(234) السیئات کا ترجمہ
سیئات اصل میں صفت ہے اس کا موصوف اگر اعمال ہوں تو برائیاں مراد ہوتی ہیں، اور اگر احوال ہوں تو بدحالیاں مراد ہوتی ہیں، درج ذیل آیت میں حسنات سے خوش حالیاں اور سیئات سے بدحالیاں مراد ہیں:
وَقَطَّعنَاہُم فِی الاَرضِ اُمَماً مِّنہُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنہُم دُونَ ذَلِکَ وَبَلَونَاہُم بِالحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّہُم یَرجِعُون۔ (الاعراف: 168)
”اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید باز آجائیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
جب کہ آگے درج کی گئی آیت میں بہت سے لوگوں نے سیئات کا ترجمہ برائیاں یا گناہوں کے نتائج کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کے مطابق سیئات سے مراد قیامت کے اہوال اور مصائب ہیں جن سے اہل ایمان کو بچالیا جائے گا، قیامت اور اہل ایمان کے تذکرے کے لحاظ سے یہ مفہوم زیادہ مناسب لگتا ہے۔
وَقِہِمُ السَّیِّئَاتِ وَمَن تَقِ السَّیِّئَاتِ یَومَئِذٍ فَقَد رَحِمتَہُ وَذَلِکَ ہُوَ الفَوزُ العَظِیمُ۔ (غافر: 9)
”اور انہیں گناہوں کی شامت سے بچالے، اور جسے تو اس دن گناہوں کی شامت سے بچائے تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایا، اور یہی بڑی کامیابی ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور ان کے برے نتائج اعمال سے بچا اور جن کو تو نے اس دن برے نتائج سے بچایا تو وہی ہیں جن پر تونے رحم فرمایا اور یہی در حقیقت بڑی کامیابی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور بچا دے اُن کو برائیوں سے، جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے“۔ (سید مودودی)
”اور ان کو آفتوں سے بچا اور جن کو تو نے اس دن آفتوں سے بچایا تو وہی ہیں جن پر تونے رحم فرمایا اور یہی در حقیقت بڑی کامیابی ہے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(235) نعماء کا ترجمہ
وَلَئِن اَذَقنَاہُ نَعمَاء بَعدَ ضَرَّاء مَسَّتہُ۔ (ہود :10)
”اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”اور اگر ہم اسے نعمت کا مزہ دیں اس مصیبت کے بعد جواسے پہنچی“۔ (احمد رضا خان)
”اور اگر کسی تکلیف کے بعد، جو اس کو پہنچی، اس کو نعمت سے نوازتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسائش کا مزہ چکھائیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
آسائش والا ترجمہ لفظ نعماء سے قریب تر ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں نعماء کا ترجمہ خوش حالی کرتے ہیں، جب کہ ضراء کا مفہوم تنگ حالی ہے۔ امام طبری کی درج ذیل تفسیر لفظ نعماء کی بخوبی وضاحت کرتی ہے۔
یقول تعالی ذکرہ: ولئن نحن بسطنا للانسان فی دنیاہ، ورزقناہ رخاءً فی عیشہ، ووسعنا علیہ فی رزقہ، وذلک ہی النّعم التی قال اللہ جل ثناؤہ: ولئن اذقناہ نعماء۔ وقولہ: بعد ضراءمستہ، یقول: بعد ضیق من العیش کان فیہ، وعسرۃ کان یعالجہاَ۔
(236) دعی اللہ کا ترجمہ
دُعِیَ اللہ کا مطلب ہے اللہ کو پکارا گیا، جب کہ دُعِیَ الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کی طرف بلایا گیا، بعض مترجمین نے درج ذیل آیت میں دُعِیَ اللہ کا ترجمہ اللہ کی طرف بلانا یا اللہ کی دعوت دینا کیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ یہاں اللہ کو پکارنا صحیح ترجمہ ہے اور اس سے مراد اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحدَہُ کے مقابل میں واِن یُشرَک بِہِ آیا ہے۔
ذَلِکُم بِاَنَّہُ اِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحدَہُ کَفَرتُم وَاِن یُشرَک بِہِ تُؤمِنُوا۔ (غافر:12)
”(جواب ملے گا) یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اِس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اُس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے“۔ (سید مودودی)
”یہ انجام تمہارے سامنے اس وجہ سے آیا کہ جب اللہ واحد کی دعوت دی جاتی تو تم اس کا انکار کرتے اور اس کے شریک ٹھہرائے جاتے تو تم مانتے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”یہ (عذاب) تمہیں اس لیے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کر جاتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے“۔ (محمد جوناگڑھی، اللہ کا ذکر مراد نہیں بلکہ اللہ کی عبادت مراد ہے۔)
”یہ اس پر ہوا کہ جب ایک اللہ پکارا جاتا تو تم کفر کرتے اور ان کا شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے“۔ (احمد رضا خان)
”یہ اس لیے کہ جب تنہا خدا کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کردیتے تھے۔ اور اگر اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جاتا تھا تو تسلیم کرلیتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)
(237) مَا اُرِیکُم اِلَّا مَا اَرَی کا ترجمہ
قَالَ فِرعَونُ مَا اُرِیکُم اِلَّا مَا اَرَی وَمَا اَہدِیکُم اِلَّا سَبِیلَ الرَّشَاد۔ (غافر:29)
”فرعون بولا کہ میں تم کو اپنی سوچی سمجھی رائے بتارہا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”فرعون نے کہا میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے“۔ (سید مودودی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ’ واقعی رائے ‘تجویز کرتے ہیں۔ ”میں تم کو اپنی واقعی رائے بتارہا ہوں“۔
(238) یوم الآزفۃ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں الآزفۃ قیامت کی صفت ہے یوم کی صفت نہیں ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے اسے یوم کی صفت بناکر ترجمہ کیا ہے:
وَاَنذِرہُم یَومَ الآزِفَۃِ اِذِ القُلُوبُ لَدَی الحَنَاجِرِ کَاظِمِینَ مَا لِلظَّالِمِینَ مِن حَمِیمٍ وَلَا شَفِیعٍ یُطَاع۔ (غافر:18)
”اے نبی، ڈرا دو اِن لوگوں کو اُس دن سے جو قریب آ لگا ہے“۔ (سید مودودی)
”اور ان کو قریب آنے والے دن سے ڈراؤ“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور پیغمبر انہیں آنے والے دن کے عذاب سے ڈرائیے“۔ (جوادی)
مذکورہ بالا ان ترجموں میں الآزفۃ کو یوم کی صفت بنایا گیاہے، جو درست نہیں ہے، جب کہ درج ذیل ترجموں میں یوم کی صفت کے طور پر ترجمہ نہیں کیا گیا ہے:
”اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے“۔ (احمد رضا خان)
”اور ان کو قریب آلگنے والی آفت کے دن سے ڈرا“۔ (امین احسن اصلاحی، آلگی آفت سے ہونا چاہیے)
”اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی (قیامت سے) آگاہ کر دیجئے“۔(محمد جوناگڑھی، اس ترجمے میں یوم کا ترجمہ نہیں ہوا ہے)
(239) وَمَا کَیدُ الکَافِرِینَ اِلَّا فِی ضَلَال کا ترجمہ
فَلَمَّا جَاءہُم بِالحَقِّ مِن عِندِنَا قَالُوا اقتُلُوا اَبنَاء الَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ وَاستَحیُوا نِسَاءہُم وَمَا کَیدُ الکَافِرِینَ اِلَّا فِی ضَلَال۔ (غافر: 25)
اس آیت میں ضلال کا ذکر کید کے لیے آیا ہے، اس لیے یہاں ضلال بھٹکنے یا غلطی پر ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ناکام ہونے کے معنی میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں یہ جملہ حالیہ ہے اور تمام کافروں کے سلسلے میں عام اصول بتارہا ہے، یہ ماضی میں کسی خاص گروہ کی چال کے ناکام ہونے کی خبر نہیں دے رہا ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:
”پھر جب وہ ہماری طرف سے حق ان کے سامنے لے آیا تو انہوں نے کہاجو لوگ ایمان لا کر اس کے ساتھ شامل ہوئے ہیں ان سب کے لڑکوں کو قتل کرو اور لڑکیوں کو جیتا چھوڑ دو۔ مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی“۔ (سید مودودی)
”اور ان کافروں کی چال بالکل رائیگاں گئی“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور کافروں کا داؤ نہیں مگر بھٹکتا پھرتا“۔ (احمد رضا خان)
”اور کافروں کی جو حیلہ سازی ہے وہ غلطی میں ہی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں: ”اور کافروں کی چال بالکل رائیگاں جاتی ہے“۔
(240) ذرونی کا مفہوم
وَقَالَ فِرعَونُ ذَرُونِی اَقتُل مُوسَی وَلیَدعُ رَبَّہُ اِنِّی اَخَافُ اَن یُبَدِّلَ دِینَکُم اَو اَن یُظہِرَ فِی الاَرضِ الفَسَاد۔ (غافر:26)
اس آیت میں لفظ ذرونی کا ترجمہ عام طور سے مجھے چھوڑو کیا گیا ہے۔ اور اس کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ گویا فرعون کو اس کی قوم کے لوگ اس اقدام سے روکے ہوئے تھے، اور وہ ان سے اجازت چاہتا تھا۔
”اور فرعون بولا کہ مجھے چھوڑو کہ موسی کو قتل کردوں اور وہ اپنے پروردگار کو بلالے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ (کہیں) تمہارے دین کو نہ بدل دے یا ملک میں فساد (نہ) پیدا کردے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا،چھوڑو مجھے، میں اِس موسی کو قتل کیے دیتا ہوں“۔ (سید مودودی)
”اور فرعون بولا مجھے چھوڑو میں موسی کو قتل کروں“۔ (احمد رضا خاں)
”اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو میں موسی کو قتل کیے دیتا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی توجہ دلاتے ہیں کہ یہ عربی زبان کا اسلوب ہے، جیسے اردو میں کہتے ہیں لو میں یہ کردیتا ہوں یا لاؤ میں یہ کردیتا ہوں۔ یہاں ترجمہ ہوگا:
”اور فرعون نے کہا لو میں موسی کو قتل کیے دیتا ہوں“۔
قرآن مجید میں یہ تعبیر اللہ کے سلسلے میں بھی آئی ہے، اور ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کو کوئی روکے ہوئے ہے اور اللہ کسی سے اجازت مانگتا ہے۔ درج ذیل مثال سامنے رکھی جاسکتی ہیں۔
فَذَرنِی وَمَن یُکَذِّبُ بِہَذَا الحَدِیثِ۔ (القلم:44)
”تو مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دو“۔(فتح محمد جالندھری)
(241) مغنون عنا کا ترجمہ
وَاِذ یَتَحَاجُّونَ فِی النَّارِ فَیَقُولُ الضُّعَفَاء لِلَّذِینَ استَکبَرُوا اِنَّا کُنَّا لَکُم تَبَعاً فَہَل اَنتُم مُّغنُونَ عَنَّا نَصِیباً مِّنَ النَّارِ۔ (غافر:47)
”تو کیا آپ لوگ عذاب دوزخ کا کچھ حصہ بھی ہماری جگہ اپنے سر لینے والے بنیں گے؟“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا آیت میں مُّغنُونَ عَنَّا نَصِیباً مِّنَ النَّارِ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے گویا ان سے عذاب کا کچھ حصہ اپنے سر لینے کی مانگ کررہے ہوں۔ یہ درست ترجمہ نہیں ہے۔ اس جملے کا مطلب عذاب کا کچھ حصہ اپنے سر لینا نہیں ہے بلکہ عذاب کے ایک حصے سے بچالینا اس کا مطلب ہے۔درج ذیل ترجمہ درست ہے:
”اب کیا یہاں تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچا لو گے؟“۔ (سید مودودی)
صاحب تدبر نے درج ذیل آیت میں اسی طرح کی تعبیر کا درست ترجمہ کیا ہے۔
فَہَل اَنتُم مُّغنُونَ عَنَّا مِن عَذَابِ اللّہِ مِن شَیءٍ۔ (ابراہیم :21)
”تو کیا اللہ کے اس عذاب میں سے کچھ تم ہمارا بوجھ ہلکا کروگے؟“۔ (امین احسن اصلاحی)
(242) توفیۃ الاعمال کا ترجمہ
قرآن میں کچھ مقامات پر توفیۃ الاجور کی تعبیر آئی ہے، وہاں تو پورا پورا صلہ دینے کا مفہوم واضح ہے۔ البتہ قرآن میں کچھ مقامات پر توفیۃ الاعمال کی تعبیر آئی ہے، وہاں بھی مفہوم اعمال کا پورا بدلہ دینے کا ہے۔ دونوں تعبیروں میں فرق یہ ہے کہ توفیۃ الاجور میں ارتکاز اجر پر ہوتا ہے کہ اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گا، اور توفیۃ الاعمال میں ارتکاز عمل پر ہوتا ہے کہ کوئی عمل بدلہ دینے سے چھوٹ نہیں جائے گا۔
توفیۃ الاعمال کی تعبیر والے مقامات پر صاحب تدبر نے مختلف طرح سے ترجمے کیے ہیں، تاہم ان میں مناسب ترجمہ وہی ہے جو خود انھوں نے بعض جگہ کیا ہے یعنی اعمال کا پورا بدلہ دینا نہ کہ اعمال کو پورا کرنا۔
(۱) مَن کَانَ یُرِیدُ الحَیَاۃَ الدُّنیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ اِلَیہِم اَعمَالَہُم فِیہَا۔ (ہود 15)
”جو دنیا کی زندگی اور اس کے سر وسامان کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کے اعمال کا بدلہ یہیں چکا دیتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
(۲) وَاِنَّ کُلاًّ لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُم رَبُّکَ اَعمَالَہُم۔ (ھود:111)
”اور یقینا تیرا رب ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ پورا کرکے رہے گا“۔ (امین احسن اصلاحی، ”بدلہ پورا دے کرکے رہے گا“ ہونا چاہیے۔)
(۳) وَتُوَفَّی کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت۔ (النحل:111)
”اور ہر جان کو وہی پورا پورا بدلہ میں ملے گا جو اس نے کیا ہوگا“۔ (امین احسن اصلاحی، عمل کا بدلہ ملے گا نہ کہ وہی عمل بدلے بدلے میں ملے گا۔)
”اور ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا“۔ (سید مودودی)
(۴) وَوُفِّیَت کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت۔ (الزمر :70)
”اور ہر جان کو جو کچھ اس نے کیا ہوگا پورا کیا جائے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور ہر متنفس کو جو کچھ بھی اُس نے عمل کیا تھا اُس کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا“۔ (سید مودودی)
(۵) وَلِکُلٍّ دَرَجَات مِّمَّا عَمِلُوا وَلِیُوَفِّیَہُم اَعمَالَہُم۔ (الاحقاف :19)
”اور ان میں سے ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے اعتبار سے درجے ہوں گے(تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو) اور تاکہ وہ ان کے اعمال ان کو پورے کردے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تاکہ اللہ ان کے کیے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے“۔ (سید مودودی،’دونوں گروہوں میں سے‘ کا تفسیری اضافہ نامناسب ہے،’تاکہ‘سے پہلے’اور‘بھی آنا چاہیے۔)