(۵۶) أَلَدُّ الْخِصَامِ کا مفہوم
لفظ خصومۃ کے معنی ہوتے ہیں بحث ومباحثہ کے، جس میں جھگڑے کی کیفیت بھی کبھی شامل ہوسکتی ہے۔ فیروزآبادی نے لکھا ہے، الخُصومَۃُ: الجَدَلُ۔
قرآن مجید میں اس لفظ کے متعدد مشتقات استعمال ہوئے ہیں، جہاں مترجمین نے جھگڑنے کے لفظ سے ترجمہ کیا ہے، خود لفظ خصام کا ترجمہ بحث مباحثہ اور جھگڑے سے کیا ہے، جیسے:
أَوَمَن یُنَشَّأُ فِیْ الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِیْ الْخِصَامِ غَیْْرُ مُبِیْنٍ۔ (الزخرف :۱۸)
’’کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟‘‘۔ (سید مودودی)
’’کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کرسکے (خدا کی) بیٹی ہوسکتی ہے؟‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’کہ کیا (وہ پیدا ہوئی ہے) جو زیوروں میں پلتی اور مفاخرت میں بے زبان ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، لیکن یہاں مفاخرت کا ترجمہ درست نہیں ہے، کیونکہ اس لفظ کے اندر مفاخرت کا مفہوم بالکل نہیں پایا جاتا ہے، صرف بحث تکرار اور جھگڑے کا مفہوم ہے)
مترجمین نے عموما خصام کا ترجمہ بحث وحجت اور جھگڑا کیا ہے، تاہم مندرجہ ذیل آیت میں جہا ں لفظ الد الخصام آیا ہے، بہت سارے مترجمین نے بدترین دشمن کا ترجمہ کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے ، کیونکہ اس لفظ میں دشمنی کا مفہوم نہیں پایا جاتا ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَن یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللّہَ عَلَی مَا فِیْ قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَام۔ (البقرۃ : ۲۰۴)
’’انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خد ا کو گواہ ٹھہرا تا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
محمد حسین نجفی، علامہ جوادی، ، پیر محمد کرم شاہ نے بھی بدترین دشمن ترجمہ کیا ہے، جبکہ امین احسن اصلاحی نے کٹر دشمن ترجمہ کیا ہے۔ اشرف علی تھانوی کا ترجمہ ہے: حالانکہ وہ (آپ کی) مخالفت میں (نہایت) شدید ہے۔
وہیں بعض دوسرے مترجمین نے سخت جھگڑالو سے ترجمہ کیا ہے اور یہی ترجمہ درست ہے، جیسے:
’’اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی مانی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ترجمہ کے لیے وہ الفاظ اختیار کیے ہیں جو لفظ سے قریب ترین ہیں، ’’درحقیقت وہ بہت زیادہ باتونی اور کٹھ حجتی کرنے والا ہے‘‘۔
دراصل الد الخصام کا مطلب تو جھگڑا اور کٹ حجتی کرنا ہی ہے، جیسا کہ طبری نے ذکر کیا ہے؛ (وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَام) أی ذو جدال اذا کلمک وراجعک۔لیکن زمخشری نے لفظ کی تفسیر کرتے ہوئے غالبا تفنن کلام کے طور پر عداوت کا بھی ذکر کردیا،ان کے الفاظ ہیں: وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَام، وھو شدید الجدال والعداوۃ للمسلمین۔ اور لگتا ہے کہ یہاں سے بعض مترجمین اور مفسرین نے یہ خیال کیا کہ یہ لفظ سخت دشمن کے معنی میں ہے۔
(۵۷) خَصِیْمٌ مُّبِیْن کا مطلب
لفظ خصیم مبین کا ذکر قرآن میں دو مقامات پر ہوا ہے، عام طور سے اردومترجمین نے اس کاترجمہ یہ سمجھ کر کیا ہے کہ گویا دونوں مقامات پر ان کفارکی مذمت کی جارہی ہے جو اللہ سے جھگڑا کرتے ہیں۔
(۱) خَلَقَ الإِنسَانَ مِن نُّطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْن۔ (النحل :۴)
’’اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا‘‘۔(سید مودودی)
’’اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
(۲) أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نُّطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْن۔ (یس: ۷۷)
’’یا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا۔ پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’کیا انسان نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اس کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا تو وہ ایک کھلا ہوا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ دونوں آیتوں کا سیاق اللہ کی انسان پر نعمت بیان کرنے کا ہے، خصیم مبین کا ترجمہ ہوگا: ’’بے تکلفی سے بحث کرنے والا‘‘۔ اور یہاں وہ کٹھ حجتی مراد نہیں ہے جو ایک منکر اللہ کی آیتوں کے ساتھ کرتا ہے، بلکہ بحث ومباحثہ کی وہ عام صلاحیت مراد ہے جو ہر انسان کو حاصل ہوتی ہے۔یعنی جس انسان کی تخلیق ایک قطرے سے ہوتی ہے، وہ دیکھتے دیکھتے کلام اور مباحثہ کی کتنی گونا گوں صلاحیتوں کا حامل ہوجاتا ہے۔
یہاں عام انسانوں کے لئے خصیم مبین کی تعبیراختیار کی گئی جبکہ دوسرے مقام پر عورتوں کے لئے وَہُوَ فِیْ الْخِصَامِ غَیْْرُ مُبِیْن کی تعبیر اختیار کی گئی۔وہاں جس طرح بحث ومباحثہ میں عورتوں کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے یہاں دونوں مقامات پر بحث ومباحثہ کے تعلق سے عام انسان کی قوت وصلاحیت کی طرف اشارہ ہے، جو اللہ تعالی محض ایک نطفہ سے انسان کو پیداکرنے کے بعد ایک عظیم نعمت کے طور پر عطا کرتا ہے۔ اور جب انسان اپنی تخلیق کی ابتدا اور اپنی صلاحیت کو یکجا کرکے دیکھتا ہے، تو اس شدید استعجاب سے دوچار ہوتا ہے، جس کی تعبیر لفظ اذا فجائیہ سے کی گئی ہے۔
ان دونوں آیتوں کا ترجمہ شیخ الہند مفتی محمود الحسن نے کچھ اسی انداز سے کیا ہے:
’’بنایا آدمی کو ایک بوند سے، پھر جبھی ہوگیا جھگڑا کرنے والا بولنے والا‘‘۔
’’کیا دیکھتا نہیں انسان کہ ہم نے اس کو بنایا ایک قطرہ سے، پھر تبھی وہ ہوگیا جھگڑنے بولنے والا‘‘۔
بعض مفسرین نے اس تفسیر کو ایک احتمال کے طور پر ذکر کیا ہے، زمخشری سورہ نحل والی آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
’’فاذا ھو خصیم مبین فیہ معنیان، أحدھما: فاذا ھو منطیق مجادل عن نفسہ مکافح للخصوم مبین للحجۃ، بعدما کان نطفۃ من منیّ جمادا لا حس بہ ولا حرکۃ، دلالۃ علی قدرتہ۔ والثانی: فاذا ھو خصیم لربہ، منکر علی خالقہ، قائل: من یحیی العظام وھی رمیم، وصفا للانسان بالافراط فی الوقاحۃ والجھل، والتمادی فی کفران النعمۃ۔‘‘ (تفسیر الکشاف)
(۵۸) ایمان لانے اور ایمان رکھنے کے محل کی رعایت
ایمان لانے کا مطلب ہوتا ہے غیر ایمانی حالت سے ایمان میں داخل ہونا، جبکہ ایمان رکھنے کا مطلب ہوتا ہے ایمان سے متصف ہونا۔ عربی لفظ ایمان کا مطلب ایمان لانا بھی ہوتا ہے اور ایمان رکھنا بھی ہوتا ہے۔ میں اللہ پر ایمان لایا، اور میرا اللہ پر ایمان ہے یا میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں، دونوں تعبیروں میں فرق ہے۔
قرآن مجید میں لفظ ایمان اور اس کے مشتقات متعدد مقامات پر استعمال ہوئے ہیں، اور مذکورہ دونوں معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، کلام میں لفظ کا محل خود یہ طے کرتا ہے کہ کیا مراد ہے، ایک عام انسان جب ایمان کو قبول کرکے اس میں داخل ہوتا ہے تو وہ ایمان لانا ہوتا ہے، اور جب ایک آدمی ایمان کی صفت سے متصف ہوجاتا ہے تو یہ ایمان رکھنا ہوتا ہے، گویا جہاں اہل ایمان کے وصف کے طور پر بیان ہو وہاں ایمان رکھنا کہیں گے۔
ایک آیت سے اس کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے:
وَجَاوَزْنَا بِبَنِیْ إِسْرَائِیْلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُہُ بَغْیْاً وَعَدْواً حَتَّی إِذَا أَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّہُ لا إِلِہَ إِلاَّ الَّذِیْ آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیْلَ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (یونس: ۹۰)
’’اور ہم بنی اسرائیل کو دریا پار لے گئے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے ان کا پیچھا کیا سرکشی اور ظلم سے یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے آ لیا بولا میں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں، سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں‘‘۔(احمد رضا خان)
اس ترجمہ میں دونوں الفاظ کا ترجمہ ایمان لانے سے کیا گیا ہے، لیکن اگر یہ حقیقت ذہن میں رکھی جائے کہ فرعون ایمان میں داخل ہونے کا اعلان کررہا ہے، جبکہ بنی اسرائیل پہلے سے ایمان والے تھے، تو ترجمہ اس طرح ہوگا۔
’’اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر پار لے گئے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے ان کا پیچھا کیا سرکشی اور ظلم سے یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے آ لیا بولا میں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان رکھتے ہیں، اور میں مسلمان ہوں۔‘‘
انگریزی کے مندرجہ ذیل دو ترجموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ اول الذکر یعنی اسد کے ترجمہ میں اس فرق کا بڑی باریکی سے لحاظ کیا گیا ہے:
[Pharaoh] exclaimed:" I have come to believe that there is no deity save Him in whom the children of Israel believe. (Asad)
He exclaimed: I believe that there is no Allah save Him in Whom the Children of Israel believe. (Pickthal)
سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتوں کے ترجمے میں مترجمین نے اس فرق کا کہاں تک لحاظ کیا ہے ، اس کا جائزہ بطور مثال مفید ثابت ہوگا۔
الم۔ ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون۔ والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُون۔ أُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ (البقرۃ:۱۔۵)
’’الف لام میم، یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے اْن پرہیز گار لوگوں کے لیے، جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اْن کو دیا ہے، اْس میں سے خرچ کرتے ہیں، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔(سید مودودی)
’’یہ الم ہے۔ یہ کتاب الٰہی ہے۔ اس کے (کتاب الہی ہونے) میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لئے۔ (ان لوگوں کے لئے) جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں۔ نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور( ان کے لئے ) جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
عام طور سے مترجمین نے ان آیتوں میں (یُؤْمِنُون) کا ترجمہ ’’ایمان لاتے ہیں‘‘ کیا ہے، جبکہ سیاق کلام کا تقاضا ہے کہ’’ ایمان رکھتے ہیں‘‘ ترجمہ کیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سیاق میں (یُوقِنُون)کا ترجمہ عام طور سے مترجمین نے’’ یقین رکھتے ہیں‘‘ کیا ہے۔
مذکورہ آیات بالکل واضح ہیں کہ تذکرہ ان لوگوں کا ہورہا ہے جن کے اوصاف میں ایمان شامل ہوچکا ہے، بلکہ ایمان کے ثمرات بھی ان کی شخصیت کا مظہر بن چکے ہیں۔
اکثریت کے برعکس بعض مترجمین نے خاص اس مقام پر اس کی رعایت کی ہے ، ایک مثال پیش ہے:
’’الف۔ لام۔ میم۔ یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ (یہ) ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے (سابقہ انبیاء) پر نازل کیا گیا۔ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی وہ ہیں جو (آخرت میں) فوز و فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
(جاری)