بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین وعلیٰ کل من تبعہم باحسان الیٰ یوم الدین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم انا فتحنا لک فتحاً مبینا لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ویتم نعمتہ علیک ویہدیک مستقیما وینصرک اللہ نصراً عزیزا صدق اللہ العظیم۔
حضرات علماء کرام، رہنمایانِ ملت، اور میرے عزیز اور محترم بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ۔
آج اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے، اس نے ہمیں یہ دن دکھایا کہ اس میدان میں …… ایک ایک بچہ خوشی کے جذبات سے لبریز ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو یہ دن دکھایا کہ اپنے سے پانچ گنا زیادہ بڑے دشمن کے مقابلے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو فتح مبین ایسی عطا فرمائی کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ پاکستان کی فوج، پاکستان کے شاہین، یہ ساری دنیا کے اوپر الحمد للہ اپنی برتری کا سکہ جما چکے ہیں۔
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اتنا بڑا کرم ہے جس کے شکر ادا کرنے کے لیے آج ہم یہاں جمع ہیں۔ اور الحمد للہ تمام مکاتبِ فکر، تمام جماعتوں کے رہنما اور تمام جماعتوں کے لوگ اپنے ملک کے دفاع کے لیے متحد ہو کر اس بات کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ ان شاءاللہ ہم پاکستانی قوم ناقابلِ شکست سمجھتے ہیں۔ اور پاکستان اسلام کے نام پر بنا، اس کا مقصد لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا فروغ تھا، اور اس لیے الحمدللہ ہماری افواج کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کے مقابلے میں فتحِ مبین عطا فرمائی۔
آپ اندازہ کریں کہ اگر پاکستان کے وسائل کا انڈیا کے وسائل کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ لیکن انہوں نے اپنے بزدلانہ، اپنے کمینے قسم کے حملے کو، آپریشن سندور کے نام سے موسوم کیا۔ سندور اس سرخی کو کہتے ہیں جو عورتوں کے ماتھے پر لگائی جاتی ہے اور یہ کسی زمانے میں عورتوں کی غلامی کی علامت ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے اپریشن کا نام سندور رکھا یعنی اس آپریشن کو خود ہی عورتوں کا آپریشن قرار دے دیا، عورتوں کی علامت قرار دے دیا، خواتین کی علامت قرار دے دیا، اور بتایا کہ ہم مردوں کا مقابلہ کرنے جا رہے ہیں۔
اور ہماری طرف سے آپریشن کا نام کیا رکھا گیا؟ بنیان مرصوص۔ ’’ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفاً کانہم بنیان مرصوص‘‘۔ انہوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ہماری افواج کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہیں صبح کے اجالے میں حملہ کرتے ہوئے اللہ کا نام لے کر ’’فالمغیرات صبحاً‘‘ پڑھ کر حملہ کیا۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اس مقام تک پہنچایا کہ آج دنیا ان کی قوت کا، ان کی مہارت کا، ان کی شجاعت کا لوہا مان رہی ہے۔ بھارت کو کسی نے اس طرح دھول کبھی نہیں چٹائی ہو گی۔ الحمدللہ ہمیں سن 1965ء کی جنگ بھی یاد ہے۔ 1965ء کی جنگ میں بھی ایک بزدل دشمن نے لاہور کے اوپر حملہ کیا تھا اور الحمد للہ لاہور کے باشندوں نے فوجوں سے آگے بڑھ کر ہاتھ میں ڈنڈے اٹھا کر ان کا مقابلہ کیا تھا۔
آج الحمدللہ ہماری افواج نے ہمیں ایک بار پھر یہ خوشی کا دن دکھایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہم اس پر جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ لیکن میرے دوستو! آج کا یہ اجتماع یہ صرف خوشی منانے اور سینہ تاننے کا دن نہیں ہے۔ اگر مسلمان کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا سینہ تنتا نہیں ہے، اس کی گردن اکڑتی نہیں ہے، اس کا سر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے، اس کا سر جھک جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما رہے ہیں کہ آج مجھے منظر اس طرح یاد ہے جیسے اب دیکھ رہا ہوں کہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فاتح کے طور پر داخل ہوئے تو آپ اپنی اونٹنی پر تشریف فرماتے، آپ کی گردن تنی ہوئی نہیں تھی، سینہ اکڑا ہوا نہیں تھا، بلکہ گردن جھکی ہوئی تھی اپنے سینے کی طرف اور زبانِ مبارک پر یہ آیات تھیں کہ ’’انا فتحنا لک فتحاً مبینا‘‘۔
تو آج ہم الحمدللہ اس پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہماری امت کی لاج رکھی۔ عرب لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مدتوں سے ہم یہ دیکھتے تھے کہ مسلمانوں کے اوپر گولہ باری ہو رہی ہے، مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، پہلی بار مدتوں کے بعد ہم نے یہ خبر سنی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کے یہ توفیق عطا فرمائی کہ دشمن کے شہریوں پر نہیں، عورتوں پر نہیں، بچوں پر نہیں، عبادت گاہوں پر نہیں، بلکہ ان کی فوجی تنصیبات پر اس طرح حملہ کیا گیا کہ آج وہ تنصیبات خاک کا ملبہ بن چکے ہیں۔
اس موقع پر ہمیں سب سے پہلے تو اللہ جل جلالہ کو حضور سجدہ ریز ہونا ہے، اس کا شکر ادا کرنا ہے، اور یہ سمجھ لینا ہے کہ یہ جو فتح حاصل ہوئی یہ صرف ہمارے مادی ساز و سامان کی وجہ سے نہیں، یہ جو فتح حاصل ہوئی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کے اوپر بھروسے سے ہوئی ہے، اللہ پر توکل کے ذریعے ہوئی ہے۔ لہٰذا ہم سینہ تاننے اور گردن اکڑانے کے بجائے ہم اللہ کے سامنے سر بسجود ہوں اور اس بات کا عہد کریں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے بچایا، اسلام کے ذریعے ہمیں فتح فرمائی اور اسلام ہی ہماری وجود اور بقا کا ضامن ہے۔ جب تک ہم اسلام پر قائم رہیں گے، اللہ کے بندے بنے رہیں گے، ان شاءاللہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تسخیر نہیں کر سکتی۔
لہٰذا آج کا دن شکر کا دن ہے۔ آج کا دن تجدیدِ عہد کا دن ہے۔ ہم نے پاکستان بناتے وقت یہ نعرے لگائے تھے ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ ہم نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم ملک کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے تابع بنائیں گے۔ ہم سے اس میں بہت غفلت ہوئی ہے اور عرصہ دراز تک غفلت میں ہم مبتلا رہے ہیں۔ لیکن بچایا ہے تو اسلام ہی نے بچایا، بچایا ہے تو لا الٰہ الا اللہ نے ہی بچایا۔ لہٰذا آج اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق ڈھالیں گے۔
حکومت کو بھی یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ فتح صرف اسلام کی بدولت عطا فرمائی اور اللہ پر بھروسے کی وجہ سے عطا فرمائی، لہٰذا اس ملک کو صحیح معنی میں اسلامی ریاست بنانے کے اقدامات کریں۔ اور پاکستان کا ایک ایک باشندہ اس بات کا عہد کرے کہ میں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا، میں اس کو پورا کروں گا، میں اپنی زندگی کو نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق بناؤں گا اور گناہوں سے پرہیز کروں گا۔
مجھے یاد ہے سن 1965ء میں جب بھارت کے ساتھ مقابلہ ہوا تھا تو چوروں نے چوری چھوڑ دی تھی، ڈاکوؤں نے ڈاکے ڈالنے چھوڑ دیے تھے، دفتروں میں رشوت بند ہو گئی تھی۔ آج ہم پھر اسی بات کو تازہ کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں کہ آج سے ہم عزم کریں کہ اپنے ملک کی خدمت کے لیے، اپنی ملت کی خدمت کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی پیش کریں گے۔ اس ملک کو کرپشن سے، رشوت سے، بدامنی سے پاک کریں گے۔ اور اس کا نہ انتظار کیا جائے کہ حکومت کوئی حکم دے تو ہم پھر اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالیں، بلکہ ہم میں سے ہر شخص کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی زندگی پر نظر ڈال کر جہاں جہاں خامیاں ہیں ان خامیوں کو دور کرے، کرپشن سے پاک کرے، رشوت سے توبہ کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کا اہتمام کریں، دعاؤں کے اہتمام کریں۔
آج اس سٹیج پر بیٹھے ہوئے یہ حضراتِ زعماء مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے آپس میں کچھ نظریاتی اختلافات بھی ہیں، ان میں مختلف سیاسی پارٹیاں ہیں، مختلف مذہبی جماعتیں ہیں، لیکن سب اس بات پر متفق ہیں، ہم سب اس بات پر متحد ہیں کہ الحمدللہ ہم اپنے سارے فروعی اختلافات کو خیرباد کہہ کر ملک کے دفاع کے لیے، پاکستان کی ترقی کے لیے، اپنی افواج اور اپنی حکومت کے پشت پر کھڑے رہیں گے۔ جب تک اسلام کا کام کیا جاتا رہے گا اس وقت تک ہم ان کے پیچھے ہیں اور ان کے ساتھ ہیں، ان کے شانہ بشانہ ہے، اور ان کے ساتھ ہمارے اس تعلق کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔ ہم ان شاءاللہ آپس میں اپنے علمی مسائل کو زیر بحث لا سکتے ہیں، لیکن جب سوال آجائے ملتِ اسلامیہ کی صلاح و فلاح کا، ملتِ اسلامیہ کے دفاع کا، ہم سب ایک ہیں اور ان شاءاللہ ایک رہیں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔