اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۵)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۸) جنوب کا ترجمہ

جنوب، جنب کی جمع ہے، اس کے معنی پہلو کے ہیں، امام لغت فیروزآبادی لکھتے ہیں:

الجَنْبُ والجانِبُ والجَنَبَۃُ، مُحَرَّکَۃً: شِقّْ الاِنْسانِ وغیرہِ، ج: جْنْوبٌ وجوانِبُ وجَنَائِبُ. القاموس المحیط۔

عربی میں پیٹھ کے لیے ظھر اور پہلو کے لیے جنب آتا ہے، مذکورہ ذیل آیت میں دونوں الفاظ ایک ساتھ ذکر کیے گئے ہیں:

(۱) یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَذَا مَا کَنَزْتُمْ لأَنفُسِکُمْ فَذُوقُواْ مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ۔ (التوبۃ: ۳۵)

’’ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو ‘‘(سید مودودی) تمام مترجمین نے یہاں جنوب کا ترجمہ پہلو یا کروٹ اور ظھور کا ترجمہ پیٹھ کیا ہے۔

اس آیت کے علاوہ دو اور مقامات پر جنوب کا لفظ آیا ہے، مذکورہ بالا آیت کی طرح وہاں بھی مترجمین نے عام طور سے پہلو اور کروٹ ترجمہ کیا ہے، تاہم صاحب تفہیم نے اوپر والی آیت میں جنوب کا ترجمہ پہلو کرنے کے باوجود ذیل کی دونوں آیتوں میں جنوب کا ترجمہ پیٹھیں کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے، تینوں مقامات پر جنوب کا ترجمہ پہلو ہی ہونا چاہئے۔

(۲) تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَطَمَعاً وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون۔ (السجدۃ: ۱۶)

’’اْن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اْنہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (سید مودودی)

’’ان کے پہلو بستروں سے کنارہ کش رہتے ہیں ‘‘(امین احسن اصلاحی) 

’’ان کے پہلو بستروں پر ٹکتے نہیں ہیں‘‘ (امانت اللہ اصلاحی، تتجافی کا صحیح مفہوم ٹکتے نہیں ہیں کہنے سے ادا ہوتا ہے) 

آیت میں جنوبھم کا لفظ آیا ہے، ظھورھم کا لفظ نہیں آیا ہے، اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ عام طور سے انسان کروٹ لیٹتا ہے نہ کہ چت لیٹتا ہے۔

(۳) وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاہَا لَکُم مِّن شَعَائِرِ اللَّہِ لَکُمْ فِیْہَا خَیْْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْْہَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُہَا فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذَلِکَ سَخَّرْنَاہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون۔ (الحج: ۳۶)

’’اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اْن میں بھَلائی ہے، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اْن میں سے خود بھی کھاؤ اور اْن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اْن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو‘‘ (سید مودودی)

’’اور قربانی کے ڈیل دار جانور اور اونٹ اور گائے ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے کیے تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے تو ان پر اللہ کا نام لو ایک پاؤں بندھے تین پاؤں سے کھڑے پھر جب ان کی کروٹیں گرجائیں تو ان میں سے خود کھاؤ اور صبر سے بیٹھنے والے اور بھیک مانگنے والے کو کھلاؤ، ہم نے یونہی ان کو تمہارے بس میں دے دیا کہ تم احسان مانو‘‘ (احمد رضا خان)

’’اور قربانی کے اونٹ اور گائے (اور اسی طرح بھیڑ اور بکری کو بھی) ہم نے اللہ کے دین کی یادگار بنایا ہے ان جانوروں میں تمہارے اور بھی فائدے ہیں سو تم ان پر کھڑے کر کے (ذبح کرنے کے وقت) اللہ کا نام لیا کرو، پس جب وہ کسی کروٹ کے بھل گر پڑیں (اور ٹھنڈے ہوجائیں) تو تم خود بھی کھاؤ اور بے سوال اور سوالی محتاج کو بھی کھانے کو دو (اور) ہم نے ان جانوروں کو اس طرح تمہارے زیر حکم کردیا تاکہ تم (اس پر) اللہ اللہ تعالی کا شکر کرو‘‘ (اشرف علی تھانوی)

اس آیت میں ظھورھم کا لفظ نہیں آیا ہے، جنوبھم کا لفظ آیا ہے، اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ قربانی کا جانور پہلو کے بل گرتا ہے نہ کہ پیٹھ کے بل۔جنوب کا ترجمہ پیٹھ درست نہیں ہے، جبکہ پہلو درست ترجمہ ہے۔

اس آیت میں دو اور لفظوں کی تحقیق میں اختلاف ہوا ہے، وہ الفاظ حسب ذیل ہیں:

البدن کے سلسلے میں مفسرین اور اہل لغت کے یہاں دو رائیں ملتی ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد اونٹ اور گائے دونوں ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد صرف اونٹ ہیں۔

ابن عطیہ نے دونوں رائیں ذکر کی ہیں:

البدن جمع بدنۃ وھی ما أشعر من ناقۃ أو بقرۃ، قالہ عطاء وغیرہ وسمیت بذلک لانھا تبدن أی تسمن، وقیل بل ھذا الاسم خاص بالابل. تفسیر ابن عطیۃ.

دوسری رائے مضبوط معلوم ہوتی ہے ، اس لئے کہ قربانی کا یہ طریقہ اونٹ کے لئے خاص ہے۔ گائے اور دوسرے جانوروں کی قربانی لٹا کر کی جاتی ہے، جب کہ اونٹ کی قربانی کھڑے کھڑے کی جاتی ہے، نحر کے بعد وہ اپنے پہلو کے بل گرتے ہیں۔

صواف کے سلسلے میں تین رائیں ہیں: بندھے ہوئے، کھڑے ہوئے، صف بستہ کھڑے ہوئے۔ 

صَوافَّ أی عَلَی نَحْرِھَا. قَالَ مُجَاھِد: مَعْقُولَۃ. وَقَالَ ابنُ عُمَرَ: قَائِمَۃ قَدْ صَفَّت أیدِیھَا بِالقُیُودِ. وَقَالَ ابنُ عیسَی: مُصْطَفَّۃٌ. البحر المحیط فی التفسیر۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے کے مطابق ’’کھڑے ہوئے‘‘ کرنا درست ہے۔ صف بستہ کے لئے جمع سالم آتی ہے، جبکہ صواف کے لفظ میں بندھے ہونے کا مفہوم شامل نہیں ہے۔

(۱۱۹) اشحۃ علی کا مفہوم

شح کا مطلب حریص ہونا ہے، کہ آدمی کو جو چیز حاصل ہو اسے بچا کر رکھنا چاہے، اور جو چیز حاصل نہیں ہو اسے حاصل کرنا چاہے۔ 

والشّْحّْ: البُخل وھوالحِرصُ. وھما یَتَشاحّان علی الأمر: لایُریدُ کلّْ واحدٍ منھما أن یفوتہ. (العین)

حریص علی الشیء اور شحیح علی الشیء دونوں میں علی کا ایک ہی استعمال ہوتا ہے، یعنی جس چیز کی حرص ہو اس پر علی داخل ہوتا ہے۔ مذکورہ ذیل آیت میں ایک بار اشحۃ علیکم آیا ہے، اور اسی آیت میں پھر اشحۃ علی الخیر بھی آیا ہے۔ 

أَشِحَّۃً عَلَیْْکُمْ فَإِذَا جَاء الْخَوْفُ رَأَیْْتَہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشَی عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوکُم بِأَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ أَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْْرِ۔ (الاحزاب: ۱۹)

جب ہم اردو تراجم کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال یہ نظر آتی ہے کہ وہ اشحۃ علی الخیر کا ترجمہ تو ’’دولت کا حریص‘‘ ہونا کرتے ہیں، لیکن اشحۃ علیکم کا ترجمہ ’’تمہارے حریص‘‘ ہونا نہیں کرتے، عربی تفاسیر میں بھی اکثر تفسیروں کا حال یہی ہے۔ دراصل وہ أشحۃ علیکم کی تفسیر بخلاء علیکم سے کرتے ہیں، جب کہ أشحۃ علیکم، بخلاء بکم کا ہم معنی ہے۔آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جب خطرہ سر پر ہوتا ہے توخود کو تمہارا خیرخواہ اور حریص ظاہر کرتے ہیں، اور جب خطرہ ٹل جاتاہے تو مال کے حریص بن جاتے ہیں۔پہلی حالت میں تم کو ھلم الینا کہتے ہیں، اور دوسری حالت میں تم کو اپنی تیز زبانوں کا نشانہ بناتے ہیں۔اس آیت میں أشحۃ علیکم کے مفہوم کی وضاحت گذشتہ آیت کے لفظ ھلم الیناسے ہورہی ہے۔ أشحۃ علیکم حال ہے ھلم الیناسے، یعنی تمہارے خیر خواہ بن کر تمہیں اپنی طرف بلاتے ہیں۔

اس وضاحت کے بعد چند اردو ترجمے ملاحظہ ہوں:

’’تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں، پھر جب خوف ودہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی انکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’تمہاری مدد میں گئی کرتے (کمی کرتے) ہیں پھر جب ڈر کا وقت آئے تم انہیں دیکھو گے تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں جیسے کسی پر موت چھائی ہو پھر جب ڈر کا وقت نکل جائے تمہیں طعنے دینے لگیں تیز زبانوں سے مال غنیمت کے لالچ میں‘‘ (احمد رضا خان)

’’(یہ اس لئے کہ) تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں۔ پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور) اْن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہے تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں اور مال میں بخل کریں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’تم سے جان چراتے ہوئے، پس جب خطرہ پیش آجاتا تو تم ان کو دیکھتے کہ وہ تمھاری طرف اس طرح تاک رہے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی آنکھوں کی طرح گردش کررہی ہیں جس پر سکرات موت کی حالت طاری ہو، پھر جب خطرہ دور ہوجاتا تو وہ مال کی طمع میں تم سے بڑی تیز زبانی سے باتیں کرتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، اس میں زمانہ ماضی کا ترجمہ کیا گیا ہے، اذا کے ترجمہ میں ماضی کا استعمال درست نہیں ہے)

’’جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں‘‘ (سید مودودی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

’’تمہیں چاہنے والے بن کر، پس جب خطرہ پیش آجاتا ہے تو تم ان کو دیکھتے ہو کہ وہ تمھاری طرف اس طرح تاک رہے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی آنکھوں کی طرح گردش کررہی ہیں جس پر سکرات موت کی حالت طاری ہو، پھر جب خطرہ دور ہوجاتا ہے تو وہ مال کی طمع میں تم سے بڑی تیز زبانی سے باتیں کرتے ہیں‘‘۔ امام زمخشری نے اس آیت کا بالکل صحیح مفہوم بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

اَشِحَّۃً عَلَیکُمْ فی وقت الحرب أضناء بکم، یترفرفون علیکم کما یفعل الرجل بالذاب عنہ المناضل دونہ عند الخوف یَنظُرُونَ اِلَیکَ فی تلک الحالۃ کما ینظر المغشی علیہ من معالجۃ سکرات الموت حذرا وخورا ولواذا بک، فاذا ذھب الخوف وحیزت الغنائم ووقعت القسمۃ: نقلوا ذلک الشحّ وتلک الضنۃ والرفرفۃ علیکم الی الخیر۔ وھو المال والغنیمۃ۔ ونسوا تلک الحالۃ الاولی، واجترء وا علیکم وضربوکم بالسنتھم وقالوا: وفروا قسمتنا فانا قد شاھدناکم وقاتلنا معکم، وبمکاننا غلبتم عدوّکم وبنا نصرتم علیہ. الکشاف۔

(۱۲۰) سلقوکم بألسنۃ کا مطلب

مذکورہ بالا آیت میں سلقوکم بألسنۃ حداد کا ترجمہ عام طور سے تیز زبانی، زبانی درازی اور طعنے دینا کیا گیا ہے۔ اہل لغت اور اہل تفسیر میں دو رائیں ہیں کہ اس کا مطلب زور زور سے بولنا ہے، یا تکلیف دہ باتیں کہنا ہے۔

وسَلَقَہ بِلِسَانہِ یَسلقہ سلقاً: أَسمعہ ما یکرہ فأکثر. وسَلَقۃ بِالکَلَامِ سَلقاً اِذا آذَاہُ، وَھُوَ شِدَّۃُ الْقَوْلِ بِاللِّسَانِ. وَفِی التَّنْزِیلِ: سَلَقُوکُمْ باَلْسِنَۃٍ حِدادٍ،

أی بالَغُوا فِیکُم بِالکَلَامِ وخاصَمُوکم فی الغَنِیمَۃِ أشَدَّ مخاصمۃٍ وأَبلَغَھا، أَشِحَّۃً عَلَی الخَیرِ، أی خَاطَبُوکُم أَشَدَّ مُخاطبۃ وھُمْ أشِحَّۃ عَلی المَالِ وَالغَنیمَۃِ، الفَرَّاءُ: سَلَقُوکُمْ بأَلسِنَۃٍ حِدادٍ مَعنَاہُ عَضّْوکم، یَقُولُ: آذَوکم بِالکَلَامِ فِی الاَمر باَلسِنۃ سَلِیطۃ ذَرِبَۃَ۔ لسان العرب

صاحب تفہیم نے سلقوکم کا ترجمہ استقبال کرنا کیا ہے، اور تفسیر میں بڑے تپاک سے استقبال کرنا لکھا ہے۔ 

انہیں یہ غلط فہمی غالبا تفسیر طبری کی ایک عبارت سے ہوئی ہے جس میں ابن عباس کے حوالے سے استقبلوکم کا لفظ روایت کیا گیا ہے۔ تفسیر طبری کی پوری عبارت دیکھیں تو یہ غلط فہمی دور ہوجاتی ہے، پوری عبارت اس طرح ہے:

وقال آخرون: بل ذلک سلقھم ایاھم بالأذی. ذکر ذلک عن ابن عباس: حدثنی علیّ، قال: ثنا ابوصالح، قال: ثنی معاویۃ، عن علیّ، عن ابن عباس قولہ: (سَلَقُوکُمْ بألسِنَۃٍ حِدادٍ) قال: استقبلوکم. تفسیر الطبری۔

ابن عباس سے مروی ایک دوسری عبارت سے ان کی مراد اور واضح ہوجاتی ہے، وہ اس طرح ہے:

وأخرج الطستی عَن ابن عَبَّاس رَضِی اللہ عَنہُمَا أَن نَافِع بن الأرزق قَالَ لہُ اَخبرنی عَن قَولہ عزَّوَجل (سلقوکم بألسنۃحداد) قَالَ الطعن بِاللِّسَانِ قَالَ وَھل تعرف العَرَب ذَلک قَالَ نعم أما سَمِعت الأَعشَی وھُوَ یَقُول فیھم الخطب والسماحۃ والنجدۃ فیھم والخاطب المسلاق. الدرالمنثور۔

عربی کا استقبال اردو کے استقبال یعنی خیر مقدم سے مختلف ہوتا ہے، اور اس کا مطلب سامنا کرنا ہوتا ہے، ابن عباس کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ وہ طعن گوئی کے ساتھ تمہارا سامنا کرتے ہیں۔یوں تو سلق کا مطلب سامنا کرنا بھی نہیں ہوتا ہے، سلق باللسان کا مطلب تکلیف دہ بات کہنا ہوتا ہے۔ ابن عباس کی منشا یہ ہے کہ وہ تمہارے سامنے زبان درازی کرتے ہیں۔

لغت کی رو سے سلق کا مطلب استقبال کرنا اور وہ بھی تپاک سے کرنا کسی صورت میں نہیں ہوسکتا ہے۔ صاحب تفہیم نے تفسیری حاشیے میں دوسرا مفہوم بھی ذکر کیا ہے، جو عام رائے کے مطابق ہے اور وہ صحیح مفہوم ہے۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(اکتوبر ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter