(263) اف کا ترجمہ
عربی میں لفظ اف دراصل منھ سے نکلنے والی ایک آواز ہے، جس سے کسی چیز یا بات سے بیزاری اور ناگواری کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر زبان میں اس طرح کے الفاظ ہوتے ہیں۔ زمخشری کے بقول: اُفٍّ صوت اذا صوّت بہ علم انّ صاحبہ متضجر (الکشاف)
سورة الاسراءآیت 23 کا ترجمہ کرتے ہوئے تمام لوگوں نے اف کا ترجمہ اف کیا ہے۔ لیکن دوسری دو آیتوں میں اس کا ترجمہ بہت سے لوگوں نے تف کیا ہے۔ تف کا لفظ اف کے مقابلے میں بہت زیادہ سخت ہے اور اس کی معنوی جہت دوسری ہے۔ عربی میں یہ لفظ تھوک کے معنی میں آتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ہیں: تھوک، لعنت، ملامت، کلمہ نفریں (فرہنگ آصفیہ)۔ اف کا ترجمہ ایسے ہی الفاظ سے کرنا چاہیے جن سے بیزاری اور ناگواری کا اظہار ہوتا ہو، نہ کہ لعنت وملامت کا۔
(۱) فَلَا تَقُل لَّہُمَا اُفٍّ وَلَا تَنہَرہُمَا۔ (الاسراء:23)
”انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو“۔ (سید مودودی)
”تو ان سے ہُوں، نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا“۔ (احمد رضا خان)
” تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا“۔ (محمد جوناگڑھی)
(۲) وَالَّذِی قَالَ لِوَالِدَیہِ اُفٍّ لَّکُمَا اَتَعِدَانِنِی اَن اُخرَجَ وَقَد خَلَتِ القُرُونُ مِن قَبلِی۔ (الشوری: 17)
”اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا ،اُف، تنگ کر دیا تم نے، کیا تم مجھے یہ خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد پھر قبر سے نکالا جاوں گا“۔ (سید مودودی)
”اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور رہا وہ جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم پر تف ہے!“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور جس نے اپنے والدین سے کہا تُف ہے تم پر“۔ (محمد حسین نجفی)
(۳) اُفٍّ لَّکُم وَلِمَا تَعبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ اَفَلَا تَعقِلُونَ۔ (الانبیاء:67)
”تف ہے تم پر اور ان بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو، تو کیا تمہیں عقل نہیں“۔ (احمد رضا خان)
”تف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبُودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟“۔ (سید مودودی)
”تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟“۔ (محمد جوناگڑھی)
”تف ہے تم پر اور جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو ان پر بھی، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ “۔(فتح محمد جالندھری)
یہاں بھی اف کا ترجمہ تف کرنا درست نہیں ہے۔درج ذیل ترجمہ درست ہے:
”بیزار ہوں میں تم سے اور جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوائے، کیا تم کو سمجھ نہیں“۔ (محمود الحسن)
(264) عَیّ کا مفہوم
لفظ عَی سے مشتق دو الفاظ قرآن مجید میں آئے ہیں۔ وَلَم یَعیَ اور اَفَعَیِینَا۔ اس لفظ کا مطلب بعض لوگوں نے تھکنا بھی بتایا ہے۔ لیکن لغت کے محققین نے عاجز ہونا بتایا ہے۔ آلوسی لکھتے ہیں: والعَیُّ بِالامرِ العَجزُ عَنہُ لا التَّعَبُ، قالَ الکِسائِیُّ: تَقُولُ: اعیَیتُ مِنَ التَّعَبِ وعَیِیتُ مِنِ انقِطاعِ الحِیلَۃِ والعَجزِ عَنِ الامرِ، وہَذا ہو المَعرُوفُ والافصَحُ۔ زمخشری لکھتے ہیں: عیی بالامر: اذا لم یہتد لوجہ عملہ۔ اردو کے بیشتر مترجمین نے دونوں مقامات پر تھکنا ترجمہ کیا ہے، بعض نے ایک جگہ تھکنا تو دوسری جگہ عاجز ہونا ترجمہ کیا ہے۔دونوں ہی آیتوں میں صحیح ترجمہ عاجز ہونا ہے، دونوں آیتوں کا سیاق اللہ کی قدرت بتانے کے لیے ہے۔
(۱) اَوَلَم یَرَوا اَنَّ اللَّہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرضَ وَلَم یَعیَ بِخَلقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَیٰ اَن یُحیِیَ المَوتَیٰ بَلَیٰ اِنَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیر۔ (الاحقاف:33)
”کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ اللہ، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں، وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا“۔ (سید مودودی)
” اور ان کے بنانے میں نہ تھکا“۔ (احمد رضا خاں)
”اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور ان کے پیدا کرنے سے وہ نہ تھکا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
”اور ان کے پیدا کرنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوئی“۔
(۲) اَفَعَیِینَا بِالخَلقِ الاَوَّلِ بَل ہُم فِی لَبسٍ مِّن خَلقٍ جَدِیدٍ۔ (ق: 15)
”کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں“۔ (سید مودودی)
”تو کیا ہم پہلی بار بناکر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہ میں ہیں“۔ (احمد رضا خان)
”کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ ازسرنو پیدا کرنے میں شک میں (پڑے ہوئے) ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”کیا ہم پہلی بار کے پیدا کرنے سے تھک گئے؟ بلکہ یہ لوگ نئی پیدائش کی طرف سے شک میں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے عاجز رہے؟ بلکہ یہ لوگ از سر نو پیدا کیے جانے کے باب میں مبتلائے شک ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
(265) توفیۃ الاعمال کا مفہوم
قرآن مجید میں کہیں یُوَفِّیہِم اُجُورَہُم جیسی تعبیریں آئی ہیں، اور کہیں وَلِیُوَفِّیَہُم اَعمَالَہُم جیسی تعبیریں آئی ہیں۔ یعنی لفظ توفیۃ کے مشتقات کہیں اجر کے ساتھ آئے ہیں اور کہیں اعمال کے ساتھ۔ (ان کے علاوہ کچھ اور استعمالات بھی ہیں) خاص بات یہ ہے کہ توفیہ جہاں بھی اجر کے ساتھ آیا ہے وہاں اہل ایمان کا ذکر ہے یا بشارت کا سیاق ہے۔ جیسے:
وَاَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیہِم اُجُورَہُم وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ۔ (آل عمران: 57)
اور توفیۃ جہاں اعمال کے ساتھ آیا ہے وہاں یا تو کافروں کا ذکر ہے یا عمومی ذکر ہے مگر انذار کا سیاق ہے۔
جہاں توفیۃ ’اعمال‘ کے ساتھ آیا ہے، وہاں مترجمین نے کہیں اعمال پورا کرنے کا ترجمہ کیا ہے اور کہیں اعمال کا پورا بدلہ دینے کا ترجمہ کیا ہے۔ درست ترجمہ اعمال کا پورا بدلہ دینا ہے۔ کیوں کہ قیامت کے دن اعمال پورے کرنے کا کوئی مفہوم نہیں بنتا۔ دنیا میں اس کا مفہوم یہ نکل سکتا ہے کہ ان کو اعمال انجام دینے کا پورا موقع دیا جائے گا، جیسا کہ بعض مفسرین نے بعض آیتوں میں یہ مفہوم لیا ہے، لیکن یہ تعبیر زیادہ تر آخرت کے سیاق میں آئی ہے۔ غرض اعمال پورے کرنے کے بجائے اعمال کا بدلہ دینا وہ مفہوم ہے جو ہر جگہ درست ہوجاتا ہے۔
البتہ مفسرین کو خاص طور سے سورة ہود کی آیت (15) میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ قرآن کی بعض آیتوں کی رو سے کافروں کے اعمال تو اکارت ہوجائیں گے تو پھر پورا بدلہ ملنے کی کیا شکل بنے گی۔ (ملاحظہ ہو محمد امین شنقیطی کی کتاب: دفع ایہام الاضطراب عن آیات الکتاب۔)
اس اشکال کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس آیت میں اعمال سے مراد نیکیاں لے لیا۔ حالاں کہ اس طرح کی تمام آیتوں میں ان کے تمام اعمال (نیکیوں اور برائیوں دونوں) کا بدلہ دیا جانا مراد ہے۔ کفر وشرک جیسی بڑی نافرمانیوں کے ساتھ اچھے اعمال کا وزن کتنا رہ جائے گا اور وہ انسان کے کتنے کام آسکیں گے اس کا علم تو اللہ کو ہے۔ لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ جب وزن کرنے کی نوبت آئے گی تو بڑے گناہوں کی وجہ سے چھوٹی نیکیاں بے وزن اور اکارت ہوجائیں گی۔
بہرحال درج ذیل آیتوں میں صحیح ترجمہ اعمال کا بدلہ دینا ہے نہ کہ اعمال کو پورا کرنا۔ اعمال تو بندہ خود انجام دے چکا ہے، اب تو اس کی جزا یا سزا ملنے کا موقع ہے، جو اعمال کے عین مطابق ملے گی۔ یُوَفِّیہِم اُجُورَہُم میں توجہ اجر کی طرف ہوتی ہے، کہ اجر پورا ملے گا، اس میں بشارت کا پہلو ابھرا ہوا ہوتا ہے، جب کہ یُوَفِّیہِم اَعمَالَہُم میں اعمال پر توجہ مرکوز ہوتی ہے کہ اعمال کا پورا پورا حساب ہوگا اور اعمال کے عین مطابق بدلہ دیا جائے گا، اس میں انذار کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
(۱) مَن کَانَ یُرِیدُ الحَیَاۃَ الدُّنیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ اِلَیہِم اَعمَالَہُم فِیہَا۔ (ھود:15)
”جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو ہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے“۔ (احمد رضا خان)
”جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتا ہے تو ان کے اعمال ہم یہیں پورے کر دیتے ہیں“۔ (احمد علی لاہوری)
عام طور سے فیہا کا نوفّ سے متعلق مان کر ترجمہ کیا گیا ہے کہ اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں پورا مل جائے گا۔ اس آیت میں فیہا کا تعلق اعمال سے بھی ہوسکتا ہے، یعنی اس دنیا کی زندگی میں وہ جو اعمال کریں گے ہم ان کا پورا بدلہ دیں گے۔ اس سے یہ اشکال دور ہوجائے گا کہ ہر شخص کو اس کی نیکیوں یا برائیوں کا بدلہ دنیا میں نہیں ملتا ہے۔
(۲) وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُم رَبُّکَ اَعمَالَہُم۔ (ھود:111)
”اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا“۔ (سید مودودی)
”اور بیشک جتنے ہیں ایک ایک کو تمہارا رب اس کا عمل پورا بھردے گا“۔ (احمد رضا خان)
(۳) وَتُوَفَّیٰ کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت۔ (النحل: 111)
”اور ہر جان کو وہی پورا پورا بدلہ میں ملے گا جو اس نے کیا ہوگا“۔ (امین احسن اصلاحی، درست ترجمہ: ”جو اس نے کیا ہوگا اسی کا پورا پورا بدلہ ملے گا“۔)
”اور ہر جان کو اس کا کیا پورا بھردیا جائے گا“۔ (احمد رضا خان)
”اور ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا“۔(محمد جوناگڑھی)
(۴) وَوُفِّیَت کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت۔ (الزمر: 70)
”اور جس شخص نے جو کچھ کیا ہے بھرپور دے دیا جائے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ہر جان کو جوکچھ اس نے کیا ہوگا پورا کیا جائے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اورہر شخص کو جو کچھ اس نے کیا تھا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا “۔(احمد علی لاہوری)
(۵) وَلِکُلٍّ دَرَجَات مِّمَّا عَمِلُوا وَلِیُوَفِّیَہُم اَعمَالَہُم۔ (الاحقاف: 19)
”اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال کے پورے بدلے دے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ہر فرقہ کے کئی درجے ہیں اپنے کیے کاموں کے موافق اور تاکہ پورے دے ان کو کام ان کے“ ۔(محمود الحسن)
بہت سے مقامات کی طرح یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مترجمین ایک ہی اسلوب کا الگ الگ جگہوں پر مختلف ترجمہ کرتے ہیں۔