(۲۲ اپریل کے پہلگام واقعہ کے بعد پاک بھارت تناؤ کی فضا میں ۶ مئی کو قومی اسمبلی میں خطاب)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
جناب اسپیکر، آپ کا شکریہ۔ آج میں خوف کے سائے میں نہیں بلکہ عزم کی پختگی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ہو سکتا ہے ہماری سرحدوں پر بندوقیں گرج رہی ہوں، اور ہوائیں جنگ کی سرگوشیاں لے کر آ رہی ہوں، لیکن پاکستان کی روح کو متزلزل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ قوم خوف سے نہیں بنی ہے، یہ جدوجہد سے وجود میں آئی ہے، اور یہ جدوجہد سے ہی زندہ ہے۔
حال ہی میں بھارت کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک گھناؤنے واقعے کے بعد الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ سیاح مارے گئے، خون بہایا گیا، جو کسی بھی لحاظ سے ایک المیہ ہے، مگر لاشیں ابھی ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ نئی دہلی نے اسلام آباد پر غضب ڈھانا شروع کر دیا، انگلیاں اٹھائیں، سرحدیں بند کیں، اور نتائج کی دھمکیاں دیں۔ میں پاکستان کے عوام اور دنیا کے سامنے یہ واضح اعلان کرتا ہوں کہ اس جرم میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔
جناب اسپیکر، ہم دہشت گردی برآمد نہیں کرتے، ہم تو خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دہشت گردی صرف جسموں پر حملہ نہیں ہے، یہ سچائی، امن اور خود تہذیب پر حملہ ہے۔ اور پھر، یہ دہشت گردی ہے کیا؟ کیا یہ محض کسی پاگل بندوق بردار کے حملے یا کسی بازار میں بم کا نام ہے؟ نہیں! یہ دنیا کی وہ خاموشی ہے جب نا انصافی کا راج ہوتا ہے، یہ مظلوم کی گردن پر بوٹ ہے، یہ وہ بلڈوزر ہے جو اندھیرے میں ایک گھر کو مسمار کر دیتا ہے، اور یہ وہ کرفیو ہے جو گھنٹوں نہیں بلکہ دہائیوں تک جاری رہتا ہے۔
بھارت دہشت گردی سے لڑنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن ہمیں پوچھنے دیں کہ آپ کشمیر میں خود ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑ سکتے ہیں؟ آپ گولی کی مذمت نہیں کر سکتے جب آپ ڈنڈے سے حکومت کر رہے ہوں۔ آپ قانون کی بات نہیں کر سکتے جب آپ وادی میں ہر روز اسے توڑتے ہوں۔ اور آپ اخلاقی برتری کا دعویٰ نہیں کر سکتے جب آپ کے ہاتھ داغدار ہوں۔ ماؤں کے آنسوؤں، بچوں کی چیخوں اور مرنے والوں کی خاموشی سے داغدار۔
جناب اسپیکر، پاکستان نے دہشت گردی کا سامنا کیا ہے، غیرملکی حمایت یافتہ، نظریاتی طور پر کارفرما، اور بے رحمی سے اندھا دھند۔ ہم نے اپنے سپاہیوں اور اپنے اسکول کے بچوں کو دفن کیا ہے۔ ہم تنہا، لہولہان کھڑے رہے، جب دنیا نے اپنی نظریں پھیر لیں۔ ہم نے اس خطرے سے نہ صرف ہتھیاروں سے لڑا ہے بلکہ افکار، تعلیم، معاشی اصلاحات اور اتحاد سے بھی لڑا ہے۔ اس لیے میں بھارت اور دنیا سے کہتا ہوں، دہشت گردی کو صرف ٹینکوں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ اسے شکست دینے کے لیے انصاف ضروری ہے۔ دہشت گردی کو صرف گولیوں کے ساتھ جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکتا۔ اسے غیر مسلح کرنے کے لیے امید پیدا کرنا ضروری ہے۔ اور دہشت گردی کو قوموں کو بدنام کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسے شکست دینے کے لیے وہ شکایات دور کرنا ضروری ہیں جو اسے جنم دیتی ہیں۔
کیا آپ کشمیر میں تشدد ختم کرنا چاہتے ہیں؟ تو لوگوں کو بولنے دیں۔ وہاں پر رائے شماری ہو، ظلم و ستم نہیں۔ وہاں پر بیلٹ باکس ہوں، بلڈوزر نہیں۔ وہاں پر خودمختاری ہو، (زبردستی کا) الحاق نہیں۔ یہی امن کا واحد راستہ ہے۔ کوئی جھوٹ، کوئی گولی، کوئی پابندی، سچائی کو دفن نہیں کر سکتی۔ کشمیر بھارت کا علاقہ نہیں ہے۔ یہ ایک انحراف شدہ وعدہ ہے، ایک ناسور بنتا ہوا زخم ہے، اور جہاں انتظار کرتے ہوئے لوگ ہیں۔
بھارت پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں سے ان دہشت گردوں کے کیے دھرے کا حساب مانگتا ہے جن کا وہ ابھی تک نام لینے سے قاصر ہیں۔ جبکہ بھارت کو ابھی تک کلبھوشن یادیو کا حساب دینا ہے، جس کا نام اور بھارتی مسلح افواج میں اس کا رینک ریکارڈ پر موجود ہے۔ بھارت کے پاکستان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات پرانے ہو چکے ہیں، زمینی حقائق پر نہیں، تاریخ پر مبنی ہیں، حقیقت پر نہیں، افسانے پر مبنی ہیں۔ بھارت جنوبی ایشیا میں اس چرواہے کی طرح بن گیا ہے جو بار بار جھوٹا خطرہ بتاتا ہے۔
جناب اسپیکر، پاکستان نے بھارت کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کو ثابت کیا ہے، نہ صرف اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بلکہ اپنی مسلح افواج کے ذریعے بھی۔ اور نہ صرف ہماری سرزمین پر بلکہ سری لنکا سے کینیڈا اور اس سے آگے تک بھارت کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی کے ایک آلے کے طور پر دہشت گردی کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔ اس خطے کو دہشت گردی سے آزاد کرنے کے لیے اگر بھارت اور پاکستان کو مل کر کام نہیں کریں گے تو ہم مستقبل کی نسلوں کو بھی اس خطرے کا شکار ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم (میاں شہباز شریف) کا بھارت کو غیر جانبدارانہ تحقیقات کا چیلنج ایک آغاز ہے۔ دہشت گردی کا ایک حقیقی شکار کسی جوابدہی سے کیوں کترائے گا جب تک کہ اسے یہ خوف نہ ہو کہ دنیا دیکھ لے گی کہ کشمیر میں خونریزی کا اصل الزام اسلام آباد میں نہیں بلکہ دہلی پر عائد ہوتا ہے؟
جناب اسپیکر، سندھ طاس معاہدے کی بھارت کی طرف سے معطلی پاکستان کے لیے سزا نہیں ہے، یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ پانی کی سیاست کاری ہے، یہ فطرت کو جرم کا شکار بنانا ہے۔ یہ کیسا جنون ہے کہ آپ اپنی سرحدوں کے اندر موجود شکایت کی بنا پر (دوسرے ملک کے) لاکھوں لوگوں کی خوراک اور معاش کو خطرے میں ڈال دیں۔ اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان پانیوں میں کیا بہتا ہے۔ سندھ صرف ایک دریا نہیں ہے۔ یہ ہماری تہذیب کا گہوارہ ہے۔ دہلی کے عروج سے بہت پہلے، سلطنتوں کے بننے اور سرحدوں کے کھینچے جانے سے بھی پہلے، موہنجودڑو اور ہڑپہ موجود تھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب، جو ہمارے دونوں لوگوں میں مشترک تھی، انسانی ترقی کی پہلی روشنیوں میں سے ایک تھی۔ اس نے شہری منصوبہ بندی، آبپاشی، زراعت، تجارت، مواصلات کے نظام کو جنم دیا۔ اس نے تقسیم نہیں کیا، اس نے جوڑا۔ اس نے فتح نہیں کیا، اس نے کاشت کی۔
جناب اسپیکر، اس دریا نے ہمارے دونوں اجداد کو سیراب کیا۔ اس کا بہاؤ صرف ہماری زمینوں سے بلکہ ہمارے خون میں بھی دوڑتا ہے۔ اور اب بھارت اسے غصے اور انتقام کا شکار بنانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ لیکن سندھ ان کے حکم کا پابند نہیں ہے، یہ فطرت کی ملکیت ہے، یہ امن کی حکومت کی ملکیت ہے، یہ اس تمام انسانیت کی ملکیت ہے جو اس سے زندگی حاصل کرتی ہے۔ پاکستان اس دریا کا دفاع کرے گا، نہ صرف اپنی خاطر بلکہ اس کشیدگی سے پہلے کی تہذیب کی یاد کے لیے۔ سندھ کو ہتھیار بنانا اپنے مشترکہ ماضی سے غداری کرنا ہے۔ معاہدے کو برقرار رکھنا دراصل اس قدیم حکمت کا احترام کرنا ہے جس نے ہمیں یہ سکھایا کہ جو چیز ہمیں قائم رکھتی ہے اسے بانٹنا ہوتا ہے۔
یاد رکھنا، آپ دریاؤں کا رخ موڑ سکتے ہیں، لیکن آپ ہمارے عزم کو غرق نہیں کر سکتے۔ دریائے سندھ سے بہنے والے ہر قطرے میں پاکستانی کسانوں کی ہمت، ہمارے مزدوروں کا پسینہ، اور اللہ کی برکت لکھی ہوئی ہے۔ کوئی ہماری برداشت کو ہماری کمزوری سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔ پاک فوج چوکس، پرعزم اور تیار ہے۔ ہماری فضائیں محفوظ ہیں۔ ہماری سرحدیں دلیری کے پہرے میں ہیں، ہماری قوم کراچی سے خیبر تک، لاہور سے لاڑکانہ تک متحد کھڑی ہے۔ ہم جو تلوار اٹھاتے ہیں وہ صرف امن کو خطرہ لاحق ہونے پر میان سے نکلتی ہے، لیکن جب نکلتی ہے تو وار خطا نہیں کرتی۔
اور پاکستان کے عوام سے میں کہتا ہوں کہ یہ مایوسی کا نہیں، عزم کا وقت ہے۔ ہم اس سے پہلے بھی تاریکی کا سامنا کر چکے ہیں اور ہم سحر میں طلوع ہوئے ہیں۔ ہمارے دشمن ہمیں توڑنے کی امید رکھتے ہیں، لیکن ہمیں ایک بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔ شہری اور سپاہی، مزدور اور عالم، مسلمان اور غیر مسلم، سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتون، ہم پاکستان ہیں۔ ایک دھڑکن، ایک مقصد۔
جناب اسپیکر، تاریخ اس وقت ہمیں دیکھ رہی ہے، ہمیں لڑکھڑانا نہیں چاہیے، ہمیں دنیا کو یاد دلانا چاہیے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں کوئی حاشیہ نہیں ہے، یہ اس کا شعور ہے۔ ہم ملزم نہیں ہیں، ہم مظلوم ہیں۔ اور پھر بھی ہم انتقام نہیں چاہتے، ہم پہچان چاہتے ہیں۔ کشمیر کے حقِ خود ارادیت کی پہچان، اپنی خودمختاری کی پہچان، اور اس بات کی پہچان کہ امن باوقار طریقے سے حاصل ہونا چاہیے اور اسے خوف کے ذریعے مسلط نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر بھارت امن کی راہ پر چلنا چاہتا ہے تو اسے کھلے ہاتھوں کے ساتھ آنا چاہیے، نہ کہ بند مٹھیوں کے ساتھ۔ انہیں حقائق لانے چاہئیں، نہ کہ من گھڑت کہانیاں۔ آئیے پڑوسیوں کی طرح بیٹھیں اور سچ بولیں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے، اگر وہ غصے میں چیختے اور دیوانگی میں پھرتے رہتے ہیں، تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے لوگ گھٹنے ٹیکنے کے لیے نہیں بنے ہیں۔
پاکستان کے عوام میں لڑنے کا عزم ہے، اس لیے نہیں کہ ہم تنازع پسند کرتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم آزادی سے محبت کرتے ہیں۔ ہمارے لیے ظلم کے طوق کے ساتھ زندہ رہنے سے بہتر ہے کہ ہم لڑتے ہوئے مر جائیں۔ مگر یہ وہ تقدیر نہیں ہے جو ہم وادئ سندھ اور اس کی تہذیب کے وارثوں کے لیے چاہتے ہیں۔ انسانوں کی بنائی ہوئی اس سرحد کے ہم جس طرف بھی رہتے ہوں۔
جناب اسپیکر، موہنجودڑو میں تمام کھدائی کے باوجود ایک بھی ہتھیار نہیں ملا۔ یہ کیسے ہوا کہ ہم اپنی بنیادوں سے اتنے دور چلے گئے ہیں کہ وہی وادئ سندھ اب زمین کا سب سے زیادہ مسلح علاقہ ہے؟ سچ یہ ہے کہ جنگ ہماری فطرت میں نہیں ہے، یہ نسل در نسل ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ یہ ہمارے لوگوں کے مفاد میں نہیں بلکہ نوآبادیاتی طاقتوں کے مفاد میں ہے۔ دونوں ممالک پر لازم ہے کہ وہ خود کو تنازع کی قید سے آزاد کریں اور امن اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوں۔
تو بھارت فیصلہ کرے، کیا اس کے لیے بات چیت ہو گی یا تباہی، تعاون ہوگا یا تصادم؟ تاریخ ان کے انتخاب کو بھی ریکارڈ کرے گی اور ہمارے انتخاب کو بھی۔ اور اس تاریخ کو یہ دکھانا چاہیے کہ جب پاکستان اشتعال انگیزی اور اصول پسندی کے دوراہے پر کھڑا تھا، تو ہم نے اصول کا انتخاب کیا تھا۔ اور اس کا انتخاب کرتے ہوئے ہم نے عزت، امن اور فتح کا انتخاب کیا تھا۔
پاکستان زندہ باد!