اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۸)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۹) نظر المغشی علیہ من الموت کا ترجمہ

مندرجہ ذیل دو قرآنی مقامات کے بعض ترجمے توجہ طلب ہیں:

(۱) رَأَیْْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْتِ۔ (محمد: 20)

’’مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو ‘‘(سید مودودی، اس ترجمہ میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ اذا کے ہوتے ہوئے ترجمہ ماضی کا کیا گیا ہے، حالانکہ اذا فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اسے حال یا مستقبل کے مفہوم میں بدل دیتا ہے)

’’سو جس وقت کوئی صاف (مضمون) کی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا بھی ذکر ہوتا ہے تو جن لوگو ں کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے آپ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو‘‘ (احمد علی)

مذکورہ بالا ترجموں میں ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ینظروں الیک نظر المغشي علیہ من الموت کا ترجمہ کیا گیا: ’’آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو‘‘ یہ عبارت کا صحیح اور واضح ترجمہ نہیں ہے، اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے کی یہ کیفیت ہے یا جسے وہ دیکھ رہے ہیں اس کی یہ کیفیت ہے، ترجمہ میں یہ بالکل واضح ہونا چاہئے کہ دیکھنے والوں کی یہ کیفیت بتائی جارہی ہے۔

اس پہلو سے مندرجہ ذیل ترجمے زیادہ مناسب ہیں، ان میں عبارت کا حق بھی ادا ہورہا ہے اور وضاحت کا تقاضا بھی پورا ہورہا ہے۔

’’پھر جب اتری ایک سورۃ جانچی ہوئی، اور ذکر ہوا اس میں لڑائی کا تو تو دیکھتا ہے جن کے دل میں روگ ہے تکتے ہیں تیری طرف جیسے تکتا ہے کوئی بے ہوش پڑا مرنے کے وقت‘‘(شاہ عبدالقادر، اس ترجمہ میں زیر بحث غلطی تو نہیں ہے لیکن وہ غلطی یہاں بھی موجود ہے جس کا اوپر کے ایک ترجمے میں ذکر کیا گیا ، اور وہ یہ کہ اذا کے ہوتے ہوئے ترجمہ ماضی کا کیا گیا، حالانکہ اذا فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اسے حال یا مستقبل کے مفہوم میں بدل دیتا ہے)

’’پھر جب کوئی پختہ سورت اتاری گئی اور اس میں جہاد کا حکم فرمایا گیا تو تم دیکھو گے انہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ تمہاری طرف اس کا دیکھنا دیکھتے ہیں جس پر مْرونی چھائی ہو‘‘(احمد رضا خان،یہاں بھی وہ غلطی ہے)

’’پس جب اتاری جاوے گی سورت ثابت اور ذکر کیا جاوے بیچ اس کے لڑائی کا، دیکھے گا تو ان لوگوں کو ،بیچ دلوں ان کے بیماری ہے ،دیکھتے ہیں تیری طرف ،جیسا دیکھتا ہے وہ شخص کہ بیہوشی آئی ہو اوپر اس کے موت سے ‘‘(شاہ رفیع الدین)

’’پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو ‘‘(محمد جوناگڑھی)

آخر الذکر دونوں ترجموں میں زیر بحث دونوں غلطیاں نہیں ہیں۔

(۲) فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَیْْتَہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشَی عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْت۔ (الاحزاب: 19)

اس آیت کے ترجموں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگوں کے یہاں نظر المغشي علیہ من الموت کی طرح کالذي یغشی علیہ من الموت کے ترجمے میں بھی وہی خامی باقی رہ گئی، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

’’پھر جب آوے ڈر کا وقت تو تو دیکھے تکتے ہیں تیری طرف ٹکر ٹکر کرتی ہیں آنکھیں ان کی جیسے کسی پر آوے بیہوشی موت کی‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو‘‘ (سید مودودی)

’’پھر جب ڈر کا وقت آئے تم انہیں دیکھو گے تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں جیسے کسی پر موت چھائی ہو ‘‘(احمد رضا خان)

’’پھر جب ڈر کا وقت آجائے تو تْو انھیں دیکھے گا کہ تیری طرف دیکھتے ہیں ان کی آنکھیں پھرتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بے ہوشی آئے‘‘(احمد علی)

’’ پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور) اُن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو‘‘(فتح محمدجالندھری)

مذکورہ ذیل ترجمہ مناسب ہے، اور اس میں یہ خامی نہیں ہے:

’’پھر جب خوف ودہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی انکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو‘‘(محمد جوناگڑھی)

دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اوپر والی آیت کے ترجمہ میں بعض لوگوں نے اذا کے ہوتے ہوئے بھی پورے جملہ کا زمانہ ماضی سے ترجمہ کیا، لیکن انہی حضرات نے اس دوسری آیت میں اذاکی رعایت کی ہے، اوردرست طور سے حال یا مستقبل کا ترجمہ کیا ہے۔

(۱۳۰) مخلفون کا ترجمہ

مخلفون کا لفظ سورہ فتح میں تین بار آیا ہے، اور تینوں جگہ سب لوگوں نے ’’پیچھے رہ جانے والے‘‘ اور ’’پیچھے چھوڑ دیے جانے والے‘‘ ترجمہ کیا ہے۔

(۱) سَیَقُولُ لَکَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَہْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا۔ (الفتح: 11)

’’دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے وہ اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے رہ گئے پس آپ ہمارے لیے مغفرت طلب کیجئے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)

’’اے نبیؐ، بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ ’’ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں‘‘۔(سید مودودی)

(۲) سَیَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَی مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوہَا ذَرُونَا نَتَّبِعْکُمْ۔ (الفتح: 15)

جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ (سید مودودی)

جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجیے کہ آپ کے ساتھ چلیں۔(فتح محمد جالندھری)

(۳) قُل لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَی قَوْمٍ أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُونَہُمْ أَوْ یُسْلِمُون۔ (الفتح: 16)

اِن پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ "عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہو جائیں گے۔(سید مودودی)

جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لیے بلائے جاؤ گے ان سے تم (یا تو) جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔(فتح محمد جالندھری)

مخلفون کا لفظ ایک بار سورہ توبہ میں بھی آیا ہے وہاں صاحب تفہیم نے ایک مختلف ترجمہ کیا ہے، ذیل کی آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللّہِ وَکَرِہُواْ أَن یُجَاہِدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِیْ الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ أَشَدُّ حَرّاً لَّوْ کَانُوا یَفْقَہُونَ۔ (التوبۃ: 81)

’’جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ’’اس سخت گرمی میں نہ نکلو‘‘ ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا‘‘۔(سید مودودی)

یہ ترجمہ لفظ کے موافق بھی نہیں ہے، اور حقیقت حال کے مطابق بھی نہیں ہے، کیونکہ اس ترجمہ سے صرف وہی لوگ مراد ہوتے ہیں جو اجازت لے کر رکے، حالانکہ آیت میں جو بات کہی جارہی ہے وہ ان تمام لوگوں کے بارے میں ہے جو پیچھے رہ گئے، خواہ وہ اجازت لے کر رہ گئے ہوں یا بغیر اجازت لیے رہ گئے ہوں، کسی بھی مہم کے موقعہ پر رکنے والے سب لوگ اجازت لے کر نہیں رکتے تھے، بہت سے یوں بھی رک جاتے تھے۔

مخلفون کا درست ترجمہ وہی ہے جو صاحب تفہیم نے مذکورہ بالا دوسرے مقامات پر کیا ہے یا دوسرے مترجمین نے خود اس مقام پر کیا ہے، جس کی ذیل میں مثالیں ہیں۔

’’پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے، کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)

’’جو لوگ (غزوہ تبوک میں) پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا (کی مرضی) کے خلاف بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا۔ (ان سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ (اس بات) کو سمجھتے‘‘۔(فتح محمدجالندھری)

(۱۳۱) وصلوات الرسول کا معطوف علیہ کیا ہے؟

وَمِنَ الأَعْرَابِ مَن یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللّہِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ سَیُدْخِلُہُمُ اللّہُ فِیْ رَحْمَتِہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ (التوبۃ: 99)

اس آیت میں وصلوات الرسول کا عطف کس پر ہے، اس سلسلے میں مفسرین دو احتمال ذکر کرتے ہیں ایک یہ کہ قربات پر عطف ہے اور دوسرا یہ کہ ما ینفق پر عطف ہے۔ 

مشہور مفسر ابن عطیہ لکھتے ہیں:

ف صَلَواتِ علی ھذا عطف علی قُرُباتٍ، ویحتمل أن یکون عطفا علی ما ینفق، أی ویتخذ بالأعمال الصالحۃ وصلوات الرسول قربۃ، والأولی أبین. (المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز)

پہلی صورت کو ابن عطیہ ترجیح دیتے ہیں، اردو اور انگریزی مترجمین قرآن نے بھی پہلی صورت کو اختیار کیا ہے، بطور مثال یہاں کچھ ترجمے ذکر کیے جاتے ہیں:

’’اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے تقرب کا اور رسولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یقیناًاللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)

اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھیں۔ (احمد رضا خان)

And of the dwellers of the desert is one who believeth in Allah and the Last Day, and taketh that which he expendeth as approaches unto Allah and the blessings of His apostle.(Daryabadi)

جبکہ مذکورہ ذیل دونوں ترجمے عام ترجموں سے مختلف ہیں اور اس بنیاد پر ہیں کہ وصلوات الرسول کا عطف ماینفق پر ہے:

اور ان دیہاتیوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو اور رسول کی دعاؤں کو حصول تقرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (امین احسن اصلاحی)

And of the wandering Arabs there is he who believeth in Allah and the Last Day, and taketh that which he expendeth and also the prayers of the messenger as acceptable offerings in the sight of Allah.(Pickthall)

اول الذکر ترجموں کا مطلب یہ ہوگا کہ انفاق کا مقصود اللہ کا تقرب اور رسول کی دعائیں ہیں، جبکہ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہوگا کہ انفاق کا مقصود بھی اور رسول کی دعائیں لینے کا مقصود بھی اللہ کا تقرب ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی اس دوسرے ترجمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس جملے کے بعد أَلا إِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ آیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیش نظر صرف اللہ کے تقرب کی بات ہے کہ وہ کس طرح سے اور کن کن چیزوں سے حاصل ہو، انفاق کرنے سے بھی اور رسول کی دعا لینے سے بھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انفاق یا کسی بھی نیک عمل کا مقصود صرف رضائے الٰہی ہونا چاہئے، اخلاص کا یہی تقاضا ہے، اس عمل سے خوش ہو کر رسول دعائیں دیں یہ تو ٹھیک ہے، لیکن عمل کا مقصود یہ بن جائے کہ رسول دعائیں دیں یہ اخلاص کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ 

اس مفہوم کی تائید جملے کی لفظی ترکیب سے بھی ہوتی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اتخذ فعل کے دو مفعول آتے ہیں پہلا مفعول حقیقت میں مبتدأ کی جگہ پر ہوتا ہے اور دوسرا مفعول خبر کی جگہ پر ہوتا ہے، مبتدأ عام طور سے معرفہ ہوتا ہے اور خبر عام طور سے نکرہ ہوتی ہے، یہاں ما ینفق مفعول اول ہے اور مبتدأ کی جگہ پر ہے، قربات مفعول بہ ہے اور خبر کی جگہ پر ہے، سوال صلوات الرسول کا ہے کہ اسے مفعول اول پر عطف کریں یا مفعول ثانی پر عطف کریں، چونکہ صلوات الرسول معرفہ ہے اس لئے اسے مفعول اول یعنی ما ینفق پر عطف کرنا ہی اولی ہے۔ اسے مفعول ثانی کے بعد لانے کی حکمت یہ ہے کہ اصل بات تو قربات عند اللہ پر پوری ہوگئی ہے، اس کے بعد صلوات الرسول دراصل ما ینفق کے لازمہ کے طور پر آیا ہے، اور یہ بتانے کے لئے کہ قربات کا ایک اور وسیلہ یہ بھی ہے۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(جنوری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter