اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۸)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(464) إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا

إِذَا فجائیہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کے بعد والی بات اس سے پہلے والی بات کے فورًا بعد پیش آئے۔ البتہ اس بات میں تحیر کا پہلو غالب رہتا ہے۔ درج ذیل آیت میں بھی إِذَا کا ترجمہ ’فورًا‘ موزوں نہیں ہوگا۔ یعنی یہ بات تو حیرت انگیز طور پر افسوس ناک ہے کہ لوگ تکلیف سے نجات پاکر جب اللہ کی رحمت سے ہم کنار ہوتے ہیں تو شکر گزار بننے کی بجائے اللہ کی آیتوں میں چال بازیاں شروع کردیتے ہیں۔ لیکن یہ بات اس لفظ میں شامل نہیں ہے کہ وہ یہ کام فوراً کرتے ہیں۔ کچھ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً‌ مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُمْ إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا قُلِ اللَّہُ أَسْرَعُ مَکْرًا إِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ۔(یونس: 21)

”لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ان سے کہو،اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری سب مکاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں“۔ (سید مودودی، إِنَّ رُسُلَنَا کا ترجمہ ہوگا ہمارے فرشتے۔ إِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ مقولہ کا حصہ نہیں بلکہ مستقل جملہ ہے۔)

”اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے، بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جب تکلیف پہنچنے کے بعد ہم نے لوگوں کو ذرا رحمت کا مزہ چکھادیا تو فوراً ہماری آیتوں میں مکاری کرنے لگے تو آپ کہہ دیجئے کہ خدا تم سے تیز تر تدبیریں کرنے والا ہے اور ہمارے نمائندے تمہارے مکر کو برابر لکھ رہے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

”اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں (فتح محمد جالندھری، أسرع مکرا کا ترجمہ ہوگا حیلہ کرنے میں تیز تر ہے، نہ کہ جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ تیز رفتار ہونے اور جلدی کرنے میں فرق ہے۔)

بہت سے لوگوں نے أَسْرَعُ مَکْرًا کا ترجمہ ”تم سے تیز تر چال چلنے والا“ کیا ہے، یہاں ’تم سے‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ لفظ کی رو سے ’تیز تر‘ کافی ہے۔

 (465) ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ

لغت میں ذریۃ کا مطلب اولاد بیان کیا گیا ہے۔ ان کا نوجوان ہونا ضروری نہیں ہے۔کسی قوم کے افراد پر ذریت کا اطلاق ہوتا ہے۔  قرآن کے استعمالات کو دیکھیں تو کہیں یہ لفظ بالکل چھوٹے بچوں کے لیے آیا ہے، جیسے: وَلَہُ ذُرِّیَّةً‌ ضُعَفَاءُ۔ (البقرۃ: 266) اور کہیں نسل کے لیے جس میں سب شامل ہوتے ہیں، جیسے: کَمَا أَنْشَأَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ۔ (الانعام: 133)

درج ذیل آیت میں غالباً زمخشری کی تفسیر سے متأثر ہوکر بعض لوگوں نے ذریۃ کا ترجمہ نوجوان کردیا ہے۔ جو تفسیری اضافہ تو ہوسکتا ہے، لیکن لفظ کا موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ کا ترجمہ ہوگا ’اس کی قوم کے کچھ افراد“۔

فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَءِہِمْ أَنْ یَفْتِنَہُمْ۔(یونس: 83)

”(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر بر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا“۔ (سید مودودی، اس ترجمے میں عَلَی خَوْفٍ کا ترجمہ ’ڈر سے‘ درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا: ’ڈر کے باوجود‘)

”تو موسی کی بات نہ مانی مگر اس کی قوم کے تھوڑے سے نوجوانوں نے، ڈرتے ہوئے فرعون اور اپنے بڑوں سے کہ مبادا وہ ان کو کسی فتنہ میں ڈال دے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے مگر اس کی قوم کی اولاد سے کچھ لوگ فرعون اور اس کے درباریوں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں انہیں ہٹنے پر مجبور نہ کردیں“۔ (احمد رضا خان، ’قوم کی اولاد سے کچھ لوگ‘ سے بہتر ہے ’قوم کے کچھ لوگ‘)

”تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا۔ مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے“۔ (فتح محمد جالندھری، ذریۃ کا ترجمہ لڑکے نہیں بلکہ لوگ کرنا چاہیے)

”پھر بھی موسٰی پر ایمان نہ لائے مگر ان کی قوم کی ایک نسل اور وہ بھی فرعون اور اس کی جماعت کے خوف کے ساتھ کہ کہیں وہ کسی آزمائش میں نہ مبتلا کردے“۔ (ذیشان جوادی، یہاں ذریۃ کے لیے ’نسل‘ موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ ’کچھ لوگ‘ مناسب ترجمہ ہے۔)

”پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے“۔ (محمد جوناگڑھی، ان کے اپنے حکام کہاں تھے؟ قوم کے بڑے لوگ تھے۔)

مذکورہ بالا آیت میں عَلَی خَوْفٍ کا موزوں تر ترجمہ ہوگا ڈر کے باوجود۔ نہ کہ ڈر سے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں:

(علی) فی قولہ: علی خوف من فرعون بمعنی (مع) مثل وآتی المال علی حبہ أی آمنوا مع خوفہم، وہی ظرف مستقر فی موضع الحال من (ذریة)، أی فی حال خوفہم المتمکن منہم وہذا ثناء علیہم بأنہم آمنوا ولم یصدہم عن الإیمان خوفہم من فرعون.

(466) کَانَ النَّاسُ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌

اس جملے کا ترجمہ عام طور سے لوگوں نے صیغہ ماضی سے کیا ہے۔ یعنی لوگ ایک دین پر تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین کفر پر یا دینِ اسلام پر۔ تو کچھ مفسرین نے دینِ اسلام مراد لیا اور اس سے پہلے ایک جملہ محذوف مانا کہ وہ اس دین پر باقی نہ رہے، تو اللہ نے نبی بھیجے۔ بعض مفسرین نے أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ سے دینِ کفر مراد لیا۔ انھیں کوئی جملہ محذوف کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں کان زمانہ ماضی کے لیے نہیں بلکہ اثبات کے لیے ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کان محض اثبات کے لیے آیا ہے، جیسے: وَکانَ اللَّہُ غَفُوراً رَحِیما۔ ’اللہ غفور اور رحیم ہے‘۔ یہ رائے قدیم مفسرین کے یہاں بھی ملتی ہے۔ (دیکھیں تفسیر قرطبی)

اس کی ایک بہت مماثل نظیر یہ جملہ ہے:  کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ (آل عمران: 110) ’تم بہترین امت ہو‘ یہاں بھی کان ماضی کے لیے نہیں بلکہ اثبات کے لیے ہے۔

اس توجیہ کے مطابق ترجمہ ہوگا:

’لوگ ایک امت ہیں‘

یعنی اللہ نے انھیں ایک فطرت پر تخلیق کیا ہے۔ تمام انسان اس پہلو سے ایک امت ہیں کہ ان کے اندر وہ خصوصیات مشترک ہیں جو انھیں دوسری مخلوقات سے ممیز کرتی ہیں۔ وہ سب ایک نوع ہیں اور سب آدم کی اولاد ہیں، سب اس زمین کی بااختیار مخلوق (خلیفہ) ہیں اور عرصہ امتحان میں ہیں۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے دیکھیں:  

کَانَ النَّاسُ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ فَبَعَثَ اللَّہُ النَّبِیِّینَ۔(البقرۃ: 213)

”ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے“۔(سید مودودی)

”لوگ ایک ہی امت بنائے گئے۔ (انھوں نے اختلاف پیدا کیا) تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے“۔(امین احسن اصلاحی)

”لوگ ایک دین پر تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے“۔ (احمد رضا خان)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:

”سب لوگ ایک ہی امت ہیں، تو اللہ نے نبی بھیجے۔“

 وَمَا کَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ فَاخْتَلَفُوا۔(یونس: 19)

”ابتداء ً سارے انسان ایک ہی امّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے“۔ (سید مودودی)

”اور لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”اور (سب) لوگ (پہلے) ایک ہی اُمت (یعنی ایک ہی ملت پر) تھے۔ پھر جدا جدا ہوگئے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیداکرلیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:

”سارے انسان ایک ہی امت ہیں، تو انھوں نے اختلاف کیا“۔

درج ذیل دونوں آیتوں کے مخاطب بھی تمام بنی نوع انسان ہوسکتے ہیں، یعنی اللہ انھیں یاد دلاتا ہے کہ وہ سب ایک انسانی گروہ ہیں، اور ان کا رب اللہ ہے۔

إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ۔ (الانبیاء: 92)

”تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری عبادت کرو۔)

وَإِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِ۔ (المومنون: 52)

”اور تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری ناراضگی سے بچو“۔

جہاں تک ان آیتوں کی بات ہے جن میں یہ بات کہی گئی ہے کہ تم کو ایک امت نہیں بنایا گیا، تو اس سے مراد مشترک عقیدے والی امت ہے۔ جیسے:

وَلَوْ شَاءَ اللَّہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌۔ (النحل: 93)

”اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک امت بنادیتا“۔

دراصل تمام انسان اس مفہوم میں ایک امت ہیں کہ وہ سب انسان ہیں اور ان کے اندر مشترک انسانی خصوصیات ہیں۔ جب کہ وہ اس مفہوم میں ایک امت نہیں بنائے گئے کہ لازمی طور پر ان کا دین اور عقیدہ بھی ایک ہوتا۔

(467) یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ

درج ذیل آیت میں یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ روز قیامت کے بارے میں ہے یا دنیا کی زندگی کے بارے میں؟  یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ کا جملہ  یحشرھم کا حال ہے یا لم یلبثوا کا؟ مترجمین نے دونوں باتیں اختیار کی ہیں۔ معنوی لحاظ سے اسے لم یلبثوا کا حال بناکر دنیا کی زندگی سے متعلق ماننا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہا جائے کہ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے یا یہ کہا جائے کہ وہ پہچاننے کی کوشش کررہے ہوں گے، دونوں صورتوں میں تعارف کی معنویت واضح نہیں ہوتی۔ جب کہ اگر اسے دنیا کی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ قیامت کے دن انھیں لگے گا کہ دنیا میں وہ صرف گھڑی بھر کو رہے، وہ وقت  اتنا مختصر تھا کہ گویا ایک دوسرے کو سمجھنے میں ہی گزر گیا۔ درج ذیل ترجمے دیکھیں:  

وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَأَنْ لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً‌ مِنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ۔ (یونس: 45)

”اور جس دن اللہ ان کو اکٹھا کرے گا (اس دن وہ محسوس کریں گے کہ) گویا بس وہ دن کی ایک گھڑی رہے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جس دن انہیں اٹھائے گا گویا دنیا میں نہ رہے تھے مگر اس دن کی ایک گھڑی آپس میں پہچان کریں گے“۔ (احمد رضا خان)

”اور جس دن خدا ان کو جمع کرے گا (تو وہ دنیا کی نسبت ایسا خیال کریں گے کہ) گویا (وہاں) گھڑی بھر دن سے زیادہ رہے ہی نہیں تھے (اور) آپس میں ایک دوسرے کو شناخت بھی کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ان کو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وہ (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جس روز اللہ اِن کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دُنیا کی زندگی اِنہیں ایسی محسُوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے“۔ (سید مودودی)

آخری دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔

(468) مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ

اس جملے میں مِنْہُ کی ضمیر کا مرجع عذاب ہے۔ ترجمہ ہوگا کہ ’اس کی کس چیز کی مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘

قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتًا أَوْ نَہَارًا مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ۔ (یونس: 50)

”آپ فرما دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو تو عذاب میں کون سی چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی مانگ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو اگر اس کا عذاب تم پر رات کو آئے یا دن کو تو اس میں وہ کون سی چیز ہے کہ مجرموں کو جس کی جلدی ہے“۔ (احمد رضا خان)

”(ان سے) کہو کہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر رات میں آدھمکے یا دن میں، تو کیا چیز ہے جس کے بل پر مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں بھی  مِنْہُ کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا۔)

”اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آ جائے (تو تم کیا کر سکتے ہو؟) آخر یہ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟“ (سید مودودی، یہاں بھی  مِنْہُ  کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا)

”کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو اگر اس کا عذاب تم پر (ناگہاں) آجائے رات کو یا دن کو تو پھر گنہگار کس بات کی جلدی کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری، اس میں سقم یہ ہے کہ مستقبل کا ترجمہ کیا گیا ہے، دوسرا سقم یہ ہے کہ مِنْہُ  کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ ’کس بات‘ کہنے کے لیے مِنْہُ  نہیں آئے گا۔)

(469) وَمَا یَتَّبِعُ کا ترجمہ

درج ذیل جملے کے ترجمے میں مترجمین نے الگ الگ جہتیں اختیار کی ہیں:

وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ شُرَکَاءَ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ۔(یونس: 66)

”اور جو لوگ اللہ کے ماسوا کو پکارتے ہیں یہ شریکوں کی پیروی نہیں کررہے بلکہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس ترجمے میں شُرَکَاءَ کو مَا یَتَّبِعُ کا مفعول بہ بنایا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شرکاء کی پیروی کی نفی کیوں کی جارہی ہے؟ ان کی اتباع کوئی جائز امر تو ہے نہیں۔  شرکاء کی پیروی کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ نفس کی پیروی کرنا۔

”اور جو لوگ خدا کو چھوڑ کر دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ ان کا بھی اتباع نہیں کرتے- یہ صرف اپنے خیالات کا اتباع کرتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

اس ترجمے میں شُرَکَاءَ کو سابقہ دونوں افعال کا مفعول بہ بنایا گیا ہے۔ یہ توجیہ بھی تکلف سے بھرپور ہے۔ اس میں بھی وہ معنوی اشکال موجود ہے جو سابقہ ترجمہ میں ہے۔

”اور یہ جو خدا کے سوا (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو پکارتے ہیں۔ وہ (کسی اور چیز کے) پیچھے نہیں چلتے۔ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

اس ترجمے میں معنوی لحاظ سے کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن لفظی لحاظ سے اشکال یہ ہے کہ اس معنی کی ادائیگی کے لیے ’شیئا‘ مفعول بہ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے موقع پر مفعول بہ کو حذف نہیں کیا جاتا ہے۔

”اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں وَمَا یَتَّبِعُ کا ترجمہ ہی نہیں کیا گیا ہے۔

”اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکا کی عبادت کررہے ہیں کس چیز کی اتباع کر رہے ہیں۔ محض بے سند خیال کی اتباع کر رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور کاہے کے پیچھے جارہے ہیں وہ جو اللہ کے سوا شریک پکار رہے ہیں، وہ تو پیچھے نہیں جاتے مگر گمان کے“۔ (احمد رضا خان)

درج بالا دونوں ترجمے آیت کے الفاظ کے عین مطابق ہیں۔ مزید یہ کہ کسی طرح کے نحوی یا معنوی اشکال سے بھی خالی ہیں۔ وَمَا یَتَّبِعُ میں ما استفہامیہ ہے اور شرکاء مفعول بہ ہے یدعون کا۔

(470) ترجمے میں ترتیب کا لحاظ

أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ۔ الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ۔ لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ۔(یونس: 62 - 64)

”سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے“۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمے میں جملوں کی ترتیب بدل گئی ہے۔ یہ دو خبریہ جملے ہیں، ہر جملے کی اپنی الگ معنویت ہے۔ درج ذیل ترجمے میں ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے۔

”سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں، انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“۔ (احمد رضا خان)

قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۴ء)

تلاش

Flag Counter