلکہ ہر دن کے بعد رات کا آنا ضروری ہے۔ اس ترجمہ سے معنی کا یہ حسن سامنے آتا ہے، کہ ایک طرف تو سورج اور چاند کی گردش ہے کہ سورج چاند کو گرفتار نہیں کرسکتا، دوسری طرف رات اس طرح دن کی گرفت میں ہے کہ اس کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکتی، روز دن اس کو جالیتا ہے۔ چاند کبھی سورج کی گرفت میں نہیں آسکتا یہ بھی اللہ کی قدرت کا شاہکار ہے، اور رات کبھی دن کی پہونچ سے باہر نہیں نکل سکتی یہ بھی اللہ کی قدرت کا کمال ہے۔

دن رات کا تعاقب کر کے اس کو جالیتا ہے ، اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں موجود ہے، سورہ اعراف میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

یُغْشِیْ اللَّیْْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیْثاً۔ (الاعراف:۵۴)

آیت کے اس حصے کے مختلف ترجمے کئے گئے ہیں:

’’ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’ رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانکتا ہے کہ جلد اس کے پیچھے لگا آتا ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’ وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے‘‘۔(طاہر القادری)

’’ وہ شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)

’’ ڈھانکتا ہے رات کو دن پر جو اس کا پوری سرگرمی سے تعاقب کرتی ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’ اڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا‘‘۔ (شیخ الہندمحمود الحسن)

ان ترجموں کا جائزہ لینے کے لئے دو باتوں کو پیش نظر رکھنا مناسب ہے، پہلی بات یہ کہ چونکہ لیل پہلے آیا ہے اور نہار بعد میں آیا ہے اس لئے لفظوں کی ترتیب کے لحاظ سے رات کو دن پر ڈھانکنا یا اڑھانا زیادہ مناسب ہے۔ ترتیب کے قرینے کے علاوہ دوسرے مقامات پر اس بات کی صراحت بھی ہے کہ غشی یعنی ڈھانکنے کا عمل رات انجام دیتی ہے، جیسے وَاللَّیْْلِ إِذَا یَغْشَی (اللیل:۱) اور وَاللَّیْْلِ إِذَا یَغْشَاہَا (الشمس:۴) اس لئے رات پر دن اڑھانا، یا دونوں کو ایک دوسرے پر ڈھانکنا ، کمزور ترجمہ ہے۔

دوسری بات یہ کہ قرآن کی رو سے رات کا رول بھاگنے کا ہے نہ کہ پیچھا کرنے کا، وَاللَّیْْلِ إِذْ أَدْبَرَ (المدثر:۳۳) اس پہلو سے تعاقب کرکے پیچھا کرنے کا کام دن کے لئے زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔چنانچہ وہ ترجمے زیادہ موزوں ہیں جن میں یَطْلُبُہُ حَثِیْثًا  کا فاعل نہار کو بنایا گیا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ پہلے دن رات کا تعاقب کرتا ہے، اور اس کے بعد رات کو دن پر ڈھانک دیا جاتا ہے، نہ کہ جیسا سید مودودی کے ترجمے میں ہے کہ ڈھانکنے کے بعد دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آئے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی اس جملے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں؛

’’ڈھانکتا ہے رات سے دن کو جو اس کا پوری سرگرمی سے تعاقب کرتا ہے ‘‘۔

سورہ یٰسین اور سورہ اعراف کی دونوں آیتوں کو سامنے رکھا جائے تو مطلب یہ بنتا ہے کہ رات پیٹھ پھیر کر بھاگتی ہے ، دن اس کا پیچھا کرتا ہے ، تعاقب کرنے کے بعد جب دن رات کو جالیتا ہے تو اللہ رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے۔صبح رات پھر راہ فرار اختیار کرتی ہے اور پھر دن رات کو جالیتا ہے، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، رات کبھی دن کی پہونچ سے باہر نہیں نکل پاتی۔

(۵۵)  لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُون کا ترجمہ 

کسی متعین وقت کے سیاق میں جب بات ہورہی ہو تو لفظ استئخار  کا مطلب ہوتا ہے ، کسی کام کا متعین وقت پر انجام نہ پانا بلکہ تاخیر ہوجانا، جبکہ لفظ استقدام یا لفظ سبق کا مطلب ہوتا ہے کسی کام کا اس متعین وقت سے پہلے ہی انجام پاجانا۔ جہاں تک اردو زبان کا معاملہ ہے، کسی کام کا وقت متعین ہو، تو اگر اس وقت سے پہلے وہ کام انجام دے دیا جائے تو اسے وقت سے آگے بڑھ جانا کہتے ہیں، اور اگر وہ کام انجام دینے میں تاخیر ہوجائے تو اسے وقت سے پیچھے رہ جانا کہتے ہیں۔

یہ مضمون کہ اس دنیا میں لوگوں کی زندگی کا ایک متعین وقت ہے، اور کوئی اس متعین وقت سے نہ تو پہلے اس دنیا سے جاسکتا ہے، اور نہ متعین وقت کے بعد یہاں رہ سکتا ہے، قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ذکر ہوا ہے، جیسے:

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّۃٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُون۔ (المؤمنون:۴۳)

’’ کوئی جماعت اپنے وقت سے نہ آگے جاسکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)

’’ نہ کوئی قوم اپنی اجل معین سے آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ وہ اس سے پیچھے رہ سکتی ہے‘‘۔ ( امانت اللہ اصلاحی)

’’ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھیر سکی۔(سید مودودی، اس ترجمہ کی غلطی یہ ہے کہ بنا کسی سبب یا قرینہ کے فعل مضارع کا ترجمہ زمانہ ماضی سے کردیا ہے، اسے حال یا مستقبل ہونا چاہئے۔)

اسی سے ملتے جلتے مضمون کی تین آیتیں قرآن مجید میں ایک خاص اسلوب میں آئی ہیں اور ان کے جو ترجمے کئے گئے ہیں وہ توجہ طلب ہیں۔ 

وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُون۔ (الاعراف :۳۴)

لِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ فَلاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُون۔ (یونس:۴۹)

فَإِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُون۔ (النحل:۶۱)

ان آیتوں کے ترجمہ سے پہلے ایک بات واضح ہونا ضروری ہے کہ جب سفرکا متعین وقت آجاتا ہے تو اس سے پیچھے ہٹنے کا امکان تو تصور کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے آگے بڑھنے کا امکان ہی ناقابل تصور ہے۔ آگے بڑھنے کا امکان اسی وقت تک متصور ہے جب تک وقت متعین نہ آیا ہو، جب وقت متعین آگیا تو پھر تاخیر تو متصور ہوتی ہے تقدیم متصور نہیں ہوتی ہے۔

اس کے پیش نظر مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ایک اہم نکتہ کی نشان دہی فرمائی، وہ یہ کہ إِذَا جَاء أَجَلُہُمْ  کا جواب صرف لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً ہے، جبکہ وَلاَ یَسْتَقْدِمُون  جواب پر معطوف ہوکر جواب کا حصہ نہیں ہے، بلکہ اس پورے جملے کا تتمہ ہے۔ مطلب یہ کہ آیت میں دو باتیں کہی گئی ہیں ، ایک تو یہ کہ اجل کے آنے کے بعد تاخیر نہیں ہوسکتی، دوسرے یہ کہ اجل کے آنے سے پہلے تقدیم بھی نہیں ہوسکتی ہے۔ گویا اجل کے آنے سے تاخیر کا تو تعلق ہے ، لیکن تقدیم کا تعلق اجل کے آنے سے نہیں ہے۔

اس وضاحت کی روشنی میں ہم الگ الگ تینوں آیتوں کے ترجموں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُون۔ (الاعراف:۳۴)

’’ اور ہر امت کے لئے ایک مقررہ مدت ہے، تو جب ان کی مدت پوری ہوجائے گی تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے نہ آگے بڑھ سکیں گے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

’’ اور ہر گروہ کے لئے ایک میعاد معین ہے سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے‘‘۔(محمد جونا گڑھی)

لِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ فَلاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُون۔ (یونس:۴۹)

’’ ہر امت کے لئے ایک وقت مقرر ہے، جب ان کا وقت آجاتا ہے تو پھر نہ ایک گھڑی پیچھے ہوتے نہ آگے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’ ہر امت کے لیے مہلت کی ایک مدت ہے، جب یہ مدت پوری ہو جاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی‘‘۔(سید مودودی)

’’ ہر امت کے لیے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا ترجموں کے مقابلے میں فتح محمد جالندھری کا ذیل کا ترجمہ صحیح ہے۔

’’ ہر ایک امت کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی بھی دیر نہیں کرسکتے اور نہ جلدی کرسکتے ہیں‘‘۔(فتح محمد جالندھری)

فَإِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُون۔ (النحل:۶۱)

’’ تو جب ان کا وقت معین آجائے گا تو اس سے نہ وہ ایک ساعت پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

’’ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔(فتح محمد جالندھری)

’’ جب ان کا وہ وقت آجاتا ہے تو وہ ایک ساعت نہ پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے مذکورہ تینوں آیتوں کے ترجموں کی غلطی کو دور کرتے ہوئے اس طرح ترجمہ کیا ہے:

’’ جب ان کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بعد ایک گھڑی پیچھے نہیں ہوسکتے اور نہ پہلے جاسکتے ہیں‘‘۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(اپریل ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter