اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۷)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(391) استمع بہ

استمع کا معنی کان لگا کر غور سے سننا ہے۔یہ عام طور سے کسی صلے کے بغیر راست مفعول بہ کے ساتھ آتاہے۔ جیسے: یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ (الاحقاف: 29)یا پھر کبھی لام آتا ہے، جیسے: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَہُ (الاعراف: 204) یہ لام تاکید کے لیے آتا ہے۔ درج ذیل آیت میں یستمعون کے ساتھ بہ آیا ہے۔ اس لیے یہاں سننے کی غرض مراد ہے۔ معنوی لحاظ سے بھی یہ بات تو قابل ذکر نہیں ہے کہ وہ کیا سنتے ہیں، ظاہر ہے جو کلام سنایا جارہا ہے وہی سنتے ہیں، اس لیے بھی کہ وہ خود کان لگاکر توجہ سے سنتے ہیں۔ قابل ذکر بات دراصل یہ ہے کہ وہ کس غرض سے سنتے ہیں۔  بتایا جارہا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی خفیہ غرض اللہ کے علم میں نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ غرض اللہ کے علم میں  اچھی طرح سے ہے۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُونَ بِہِ إِذْ یَسْتَمِعُونَ إِلَیْکَ۔ (الاسراء: 47)

”ہم خوب جانتے ہیں جیسا وہ سنتے ہیں جس وقت کان رکھتے ہیں تیری طرف“۔ (شاہ عبدالقادر)

”ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ غور سے کیا سنتے ہیں؟ جب یہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں تو دراصل کیا سنتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی طرف کان لگا کر سنتے ہیں تو کیا سنتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

مذکورہ بالا ترجموں میں (ب) کا حق ادا نہیں کیا گیا، جب کہ درج ذیل ترجموں میں کیا گیا ہے:

”ہم خوب جانتے ہیں جس لیے وہ سنتے ہیں جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس نیت سے یہ سنتے ہیں ہم اسے خوب جانتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جس غرض سے وہ لوگ اسے سنتے ہیں ان (کی نیتوں) سے ہم خوب آگاہ ہیں، جب یہ آپ کی طرف کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(392) مُبْصِرَۃً

مبصرۃ کا مطلب روشن اور واضح ہے۔ درج ذیل آیت میں عام طور سے یہی ترجمہ کیا گیا ہے:

وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَةَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً۔ (الاسراء: 12)

”دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو ہم نے بے نور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے دن اور رات کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور دن کی نشانی کو روشن“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کردیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا، سو ہم نے رات کی نشانی تو دھندلی کردی اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا“۔ (امین احسن اصلاحی، دھندلی کے بجائے بے نور ہونا چاہیے۔)

درج ذیل آیت میں بھی مبصرۃ کا ترجمہ کھلی ہوئی نشانی یا روشن نشانی کرنا مناسب تھا، لیکن بہت سے مترجمین نے اس سے مختلف اور پرتکلف راہیں اختیار کیں۔

وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوا بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا۔ (الاسراء: 59)

”ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اس پر ظلم کیا، ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں“۔ (سید مودودی، مبصرۃ کا مطلب علانیہ نہیں ہوتا ہے)

”اور ہم نے ثمود کو ناقہ دیا آنکھیں کھولنے کو تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو“۔ (احمد رضا خان، یہ بھی پرتکلف مفہوم ہے۔)

”ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی، اونٹنی کا بطور بصیرت ہونا پرتکلف بات ہے)

”اور ہم نے قوم ثمود کو ان کی خواہش کے مطابق اونٹنی دے دی جو ہماری قدرت کو روشن کرنے والی تھی لیکن ان لوگوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم تو نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی، قدرت کو روشن کرنے کی بات بھی پرتکلف ہے۔)

”اور ہم نے قومِ ثمود کو ایک (خاص) اونٹنی دی جوکہ روشن نشانی تھی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی، یہ ترجمہ موزوں ہے۔)

(393) صدق جب اضافت کے ساتھ ہو

صدق، کذب کی ضد ہے اور اس کا معنی سچ ہے۔ صدق، سوء کی ضد بھی ہے یعنی اچھائی کے معنی میں۔ کہا جاتا ہے، رجل صدق ورجل سوء۔ اسی طرح صدق خوبی اور کمال کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ خاص طور سے لفظ صدق جب اضافت کے ساتھ آتا ہے تو اس موقع پر اس چیز کی خوبی بیان کرنا عام طور سے مقصود ہوتا ہے۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ ہر اچھے کام کو خواہ وہ خوبی ظاہری ہو یا باطنی، صدق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ویعبر عن کل فعل فاضل ظاہرا وباطنا بالصدق۔ (المفردات)

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: ویضاف شیء إلی (صدق) بمعنی مصادفتہ للمأمول منہ المرضی وأنہ لا یخیب ظن آمل۔کسی چیز کی اضافت صدق کی طرف کی جاتی ہے، یہ بتانے کے لیے کہ وہ خواہش و امید کے عین مطابق ہے، وہ امید پر پانی پھیرنے والی نہیں ہے۔ (التحریر والتنویر)

زبیدی نے صدق کی بہت اچھی وضاحت کی ہے کہ ہر وہ چیز جس کی نسبت صلاح اور خیر کی طرف ہو اس کی اضافت صدق کی طرف کی جاسکتی ہے۔

وَمن الْمجَاز: الصِّدقُ، بالکَسْر: الشِّدّۃ۔ وَفِی العُباب: کُلُّ مَا نُسِبَ الی الصّلاح والخَیْر أُضیف الی الصِّدْق۔ فَقیل: هوَ رَجُلُ صِدْقٍ، وصَدیقُ صِدْق، مُضافَیْن، ومَعْناہ: نِعْمَ الرّجُلُ هُوَ، وَکَذَا امرأۃُ صِدْقٍ فَإِن جعلتہ نَعْتاً قلت: الرجل الصَّدْق بفَتْح الصّاد وَہِی صَدْقة کَمَا سَیَأْتِی، وَکَذَلِکَ ثوبٌ صَدْقٌ۔ وخِمارُ صِدْق حَکَاہُ سیبَوَیْہ۔ (تاج العروس)

اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل آیتوں میں صدق کا ترجمہ خوبی اور کمال سے کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا، اور اگر وہاں سچ اور راستی کا محل نہ ہو سچ اور راستی سے ترجمہ کرنا پرتکلف معلوم ہوتا ہے۔

(394)  مبوأ صدق کا ترجمہ

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِی إِسْرَاءِیلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ۔ (یونس: 93)

”اور جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو پوری جگہ دینا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا“۔ (سید مودودی)

”اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی“۔ (احمد رضا خان)

اس آیت میں عام طور سے لوگوں نے اچھا ٹھکانا اور عزت کی جگہ جیسا ترجمہ کیا ہے۔ یہی اس تعبیر کا حق ہے۔

بہت کم لوگوں نے یہاں صدق کا ترجمہ سچ یا راستی کیا ہے، جیسے:

”اور البتہ تحقیق جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو جگہ دینا راستی کا“۔ (شاہ رفیع الدین)

البتہ قرآن کے دیگر مقامات پر بہت سے مترجمین سے اس کی رعایت نہیں ہوسکی اور انھوں نے سچ اور راستی ترجمہ کیا۔

(395) قدم صدق کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں قدم صدق سے مراد اچھا اور انچا مقام و مرتبہ ہے۔

وَبَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا أَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۔ (یونس: 2)

”اور اہل ایمان کو بشارت پہنچادو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑا مرتبہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو۔ کہ ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں اچھا مقام و مرتبہ ہے“۔ (محمد حسین نجفی)

مذکورہ بالا ترجمے بہتر ہیں۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں صدق کا ترجمہ سچ کیا گیا ہے، جس سے مفہوم واضح نہیں ہوپاتا ہے اور پر تکلف تاویل کی ضرورت پڑتی ہے۔

”اور خوش خبری سنادے جو کوئی یقین لاوے کہ ان کو ہے پایہ سچا اپنے رب کے یہاں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟“۔ (سید مودودی، سچی کی ضرورت نہیں، عزت و سرفرازی سے پورا مفہوم ادا ہورہا ہے۔)

زمخشری لکھتے ہیں: وإضافتہ إلی صدق دلالة علی زیادۃ فضل، وأنه من السوابق العظیمة۔

(396) مدخل صدق اور مخرج صدق کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں مدخل صدق اور مخرج صدق سے مراد خوش اسلوبی سے داخل ہونا اور خوش اسلوبی سے نکلنا مراد ہے۔

وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ۔ (الاسراء: 80)

”اور کہو کہ اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے) اچھی طرح نکالیو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال“۔ (محمد جوناگڑھی)

بعض لوگوں نے سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور سچائی کے ساتھ نکالنا ترجمہ کیا ہے، جو زیادہ موزوں نہیں ہے:

 ”اور کہہ اے رب پیٹہا مجھ کو سچا پیٹہانا اور نکال مجھ کو سچا نکالنا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال“۔ (سید مودودی)

”اور یوں عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے سچی طرح داخل کر اور سچی طرح باہر لے جا“۔ (احمد رضا خان)

”اور کہیے اے میرے پروردگار! مجھے (ہر جگہ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور نکال بھی سچائی کے ساتھ“۔ (محمد حسین نجفی)

(396) مقعد صدق کا ترجمہ

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَنَہَرٍ.  فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ۔ (القمر: 54، 55)

”نافرمانی سے پرہیز کرنے والے یقینا ً باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب“۔ (سید مودودی)

”سچ کی مجلس میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے حضور“۔ (احمد رضا خان)

”(یعنی) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بارگاہ میں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاہ کے پاس“۔ (محمد جوناگڑھی)

”صداقت و سچائی کے محل میں بڑی عظیم قدرت والے بادشاہ (خدا) کے حضور میں (مقرب ہوں گے)“۔ (محمد حسین نجفی)

”سچی بیٹھک میں نزدیک پادشاہ کے جس کا سب پر قبضہ“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”ایک عمدہ مقام میں قدرت والے بادشاہ کے پاس“۔ (اشرف علی تھانوی)

تفسیر بیضاوی میں ہے: فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ: فی مکان مرضی۔

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: فمقعد صدق، أی مقعد کامل فی جنسہ مرضی للمستقر فیہ فلا یکون فیہ استفزاز ولا زوال. (التحریر والتنویر)

(397) لسان صدق کا ترجمہ

وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا۔ (مریم: 50)

”اور ان کو سچی ناموری عطا کی“۔ (سید مودودی)

”اور ان کے لیے سچی بلند ناموری رکھی“۔ (احمد رضا خان)

یہاں سچی نام وری سے زیادہ مناسب ذکر جمیل ہے، جیسا کہ درج ذیل ترجموں میں ہے:

 ”اور ان کا ذکر جمیل بلند کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے ان کے ذکر جمیل کو بلند درجے کا کر دیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: الصدق: بلوغ کمال نوعہ، کما تقدم آنفا، فلسان الصدق ثناء الخیر والتبجیل۔ (التحریر والتنویر)

وَاجْعَلْ لِی لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِینَ۔ (الشعراء: 84)

”اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر“۔ (سید مودودی)

”اور میری سچی ناموری رکھ پچھلوں میں“۔ (احمد رضا خان)

”اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور پچھلے لوگوں میں میرا ذکر نیک (جاری) کر“۔ (فتح محمد جالندھری)

تفسیر جلالین میں ہے: (وَاجْعَلْ لِی لِسَان صِدْق) ثَنَاء حَسَنًا۔

(جاری)


قرآن / علوم القرآن

(فروری ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter