(امیر جماعت اسلامی کی دو حالیہ پریس کانفرنسز کی گفتگو)
آپ نے دیکھا کہ لاہور میں اور پھر کراچی میں جس طرح عوام نکل کر آئے ہیں اور سڑکیں انسانی سروں سے بھر گئیں۔ اور لوگوں کا جوش و جذبہ ہے، اپنے غزہ کے لوگوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہے، ان سے محبت ہے، ان کے دکھوں میں لوگ شریک ہیں۔ اور جس طرح لوگ نفرت کا اظہار نہ صرف اسرائیل سے کر رہے ہیں بلکہ اسرائیل کے سرپرست امریکہ سے بھی کر رہے ہیں۔ اور یہ نفرت اب امریکی ایما پر کام کرنے والے ان لوگوں کے ساتھ بھی ہوتی چلی جا رہی ہے جو پاکستان میں بھی اسی طرح کی سیاست کرتے ہیں اور امریکہ کا دم بھرتے ہیں، انہی کی آشیرباد حاصل کر کے اقتدار میں آتے ہیں اور انہی سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں۔
اور یہ ایک لہر ہے جو پوری دنیا میں اس وقت موجود ہے اس لیے کہ اس لہر کو پیدا کرنے میں خود امریکہ نے اور اسرائیل نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے نسل کشی کو فروغ دیا ہے، وہ مسلسل بمباری کر رہے ہیں، وہ ٹارگٹ کر کے، ان کے جو نشانے باز ہیں ماہر، وہ نشانے لے لے کر بچوں کو ، چھوٹے شیر خوار بچوں کو، چھوٹے چھوٹے بچوں کو، ان کے سروں پر گولیاں مار رہے ہیں۔ اور یہ رپورٹس اقوامِ متحدہ کے ڈاکٹرز بتا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنا سفاک یہ دشمن ہے اور یہ سمجھ لیں کہ ان کے مزاج میں اتنی سفاکی ہے کہ انہیں خون پسند ہے، انہیں بچوں کا خون بہانا پسند ہے، انہیں عورتیں مارنا پسند ہے، انہیں نہتے لوگوں کے اوپر بمباری کرنا اور فارسفورس بم پھینکنا پسند ہے، انسانوں کو جلانا پسند ہے۔ اس طرح کے سفاک جو لوگ ہیں ان سے محبت تو نہیں پیدا ہو سکتی۔
تو امریکہ نے اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر دہشت گرد ریاست کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جس کی ہسٹری میں ریڈ انڈینز کا خون شامل ہے، جس کی تعمیر میں ہی ایک خرابی کی صورت مضمر ہے، اور وہ جگہ ہے جہاں پر یورپی اقوام افریقہ سے لوگوں کو لا کر انہیں غلام بنایا تھا اور اپنی جنگوں کے لیے استعمال کیا تھااور اس کی بنیاد پر امریکہ آگے بڑھا۔ پھر یہ وہی امریکہ ہے جس نے ہیروشیما، ناگاساکی پہ بم پھینکا اور تین دن میں لاکھوں لوگوں کو لمحوں میں، ایک بم پھینکا پہلے چھ اگست کو اور پھر دو دن کے گیپ سے دوسرا بم بھی پھینک دیا، کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ اور یہ وہی امریکہ ہے جس نے ویتنام پہ لشکرکشی کی، جس نے عراق پر لشکرکشی کی، جھوٹ بولا پوری دنیا کے سامنے، اور افغانستان پہ لشکرکشی کی۔ یہ وہ امریکہ ہے جو دنیا بھر میں حکومتوں کے تختے الٹتا ہے، کہیں کہتا ہے ہمیں جمہوریت چاہیے جب اسے اپنی مرضی کی حکومتیں بنانی ہوں، اور کہیں وہ بادشاہتوں کو طاقتور بناتا ہے اور جمہوری قوتوں کو سبوتاژ کرتا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ مغربی ممالک کا یہ چہرہ کس طرح بے نقاب ہوتا ہے کہ الجزائر میں، یہ نوے کی دہائی کی بات ہے کہ وہاں کا جو اسلامک سالویشن فرنٹ تھا، اس نے اَسی فیصد سیٹیں اور ووٹ حاصل کیے تھے لیکن ان کی حکومت نہیں بننے دی گئی، ان پر پابندی لگا دی گئی۔ حماس نے ۲۰۰۶ء میں تاریخی کامیابی حاصل کی، ایک ڈیموکریٹک فورس کے طور پر سامنے آئے، جمہوری انداز میں کامیابی حاصل کی۔ آج حماس کو یہ دہشت گرد قرار دیتے ہیں، وہ جمہوری طریقے سے جیتے تھے لیکن امریکہ نے اور اسرائیل نے ان کی حکومت نہیں بننے دی۔ اور امریکہ کہتا ہے کہ حماس دہشت گرد ہے جبکہ حماس تو اپنا وہ قانونی حق استعمال کر رہے ہیں کہ جو انہیں اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر دیتا ہے، کہ اگر کسی جگہ پر کوئی قابض فوج موجود ہو تو اسلحے کے ساتھ اس سے لڑا جا سکتا ہے۔
اور اب افسوسناک بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اسرائیل کا راستہ روکیں، انہیں پیشکش یہ کی جا رہی ہے، جو پہلے جنگ بندی کے اصول طے ہو چکے تھے، پہلی جنگ بندی کا مرحلہ طے ہو چکا تھا، دوسرے مرحلے پر گفتگو ہو رہی ہے، اور حماس کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر رہی سہی کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ بھی ختم ہو جائے اور وہ سارے ملینز کی تعداد میں انسانوں کو قتل کر دیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ کوئی غیرت مند فورس تو یہ کام نہیں کر سکتی اور حماس تو کبھی بھی یہ کام نہیں کریں گے، ختم ہو جائیں گے لیکن وہ ہتھیار تو نہیں ڈالیں گے۔ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ پیشکش وہ mediators کر رہے ہیں کہ جنہیں یہ بات convey ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔
اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو ساری صورتحال ہے اس میں ہر باضمیر انسان کو فلسطینیوں کے حق میں کھڑا ہونا چاہیے اور امریکہ اور اسرائیل کی مذمت کرنی چاہیے۔ جب تک انسانوں کا سمندر سڑکوں پر نکل کر بار بار نہیں آئے گا اور پوری دنیا میں یہ کام بیک وقت نہیں ہو گا ، جب تک لوگ اپنے عمل سے اپنی یکجہتی کا اظہار نہیں کریں گے، اور ایک ایسا زبردست قسم کا نیٹ ورک نہیں بنے گا جو اِن طالع آزما قوتوں کا راستہ روک سکے، تب تک یہ اسی طرح سے قتلِ عام کرتے رہیں گے۔ آج ایک جگہ کریں گے کل دوسری جگہ کریں گے۔
نتن یاہو نے تو واضح کر دیا ہے، اس کے وزراء بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ معاملہ صرف یہاں غزہ کا نہیں ہے، معاملہ تو یہ ہے کہ وہ جو نقشہ لہراتے ہیں اس نقشے میں جورڈن بھی شامل ہے، اس میں شام کے علاقے بھی شامل ہیں، بلکہ خاکم بدہن، اس میں تو حجاز مقدس کے بھی علاقے شامل ہیں، مدینہ منورہ تک شامل ہے اس میں۔ تو وہ تو یہ عزائم رکھتے ہیں ۔
اور میں عرب ممالک سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔ صرف اس سے بات نہیں چلے گی کہ آپ اصولی موقف اختیار کریں یا آپ میڈیئشن کرائیں۔ اب وہ وقت ہے کہ جس میں لوگوں کو سامنے آنا پڑے گا، مسلم حکمرانوں کو۔ اسرائیل کو، میں بار بار یہ بات کہتا ہوں کہ، یہ طاقت کس نے دی ہے؟یہ طاقت امریکہ نے دی ہے یا مسلم حکومتوں نے دی ہے جن کی خاموشی کے نتیجے میں وہ طاقتور بنا ہوا ہے۔ جنگ میں تو اسرائیل ہار چکا ہے حماس سے، وہ تو بچوں کو مار رہا ہے، وہ تو عورتوں کو مار رہا ہے۔
اس لیے ہم پاکستان کی حکومت سے بھی بار بار یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ لیڈنگ رول ادا کریں۔ پاکستان ایسی مملکت کا نام نہیں ہے کہ جو صرف ایک اصولی موقف اختیار کر لے، یا امداد کو روانہ کر دے اور اس پر خوش ہو جائے کہ جناب ہم نے تو امداد دے دی ہے۔ یہ تو بہت minimum چیز ہے جو ہم کر سکتے ہیں جو ہمیں کرنی ہی چاہیے، لیکن اس سے بڑھ کر یہ کرنا پڑے گا کہ اب فوجی سطح پر بھی strategy بنانی پڑے گی اور پیش قدمی کرنے کے لیے اقدامات کرنے پڑیں گے، اس کے بغیر بات بنے گی نہیں، ورنہ سب کا نمبر آئے گا کوئی بچے گا نہیں۔ یہ ظالم ایسے عناصر ہیں یہ صیہونی اور یہودی، جن کی تاریخ یہ ہے کہ یہ اپنے محسنوں کو قتل کرتے رہے ہیں، یہ تو انبیاء کو قتل کرتے رہے ہیں، یہ اپنے کسی آلۂ کار کو کیسے بخشیں گے، ان کی یہ ہسٹری نہیں ہے۔
اس لیے ان سے بچنا ہے تو ان کے خلاف آنا پڑے گا ، منظم ہونا پڑے گا، متحد ہونا پڑے گا، لیڈ کرنا پڑے گا۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کو بنیاد بنا کر ہمیں عوام الناس میں ایک زبردست بیداری بھی پیدا کرنی ہے اور انہیں مثبت طریقے سے میدانِ عمل میں لے کر آنا ہے۔ اور اللہ کا شکر ہے جماعتِ اسلامی اس میں کامیاب بھی ہو رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اللہ کا شکر ہے کہ عوام کی شرکت اس پورے عمل میں بڑھ رہی ہے۔ اور بھی دینی جماعتیں اور بہت سارے گروپ ایسے ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں، ہم سب کو appreciate کرتے ہیں۔ اور ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ چونکہ جماعتِ اسلامی کا دعویٰ یہی ہے کہ ہم تو مسلک اور فرقہ اور قوم اور برادری اور جغرافیہ سے بڑھ کر انسانیت کے لیے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے، اور قبلۂ اول کے ایک ادنیٰ سے خادم اور محافظ ہونے کی حیثیت سے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس میں میزبانی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور تمام لوگوں کو اس پورے عمل میں شرکت کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ ……
یہ جذبہ ہے لوگوں کا اور لوگ اب بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اور میں اپیل بھی کرتا ہوں کہ بائیکاٹ کریں ان تمام مصنوعات کا جس سے ان صیہونیوں کو فائدہ ملتا ہے، جس سے اسرائیل کو فائدہ پہنچتا ہے۔ جب ہم اس طرح کی بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہیں، لوگوں میں جذبہ پیدا ہوتا ہے، تو بعض عناصر کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مغرب کا تو سب کچھ ہے امریکہ کا تو سب کچھ ہے۔ ہم بھی جانتے ہیں کہ ہمارے جو حالات ہیں وہ ہمارے حکمران طبقے نے اتنے خراب کیے ہیں کہ ہمیں اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ ہم اپنی ایجادات زیادہ کریں اور ٹیکنالوجی میں ہم آگے بڑھ سکیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عقل و شعور ہی ہمارا ختم ہو جائے، ہمیں معلوم ہے کہ کون سی چیز استعمال کرنی ہے اور کون سی استعمال نہیں کرنی۔ یہ کامن سینس سب کا موجود ہے۔ اگر ذرائع ابلاغ پر وہ بالادست ہیں تو ہم ذرائع ابلاغ تو نہیں چھوڑیں گے۔ اور یہ تو جنگ کا اصول ہوتا ہے کہ دشمن کا ہتھیار دشمن کے خلاف بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور ہم ان سب چیزوں کو استعمال کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ وہ تو اس پر بھی پابندیاں لگاتے ہیں، وہ تو فیس بک پر بھی ہماری reach کم کر دیتے ہیں، وہ تو ٹویٹر پر بھی ہماری reach کم کر دیتے ہیں۔ وہ تو اور بہت سارے کام اس طرح کے کرتے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کن پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا ہے۔
اور الحمد للہ اب تو پاکستان میں بہت ساری پروڈکٹس ایسی ہیں خود کفیل ہیں ہم جس میں۔ اور اس میں ہمارے تاجروں کو منافع خوری نہیں کرنی چاہیے اس موقع پر۔ میں اپنی تاجر برادری سے بھی کہنا چاہتا ہوں، آپ کی بغیر کسی مارکیٹنگ کے، آپ کی بغیر کسی کوشش کے، لوگ اربوں روپے بجٹ لگاتے ہیں بڑی بڑی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ جہاں ملٹی نیشنل موجود ہوں، ان کے مقابلے میں لوکل پروڈکٹ لانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ایک طرف ہمارے فلسطینی قربانی دے رہے ہیں اور دوسری طرف لوگ لوکل برانڈ کی طرف آ رہے ہیں، تو اس پر تو شکر ادا کرنا چاہیے اللہ کا، subsidize کرنا چاہیے ہماری لوکل پروڈکٹس کو۔ تو اس موقع پر کوئی منافع خوری نہ کرے بلکہ subsidize کرے۔
اور ایک بہت بڑا avenue اس پہ کھل گیا ہے کہ جس میں ہم اپنے برانڈز کو مزید ڈویلپ کریں۔ اور اس میں ہمارے جو مسلم ممالک ہیں اس تک ہم پہنچائیں۔ ہم نے کراچی میں دو مرتبہ ’’میرا برانڈ پاکستان‘‘ کے نام سے یہ پورا کام کیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی پروڈکٹس پروموٹ ہوئی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب یہ اسلام آباد میں بھی ہو، لاہور میں بھی ہو، اور پھر اس کے بعد بنگلہ دیش میں ہو، ترکی میں ہو، ملائیشیا میں ہو۔ ہم ایک ایسا انٹرنیشنل معاشی نیٹ ورک بنانا چاہتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ہماری اپنی پروڈکٹس آگے بڑھیں تاکہ ہم مقابلہ کر سکیں ہر میدان میں، اسی طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، حکومتوں کے کرنے کا یہ کام ہے لیکن بدقسمتی سے حکومتیں یہ کام انجام نہیں دیتی ہیں۔ لہٰذا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس بائیکاٹ کی کمپین کو بھی بھرپور طریقے سے چلایا جائے، ہمارے بچے اس میں participate کریں، اس میں خواتین بہت بڑے پیمانے پر رول ادا کر رہی ہیں الحمد للہ۔ وہ یہ شعور پیدا کریں اور اسی طرح سے mass level پر اس کام کو ہونا چاہیے۔……
لوگ پاکستان کو چند پارٹیوں یا پارٹی لیڈروں کا پاکستان سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ پاکستان کسی لیڈر کسی جرنیل کسی بیوروکریٹ کا پاکستان نہیں ہے، پاکستان، پاکستان کے عوام کا ہے۔ اور پاکستان کے عوام بے عمل ہو سکتے ہیں، کمزور ہو سکتے ہیں، گناہگار ہو سکتے ہیں لیکن ان کی حمیت اور غیرت ابھی باقی ہے اور وہ نفرت کرتے ہیں ان سب لوگوں سے جو ہمارے بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں پاکستان کے عوام اپنے فلسطینی بچوں سے، عورتوں سے، اپنے جوانوں سے، اپنے بزرگوں سے۔
اس لیے بائیس اپریل کو کوئی کنفیوژن نہیں ہے، واضح میں اعلان کر رہا ہوں، اعلان ہو چکا ہے، اب ایک ایک تاجر کے پاس جائیں، ایک ایک دکاندار کے پاس جائیں، اور مجھے یقین ہے کہ بات پتہ چلتے ہی لوگ۔ اس میں کوئی سیاست بازی بھی نہ کرے۔ کوئی تنظیمیں آپس میں سیاست بازی نہ کریں اس میں۔ بس بائیس تاریخ کا اعلان ہو گیا ہے ان شاء اللہ سب عمل کریں گے۔ پولیٹیکل پارٹیز اسی طرح سے جو جینوئن ایشوز ہوتے ہیں ان کو لے کر آگے چلتی ہیں، اور یہ تو سب سے بڑا ایشو ہے اس وقت کا۔ پوری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اور یہ مسئلہ صرف ہمارے ذاتی مفادات کا بھی نہیں، اس میں کسی کا فائدہ نہیں، نقصان ہی تھوڑا بہت ہونا ہے۔ لیکن اس نقصان میں بھی اللہ برکت ڈال دے گا ان شاء اللہ۔ اور جو لوگ بھی اس عمل میں شریک ہوں گے، اللہ نے چاہا تو ان کا اللہ تعالیٰ روزگار بھی اور اچھا کرے گا، ان کا کاروبار بھی اچھا ہو گا ان شاء اللہ۔ اس لیے بائیس تاریخ کو ہمیں ایسی یکجہتی کا اظہار کرنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہ ہوا ہو۔
اسی طرح سے یہ بات صرف یہاں تک نہیں ہے۔ اس وقت ہم پوری دنیا کی موومنٹس کے ساتھ رابطے میں ہیں، اسلامی موومنٹس کے ساتھ بھی اور ہیومن رائٹس موومنٹس کے ساتھ بھی۔ ہم نے خطوط بھی لکھے ہیں، بات چیت بھی ہو رہی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ یہ ایک گلوبل احتجاج اس دن بائیس تاریخ کو ہو جائے گا۔ اور اس میں خاص طور پر ہمارے جو ایشیائی ممالک ہیں ، یہ ہمارا بنگلہ دیش ہے، ملائیشیا ہے، انڈونیشیا ہے، اسی طرح ترکی ہے، ان سب ممالک کو بھی ہم آن بورڈ لے رہے ہیں۔ اور یہ ایک زبردست قسم کی چیز ہو گی جو پریشر ڈویلپ کرے گی انٹرنیشنل سطح پر۔
ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکہ، اس کا کام ہے کہ جنگ بندی کروائے، اس لیے کہ جو کچھ ہو گیا ہے اسی کے ایما پر ہوا ہے، اور وہی ویٹو کر رہا ہے ساری قراردادوں کو۔ تو یہ امریکہ کا کام ہے، ٹرمپ اتنے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، تو کروائیں نا جنگ بندی۔ تو اس لیے اس دباؤ کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اور ہم حکومت پاکستان سے اور تمام مسلم ممالک کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ امریکہ سے ڈرنا بند کر دیں اور اس سے خوف کھانا بند کر دیں۔ اور پاکستان کی تو میں تمام سیاسی جماعتوں سے کہتا ہوں، چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہو۔ یہ کیا لائن لگا کے لوگ کھڑے ہوئے ہیں امریکہ کے لیے، کہ وہ اگر نظرِ کرم فرما دے گا تو اس کے نتیجے میں جو ہے ان کا بیڑا پار ہو جائے گا ان کی نَیا پار ہو جائے گی۔ امریکہ خدا نہیں ہے اور امریکہ کی تاریخ یہ ہے کہ ہر جگہ شکست کھاتا ہے وہ۔ جو مزاحمت کرنے والے ہوتے ہیں وہ اس کی طاقت کو اس کے نشے کو چور چور کر دیتے ہیں، لیکن جو ڈرنے والے ہوتے ہیں وہ مزید ذلیل و خوار ہوتے ہیں، یہ ہسٹری ہے۔ پڑھنا ہے، مطالعہ کر لیجیے ابھی پچھلے جتنے بھی امریکہ نے حملے کیے ہیں اور جہاں جہاں اس کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ اس لیے امریکہ سے مت ڈریں، خدا سے ڈریں۔
ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہر وقت تصادم کا راستہ اختیار کریں، سر ٹکرائیں، لیکن ہم اپنے ایمان اور غیرت کا سودا بھی تو نہیں کر سکتے۔ ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ہم ڈٹ کر بات کریں، اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہوں حکمران، پارٹیاں اس میں لیڈنگ رول ادا کریں۔ ہمیں تو کوئی شوق نہیں ہے، یہ جو بڑی بڑی پارٹیاں ہیں جنہیں کروڑوں ووٹ ملے ہیں، وہ کیوں نہیں امریکہ کی مذمت کرتے؟ وہ کیوں نہیں امریکہ سے کہتے کہ تم یہ خون مت بہاؤ، اسرائیل کا ساتھ مت دو، اس کو بم مت دو، اس کو گولیاں مت دو۔ اس کو اس اس طرح کی ٹیکنالوجی دے رہے ہو کہ جس کے نتیجے میں اس نے برباد کر کے رکھ دیا ہے پورے کے پورے غزہ کو۔
اسی طرح سے ابھی تک وہ سوال ہمارا موجود ہے کہ جو لوگ گئے تھے اسرائیل، پاکستان کے پاسپورٹ ہولڈر، ان کے خلاف حکومت نے کیا کاروائی کی؟ حکومت نے اس میں وضاحت تو ضرور کی ہے کہ ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہے، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ چلے گئے اور آ گئے اور آپ کوئی کاروائی بھی نہیں کر رہے۔ اس سے ہم کیا مطلب سمجھیں؟ اس لیے ایک مرتبہ پھر میں مطالبہ کر رہا ہوں کہ حکومت اس میں ان لوگوں کے خلاف کاروائی کرے اور اپنی پوزیشن کو واضح کرے کہ اس سلسلہ میں انہوں نے کیا کام کیا ہے۔ اس لیے کہ اس وقت اس پوزیشن کا ہم سوال نہیں کر رہے کہ آپ ہمیں بتائیں کہ آپ اسرائیل کے خلاف ہیں۔ یہ تو پاکستان کی اسٹیٹ پالیسی ہے، یہ تو ہم بار بار ہم دہرا رہے ہیں۔ قائد اعظم سے لے کر اب تک، بلکہ پاکستان بننے سے پہلے جو پاکستان بنانے والے تھے، ان کی واضح پالیسی ہے۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال، ۱۹۳۱ء میں انہوں نے دورہ کیا فلسطین کا۔ ۱۹۲۹ء میں انہوں نے کانفرنس کی۔ ۱۹۳۷ء کی کانفرنس سے پہلے انہوں نے خطوط لکھے ، طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ کلکتہ میں شریک نہیں ہو سکے۔
اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حماس کی وجہ سے وہاں کے حالات خراب ہو رہے ہیں، تو چھیانوے سال پہلے علامہ اقبال نے جو تقریر کی تھی اس کانفرنس میں ، اس میں کہا تھا کہ ہمارے فلسطینی بھائیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہے۔ چھیانوے سال پہلے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہے۔ یہ علامہ اقبال نے اس میں کوئی شاعری نہیں کی تھی۔ ایسا ہو رہا تھا۔ ۱۹۴۸ء میں لاکھوں لوگوں کو بے دخل کیا تھا اور ہزاروں انسانوں کو قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت تو کوئی حماس نہیں تھی، حماس تو ۱۹۸۷ء میں بنی ہے۔ اس سے پہلے کیا تھا؟ یہ جو مسلسل ہماری زمینوں کے اوپر قبضے ہوئے ہیں، حماس کا کنٹرول تو غزہ میں ہے، یہ ویسٹ بینک میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو گھروں سے بے گھر کر دیا، ابھی پچھلے مہینوں میں، اسرائیل نے۔ تو ویسٹ بینک میں تو وہ ہے، فلسطینی اتھارٹی نام نہاد۔ تو وہ کیوں ہو رہا ہے پھر؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس کا نام لے کر درحقیقت اسرائیل کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ۔
پاکستان میں بھی ایسی لابیز میں سے کچھ نہ کچھ لوگ آپ کو مل جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو ٹھیک سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اور اپنے بچوں کو یہ باتیں بتانے کی ضرورت ہے ، پوری ہسٹری بتانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح سے اسرائیل کو قائم کیا گیا ہے۔ ۱۸۹۷ء میں بنی ہے یہ zionist movement (صیہونی تحریک) ، آج سے ایک سو اٹھائیس سال پہلے، اس وقت تک حماس نہیں تھی۔ اس کے بعد ۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور میں ان کو یہ کہا گیا کہ آ کر یہاں پر بیٹھ جاؤ۔ اور یورپ جو یہودیوں سے تنگ آئے ہوئے تھے، ان سے جان چھڑانے کے لیے کہا کہ سب کو یہاں لا لا کر بسا دو۔ تو یہ تو اتنی پرانی باتیں ہیں۔ پھر جا کر ۱۹۴۸ء میں اس کو اقوامِ متحدہ نے ایک ملک کی صورت میں مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔
تو پاکستان نے پاکستان بننے سے پہلے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا ۔ ہر قرارداد میں یہ بات آئی کہ فلسطینیوں کو حق حاصل ہے کہ ان کی آزاد ریاست بننی چاہیے۔ اور قائد اعظم نے تو اسرائیل کو استعمار کی ناجائز اولاد قرار دیا۔ اور قائد اعظم نے کہا ہم کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ ہم اپنی روح کو نہیں بیچ سکتے تمہاری مراعات کے چکر میں، ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ علامہ اقبال نے ۱۹۲۹ء اور ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۷ء میں سب کچھ کہہ دیا۔ پھر اس کے بعد پاکستان کی سٹیٹ پالیسی بالکل یہی ہے آج تک کی تاریخ میں۔
تو جو بھی انحراف کرنے کی کوشش کرے گا، عبرت کا نشان بن جائے گا، پاکستان کے عوام کے غیظ و غضب سے نہیں بچ سکے گا۔ اس لیے حکومت میں شامل یا اپوزیشن میں شامل ایسے عناصر جو اسرائیل کے لیے soft corner رکھتے ہیں اور امریکہ کے لیے تو بہت زیادہ رکھتے ہیں، ان سے میں ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ کم از کم ہسٹری کا مطالعہ کریں، جو جانتے بوجھتے کر رہا ہے تو وہ تو کر رہا ہے، اس کا تو الگ حساب ہے، لیکن جو اگر نادانی میں اس طرح کی باتیں کر رہا ہے تو اسے مطالعہ کرنا چاہیے۔ تو یہ آج چونکہ ghaza specific (بطور خاص غزہ کے متعلق) ہماری یہ سب بات ہے اس لیے میں نے تفصیل سے آج اس پر گفتگو کی ہے۔
ان شاء اللہ اٹھارہ تاریخ کو ملتان میں اور پھر بیس تاریخ کو اسلام آباد میں تاریخی مارچ ہو گا۔ اور بائیس تاریخ کو پورے ملک میں ہڑتال ہو گی، اور اس ہڑتال کا momentum بنانے کے لیے پورے پاکستان میں یہ درخواست کر رہا ہوں جماعتِ اسلامی کے کارکنوں سے بھی اور عوام سےبھی اپیل کر رہا ہوں کہ وہ ابھی سے اس کی تیاریاں شروع کر دیں تاکہ ایسا یکجہتی کا اظہار ہو کہ پھر دنیا کو پتہ چل جائے کہ یہ زندہ قوم ہے۔ بہت سے مسائل ہیں ہمارے، بہت پریشانیاں ہیں ہماری، ہم جانتے ہیں مہنگائی ہے بے روزگاری ہے، ہم جانتے ہیں یہاں بہت ساری قانون کی عملداری نہیں ہے، حکومت کے بہت سے مسائل ہیں، لیکن ہم ایک بات ضرور جانتےہیں کہ ہم فلسطینیوں کے خون کا سودا نہیں ہونے دیں گے اور ہر وہ کام کریں گے جو ہم کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستانی قوم اس کے لیے تیار ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ پاکستان کے حالات بھی درست کرے گا، یہ میرا ایمان ہے کہ جب آپ غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کریں گے، مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، تو ہمارے مسائل بھی حل ہوں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔
سوال کا جواب:اگر ہم مارچ کرنا چھوڑ دیں اور احتجاج کرنا چھوڑ دیں اور ہڑتال کرنا چھوڑ دیں تو اس سے تو پھر ان قوتوں کو اور فائدہ ملتا ہے کہ جو اسرائیل نواز اور امریکہ نواز قوتیں ہیں، پھر کون بات کرے گا؟ اور یہ تو ہم اپنے ایمان اور غیرت کا مظاہرہ کر کے ان قوتوں کو دھکیلتے ہیں پیچھے کی طرف، جو امریکہ نواز اور اسرائیل نواز ہیں۔
سوال کا جواب: جی الحمد للہ آپ کو معلوم ہے جماعتِ اسلامی نے ان کے لیے فنڈنگ بھی کی ہے، اور جو ذرائع ہو سکتے ہیں امداد پہنچانے کے ہم نے پہنچائی ہے۔ میں آپ کو اس وقت سچوئشن بتا دیتا ہوں، اس وقت انہوں نے ناکہ بندی کی ہوئی ہے، رفح کراسنگ کے اوپر بالکل کنٹرول کیا ہوا ہے اور وہ مزید امداد نہیں آنے دے رہے۔ لیکن جن دنوں میں جنگ بندی تھی تو ان دنوں میں جو بھی امداد اندر جا سکی تھی اور وہاں کے جو لوکل تاجر تھے، مصر کے بھی اور خود فلسطین کے بھی، تو انہوں نے کچھ نہ کچھ اسٹور وہاں پر چیزوں کو کیا تھا، تو جس سے یہ گزارا ابھی اس وقت ان بیچاروں کا ہو رہا ہے ورنہ تو برے حالات ہیں۔
سچی بات ہے کہ انسان کا دل دہل جاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں کہ اگر ان کو ان کیفیات سے گزرنا پڑے، لیکن وہ عظیم قوم ہے جو ان سب حالات کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کر رہی ہے اور استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں، مزاحمت کا راستہ نہیں چھوڑ رہے۔ اور ایک بے غیرت وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو اس طرح کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے لڑنے کی اور کیا ضرورت ہے ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی، تو یہ تو اپنی اپنی غیرت کی اور ایمان کی بات ہے۔ تو میں عرض یہ کر رہا ہوں کہ ہم اس پوری طرح سے جو ممکن ہو سکتا ہے کر رہے ہیں۔ اور خود اب تو حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ جتنی حکومت کی امداد گئی ہے اس میں میجر پورشن جماعتِ اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کا تھا۔ اور ابھی بھی ہمارے پاس چیزیں بالکل تیار ہیں، جونہی کوئی ذرا سا سنگل ملے گا ، ان شاء اللہ کریں گے۔ مصر میں بھی ہمارا ایک پورا آفس کام کر رہا ہے، جو لوگ وہاں ہیں فیملیز، ان کو بھی ہم سپورٹ کر رہے ہیں۔ جو ہم سے ہو سکے گا، ہم کیا کر رہے ہیں، یہ تو حقیر سے کوشش ہے، وہ ہم کریں گے، اور میں سب لوگوں سے اپیل بھی کرتا ہوں کہ اس میں کنٹریبیوٹ کریں۔
سوال کا جواب: دیکھیں بات سنیں، تو اس کا مطلب ہے بائیکاٹ کی اپیل نہ کریں۔ اگر دو لوگوں نے توڑ پھوڑ کر دی تو آپ ایک کروڑ لوگوں کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟ توڑ پھوڑ نہیں ہونی چاہیے، سیدھی بات ہے، لیکن بائیکاٹ تو ہونا چاہیے نا۔ تو اس سے کنفیوژ نہیں کرنا چاہیے۔ توڑ پھوڑ کرنے والوں کی مذمت کر کے آپ بائیکاٹ کا راستہ نہ روکیں۔ یہ ہماری اصولی بات ہے۔ انسان مر رہے ہیں، بچے قتل ہو رہے ہیں، اس کے مقابلے میں دو پتھر گر جاتے ہیں تو لوگ اس کو بنیاد بنا کر اسرائیل کی حمایت کرنا شروع کر دیں، یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت تو اس طرح کی جتنی بھی گفتگو کنفیوژن پھیلانے کی ہے وہ امریکہ اور اسرائیل کو فائدہ پہنچانے والی ہے، اس سے ہم سب کو اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ صحافی اور غیر صحافی اور سیاسی اور غیر سیاسی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ انسانیت کا مسئلہ ہے، یہ ایمان کا مسئلہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جہاد کا جو فتویٰ ہے وہ بہت واضح ہے۔ میں نے خود یہ اپیل کی تھی مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام لے کر اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا نام لے کر کہ آپ لوگوں کو اس حوالے سے فتویٰ دینا چاہیے چونکہ علماء کرام جو عرب کے ہیں جید علماء کرام انہوں نے یہ فتویٰ دیا تھا۔ یہ فتویٰ عام انسانوں کے لیے نہیں تھا، یہ فتویٰ مسلم حکمرانوں کے لیے ہے، حکومتوں کے لیے ہے۔ عام انسان تو ہر کوئی یہ خواہش رکھتا ہے، ایسے حالات میں کوئی بھی جذباتی آدمی سوچتا ہے کہ میں بھی جا کر لڑ لوں۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس طرح تو لڑائی نہیں ہو سکتی جس طرح کی سچوئشن ہے۔ یہ تو حکومتوں کے کرنے کا کام ہے۔ ہاں ہمارا جہاد یہ ہے کہ ہم حکومتوں پر دباؤ ڈالیں۔ ہمارا جہاد یہ ہے کہ ہم احتجاج کریں۔ وہ جو آپ پوچھتے ہیں نا کہ کیا ہوتا ہے۔ ہمارا جہاد یہ ہے کہ ہم سڑک پر آئیں، ہم بائیکاٹ کریں، ہم بات کریں، ہم تقریر کریں، ہم کھڑے ہو جائیں، ہم سوال کریں ان سے، ان کا گھیراؤ کریں، ان سے پوچھیں کہ تم کیا کر رہے ہو۔ یہ ہمارا جہاد ہے، وہ ہم کریں گے ان شاء اللہ۔
سوال کا جواب: اچھا دیکھیں، میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ دباؤ امریکہ کی طرف سے مختلف ممالک پہ آتا ہے چونکہ امریکہ ہی والد محترم ہے نا اس ناجائز بچے کا، اسرائیل کا، تو یہ دباؤ آتا ہے کہ اس کو تسلیم کیا جائے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ اگر یہ سات اکتوبر کا واقعہ نہ ہوتا، جو حماس نے کام کیا وہ تو بہت عظیم کام ہے، تو یہ تو بہت سارے لوگ لائن میں لگ گئے تھے، کچھ نے شروع کر دیا تھا، دو تین لوگوں نے تو قبول کر ہی لیا تھا۔ اور بھی اس پر پیشرفت ہو رہی تھی، اس کا راستہ رک گیا۔
ابھی بھی پاکستان پر دباؤ آ سکتا ہے اور وہ کسی عرب ملک کے ذریعے سے آ سکتا ہے، پاکستان پہ اور ترکی پہ خاص طور پر اور سعودی عرب پہ۔یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کسی نہ کسی درجے میں کہ اسرائیل کی طرف پیشرفت کی جائے۔ لیکن یہ جو عوامی قسم کا احتجاج ہے اس کے نتیجے میں ہمت نہیں کر پا رہا کوئی۔ اور بس یہی ہمارا چیلنج ہے کہ ہم اپنے اس دباؤ کو برقرار بھی رکھیں اور کسی کی جرأت ہی نہ ہو کہ اس پر سوچ بھی سکے، عمل تو چھوڑیے۔ تو یہ کوششیں تو ہوتی ہیں، سفارتی محاذ پر بھی ہوتی ہیں، معیشت کے ذریعے سے بھی کی جاتی ہیں، لیکن میرا نہیں خیال ہےکہ سعودی عرب بھی یہ کام کر سکے گا، اور ان شاء اللہ پاکستان بھی کبھی نہیں کر سکے گا بلکہ ہمیں تو proactive role ادا کرنا چاہیے، aggressive role ادا کرنا چاہیے۔ اب تو جن ممالک نے تسلیم کیا ہوا ہے ان سے بات ہونی چاہیے کہ آپ ان سے تعلقات منقطع کریں۔
سوال کا جواب: بس ہم کوشش کریں گے۔ ہم کس چیز کے مکلف ہیں؟ ہم اپنی کوشش کے مکلف ہیں۔ ہم حالات خراب نہیں کرنا چاہتے، ہم پاکستان سے ایسا کوئی میسج نہیں دینا چاہتے جس میں اسرائیل کی نفرت اور امریکہ کی نفرت کے حوالے سے کوئی اختلاف نظر آئے، اور فلسطینیوں سے محبت میں کوئی اختلاف نظر آئے۔ لیکن اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے لیے راستہ متعین کرے، اور امن کی ضمانت ہم لیتے ہیں، اور وہ صحیح راستہ متعین کریں اور ہم ان شاء اللہ احتجاج کریں گے۔ پھر ہمیں بائیس کی ہڑتال بھی تو کرنی ہے، اس کے لیے بھی تو کام کرنا ہے۔
سوال کا جواب: دیکھیں بات یہ ہے کہ ہر چیز سے ہم بچ سکتے ہیں۔ یہ ہمارا انحصار ان پر ہوا کیسے؟ اس لیے کہ ہم نے خود اپنے آپ کو ڈیویلپ نہیں کیا نا۔ بعض اوقات حالات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ جب آسرے ختم ہو جاتے ہیں تو خود انحصاری پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں blessing in disguise تو اس طرح کے جو حالات ہوتے ہیں وہ قوموں کو اٹھا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ تو اس لیے اس پریشانی میں مبتلا نہ ہوں کہ ہم کیسے جئیں گے۔ رازق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور پاکستان جب بنا تھا تو پاکستان کے پاس کیا تھا؟ یہ سارے لوگوں نے ہمیں بتایا، جمیل الدین عالی نے بتایا، قدرت اللہ شہاب نے بتایا، مختار مسعود نے بتایا، ببول کے کانٹوں سے فائلیں جوڑ کر رکھتے تھے۔ پاکستان یہ تھا اور پھر پاکستان کہاں چلا گیا تھا۔ اور اس وقت لیاقت علی خان کو یہ پیشکش کی گئی کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ اور کس نے کی؟ امریکہ جب وہ وزٹ کرنے گئے تھے، وہاں امریکی کانگریس کے اسپیکر نے کہا ہم آپ کو یہ یہ مراعات دیں گے۔ انہوں نے کہا our sole is not for sale (ہماری روح قابلِ فروخت نہیں ہے)۔ ٹھیک ہے؟ تو غیرتمند لوگ جو ہوتے ہیں نا، اللہ تعالیٰ ان کے لیے راستے نکالتا ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ آپ حق کے لیے کھڑے ہوں گے اور آپ کے راستے بند ہو جائیں گے۔
سوال کا جواب: حکومت کا موڈ بنانا پڑتا ہے، حکومت کو جب دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو حکومتیں مجبور ہوتی ہیں، ورنہ تو وہ مزے کر رہے ہوتے ہیں۔
سوال کا جواب: اب دیکھیں بہت لمبی بات ہے یہ، میں نے تو اپنی گفتگو میں یہ بات کہی ہے ، بحیثیت مجموعی مسلمانوں میں یہ پرابلم ہے کہ جو حکمران طبقہ ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہماری حکومتیں امریکہ کی مرہونِ منت ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے اثرات ہوتے ہیں نا، جب یہ سوالات آپ لوگ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ سوالات reflection ہوتے ہیں ان چیزوں کا، کہ جو ہمارا دماغ بنا دیا گیا ہے کہ امریکہ کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے، امریکہ کے بغیر ہم جی نہیں سکتے۔ تو حکمران سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر ہم حکومت نہیں کر سکتے، تو جس کے نتیجے میں وہ ان کی باتیں قبول کرتے چلے جاتے ہیں، اور پھر اپنے اپنے معاشروں کو ایک طرح سے ان کا غلام بنا دیتے ہیں۔ حکومت تو حکومت، پاکستان میں تو اپوزیشن بھی لائن لگا کے کھڑی ہوئی ہے۔ بہت شکریہ!
www.youtu.be/DXIFgFXuVDY
www.youtu.be/GL4YajIydTo
غزہ کی صورتحال اور پاکستان کے مسائل
ہم نے پرائم منسٹر سے ملاقات کی ہے، سب سے پہلے تو ہم نے غزہ کی موجودہ صورتحال پر حکومتِ پاکستان کو متوجہ بھی کیا ہے کہ جو رول پاکستان کا بنتا ہے اس کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ چل پڑا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات خراب ہیں لہٰذا ہم وہ رول ادا نہ کریں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں بھی اس لیے خراب ہیں کہ ہم لیڈنگ رول ادا نہیں کرتے۔
اس وقت جو مسئلہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، اور برننگ ایشو ہے، انسانیت کے اوپر حملے ہو رہے ہیں، فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، اور نہ صرف اسرائیل پوری طرح سے عیاں ہو کر سامنے آ گیا ہے بلکہ اس کا سرپرست امریکہ اور پورا ویسٹ، وہ اپنی پوری، نقابیں ان کے چہروں سے ہٹ گئی ہیں۔ اور واضح ہو گیا ہے کہ ان کو نہ انسانیت سے کوئی ہمدردی ہے، نہ وہ کوئی اخلاقی اقدار رکھتے ہیں، بلکہ اس بڑے قتلِ عام پر بھی ٹرمپ اپنی گود میں بٹھا کر نیتن یاہو کو پوری دنیا کو یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
لہٰذا ایسے موقعے پر پاکستان کو اور اس کی حکومت کو صرف موقف کی سطح تک بات نہیں کرنی ہو گی بلکہ وہ رول ادا کرنا ہو گا جو واقعی پاکستان کے شایانِ شان ہے۔ ہم نے تجویز کیا کہ پارلیمنٹیرین اور اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے کہ جو فوری طور پر وہ ممالک جو میٹر کرتے ہیں اس پوری سچویشن میں، ترکی ہے، مصر ہے، سعودی عریبیہ ہے، اور قطر ہے، جورڈن ہے، اور انڈونیشیا ہے، ملائیشیا ہے، ان کا دورہ کریں اور ایک متفقہ لائحہ عمل کے طور پر آگے بڑھیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ فریڈم فلوٹیلا کی طرز پر ایک کانوائے بنایا جائے اور اس میں ترکی، پاکستان اور انڈونیشیا کی نیویز ساتھ طور پر کردار ادا کریں اور اس محاصرے کو توڑیں کہ جس کو کر کے لاکھوں انسانوں کو اس وقت وہ اذیت میں مبتلا کر کے رکھے ہوئے ہیں یہ صیہونی۔ ہم نے حکومتِ پاکستان کو متوجہ کیا ہے کہ اس میں آگے بڑھ کر اپنا رول ادا کریں، لیکن معاملہ صرف اتنا سا نہیں رہ گیا کہ ہم چند اقدامات کر کے اپنا نام لکھوا دیں کہ ہم بھی کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنا پڑے گا ورنہ تاریخ ہمیں یاد رکھے گی کہ ہم مجرموں کی زد میں کھڑے ہو جائیں گے کہیں جا کر۔ اور ہم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دے سکیں گے؟
ہم اس موقعے پر حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صحافی جنہوں نے وزٹ کیا ہے اور ان کے نام آئے ہیں ان کے خلاف انکوائری بھی کی جائے اور ان کو فکس بھی کیا جائے، کیسے ممکن ہے کہ پاکستان سے کوئی جائے اور جا کر آ جائے جبکہ پاکستان کا پاسپورٹ ہی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسرائیل کوئی جا سکتا ہے۔
ہم اس موقعے پر اس کو بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی اسٹیٹ پالیسی ہے کہ ہم کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اس کی طرف بڑھنے والا ہر قدم توڑ دیا جائے گا، ان شاء اللہ ، ہر ہاتھ توڑ دیا جائے گا، اور کوئی تصور بھی نہ کرے کہ اس کی طرف کوئی پیش قدمی کرے گا۔ پوری دنیا بھی اگر تسلیم کر لے گی تو پاکستان نہیں کرے گا، ان شاء اللہ۔ اس لیے کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، پاکستان کسی قیمت پر بنا ہے، کسی نظریے پر بنا ہے۔
پھر اس کے بعد ہم نے جو بجلی کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے اس پر بات کی، اور یہ ٹھیک ہے، ہم نے اس کو ویلکم کیا ہے، خیر مقدم کیا ہے جو سات روپے اکتالیس پیسے کم ہی ہےلیکن ہم نے پرائم منسٹر سے بہت واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ بنیادی ٹیرف میں کمی ہونی چاہیے، جس کو انہوں نے (قبول) کیا کہ ہاں ٹھیک ہے۔ پھر ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ یہ کمی بالکل ابتدائی ہے اور مزید بہت گنجائش موجود ہے، اتنی آئی پی پیز ہیں، ان سب سے نیگوشییٹ کریں اور اس کا جو اثر ہے وہ بجلی کے بلوں میں آنا چاہیے، بجلی کے بل درست ہو جائیں گے تو معیشت کو جینوئن استحکام ملے گا۔
صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت جتنے بھی اعداد و شمار پیش کر دے، جب آپ بازار میں جاتے ہیں اور گھر کا سودا خریدتے ہیں اور اپنی تنخواہ کو دیکھتے ہیں اور اپنے بلوں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح کیا ہے، یہ حکومت کے بتانے سے شرح کم نہیں ہوتی مہنگائی کی، یہ ہماری قوتِ خرید اور جو حالات ہوتے ہیں گروسری سٹور پر اس سے پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی ہےیا کچھ چیزیں سستی ہو گئی ہیں؟
ہم نے بہت واضح طور پر یہ بات کہی کہ ہمارا بہت واضح مطالبہ ہے، کور ایشو ہے اور یہ پاکستان کے لوگوں کا مسئلہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے سے آپ اتنی کٹوتی کر رہے ہیں، بڑے بڑے جاگیردار، ان کو کچھ نہیں کہا جاتا، عام کسانوں کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے، بڑے جاگیردار مزے کر رہے ہوتے ہیں، ان سے انکم ٹیکس نہیں لیا جاتا، اور تنخواہ دار آدمی، پروفیشنل آدمی، اس کی تنخواہوں سے اتنے ڈائریکٹلی جو ہے وہ ٹیکس کٹ جاتا ہے۔ اس لیپ کو ریوائز کریں۔ انہوں نے ہم سے کہا تو ہے کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارا یہ واضح مطالبہ ہے، اور جماعت اسلامی اپنی اس عوامی جدوجہد کے اوپر قائم ہے۔
تیسری چیز جو بہت امپورٹنٹ ہے تمام ہی چیزوں کے ساتھ وہ اس وقت ملک کے حالات ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے ہم نے حکومت کو تجاویز بھی دی ہیں کہ ان کو کس طرح اِمپاور کریں، اور سی پیک میں جو بلوچستان کا مقام ہونا چاہیے وہ اس کو ملنا چاہیے، جو منصوبے پہلے سے طے ہیں وہ مکمل ہونے چاہئیں۔ ہم نے پرائم منسٹر کو یہ کہا ہے، یہ مطالبہ بھی کیا ہے، تجویز بھی دی ہے کہ بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے، لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کی ضرورت ہے، اور ایک اچھا جسچر اس وقت قائم ہو گا جب پرائم منسٹر اپنا ایک آفس باقاعدہ کوئٹہ میں قائم کریں گے۔
خیبرپختونخوا پر بات ہوئی کہ وہاں جس طرح افراتفری ہے اور خیبرپختونخوا کے حالات کی کنجی افغانستان سے بامعنی مذاکرات اور امن کے قیام میں ہے، اس میں پیشرفت ہونی چاہیے۔ افغان حکومت سے بھی ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ یہ دونوں ملک افورڈ ہی نہیں کر سکتے کہ یہ آپس میں لڑیں۔ بیٹھ کر بات کرنی ہو گی، امن کو قائم کرنا ہو گا، دیرپا امن کو تلاش کرنا ہو گا۔
ہم نے کراچی پر بھی بات کی کہ وہ مِنی پاکستان ہے اور اس کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ کچھ پراجیکٹس جن کا تعلق وفاق سے ہے وہ وفاق کو کرنے چاہئیں۔ ویسے بھی یہ تو PDM کی حکومت ہے۔ پچھلے دنوں مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے تو یہ بیان بھی دیا کہ پی ڈی ایم قائم ہے اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا ہیں، اور پی ڈی ایم میں وہ اپوزیشن میں ہیں اور باقی پارٹیاں حکومت میں ہیں۔
یہ جو چولستان والا معاملہ ہے اور نہروں والا معاملہ ہے، اس پر بھی ہم نے بات کی، اس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرنا چاہیے، یہ یقینی بنانا چاہیے کہ تمام لوگوں کا اعتماد حاصل ہو ۔ اور کسی نئی جگہ کو بسانا کسی پرانی آباد جگہ کو بے آباد کرنے کی قیمت پر، یہ درست نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو ری وزٹ کیجیے اور سی سی آئی کی میٹنگ کیجیے، کونسل آف کامن انٹرسٹ کی میٹنگ کیجیے۔ کون اس مسئلے کو ایڈریس کرے گا۔ اس مسئلے کو ایڈریس حکومت کو ہی کرنا ہوتا ہے، لہٰذا کوئی بھی ایسی چیز جو اتفاقِ رائے کو ختم کرے، تعصبات کو بڑھائے، وہ تو ملک کی یکجہتی کے لیے بھی بہت خطرناک ہے۔ تو یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ ایسی چیزوں سے باز رہے، اور کنسینس ڈیولپ ہوتا ہے تو چیز کو آگے بڑھایا جائے ورنہ نہیں بڑھایا جائے۔
ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم میٹنگ بھی کرتے ہیں، ایگریمنٹ بھی کرتے ہیں، اس کا تعاقب بھی کرتے ہیں، اس کا فالو اپ بھی کرتے ہیں، چیزیں منواتے بھی ہیں، لیکن ہم اپنے جمہوری آئینی حق سے دستبردار نہیں ہوتے۔ اس لیے ہم احتجاج اور دھرنے، یہ جتنی چیزیں بھی ہیں، یہ ہمارا آئینی حق ہے، یہ پاکستان کے عوام کا حق ہے، اور اگر حکومت نے آگے چل کر بھی کوئی لیت و لعل سے کام لیا تو ہم یہ سب استعمال کریں گے۔