(400) لَنُبَوِّئَنَّہُمْ کا ترجمہ
درج ذیل دو آیتوں کے ترجموں میں کچھ قابل توجہ امور ہیں۔
وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا فِی اللَّہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ۔ الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔ (النحل:41-42)
پہلا ترجمہ:
”اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی بعد اس کے کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے، ہم ان کو دنیا میں بھی اچھی طرح متمکن کردیں گے اور آخرت کا اجر تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش وہ جانیں۔ (یہ ان مہاجرین کے لیے ہے) جنھوں نے استقامت دکھائی اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
قابل توجہ امور:
پہلی بات: بوّء کا معنی ٹھکانہ دینا اور بسانا ہوتا ہے نہ کہ متمکن کرنا اور اقتدار دینا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے اور سب جگہ ٹھکانے اور بسیرے کے معنی میں ہی ہے۔ اور یہاں اسی مفہوم کا محل بھی ہے،کہ جن لوگوں نے اللہ کے راستے میں اپنا گھر بار چھوڑا، اللہ تعالی انھیں بہترین ٹھکانہ نصیب فرمائے گا۔
دوسری بات: (یہ ان مہاجرین کے لیے ہے) قوسین میں اس اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا کافی ہے کہ ”وہ جنھوں نے استقامت دکھائی۔“
تیسری بات: لو کا ترجمہ کاش کرنا اللہ کی شان کے پہلو سے مناسب نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا: اگر کہیں وہ جانتے ہوتے۔ (یعنی منکرین)
دوسرا ترجمہ:
”جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)“۔ (سید مودودی)
قابل توجہ امور:
پہلی بات: لو کانوا یعلمون کا ترجمہ ”کاش جان لیں“ مناسب نہیں ہے، بہتر ترجمہ یہ ہے: ”اگر کہیں وہ جانتے ہوتے“۔
دوسری بات: لو کانوا یعلمون کا ترجمہ کرنے کے بعد فل اسٹاپ (ختمہ) لگنا چاہیے۔ کیوں کہ الذین صبروا یعلمون کا فاعل نہیں ہے، اس کا فاعل تو وہ منکرین ہیں جن کا ذکر گزشتہ آیتوں میں بھی ہے۔ صبر و توکل والے تو بخوبی جانتے ہی ہیں بلکہ ایمان رکھتے ہیں، ان کے بارے میں یہ کیوں کہا جائے گا کہ ”کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)“۔
تیسری بات: الذین صبروا کا ترجمہ وہ مظلوم جنھوں نے صبر کیا موزوں نہیں ہے۔ بہتر ترجمہ ہوگا: وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا۔
چوتھی بات: وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ کا ترجمہ ہوگا: اور جو اپنے رب کے اوپر بھروسہ رکھتے ہیں۔
پانچویں بات: (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے) قوسین میں اسے ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جملہ اس کے بغیر مکمل ہے۔
تیسرا ترجمہ:
”جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
ظُلِمُوا کا مطلب ظلم کا نشانہ بننا ہے نہ کہ ظلم کو برداشت کرنا۔
درج ذیل ترجمے میں مذکورہ بالا خامیاں نہیں ہیں:
”اور جنھوں نے گھر چھوڑا اللہ کے واسطے بعد اس کے کہ ظلم اٹھایا، البتہ ان کو ہم ٹھکانہ دیں گے دنیا میں اچھا اور ثواب آخرت کا تو بہت بڑا ہے، اگر ان کو معلوم ہوتا۔ جو ثابت رہے اور اپنے رب پر بھروسہ کیا“۔ (شاہ عبدالقادر)
(401) إِلَہَیْنِ اثْنَیْنِ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں الھین کے ساتھ اثنین بھی آیا ہے، اس لیے ترجمہ دو معبود کرنے کے بجائے دو دو معبود کرنا چاہیے۔
وَقَالَ اللَّہُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَہَیْنِ اثْنَیْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ۔(النحل: 51)
”اور اللہ نے فرمادیا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور خدا نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
إِنَّمَا هُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ کا ترجمہ عام طور سے کیا گیا ہے، ”معبود وہی ایک ہے“۔ ھو ضمیر کا مرجع اللہ کو مانا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ یہاں ھو ضمیر شان ہے، یعنی: معبود ایک ہی ہے۔
اس طرح آیت کا ترجمہ ہوگا:
”اور اللہ نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود ایک ہی ہے۔“
(402) کَمَنْ لَا یَخْلُقُ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں کَمَنْ لَا یَخْلُقُ کا مفعول بہ مذکور نہیں ہے۔ ترجمے میں اس کا لحاظ کرنا چاہیے۔
أَفَمَنْ یَخْلُقُ کَمَنْ لَا یَخْلُقُ۔ (النحل: 17)
”پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں؟“۔ (سید مودودی)
یہاں ”کچھ بھی“ زائد ہے۔
”تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے۔ کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے“۔ (فتح محمد جالندھری)
یہاں ”اتنی مخلوقات“ اور ”کچھ بھی“ زائد ہے۔
”تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرسکتا؟“۔ (محمد جونا گڑھی)
یہاں ”کرسکتا“ کی ضرورت نہیں ہے۔
”تو کیا جو بنائے وہ ایسا ہوجائے گا جو نہ بنائے“۔ (احمد رضا خان)
یہ مناسب ترجمہ ہے، اس میں کوئی زائد از لفظ اضافہ نہیں ہے۔ دراصل یہاں موازنہ ہے اس میں جو خالق ہے اور اس میں جو خالق نہیں ہے۔
(403) مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ کا ترجمہ
اسرار کا مطلب چھپانا اور اعلان کا مطلب ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ یہی اس کا صحیح ترجمہ ہے۔ کھلا اور چھپا یا ظاہر وباطن ان الفاظ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ اسرار کا لفظ بتاتا ہے آدمی نے کسی خاص نیت سے کسی بات کو پوشیدہ رکھا ہے۔ کسی چیز کے باطن یا پوشیدہ ہونے کے لیے اسرار ضروری نہیں ہے۔ انسان کے ارادے کے بغیر اس کی بہت سی چیزیں دوسروں سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔ یہاں انسانوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ ا ن چیزوں کو بھی جانتا ہے جن کو وہ چھپاکر سمجھتے ہیں کہ کوئی جان نہیں سکے گا۔
(۱) وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (النحل: 19)
”اور اللہ ہی تمہارے باطن و ظاہر دونوں سے باخبر ہے“۔ (ذیشان جوادی)
”حالانکہ وہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی“۔ (سید مودودی)
”اور جو کچھ تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو سب سے خدا واقف ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
آخری ترجمہ درست ہے۔
(۲) وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (النمل: 25)
”اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو“۔ (سید مودودی)
(۳) وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (التغابن: 4)
”اور جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو کھلم کھلا کرتے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری) چھپاکر کرنا ہی نہیں بلکہ کسی بھی چیز کو چھپانا مراد ہے۔
”اور ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جن کا تم اظہار کرتے ہو یا جنہیں تم چھپاتے ہو“۔ (ذیشان جوادی) ترتیب الٹ گئی ہے۔ چھپانے کا ذکر پہلے ہے۔
”جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے“۔ (سید مودودی)
آخری ترجمہ درست ہے۔
(۴) أَوَلَا یَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (البقرۃ: 77)
”کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدگی اور ظاہرداری سب کو جانتا ہے؟“۔ (محمد جوناگڑھی) پوشیدگی اور ظاہر داری سے دونوں لفظوں کا مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے۔ پوشیدگی کا مطلب چھپانا نہیں بلکہ چھپنا ہوتا ہے اور ظاہر داری کا مطلب بھی ظاہر کرنا نہیں ہوتا ہے۔
”کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، خدا کو (سب) معلوم ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
آخری ترجمہ درست ہے۔
(۵) أَلَا حِینَ یَسْتَغْشُونَ ثِیَابَہُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (ہود: 5)
”سن رکھو جس وقت یہ کپڑوں میں لپٹ کر پڑتے ہیں (تب بھی) وہ ان کی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے“۔ (احمد رضا خان)
”تو آگاہ رہیں کہ یہ جب اپنے کپڑوں کو خوب لپیٹ لیتے ہیں تو اس وقت بھی وہ ان کے ظاہر و باطن دونوں کو جانتا ہے“۔ (ذیشان جوادی، یہاں بھی ترتیب الٹ گئی ہے، اسرار پہلے اور اعلان بعد میں ہے۔)
”خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی“۔ (سید مودودی)
”آگاہ ہو یہ (اس وقت بھی اس کی نظر میں ہوتے ہیں) جب اپنے اوپر کپڑے لپیٹتے ہیں۔ وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
آخری ترجمہ درست ہے۔ البتہ اس میں قوسین والے جملے کی ضرورت نہیں ہے۔ کپڑے لپیٹتے ہیں کے بعد فل اسٹاپ (ختمہ) نہیں رہے گا۔ ترجمہ اس طرح ہوگا:
”آگاہ ہو یہ جب اپنے اوپر کپڑے لپیٹتے ہیں وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔“
(۶) لَا جَرَمَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (النحل: 23)
”اللہ یقینا اِن کے سب کرتوت جانتا ہے چھپے ہوئے بھی اور کھلے ہوئے بھی“۔ (سید مودودی)
”فی الحقیقت اللہ جانتا ہے جو چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)
آخری ترجمہ درست ہے۔
(۷) إِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (یس: 76)
”اِن کی چھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”ہم ان کی پوشیدہ اور علانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمیں سب معلوم ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
آخری ترجمہ درست ہے۔
(404) کفیلا کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں کفیلا کے عام طور سے دو ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک گواہ اور دوسرا ضامن۔
وَأَوْفُوا بِعَہْدِ اللَّہِ إِذَا عَاہَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّہَ عَلَیْکُمْ کَفِیلًا إِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ۔ (النحل: 91)
”اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے“۔ (سید مودودی)
”اور تم اللہ کو گواہ بھی بناچکے ہو“۔ (اشرف علی تھانوی)
”درآنحالیکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ٹھہراچکے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور کرکے اللہ کو اپنا ضامن“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو“۔ (احمد رضا خان)
”کہ تم خدا کو اپنا ضامن مقرر کرچکے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
”حالانکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو“۔ (محمد جوناگڑھی)
دونوں ہی ترجمے کچھ اشکال رکھتے ہیں۔ کفیل کا ترجمہ گواہ تو لغت کے لحاظ سے ثابت نہیں ہے۔ اور جہاں تک ضامن کی بات ہے تو انسان اللہ کے نام سے جب عہد کرتا ہے یا قسم کھاتا ہے تو وہ اللہ کو ضامن نہیں بناتا ہے۔ اگر وہ عہد پورا نہ کرے تو اللہ کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ہے، وہ خود اپنی عہد شکنی کا پورے طور سے ذمے دار ہوتا ہے۔ کفیل بمعنی ضامن کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے عہد پورا نہ کرنے کی ذمے داری ضامن پر ہوگی، اور ظاہر ہے یہ مراد نہیں ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ یہاں اس لفظ کا ترجمہ سرپرست اور نگہبان ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ک ف ل کے دیگر کچھ مشتقات آئے ہیں، ان مقامات پر سرپرستی کا مفہوم ہے۔ جیسے:
وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یُلْقُونَ أَقْلَامَہُمْ أَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ۔ (آل عمران: 44)
اور: وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا۔ (آل عمران: 37)
نیز: فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی مَنْ یَکْفُلُہُ۔ (طہ: 40)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
”جب کہ تم اللہ کو اپنا سر پرست و نگہبان بنا چکے ہو۔“
غالبا شاہ ولی اللہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں، ان کا ترجمہ ہے:
”وہر آئینہ ساختہ اید خدارا بر خویش نگاہ بانندہ“۔
امام طبری کی رائے یہی ہے۔
یَقُولُ: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّہَ بِالْوَفَاءِ بِمَا تَعَاقَدْتُمْ عَلَیْہِ عَلَی أَنْفُسِکُمْ رَاعِیًا یَرْعَی الْمُوفِی مِنْکُمْ۔ (تفسیر طبری)
مطلب یہ ہوا کہ جب اللہ سے تم نے عہد کیا ہے اور اسی کے حضور پختہ قسمیں کھائی ہیں اور تم یہ بھی مانتے ہو کہ وہی تمہارا نگہبان و سرپرست ہے، تو پھر تمہارے دل میں عہد شکنی اور قسم توڑنے کا خیال نہیں آنا چاہیے۔ تمھیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تمہارا سرپرست و نگہبان ہے وہ تمہارے عہد وپیمان کی تکمیل میں تمہاری مدد کرے گا۔
(جاری)