اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۰)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(405) طیِّب کا ترجمہ

طیب اور خبیث ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ طیب کے معنی پاک کے بھی ہیں اور عمدہ و خوش گوار کے بھی ہیں۔ اہل لغت طاب کا معنی لذّوز کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی لذیذ اور پاکیزہ۔ اس لفظ میں وسعت پائی جاتی ہے۔

ابن منظور رقم طراز ہیں:

أَرضٌ طَیِّبة اس زمین کو کہتے ہیں جو زراعت کے لیے سازگار ہو۔ رِیحٌ طَیِّبَةٌ اس ہوا کو کہتے ہیں جو نرم ہو شدید نہ ہو۔ طُعْمة طَیِّبة حلال لقمے کو کہتے ہیں۔ امرأَةٌ طَیِّبة عفیف وپاک دامن خاتون کو کہتے ہیں۔ کلمةٌ طَیِّبة ایسی بات کو کہتے ہیں جس میں کوئی ناپسندیدہ امر نہ ہو۔ بَلْدَة طَیِّبة اس بستی کو کہتے ہیں جو خوش حال اور پر امن ہو۔ حِنْطة طَیِّبة اوسط درجے کے عمدہ گیہوں کو کہتے ہیں۔ تُرْبة طَیِّبة پاک مٹی کو کہتے ہیں۔ زَبُونٌ طَیِّبٌ اس گراہک کو کہتے ہیں جس سے خرید و فروخت کرنا آسان ہو۔ طعامٌ طَیِّب اس کھانے کو کہتے ہیں جس سے لذت حاصل ہو۔ وغیرہ۔ (لسان العرب)

درج ذیل آیت میں طیبات کا مطلب عمدہ چیزیں اور خبیث کا مطلب خراب چیز ہے۔

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِیہِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ۔ (البقرۃ: 267)

قرآن مجید میں مختلف مقامات پریہ لفظ آیا ہے۔ بیشتر مقامات پر پاک یا پاکیزہ سے اس کا پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے، لیکن عمدہ و خوش گوار جیسی تعبیرات مفہوم کو پورے طور پر ادا کرتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ عمدہ میں پاکیزہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے۔

درج ذیل مقامات پر اس پہلو سے غور کیا جاسکتا ہے:

(۱)  مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاةً طَیِّبَةً۔ (النحل: 97)

”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ (سید مودودی)

”جو کوئی نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، اور وہ ایمان پر ہے، تو ہم اس کو ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری دو ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔یہاں عمدہ و خوش گوار زندگی سے حَیَاةً طَیِّبَةً کی بہتر ترجمانی ہوتی ہے۔

(۲)  وَعَدَ اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ۔ (التوبۃ: 72)

”ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ مکانوں“۔ (احمد رضا خان)

”صاف ستھرے پاکیزہ محلات“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پاکیزہ مکانوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”نفیس مکانات“۔ (فتح محمد جالندھری)

عمدہ و نفیس مکانات کہنے سے اس وعدے کی معنوی قوت بڑھ جاتی ہے۔ پاکیزہ کا مفہوم اس میں شامل ہوتا ہے۔

(۳)  حَتَّی إِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیحٍ طَیِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِہَا۔ (یونس: 22)

”جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو“۔ (سید مودودی)

”یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہو اور وہ اچھی ہوا سے انھیں لے کر چلیں اور اس پر خوش ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعہ سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں پاکیزہ ہوا کا محل نہیں ہے بلکہ موافق و سازگار ہوا کا محل ہے۔

(۴)  أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ۔ (ابراہیم: 24)

”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ درخت“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ درخت“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پاکیزہ درخت“۔ (محمد جوناگڑھی)

مضبوط جڑ اور آسمان میں پھیلی شاخیں عمدہ قسم کے درخت کی صفات ہیں۔ یہاں پاکیزہ کہنے کا کوئی محل نہیں ہے۔

(۵)  لَقَدْ کَانَ لِسَبَإٍ فِی مَسْکَنِہِمْ آیَةٌ جَنَّتَانِ عَنْ یَمِینٍ وَشِمَالٍ کُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوا لَہُ بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ۔ (سبا: 15)

”سبا کے لیے اُن کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں، کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ شہر“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ شہر ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یہ عمدہ شہر“۔ (محمد جوناگڑھی)

”زمین شاداب و زرخیز“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخر کے دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔

(۶)  وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ۔ (الصف: 12)

”اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا“۔ (سید مودودی)

”عمدہ مکانوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”صاف ستھرے گھروں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پاکیزہ محلوں“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ مکانات“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں بھی پاکیزہ محلوں کی بات نہیں بلکہ عمدہ و شان دار محلوں کی بات زیادہ موزوں ہے۔

(۷)  وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِی خَبُثَ لَا یَخْرُجُ إِلَّا نَکِدًا۔ (الاعراف: 58)

”اور زرخیز زمین کی پیداوار تو خوب اپجتی ہے اس کے رب کے حکم سے، پر جو زمین ناقص ہوتی ہے اس کی پیداوار کم ہی ہوتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے ا س سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا“۔ (سید مودودی)

”اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ اللہ کے حکم سے نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر تھوڑا“۔ (احمد رضاخان)

”جو زمین پاکیزہ (ہے) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے (نفیس ہی) نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں جو کچھ ہے ناقص ہوتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخر کے دونوں ترجمے موزوں نہیں ہیں۔ یہاں بات اچھی زمین اور خراب زمین کی ہے۔

(406) جُعِلَ السَّبْتُ کا مطلب

إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیہِ۔ (النحل: 124)

”رہا سبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا“۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمہ اس مفروضے پر کیا گیا ہے کہ سبت عذاب کی نوعیت کی ایک پابندی تھی۔ درحقیقت سبت بنی اسرائیل کی شریعت کا ایک فریضہ تھا۔ وہ کوئی عذاب نہیں تھا۔

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”ہفتے کا دن تو ان ہی لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ جنہوں نے اس میں اختلاف کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہ وہ فریضہ تھا جس کی انجام دہی کرنے والے سچے مومن قرار پاتے اور اس میں کوتاہی کرنے والے فاسق شمار ہوتے۔

(407)  وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ

إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ۔ (النحل: 100)

اس آیت میں وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ کا تین طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے:

 ایک میں باء کو سببیہ مانا گیا ہے۔ یعنی شیطان کے سبب سے شرک کرتے ہیں۔ سبب کی تشریح وسوسے اور بہکاوے سے کی گئی۔ یہ پرتکلف تاویل ہے۔

دوسرے ترجمے میں بِہِ مُشْرِکُونَ کی ھاء ضمیر مجرور کا مرجع شیطان کو مانا گیا ہے۔ اس بنا پر ترجمہ کیا گیا: شیطان کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ یہ ترجمہ لغت کے قاعدے کی رو سے غلط ہے۔ کیوں کہ فعل أشرک میں جسے شریک کیا جاتا ہے وہ راست مفعول ہوتا ہے اور جس کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے اس پر باء داخل ہوتی ہے۔ اس ترجمے میں بات الٹ جاتی ہے۔ جس کو شریک کیا گیا اس پر باء کا داخل ہونا لازم آتا ہے۔

 تیسرے ترجمے میں بِہِ مُشْرِکُونَ کی ھاء ضمیر مجرور کا مرجع اللہ کو مانا گیا ہے۔ اس بنا پر ترجمہ کیا گیا ہے: اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ اس میں کوئی سقم نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ ضمیر کا مرجع اس آیت میں مذکور نہیں ہے۔ لیکن یہ کوئی سقم نہیں ہے۔ قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اگر قاری کے سامنے مرجع اچھی طرح واضح ہو تو اس کے ذکر کے بغیر بھی اس کی ضمیر ذکر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پورے قرآن میں ہر جگہ أشرک بہ سے مراد اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا مراد ہے، تو یہاں بھی ذہن فورًا ادھر ہی جائے گا خواہ آیت میں وہ مذکور ہو یا نہ ہو۔

ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

”اس کا زور ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو رفیق بناتے ہیں اور اس کے (وسوسے کے) سبب (خدا کے ساتھ) شریک مقرر کرتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس کا زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں“۔ (سید مودودی)

ان دونوں ترجموں میں باء کو سببیہ مانا گیا ہے۔ اس توجیہ میں تکلف معلوم ہوتا ہے۔

”اس کا زور انھیں پر ہے جو اس کو رفیق سمجھتے ہیں اور جو اس کو شریک ٹھہراتے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس کا قابو تو انہیں پر ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”ہاں اس کا غلبہ ان پر تو یقیناً ہے جو اسی سے رفاقت کریں اور اسے اللہ کا شریک ٹھہرائیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں وہ غلطی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

”اس کا زور بس انھی پر چلتا ہے جو اسے دوست رکھتے ہیں اور جو اللہ کے شریک ٹھہرانے والے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بس اس کا قابو تو صرف ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان لوگوں پر جو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

یہ آخری دونوں ترجمے درست ہیں۔

(408) مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ کا مفہوم

قوت کا مطلب مضبوطی ہوتا ہے محنت نہیں ہوتا ہے۔ درج ذیل آیت کی تفسیر میں علامہ ابن عاشور لکھتے ہیں:

والقوۃ: إحکام الغزل۔ (التحریر والتنویر) یہاں قوت سے مراد مضبوطی سے کاتا ہوا ہے۔

بعض لوگوں نے قوۃ کا ترجمہ محنت کیا ہے، جو لغت کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔

وَلَا تَکُونُوا کَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ أَنْکَاثًا۔ (النحل: 92)

”تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا“۔ (سید مودودی)

”اور اُس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے محنت سے تو سوت کاتا۔ پھر اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور نہ ہو جیسے وہ عورت کہ توڑا اس نے اپنا سوت کاتا محنت کیے پیچھے ٹکڑے ٹکڑے“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”اور اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(جاری)


قرآن / علوم القرآن

(مئی ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter