(169) فتحا قریبا سے مراد
سورة الفتح میں ایک بار فتحا مبینا اور دو بار فتحا قریبا آیا ہے، عام طور سے لوگوں نے اس فتح سے صلح حدیبیہ کو مراد لیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ تینوں جگہ فتح مکہ مراد ہے۔ فتحا قریبا کا مطلب وہ فتح نہیں ہے جو حاصل ہوگئی ہے، بلکہ وہ فتح ہے جو قریب ہے یعنی جلد ہی حاصل ہوگی۔ رہی صلح حدیبیہ تو وہ فتح نہیں بلکہ فتح مکہ کا پیش خیمہ تھی۔ اس وضاحت کی رو سے آیت نمبر (1)، آیت نمبر (18) اور آیت نمبر (27) تینوں آیتوں میں فتح مکہ کی بشارت دی گئی ہے۔
واثابھم فتحا قریبا (18) کا ایک ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:
“اور ان کو ایک لگے ہاتھ فتح دے دی” (اشرف علی تھانوی)
جب کہ دوسرا ترجمہ یہ ہے:
“اور ان کو فتح دی جو قریب ہے” (امانت اللہ اصلاحی)
دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے ترجمے کے مطابق صلح حدیبیہ ہی فتح ہے جو مل چکی ہے، دوسرے ترجمے کے مطابق فتح کی بشارت صلح حدیبیہ کے موقع پر مل گئی ہے، لیکن فتح جلد ہی ملنے والی ہے۔ یعنی صلح حدیبیہ فتح مکہ کا پیش خیمہ ہے، اور فتح مکہ اب قریب ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اہل ایمان کو سب سے زیادہ انتظار فتح مکہ کا تھا، باقی تو سب درمیانی مرحلے تھے۔
(170) ھذہ اور اخری کا ترجمہ
وَعَدَکُمُ اللَّہُ مَغَانِمَ کَثِیرَةً تَاخُذُونَہَا فَعَجَّلَ لَکُم ہَذِہِ وَکَفَّ اَیدِیَ النَّاسِ عَنکُم وَلِتَکُونَ آیَةً لِلمُومِنِینَ وَیَہدِیَکُم صِرَاطًا مُستَقِیمًا۔ وَاُخرَی لَم تَقدِرُوا عَلَیہَا قَد اَحَاطَ اللَّہُ بِہَا وَکَانَ اللَّہُ عَلَی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرًا۔ (الفتح:20۔21)
آیت نمبر (20) میں فعجل لکم ھذہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لوگوں نے ھذہ کا ترجمہ فتح یا غنیمت کیا ہے، جبکہ یہ دونوں باتیں مراد لینا درست نہیں ہے، فتح اس وقت تک ہوئی نہیں تھی، اور غنیمت کا بھی وعدہ ہوا تھا، ابھی ملی نہیں تھی۔ ھذہ کا ترجمہ تو “یہ” ہوگا، اور اس سے مراد صلح ہے۔ آیت نمبر (21) میں اخری کا ترجمہ بہت سے لوگوں نے غنیمتیں کیا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے، اس کا ترجمہ “دوسری چیز” ہوگا اور اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ کیونکہ جس سیاق میں اور جس اہتمام سے اس کا تذکرہ ہے اس سے فتح مکہ مراد لینا زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔
اس تمہیدی وضاحت کے بعد درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
“اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے۔ اِس کے علاوہ دوسری اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے ” (سید مودودی)
“خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا کہ تم ان کو حاصل کرو گے سو اس نے غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے۔ غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لیے (خدا کی) قدرت کا نمونہ ہو اور وہ تم کو سیدھے رستے پر چلائے،اور اَور (غنیمتیں دیں) جن پر تم قدرت نہیں رکھتے تھے (اور) وہ خدا ہی کی قدرت میں تھیں۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے” (فتح محمد جالندھری)
“اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت ساری غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پس یہ تو تمہیں جلدی ہی عطا فرما دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے، تاکہ مومنوں کے لئے یہ ایک نشانی ہو جائے اور (تاکہ) وہ تمہیں سیدھی راہ چلائے۔ اور تمہیں اور (غنیمتیں) بھی دے جن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے قابو میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے” (محمد جوناگڑھی)
“وعدہ کیا ہے بہت سی غنیمتوں کا کہ تم لو گے تو تمہیں یہ جلد عطا فرمادی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے اور اس لیے کہ ایمان والوں کے لیے نشانی ہو اور تمہیں سیدھی راہ دکھائے۔ اور ایک اور جو تمہارے بل (بس) کی نہ تھی وہ اللہ کے قبضہ میں ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔” (احمد رضا خان)
آخری ترجمے میں مذکورہ غلطیاں نہیں ہیں۔
شاہ عبدالقادر نے درج ذیل ترجمے میں آخری سے فتح مراد لیا ہے، اور یہ درست ہے۔
“اور ایک فتح اور جو تمہارے بس میں نہ آئی، وہ اللہ کے قابو میں ہے”
(171) اظفرکم علیھم کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں اظفرکم علیھم کا ترجمہ عام طور سے فتح یاب کرنا اور غلبہ عطا کرنا کیا گیا ہے، اس سے آیت کا مفہوم سمجھنے میں کافی دشواری پیش آتی ہے، بعض لوگ اس غلبے سے ایک چھوٹی سی مہم کی طرف اشارہ مراد لیتے ہیں، اور بعض لوگ فتح مکہ مراد لیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی۔ لیکن ان دونوں ہی تاویلوں سے آیت کا مفہوم واضح ہوکر سامنے نہیں آتا ہے، اور آیت اپنے سیاق سے ہم آہنگ بھی نہیں لگتی ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں اظفرکم علیھم کا ترجمہ ہے انہیں تمہارے بس میں کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے بس میں اور تمہاری زد میں تھے، اگر جنگ ہوتی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوتا اور تمہاری فتح یقینی تھی، اس کے باوجود اللہ نے جنگ سے دونوں کو روک دیا۔ ظفر کا اصل مطلب ناخن ہے، اور جب شکاری پرندہ اپنے ناخنوں سے شکار کو گرفت میں لے لیتا ہے، تو اس کے لئے اس تعبیر کا استعمال ہوتا ہے۔ گویا اس لفظ میں گرفت میں لینا اور قابو میں کرلینا شامل ہے۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والظفر، الفوز۔ واصلہ من ظفر علیہ انشب ظفرہ فیہ۔ (المفردات، راغب اصفہانی)
اس مفہوم کو اختیار کرنے سے آیت پورے سیاق سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے، اور آیت کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے، کسی طرح کا تکلف نہیں رہ جاتا ہے۔ اس وضاحت کی رو سے ذیل کے ترجموں میں آخری ترجمہ درست ہے۔
وَھُوَ الَّذِی کَفَّ اَیدِیَہُم عَنکُم وَایدِیَکُم عَنہُم بِبَطنِ مَکَّةَ مِن بَعدِ ان اظفَرَکُم عَلَیہِم۔ (الفتح: 24)
“وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں اُن کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیے، حالانکہ وہ اُن پر تمہیں غلبہ عطا کر چکا تھا ۔” (سید مودودی)
“اور وہی تو ہے جس نے تم کو ان (کافروں) پر فتحیاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے۔” (فتح محمد جالندھری)
“وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا” (محمد جوناگڑھی)
“اور وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے وادی مکہ میں بعد اس کے کہ تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا ” (احمد رضا خان)
“اور وہ ایسا ہے کہ اس نے ان کے ہاتھ تم سے (یعنی تمہارے قتل سے ) اور تمہارے ہاتھ ان (کے قتل سے) عین مکہ (کے قریب) میں روک دئے بعد اس کے کہ تم کو ان پر قابو دے دیا تھا” (اشرف علی تھانوی)
آخری دونوں ترجموں میں اظفرکم علیھم کا مناسب ترجمہ کیا گیا ہے۔
(172) لم تعلموھم کا تعلق کس سے؟
ذیل کی آیت میں لم تعلموھم کا تعلق رجال سے ہے، یعنی مکہ میں موجود مومن مرد اور مومن عورتوں کو تم لوگ نہیں جانتے ہو۔ نہ کہ اَن تَطَئُوہُم سے۔ اور بغیر علم کا تعلق فتصیبکم سے ہے۔ اس لیے یہ ترجمہ کرنا کہ تم لاعلمی میں ان کو کچل دو گے، درست نہیں ہے۔ کچلنے کا عمل لاعلمی میں نہیں ہوگا، البتہ اس کچلنے کے عمل سے جو عار لاحق ہوگا وہ لاعلمی میں لاحق ہوگا، کیوں کہ اہل ایمان ان مومن مردوں اور مومن عورتوں سے واقف نہیں تھے جو دل میں ایمان لائے ہوئے تھے۔
حاصل کلام یہ ہے اَن تَطَئُوھُم یعنی کچلنے کے عمل کا تعلق لاعلمی سے نہیں ہے۔
اس روشنی میں ذیل میں درج ترجمے دیکھیں:
وَلَولَا رِجَال مُومِنُونَ وَنِسَاء مومِنَات لَم تَعلَمُوہُم اَن تَطَئُوہُم فَتُصِیبَکُم مِنہُم مَعَرَّۃ بِغَیرِ عِلمٍ لِیُدخِلَ اللَّہُ فِی رَحمَتِہِ مَن یَشَاء لَو تَزَیَّلُوا لَعَذَّبنَا الَّذِینَ کَفَرُوا مِنھُم عَذَابًا الِیمًا۔ (الفتح: 25)
“اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے ” (سید مودودی)
“اور اگر ایسے مومن مرد اور مومنہ عورتیں نہ ہوتے جن کو تم لاعلمی میں روند ڈالتے، پس ان کے باعث تم پر لاعلمی میں الزام آتا (تو ہم جنگ کی اجازت دے دیتے۔ لیکن اللہ نے یہ اجازت اس لئے نہ دی) کہ جن کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے۔ اور اگر وہ لوگ الگ ہوگئے ہوتے تو ہم ان لوگوں کو ان میں سے دردناک عذاب دیتے جنھوں نے کفر کیا” (امین احسن اصلاحی)
“اور اگر صاحبِ ایمان مرد اور باایمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نادانستگی میں انہیں بھی پامال کر ڈالنے کا خطرہ تھا اور اس طرح تمہیں لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچ جاتا تو تمہیں روکا بھی نہ جاتا - روکا اس لئے تاکہ خدا جسے چاہے اسے اپنی رحمت میں داخل کرلے کہ یہ لوگ الگ ہوجاتے تو ہم کفّار کو دردناک عذاب میں مبتلا کردیتے” (جوادی)
اوپر کے تینوں ترجموں میں مذکورہ غلطی پائی جاتی ہے۔ جب کہ ذیل کے ترجموں میں یہ غلطی نہیں ہے۔
“اور اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم ان کو پامال کر دیتے تو تم کو ان کی طرف سے بے خبری میں نقصان پہنچ جاتا۔ (تو بھی تمہارے ہاتھ سے فتح ہوجاتی مگر تاخیر) اس لئے (ہوئی) کہ خدا اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔ اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم دکھ دینے والا عذاب دیتے ” (فتح محمد جالندھری)
“اور اگر ایسے (بہت سے) مسلمان مرد اور (بہت سی) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بے خبری میں ضرر پہنچتا، (تو تمہیں لڑنے کی اجازت دے دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا) تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو درد ناک سزا دیتے ” ۔(محمد جوناگڑھی)
“اور اگر یہ نہ ہوتا کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں جن کی تمہیں خبر نہیں کہیں تم انہیں روند ڈالو تو تمہیں ان کی طرف سے انجانی میں کوئی مکروہ پہنچے تو ہم تمہیں ان کی قتال کی اجازت دیتے ان کا یہ بچاؤ اس لیے ہے کہ اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے جسے چاہے، اگر وہ جدا ہوجاتے تو ہم ضرور ان میں کے کافروں کو دردناک عذاب دیتے ۔” (احمد رضا خان)
(173) معرۃ کا ترجمہ
مذکورہ بالا ترجموں میں لفظ معرۃ کا ترجمہ زیادہ تر نقصان، ضرر اور مکروہ کیا گیا ہے، معرۃ دراصل عرة سے ہے جس کے معنی خارش کے ہیں۔ لفظ کی اصل اور قرآن میں اس لفظ کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ معرۃ کا مطلب وہ ضرر یا نقصان ہے جو عزت کو داغ دار کرنے والا ہو۔
ماہر لغت علامہ جوہری لکھتے ہیں: وفلان عُرَّة وعَارور وعَارورة، ای قَذِر۔ وہو یّعُرُّ قومہ، ای یدخل علیہم مکروہاً یلطخہم بہ۔ (الصحاح) گویا اس لفظ کے اندر گندگی کا اور دامن کو داغ دار کرنے کا مفہوم ہے۔
اس لیے یہاں عار پہونچنے کا ترجمہ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ زیر نظر آیت کا درج ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
“اور اگر ایسے مومن مرد اور مومنہ عورتیں نہ ہوتے جن کو تم نہیں جانتے تھے، تم انہیں روند ڈالتے تو تم کو لاعلمی میں عار لاحق ہوجاتا ان کی وجہ سے، اللہ کو اپنی رحمت میں داخل کرنا تھا جسے وہ چاہے، اگر وہ لوگ الگ ہوتے تو ہم ان لوگوں کو دردناک عذاب دیتے جنھوں نے کفر کیا”۔ (امانت اللہ اصلاحی)
آیت (27) کا ترجمہ
لَقَد صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّویَا بِالحَقِّ لَتَدخُلُنَّ المَسجِدَ الحَرَامَ اِن شَاء اللَّہُ آمِنِینَ مُحَلِّقِینَ رُءوسَکُم وَمُقَصِّرِینَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَم تَعلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِکَ فَتحًا قَرِیبًا۔ (الفتح: 27)
(174) بالحق کا ترجمہ
اس آیت میں پہلا قابل غور مقام ہے:
لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق
اس کا ترجمہ حسب ذیل کیا گیا ہے:
“اللہ نے سچ دکھایا اپنے رسول کو خواب” (شاہ عبد القادر)
“تحقیق سچ دکھلایا اللہ نے رسول اپنے کو خواب ساتھ سچ کے” (شاہ رفیع الدین)
“فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا” (سید مودودی)
“بیشک اللہ نے سچ کردیا اپنے رسول کا سچا خواب ” (احمد رضا خان)
“بے شک خدا نے اپنے پیغمبر کو سچا (اور) صحیح خواب دکھایا” (فتح محمد جالندھری)
“اللہ نے اپنے رسول کو مبنی برحقیقت رو یا دکھائی” (امین احسن اصلاحی)
اس جملے میں صدق بھی ہے اور بالحق بھی ہے، عام طور سے ایساترجمہ نہیں کیا جاسکا، جس سے دونوں لفظوں کا حق ادا ہوسکے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں بالحق کا مطلب ہے خاص مقصد سے، قرآن کے اور بہت سے مقامات پر یہ لفظ اس مفہوم میں بہت واضح طور سے آیا ہے، جیسے:
مَا خَلَقنَا السَّمَاوَاتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَہُمَا اِلَّا بِالحَق۔ (الاحقاف: 3)
“ہم نے آسمانوں اور زمین کو نہیں پیدا کیا ہے مگر ایک خاص مقصد سے۔”
اس طرح زیر غور مقام کا ترجمہ ہوگا: “اللہ نے اپنے رسول کو ایک خاص مقصد سے سچا خواب دکھایا”۔ اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ صدق کا ترجمہ بھی ہوگیا اور بالحق کا ترجمہ بھی ہوگیا، دونوں کی الگ الگ معنویت بھی واضح ہوگئی، اور کسی قسم کا اشکال باقی نہیں رہا، اس طرح آیت کی بھرپور ترجمانی ہوگئی۔
(175) فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِکَ فَتحًا قَرِیبًا کا ترجمہ
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جعل کا ترجمہ کیا ہو۔ عام طور سے لوگوں نے عطا کرنے اور نوازنے کا ترجمہ کیا گیا ہے، جعل کا مطلب رکھنا اور مقرر کردینا لفظ سے زیادہ قریب ہے۔
اس سلسلے میں غور طلب امر یہ ہے کہ اس خواب سے مراد مکہ میں کون سا داخلہ مراد ہے۔ اگر صلح حدیبیہ کے بعد والا عمرہ مراد لیا جائے تو اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمرے میں تو مسجد حرام میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے کے بعد گویا وہاں سے نکل کر بال کٹوائے جاتے ہیں، ناکہ سر منڈائے اور بال ترشوائے داخل ہوتے ہیں، ایسا تو حج میں ہوتا ہے، کہ حج کے بعد قربانی کرکے اور سر منڈواکر مسجد حرام میں طواف کے لیے داخل ہوتے ہیں۔ اس بنا پر مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ خواب کا یہ وعدہ حجة الوداع میں پورا ہوا۔
وہ مذکورہ جملے کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں: “اس سے پہلے ایک فتح رکھ دی جو قریب ہے” ۔ یعنی خواب کی تعبیر سامنے آنے سے پہلے یعنی حجة الوداع سے پہلے ہی فتح مکہ کا ہونا مقرر فرمادیا۔
درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:
“اس لیے وہ خواب پورا ہونے سے پہلے اُس نے یہ قریبی فتح تم کو عطا فرما دی” (سید مودودی، خواب پورا ہونے سے پہلے کیسے ؟)
“تو اس سے پہلے اس نے تمہیں ایک فتح قریب سے نوازا” (امین احسن اصلاحی)
“سو اس نے اس سے پہلے ہی جلد فتح کرادی ” (فتح محمد جالندھری)
“پھر اس سے پہلے لگتے ہاتھ ایک فتح دے دی” (اشرف علی تھانوی)
“پھر ٹھیرادی اس سے پرے ایک فتح نزدیک ” (شاہ عبدالقادر)
“تو اس سے پہلے ایک نزدیک آنے والی فتح رکھی” (احمد رضا خان)
آخری دونوں ترجمے مناسب ہیں۔دراصل فتح قریب سے صلح حدیبیہ مراد لینے کی وجہ سے لوگوں کو اس سیاق کی آیتوں کو سمجھنے میں دشواری ہوئی ہے۔