اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۲)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

(567)   وصیۃ لأزواجہم کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں وَصِیَّۃً لِأَزْوَاجِہِمْ کی تفسیر میں مشہور رائے یہ ہے کہ یہاں شوہر کی طرف سے وصیت مراد ہے یعنی شوہر کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کردے۔اس کے علاوہ مفسرین نے مجاہد کی رائے ذکر کی ہے کہ یہاں اللہ کی طرف سے وصیت مراد ہے۔ شوہر وصیت کرے یا نہ کرے، بیوہ عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک سال شوہر کے چھوڑے ہوئے گھر میں رہے اور شوہر کے اولیا اس کا خرچ ادا کریں۔ درج ذیل ترجمے مشہور تفسیر کے مطابق ہیں: 

وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِیَّۃً لِأَزْوَاجِہِمْ مَتَاعًا إِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ إِخْرَاجٍ۔ (البقرۃ: 240)

’’اور جو لوگ تم میں مرجاویں اور چھوڑ جاویں عورتیں وصیت کردیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک برس تک نہ نکال دینا‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’تم میں سے جو لوگ وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں، اُن کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور جو تم میں مریں اور بیبیاں چھوڑ جائیں، وہ اپنی عورتوں کے لیے وصیت کرجائیں سال بھر تک نان نفقہ دینے کی بے نکالے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کرجائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

سید قطب اور شیخ ابوزہرہ وغیرہ نے مجاہد کی رائے کو اختیار کیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے بھی یہی تھی، وہ ترجمہ کرتے ہیں:

’’تم میں سے جو لوگ وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑی ہوں، اُن کی بیویوں کے بارے میں وصیت کی جاتی ہے کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں‘‘۔

اس ترجمے کی رو سے شوہر وصیت کرے یا نہ کرے اللہ کی طرف سے بیوہ عورت کو ایک سال کی رہائش مع نان نفقہ کا یہ حق حاصل ہے۔ قرآن میں اللہ کے ساتھ وصیت کا لفظ آیا ہے، جیسے: وَصِیَّۃً مِنَ اللَّہِ (النساء: 12) اور: یُوصِیکُمُ اللَّہُ (النساء: 11)۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہر شوہر کو یہ موقع حاصل نہیں ہوتا ہے کہ وہ مرتے وقت وصیت کرسکے۔ اللہ تعالی نے اس حکم کو جس اہتمام اور تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے اس کا تقاضا تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسے حکم الٰہی سمجھ کربہرحال عمل پذیر ہونا چاہیے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے کئی احکام جن کی قرآن مجید میں بڑی تاکید آئی ہے، مسلمانوں کی زندگی میں وہ بالکل نظر نہیں آتے۔ ان میں سے ایک حکم یہ بھی ہے۔ 

(568)   وأن تعفوا کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں بعض مترجمین نے وَأَنْ تَعْفُوا کا مخاطب مردوں کو قرار دیا ہے۔ حالاں کہ اس سے پہلے اسی آیت میں مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف سے معاف کرنے کی بات آئی ہے۔ درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دونوں کی طرف سے معاف کرنے کے ذکر کے بعد یہاں تمام اہل اسلام (مرد و عورت) کو معاف کرنے کی فضیلت کی طرف متوجہ کیا گیاہے۔ 

وَإِنْ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی۔ (البقرۃ: 237)

’’اور اگر تم نے عورتوں کو بے چھوئے طلاق دے دی اور ان کے لیے کچھ مہر مقرر کرچکے تھے تو جتنا ٹھہرا تھا اس کا آدھا واجب ہے مگر یہ کہ عورتیں کچھ چھوڑدیں یا وہ زیاد ہ دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور اے مرَدو تمہارا زیادہ دینا پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور تم مرد درگزر کرو تو قریب ہے پرہیزگاری سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور اگر تم مرد لوگ اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

’’تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

(569)   ولا تنسوا الفضل بینکم کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں فضل سے مراد کیا ہے؟ 

عربی میں فضل کا مطلب فضیلت یعنی بڑائی اور بزرگی بھی ہوتا ہے اور فضل کا مطلب احسان و کرم بھی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں فضل دونوں معنوں میں آیا ہے لیکن بڑی کثرت کے ساتھ احسان و کرم کے معنی میں آیا ہے۔ درج ذیل آیت میں (ہمارے علم کی حد تک) تمام مفسرین نے فضل سے احسان و کرم مراد لیا ہے، لیکن نہ جانے کیسے بعض مترجمین نے فضل کا ترجمہ بڑائی اور بزرگی کردیا۔ یہاں یہ ترجمہ بے محل معلوم ہوتا ہے۔ سیاق کلام ایک دوسرے کے ساتھ رعایت کرنے، نرمی برتنے اور فراخ دلی سے کام لینے کا ہے، نہ کہ اپنی یا دوسرے کی فضیلت کو یاد کرنے کا۔

وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ۔ (البقرۃ: 237)

’’اور نہ بھلادو بڑائی رکھنے آپس میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’اور تمہارے درمیان ایک کو دوسرے پر جو فضیلت ہے اس کو نہ بھولو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمے مناسب معلوم ہوتے ہیں:

’’آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور آپس میں ایک دوسرے پر احسان کو بُھلا نہ دو‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور آپس میں بھلائی کرنے کو فراموش نہ کرنا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

جس طرح وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی کا مخاطب مرد و عورت سبھی ہیں، اسی طرح وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ کا مخاطب بھی مرد و عورت سبھی ہیں۔

(570)   استبشر کا مطلب

عربی لغت کے ماہرین کے مطابق استبشر کا مطلب ہے خوش ہونا۔ لسان العرب میں ہے: اسْتَبْشَر: فَرِحَ۔

استبشر باب استفعال سے ہے، لیکن باب استفعال میں ہمیشہ طلب کا مفہوم نہیں ہوتا۔ بلکہ فعل میں زور پیدا کرنا بھی اس باب کی ایک خاصیت ہے۔ قاضی ابن عطیۃ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: یَسْتَبْشِرُونَ معناہ: یسرون ویفرحون، ولیست استفعل فی ہذا الموضع بمعنی طلب البشارۃ، بل ہی بمعنی استغنی اللہ واستمجد المرخ والعفار۔ (المحرر الوجیز)

قرآن مجید میں یہ لفظ متعدد جگہوں پر آیا ہے۔ سبھی جگہوں پر اس کا ترجمہ خوش ہونا اور خوشی منانا کیا گیا ہے۔ البتہ صاحب تدبر نے تین جگہوں پر اس کا ترجمہ ’’بشارت حاصل کرنا‘‘ کیا ہے:

فَرِحِینَ بِمَا آتَاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِینَ لَمْ یَلْحَقُوا بِہِمْ مِنْ خَلْفِہِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ۔ یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِنَ اللَّہِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِینَ۔ (آل عمران: 170، 171)

’’فرحاں و شاداں ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل میں سے ان کو دے رکھا ہے اور ان لوگوں کے باب میں بشارت حاصل کر رہے ہیں جو ان کے اَخلاف میں سے اب تک ان سے نہیں ملے ہیں کہ ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ بشارت حاصل کر رہے ہیں اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کی اور اس بات کی کہ اللہ اہل ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’جو کچھ خدا نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں۔ اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور (شہید ہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ (قیامت کے دن) ان کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔ اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں۔ اور اس سے کہ خدا مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ۔ (التوبۃ: 124)

’’وہ جو سچ مچ ایمان لائے ہیں وہ ان کے لیے ایمان میں اضافہ کرتی ہے اور وہ اس سے بشارت حاصل کرتے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’سو جو ایمان والے ہیں ان کا ایمان تو زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

جب کہ دیگر مقامات پر انھوں نے اس لفظ کا ترجمہ خوش ہونا کیا ہے۔

فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمُ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ۔ (التوبۃ: 111)

’’سو تم اس سودے پر جو تم نے اس سے کیا ہے خوشی مناؤ‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

 وَجَاءَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ یَسْتَبْشِرُونَ۔ (الحجر: 67)

’’اور شہر والے خوش خوش آپہنچے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

فَإِذَا أَصَابَ بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ إِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ۔ (الروم: 48)

’’پس جب وہ اس کو نازل کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے تو وہ یکایک خوش ہوجاتے ہیں‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

ضَاحِکَۃٌ مُسْتَبْشِرَۃٌ۔ (عبس: 39)

’’ہشاش بشاش!‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

قرآنی استعمالات اور ماہرین لغت کی تصریحات کی روشنی میں راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ تمام مقامات پر استبشر کا ترجمہ خوش ہونا کیا جائے۔ 

(571)   رءوف کا ترجمہ

درج ذیل ترجمے میں رَءُوفٌ کا ترجمہ ’نہایت خیر خواہ‘ لغت کے مطابق نہیں ہے۔ 

وَاللَّہُ رَءوفٌ بِالْعِبَادِ۔ (آل عمران: 30)

’’اور وہ اپنے بندوں کا نہایت خیر خواہ ہے‘‘۔ (سید مودودی)

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

’’اور خدا اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

دیگر مقامات پر صاحب تفہیم نے بھی یہی ترجمہ کیا۔

إِنَّ اللَّہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِیمٌ۔ (لبقرۃ: 143)

’’یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

(572)   القصص الحق کا ترجمہ

قَصَص (قاف پر زبر) ہو تو اس کا معنی قصہ گوئی خبر گوئی بھی ہوتا ہے اور خود قصہ یا خبر کے لیے بھی یہ لفظ آتا ہے۔ جب کہ قِصَص (قاف کے نیچے زیر) قصۃ کی جمع ہے یعنی قصے اور خبریں۔  

لسان العرب میں وضاحت ہے: والقِصّۃ: الْخَبَرُ وَہُوَ القَصَصُ۔ وَقَصَّ عَلَیَّ خبَرہ یقُصُّہ قَصّاً وقَصَصاً: أَوْرَدَہ۔ والقَصَصُ: الخبرُ المَقْصوص، بِالْفَتْحِ، وُضِعَ مَوْضِعَ الْمَصْدَرِ حَتَّی صَارَ أَغْلَبَ عَلَیْہِ۔ والقِصَص، بِکَسْرِ الْقَافِ: جَمْعُ القِصّۃ الَّتِی تُکْتَبُ۔

درج ذیل آیت میں یا تو ترجمہ ہوگا صحیح قصہ یا صحیح بیان واقعہ۔ جمع کے صیغے میں ’’صحیح واقعات‘‘ ترجمہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ۔ (آل عمران: 62)

’’یہ سب حقیقی واقعات ہیں‘‘۔ (ذیشان جوادی)

’’یہ تمام بیانات صحیح ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’یہ بالکل صحیح واقعات ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

درج بالا تینوں ترجموں میں یہ کم زوری موجود ہے، جب کہ ذیل کے ترجمے مناسب ہیں:

’’بیشک یہی سچا بیان ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’یہی بیشک سچا بیان ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’یہ بالکل صحیح بیان واقعہ ہے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(573)   اشتروا الکفر بالإیمان کا ترجمہ

إِنَّ الَّذِینَ اشْتَرَوُا الْکُفْرَ بِالْإِیمَانِ۔ (آل عمران: 177)

’’بیشک جنہوں نے ایمان سے کفر کو بدلا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجمے میں کم زوری ہے۔ یہاں کفر کو ایمان سے بدلنے کی بات نہیں ہے۔ بلکہ ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کرنے کی بات ہے۔

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

’’جو لوگ ایمان کو چھوڑ کر کفر کے خریدار بنے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

(574)   ببعض ما کسبوا کا ترجمہ

إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوا۔ (آل عمران: 155)

’’تم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے اُن کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے اُن کے قدم ڈگمگا دیے تھے‘‘۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمے میں کسبوا کا ترجمہ’’ کمزوریوں‘‘ کیا گیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ کم زوری کے لیے کسب کا لفظ نہیں آئے گا۔ درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

’’بیشک وہ جو تم میں سے پھرگئے جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں انہیں شیطان ہی نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے باعث‘‘۔ (احمد رضا خان)

(575)   سنن کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں سنن کے مختلف ترجمے کیے گئے ہیں:

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ۔ (آل عمران: 137)

’’تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’تم سے پہلے بہت سی مثالیں گزر چکی ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’تم سے پہلے کچھ طریقے برتاؤ میں آچکے ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

آخر الذکر ترجمے میں سنن کا ترجمہ ’’دور‘‘ کیا گیا ہے۔ لغت کی رو سے اس کی گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔

(576)   إصرا کما حملتہ کا ترجمہ:

درج ذیل آیت میں یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ وہ خاص بوجھ جو پہلے کے لوگوں پر ڈالا تھا وہ ہم پر نہ ڈال۔ بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ پہلے کے لوگوں نے تو بوجھ اٹھائے تھے مگر ہمارے اوپر کوئی بوجھ نہ ڈال۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:

وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا۔ (البقرۃ: 286)

’’ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے‘‘۔ (سید مودودی)

’’ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا ترجموں سے یہ بات نکلتی ہے کہ کسی خاص بوجھ کو نہ ڈالنے کی دعا کی جارہی ہے۔ 

 ’’اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’خدایا ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا پہلے والی امتوں پر ڈالا گیا ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)

’’ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

درج بالا تینوں ترجموں میں بھی خاص نوعیت والے بوجھ کا مفہوم نکلتا ہے۔

درج ذیل ترجمہ مناسب معلوم ہوتا ہے:

’’اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا‘‘۔ (احمد رضا خان)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

’’ہم پر اس طرح بوجھ نہ ڈال، جس طرح تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا‘‘۔

درج ذیل ترجمے میں اصر کا ترجمہ حکم کیا گیا ہے۔  اصر کی تفسیر میں تو یہ بات کہی جاسکتی ہے لیکن  اصر کا ترجمہ حکم کرنا درست نہیں ہے۔

’’ہم پر کوئی سخت حکم نہ بھیجئے جیسے ہم سے پہلے لوگوں پر آپ نے بھیجے تھے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

(577)   إلی أجلہ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں إِلَی أَجَلِہِ کا ترجمہ کرنے میں لوگوں کو دشواری پیش آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ إِلَی کا مشہور معنی ’’تک‘‘ ہے لیکن یہاں اس معنی سے بات واضح نہیں ہوتی ہے۔ البتہ إلی معیت کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس جملے میں وہ معنی لینے سے مفہوم بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:

وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَکْتُبُوہُ صَغِیرًا أَوْ کَبِیرًا إِلَی أَجَلِہِ۔ (البقرۃ: 282)

’’اور کاہلی نہ کرو اس کے لکھنے سے چھوٹا ہو یا بڑا اس کے وعدے تک‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور اسے بھاری نہ جانو کہ دین چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک لکھت کرلو ‘‘۔(احمد رضا خان)

’’اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری، إِلَی أَجَلِہِ کا ترجمہ چھوٹ گیا۔)

’’اور خبردار لکھا پڑھی سے ناگواری کا اظہار نہ کرنا چاہے قرض چھوٹا ہو یا بڑا مّدت معین ہونی چاہیے‘‘۔ (ذیشان جوادی)

’’اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جس کی میعاد مقرر ہے۔ اس کے لکھنے میں سہل انگیزی نہ کرو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

’’اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

موخر الذکر تینوں ترجموں میں إِلَی أَجَلِہِ کا ترجمہ اصل الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔ ’’مدت متعین ہونی چاہیے یا ’’مدت مقرر ہے‘‘، الفاظ سے آزاد ترجمہ ہے۔

إِلَی أَجَلِہِ کا درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:    

’’معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعیین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو‘‘۔ (سید مودودی)

یعنی قرض چھوٹا ہو یا بڑا، اسے اس کی طے شدہ مدت ادائیگی کے ساتھ لکھو، تاکہ بعد میں کوئی نزاع پیدا نہ ہو۔ قرض کے نظام کو منضبط کرنے کے لیے یہ بہت اہم ہدایت ہے۔  امت میں اس قرآنی حکم کے سلسلے میں بھی عام تساہل اور لاپرواہی نظر آتی ہے۔

(578)   سنۃ ولا نوم کا ترجمہ

سِنَۃٌ  کا ترجمہ اونگھ اور نَوْمٌ کا ترجمہ نیند ہے۔ ترجمے کو اسی ترتیب کے ساتھ ہونا چاہیے۔ لیکن بعض مترجمین سے تسامح ہوا اور ترتیب الٹ گئی۔ نیچے درج ترجمے دیکھیں:

لَا تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوْمٌ۔ (البقرۃ: 255)

’’وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’ اسے نہ نیند آتی ہے نہ اُونگھ‘‘۔ (ذیشان جوادی)

درج ذیل ترتیب درست ہے:

’’اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند‘‘۔ (احمد رضا خان)


قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۳

مسئلہ رؤیتِ ہلال کے چند توجہ طلب پہلو
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رویتِ ہلال میں اختلاف پر شرمندگی کا حل اور قانون سازی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مسئلہ رؤیتِ ہلال، فقہ حنفی کی روشنی میں
مولانا مفتی محمد ایوب سعدی

مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی پر اعتراضات کا جواب
اویس حفیظ

نظام ہائے کیلنڈر: ایک جائزہ
ترجمان

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۲)
ڈاکٹر محی الدین غازی

باجماعت نماز، قرآن و سنت کی روشنی میں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۱)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

فحاشی و عریانی اور لباس و نظر کا نفسیاتی مطالعہ!
محمد عرفان ندیم

مسجد اقصیٰ کے ایک مسافر کی تڑپ
عقیل دانش

ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وہائٹ ہاؤس میں: مشرق وسطیٰ اور دنیا پر اس کے متوقع اثرات؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطین کی جنگ بندی اور پیکا ایکٹ کی منظوری
مولانا فضل الرحمٰن

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی گوجرانوالا آمد
مولانا حافظ خرم شہزاد

پاکستان شریعت کونسل کی تشکیلِ نو
پروفیسر حافظ منیر احمد

Pakistan and Turkiye: The Center of Hope for the Muslim Ummah
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

حضرت لیلٰی غفاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

شورائیت اور ملوکیت
ڈاکٹر عرفان شہزاد

اصول سازى اور غامدى صاحب
حسان بن علی

جب احراری اور مسلم لیگی اتحادی بنے
عامر ریاض

غزہ میں رمضان: تباہی اور غیر متزلزل ایمان
اسرا ابو قمر

مولانا حامد الحق حقانی کی المناک شہادت
مولانا عبد الرؤف فاروقی

فلسطین کے سوال کا حل اور پاک افغان تعلقات کی ازسرِنو تعریف
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter