اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۲)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(222)    لِلَّذِینَ اَحسَنُوا فِی ھَذہِ الدُّنیَا حَسَنَۃ کا ترجمہ

یہ جملہ قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے۔ اس جملے میں ”فِی ھذِہِ الدُّنیَا“ کو اگر ”اَحسَنُوا“ سے متعلق مانیں گے تو ترجمہ ہوگا: جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لیے نیک بدلہ ہے۔اور ”فِی ھذِہِ الدُّنیَا“ کو اگر ”حَسَنَۃ“ کی خبر مقدم مانیں گے تو ترجمہ ہوگا: ”جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے اس دنیا میں نیک بدلہ ہے“۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام طور سے اردو مترجمین نے دونوں جگہ الگ الگ ترجمہ کیا ہے:

(1) وَقِیلَ لِلَّذِینَ اتَّقَوا مَاذَا اَنزَلَ رَبُّکُم قَالُوا خَیرًا لِّلَّذِینَ اَحسَنُوا فِی ھذِہِ الدُّنیَا حَسَنَۃ وَلَدَارُ الآخِرَۃ خَیر وَلَنِعمَ دَارُ المُتَّقِینَ۔ (النحل: 30)

”دوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ”بہترین چیز اتری ہے“، اِس طرح کے نیکوکار لوگوں کے لیے اِس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا “۔(سید مودودی)

”جو لوگ نیکوکار ہیں ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”جن لوگوں نے بھلائی کی راہ اختیار کی، ان کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ان کے لیے بھلائی ہے“۔ (احمد رضا خان)

(2) قُل یَا عِبَادِ الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّکُم لِلَّذِینَ اَحسَنُوا فِی ھذہِ الدُّنیَا حَسَنَۃ وَاَرضُ اللَّہِ وَاسِعَۃ إنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ اَجرَھم بِغَیرِ حِسَابٍ۔ (الزمر :10)

”کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے“ (جوناگڑھی)

”جن لوگوں نے اِس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے“۔ (سید مودودی)

”جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لیے بھلائی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے نیک بدلہ ہے“۔(محمد جوناگڑھی)

”جو لوگ اس دنیا میں نیکی کریں گے ان کے لیے (آخرت میں) نیک صلہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جنہوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے“۔ (احمد رضا خان)

سورة الزمر والے جملے کا درست ترجمہ سورة النحل والے جملے کی روشنی میں متعین ہوجاتا ہے، کیونکہ وہاں اس کے بعد وَلَدَارُ الآخِرَۃ خَیر سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ حَسَنَۃ سے مراد دنیا کی بھلائی ہے۔ سورة النحل کی درج ذیل آیت بھی اس کی تائید کرتی ہے:

وَالَّذِینَ ھاجَرُوا فِی اللَّہِ مِن بَعدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّھم فِی الدُّنیَا حَسَنَۃ وَلَاَجرُ الآخِرَۃ اَکبَرُ لَو کَانُوا یَعلَمُونَ۔ (النحل: 41)

”اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے“۔ (فتح محمد جالندھری، کاش کا لفظ اللہ کے لیے مناسب نہیں ہے۔)

اس جائزے میں ایک دلچسپ بات تو یہ سامنے آئی کہ اکثر مترجمین نے سورة النحل والے جملے کا ترجمہ تو سیاق کلام کے مطابق کیا ہے، لیکن تقریباً ان تمام مترجمین نے سورة الزمر والے جملے کا ترجمہ اس سے مختلف کردیا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ مولانا احمد رضا خان نے دونوں مقامات پر عام مترجمین سے مختلف ترجمہ کیا، یعنی پہلی آیت میں وہ ترجمہ کیا جو دوسروں نے دوسری آیت میں کیا، اور دوسری آیت میں وہ کیا جو دوسروں نے پہلی آیت میں کیا۔ سورة النحل میں سیاق کی واضح دلالت کے باوجود اس سے ہٹ کر ترجمہ کرنا حیر ت انگیزاتفاق ہے، جبکہ سورة الزمر میں وہی ترجمہ کیا ہے۔ سورة الزمر میں اکثر مترجمین نے جو ترجمہ کیا ہے، وہ اس آیت میں سیاق کلام کی دلالت سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، کیونکہ اس جملے کے بعد ہی وَاَرضُ اللَّہِ وَاسِعَۃ آیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حَسَنَۃ  سے مراد دنیا کی بھلائی ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک دونوں مقامات پر اس جملے کا درست ترجمہ یوں ہے: ”جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھی نیک بدلہ ہے“۔ اس کی ایک دلیل تو سورة النحل کی مذکورہ بالا دونوں آیتیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک دلیل اور یہ ہے کہ دنیا تو ہے ہی دار العمل، اس لیے یہ کہنے سے کہ ،جس نے اس دنیا میں نیکی کی، کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوگی، لیکن یہ کہنے سے کہ نیکی کرنے والے کو دنیا میں بھی نیک صلہ ملے گا، ایک نئی بات معلوم ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ نیک لوگوں کے لیے آخرت کے صلے کے ساتھ دنیا میں بھی نیک صلہ ہے۔

(223)    زَوجَین کا ترجمہ

اردو میں جوڑا نر اور مادہ کے مجموعے کو کہتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کو جوڑ کہتے ہیں، نر اور مادہ کے ایک جوڑے کو عربی میں زوجین کہتے ہیں۔ اس پہلو سے درج ذیل آیتوں کے مختلف ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے:

(1) وَمِن کُلِّ شَیئٍ خَلَقنَا زَوجَینِ لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ۔ (الذاریات: 49)

”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے ہر چیز کے دو جوڑ بنائے کہ تم دھیان کرو“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں تاکہ تم نصیحت پکڑو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے ہر چیز سے دو جوڑے پیدا فرمائے تاکہ تم دھیان کرو اور سمجھو“۔ (طاہر القادری)

(2) وَاَنَّہ خَلَقَ الزَّوجَینِ الذَّکَرَ وَالاُنثَیٰ۔ (النجم: 45)

”اور یہ کہ اسی نے جوڑا یعنی نر مادہ پیدا کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یہ کہ اسی نے دو جوڑے بنائے نر اور مادہ“۔ (احمد رضا خان، نر اور مادہ ایک جوڑا ہوا)

(3) فَجَعَلَ مِنہ الزَّوجَینِ الذَّکَرَ وَالاُنثَیٰ۔ (القیامۃ :39)

”تو اس سے دو جوڑ بنائے مرد اور عورت“۔(احمد رضا خان)

”پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں“۔ (سید مودودی)

”پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت“۔ (فتح محمد جالندھری)

(4) حَتَّیٰ إِذَا جَاءَ اَمرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلنَا احمِل فِیھا مِن کُلٍّ زَوجَینِ اثنَینِ۔ (ہود: 40)

”یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا ”ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو“۔ (سید مودودی)

”یہاں تک کہ کہ جب ہمارا حکم آیا اور تنور اُبلا ہم نے فرمایا کشتی میں سوار کرلے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر و مادہ“۔ (احمد رضا خان)

(5) فَاسلُک فِیھا مِن کُلٍّ زَوجَینِ اثنَینِ۔ (المومنون: 27)

”تو اس میں بٹھالے ہر جوڑے میں سے دو “۔(احمد رضا خان، ہر ایک میں سے ایک جوڑا، نہ کہ ہر جوڑے میں سے دو)

”تو، تو ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو سب (قسم کے حیوانات) میں جوڑا جوڑا (یعنی نر اور مادہ) دو دو کشتی میں بٹھا دو“۔ (فتح محمد جالندھری، یہاں بھی تعبیر مبہم ہوگئی ہے۔)

”تو تم اس میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو جوڑے (نر و مادہ) بٹھا لینا“۔ (طاہر القادری)

مذکورہ تمام آیتوں میں جن لوگوں نے دو جوڑے ترجمہ کیا ہے، وہ درست نہیں۔ قسمیں ترجمہ کرنا بھی صحیح نہیں ، کیونکہ یہاں صنفی تقسیم کو بتانا مقصود نہیں ہے بلکہ صنفی رشتے کو بتانا مقصود ہے جو لفظ زوجین سے ادا ہوتا ہے۔

(224)  ازواج کا ترجمہ

ازواج، زوج کی جمع ہے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال قسمیں بتانے کے لیے بھی کیا گیا ہے، اور کہیں شوہر اور کہیں بیوی کے لیے بھی کیا گیا ہے۔ درج ذیل تین مقامات پر ترجمے غور طلب معلوم ہوتے ہیں:

(1) ثَمَانِیَۃ اَزوَاجٍ مِّنَ الضَّانِ اثنَینِ وَمِنَ المَعزِ اثنَینِ۔ (الانعام: 143)

”(پیدا کیے) آٹھ نر و مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم“۔ (محمد جوناگڑھی)

”آٹھ قسم کے جوڑے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

”آٹھ قسم کے جوڑے پیدا کیے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”آٹھ قسم کے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”چوپایوں کی آٹھ قسموں کو لو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”آٹھ نرو مادہ، چوپایوں کے آٹھ جوڑ، چوپایوں کے چار جوڑے“۔

(2) وَاَنزَلَ لَکُم مِّنَ الاَنعَامِ ثَمَانِیَۃ اَزوَاجٍ۔ (الزمر: 6)

”اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے“۔ (سید مودودی)

”اور تمہارے لیے چوپایوں میں سے (آٹھ نر ومادہ) اتارے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور تمہارے لیے چوپایوں میں سے آٹھ جوڑے تھے“۔ (احمد رضا خان)

”اور اسی نے تمہارے لیے چار پایوں میں سے آٹھ جوڑے بنائے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور پھر تمہارے لیے (تعداد میں) چوپایوں کے آٹھ جوڑے پیدا کیے“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور تمہارے لیے (نر ومادہ) چوپایوں کی آٹھ قسمیں اتاریں“۔ (امین احسن اصلاحی)

And He sent down to you eight pairs of the cattle. (Qaribullah & Darwish)
and he sent down for you eight head of cattle in pairs (Yousuf Ali)

ثَمَانِیَۃ اَزوَاجٍ کا ترجمہ آٹھ جوڑے موزوں نہیں ہے، اسی طرح انگریزی کے بھی مذکورہ دونوں ترجموں کے فرق پر غور کیا جاسکتا ہے۔

(3) وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا ھب لَنَا مِن اَزوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃ اَعیُنٍ۔ (الفرقان: 74)

”جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے“۔ (سید مودودی)

”اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما“۔ (محمد جوناگڑھی)

and who pray "O our Sustainer! Grant that our spouses and our offspring be a joy to our eyes, (Asad)
And who say: Our Lord! Vouchsafe us comfort of our wives and of our offspring, (Pickthall)

” کسانی کہ می گویند: پروردگارا! از ہمسران و فرزندانمان مایہ روشنی چشم ما قراردہ“۔ (مکارم شیرازی)

عربی زبان میں لفظ ازواج دونوں پر صادق آتا ہے۔ انگریزی میں spouseاس کا درست مفہوم ادا کرتا ہے۔ اردو میں میری علم کی حد تک سبھی لوگوں نے اس آیت میں ازواجنا کا ترجمہ ہماری بیویاں کیا ہے۔

فارسی میں عام طور سے اس آیت میں مذکور ازواج کا ترجمہ ہمسران کیا گیا ہے، لفظ ہمسر فارسی زبان میں بیوی کے لیے بھی آتا ہے اور جوڑے کے ساتھی کے لیے بھی۔

بہرحال، اس آیت میں ازواج کا ترجمہ ایسا ہونا چاہیے جس میں عموم ہو، اور اس دعا کی معنویت صرف شوہر کے لیے نہیں رہے بلکہ بیوی کے لیے بھی رہے۔مجھے اردو میں spouse یا زوج کی طرح بالکل موزوں لفظ نہیں ملا، تاہم انسانوں کے سیاق میں شریک حیات اور جیون ساتھی جیسے الفاظ بھی مطلوبہ مفہوم کو ادا کرتے ہیں۔


قرآن / علوم القرآن

(جنوری ۲۰۲۱ء)

جنوری ۲۰۲۱ء

جلد ۳۲ ۔ شمارہ ۱

عقل حاکم اور عقل خادم کا امتیاز
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۲)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خدا کی رحمت اور عدل: ایک حقیقت کے دو نام
ڈاکٹر عرفان شہزاد

سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا نیا مرحلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعلیمی نظام اور تحریکی تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حورانِ بہشتی کے قرآنی اوصاف وخصائل
مولانا محمد عبد اللہ شارق

فتوی و قضاء میں فرق اور مسئلہ طلاق میں بے احتیاطی
مفتی عبد اللہ ممتاز قاسمی سیتامڑھی

مدرسہ طیبہ میں سالانہ نقشبندی اجتماع
مولانا محمد اسامہ قاسم

تلاش

Flag Counter