حکمران کے دس حقوق

جس طرح حکمران پر عوام کے حقوق ہیں اسی طرح عوام کے ذمے بھی حکمران کے 10 بڑے حقوق ہیں۔ ہم سوشل میڈیا اور اپنی نجی گفتگو میں اپنے حقوق کی بات تو کرتے ہیں مگر حکمران کے جو حقوق قرآن و حدیث نے ہم پر لازم کیے ہیں، ان کو ادا کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ ذیل میں ان حقوق کی تفصیل مذکور ہے:

(1) جائز امور میں حکمران کی اطاعت کرنا

جب امیر یا حکمران کسی جائز کام کا حکم دے تو اس کو سرانجام دینا عوام پر واجب ہو جاتا ہے، اگرچہ وہ کام حکم دینے سے پہلے جائز اور مباح تھا، مگر امیر اور حکمران نے چونکہ اس کا حکم دے دیا ہے، اس لیے اب اس کو کرنا واجب ہو گیا ہے۔ اسی لیے فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر امام یا حکمران کہے کہ آج کے دن سب روزہ رکھیں تو عوام پر اس دن روزہ رکھنا واجب ہو جائے گا۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ متعدد فقہائے کرام کے حوالے سے فرماتے ہیں:

طاعۃ الامام فی غیر معصیۃ واجبۃ، فلو امر بصوم یوم وجب۔
’’جو کام گناہ نہ ہو، اس میں امام کی اطاعت کرنا واجب ہے، چنانچہ اگر وہ کسی دن روزہ رکھنے کا حکم دے دے تو روزہ رکھنا واجب ہو جائے گا۔‘‘

اسی طرح اگر امام کسی مباح اور جائز کام سے رکنے کا حکم دے دے تو اس سے رکنا بھی واجب ہو جاتا ہے، یعنی وہ مباح کام ناجائز بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مباح کی شرعی حیثیت تبدیل ہو گئی، اصل شریعت کی رو سے وہ اب بھی مباح ہے، لیکن اطاعتِ امام کی وجہ سے وہ واجب اب ناجائز ہو گیا ہے۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے ٹریفک کے جو قواعد نافذ کیے جاتے ہیں، شہریوں پر ان کی پابندی کرنا شرعی طور پر بھی لازم اور واجب ہے۔

حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم شر میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر عطا فرمائی، ہم اس خیر کی حالت میں ہیں، کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کی: کیا اس شر کے بعد بھی خیر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے پیچھے پھر شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا: وہ کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد ایسے امام (حکمران) ہوں گے جو زندگی گزارنے کے میرے طریقے پر نہیں چلیں گے اور میری سنت کو نہیں اپنائیں گے اور جلد ہی ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کی وضع قطع انسانی ہو گی، مگر دل شیطانوں کے دل ہوں گے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں وہ زمانہ پاؤں (تو کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا، چاہے تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا۔‘‘

(2) حکمران کی خیر خواہی چاہنا

احادیث میں بہت واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے، یعنی کوئی بھی شخص اس وقت تک دین پر عمل کا دعویدار نہیں ہو سکتا جب تک وہ دوسروں کی خیر خواہی چاہنے والا نہ بن جائے۔ خیر خواہی ایک ایسا لفظ ہے جس میں تمام حقوق العباد آجاتے ہیں۔ جب انسان کسی کا خیر خواہ ہوتا ہے تو اسے عوام میں طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بناتا، اس کے خلاف نفرت نہیں پھیلاتا، اس کے لیے برے الفاظ و القاب استعمال نہیں کرتا، اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھتا ہے۔ ہر ہر مسلمان کی خیر خواہی چاہنے سے متعلق بہت سی احادیث ہیں مگر کچھ طبقات کو بڑی وضاحت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرما دیا کہ ان کے لیے تو بہرحال خیر خواہی کا رویہ اپنانا چاہیے، ان میں سے حکمران کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ آج کے دور میں جب ہر شخص کے ہاتھ سوشل میڈیا آچکا ہے، شاید ان حالات میں ان احادیث کو بارہا پڑھنے کی ضرورت ہے۔ فرمانِ نبوی ہے:

عن تمیم الداری قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن الدین النصیحۃ إن الدین النصیحۃ إن الدین النصیحۃ، قالوا: لمن یا رسول اللہ؟ قال للہ وکتابہ ورسولہ وائمۃ المؤمنین وعامتہم، او ائمۃ المسلمین وعامتہم۔
’’حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین خیر خواہی کا نام ہے، بے شک دین خیر خواہی کا نام ہے، بے شک خیر خواہی کا نام ہے، صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کس کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کی کتاب کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور عام انسانوں کے لیے۔‘‘

(3) حکمران کے ساتھ محبت و الفت کا تعلق قائم رکھنا

حکمرانوں سے عوام کا تعلق محبت و الفت کا ہونا چاہیے۔ عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں سے محبت کریں اور ان کے لیے دعا کریں، جبکہ یہی رویہ حکمرانوں کی طرف سے بھی ہونا چاہیے۔

عن عوف بن مالک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال خیار أئمتکم الذین تحبونہم ویحبونکم ویصلون علیکم وتصلون علیہم وشرار أئمتکم الذین تبغضونہم ویبغضونکم وتلعنونہم ویلعنونکم قیل یا رسول اللہ أفلا ننابذہم بالسیف فقال لا ما أقاموا فیکم الصلاۃ وإذا رأیتم من ولا تکم شیئا تکرھونہ فاکرھوا عملہ ولا تنزعوا یدا من طاعۃ۔
’’عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بہترین حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے حق میں دعائے خیر کرو اور وہ تمہارے حق میں دعائے خیر کریں۔ اور تمہارے بدترین حکمراں وہ ہیں جنہیں تم ناپسند کرو اور وہ تمہیں ناپسند کریں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم ان کی بیعت توڑ کر ان کے خلاف بغاوت نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔ اور جب تم اپنے حکمرانوں میں کوئی ناگوار چیز دیکھو تو اس کے برے عمل کو ناپسند کرو، لیکن اس کی اطاعت کرنا ہرگز نہ چھوڑو۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی بھی قوم کا بڑا، امام اور حکمران آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو عزت سے نوازتے تھے۔ وہ شخص چاہے مسلمان ہو یا کافر ہو، کسی بھی قوم کے بڑے کو عزت دینا سیرت کی تعلیم ہے۔ یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ جو شخص جاہلیت کے زمانے میں سردار ہوگا، اسلام لانے کے بعد اس کی سرداری چھینی نہیں جائے گی، وہ پھر بھی سردار ہی رہے گا۔ لوگوں کے رتبے اور عہدے کے مطابق ان سے سلوک کرنا اسلام کی واضح تعلیمات میں سے ہے۔ اس لیے حکمران کو عزت دینا اسلام کی اہم تعلیم ہے۔

عن أبی موسیٰ الأشعری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن من إجلال اللہ إکرام ذی الشیبۃ المسلم وحامل القرآن غیر الغالی فیہ والجافی عنہ وإکرام ذی السلطان المقسط۔
’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ان تین لوگوں کی عزت و توقیر کرنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم کرنا ہے: بوڑھے مسلمان کی عزت کرنا، قرآن مجید کے حافظ کی تعظیم کرتا جو قرآن میں غلو کرنے والا نہ ہو اور نہ ہی اس سے روگردانی کرنے والا ہو، اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کے مرتبے کا خیال رکھ کر انہیں عزت سے نوازنا بھی شریعت کا حکم ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنزلوا الناس منازلہم۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کے ساتھ رویہ ان کے رتبے کے مطابق کیا کرو۔‘‘

(4) حکمران کو ڈھال سمجھنا اور اسے مضبوط کرنا

حکمران کسی بھی قوم کا محافظ ہوتا ہے، ممکن ہے اس کی کچھ باتیں ناپسندیدہ ہوں، لیکن بے شمار ایسے پہلو ہوتے ہیں جن کی وجہ سے حکمران کی موجودگی غنیمت ہوتی ہے۔ بے شمار شرعی اور انتظامی احکام ایسے ہیں جن کی وجہ سے حکمران کی قدر کرنی چاہیے اور اس کو اپنی ڈھال سمجھتے ہوئے اس کو مضبوط کرنا چاہیے۔

عن أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال إنما الإمام جنۃ یقاتل من ورائہ ویتقی بہ فإن أمر بتقوی اللہ عز وجل وعدل کان لہ بذلک أجر وإن یأمر بغیرہ کان علیہ منہ۔
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک امام ڈھال ہوتا ہے، اس کی اوٹ میں جہاد کیا جاتا ہے، اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے اور انصاف کا حکم دے تو اسے اجر ملتا ہے اور اگر اس کے خلاف کچھ کیا تو اس کا وبال بھی اسی پر ہو گا۔‘‘

(5) نفیر عام پر تمام کام چھوڑ کر نکلنا

عام حالات میں جہاد فرضِ کفایہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت (ان دنوں باقاعدہ افواج اسی فرضِ کفایہ کی تکمیل کرتی ہیں) جب تک اس فرض کو ادا کر رہی ہے تو دیگر مسلمان اس ذمہ داری سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب امیر یہ حکم دے دے کہ اب نفیر عام ہے اور ہر شخص جنگ کے لیے نکلے تو پھر کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ امیر کی بات نہ مانے اور جہاد کے لیے نہ نکلے۔ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جہاد تین صورتوں میں فرضِ عین ہو جاتا ہے:

1۔ جب مسلمانوں کا لشکر کافروں کے روبرو ہو جائے اور صف بندی ہو جائے تو اب اس لشکر میں موجود کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ جنگ سے پیچھے ہٹ جائے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: اے ایمان والو جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ۔

2۔ جب کافر کسی اسلامی ملک پر حملہ کر دیں تو وہاں کے شہریوں پر بھی لازم ہو جاتا ہے کہ وہ جنگ لڑیں اور اپنے ملک کا دفاع کریں۔

3۔ جب حکمران کسی جگہ پر نفیر عام کا اعلان کر دے، تو اب وہاں موجود ہر شخص پر لازم ہو جاتا ہے کہ اپنے امیر کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

یا ایھا الذین اٰمنوا ما لکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللہ اثاقلتم الی الارض ارضیتم بالحیٰوۃ الدنیا من الاٰخرۃ۔
’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جائے کہ راہِ خدا میں کوچ کرو تو تم بوجھ مارے زمین پر بیٹھ جاتے ہو، کیا تم نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے پسند کر لی۔‘‘

فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ عام حالات میں والدین کا حکم ماننا ضروری ہے، لیکن اگر نفیر عام ہو جائے تو اس حالت میں امیر کا حکم ماننا ہوگا اور جہاد کے لیے نکلنا ہوگا۔ امام سرخسی لکھتے ہیں:

وعند النفیر العام لا بأس لہ أن یخرج وإن کرہ ذلک أبواہ لأنہ بالخروج یدفع عن نفسہ وعنہما وإذا لم یکن النفیر عاما، وأمرہ الإمام بالخروج فلیخبرہ خبر أبویہ فإن أمرہ بالخروج مع ذلک، فلیطعہ۔

المحیط البرہانی میں ہے:

إذا جاء النفیر، فقیل لأھل مدینۃ أو مصر قریب من العدو، وقد جاء العدو یریدون أنفسکم وذراریکم وأموالکم، فلا بأس بأن یخرج الرجل بغیر إذن والدیہ وإن نھیاہ فلا بأس بأن یعصیہما إذا کان ممن یقدر علی الجہاد۔

فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:

وإذا أراد الرجل أن یخرج للجہاد، ولہ أب أو أم فلا ینبغی لہ أن یخرج إلا بإذنہ إلا من النفیر العام۔

(6) حکمران کی ناگوار باتوں پر صبر کرنا

حکمران کو شریعت نے اس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کی ناگوار باتوں پر صبر کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ناروا کاموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے یا بغاوت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ حکمران اگر اپنی رعایا کے ایک ایک شخص کو وضاحتیں پیش کرتا اور مطمئن کرتا رہے گا تو وہ حکمرانی کبھی نہیں کر سکے گا۔ بہت سے مسائل اور معاملات ایسے ہوں گے جن کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے یا حالات کی نزاکت کی بنیاد پر عوام کو ان کی تفصیلات بتانا ممکن ہی نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ حکمران جو چاہے کرتا پھرے، اس سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہو گی، کیونکہ اللہ کے دربار میں حکمران کی جواب دہی ہو گی اور اپنے غلط اقدامات کی صفائی اسے بہرحال روزِ قیامت پیش کرنا ہو گی۔

عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من کرہ من أمیرہ شیئا فلیصبر فإنہ من خرج من السلطان شبرا مات میتۃ جاھلیۃ۔
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اپنے امیر کی کوئی بات ناپسند لگے تو اسے چاہیے کہ صبر کرے، کیونکہ جو شخص اپنے بادشاہ کی اطاعت سے ایک بالشت بھی باہر نکل گیا، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے:

سمعت ابن عباس رضی اللہ عنہما، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، قال: من رای من امیرہ شیئا یکرھہ فلیصبر علیہ، فإنہ من فارق الجماعۃ شبرا فمات إلا مات میتۃ جاہلیۃ۔
’’میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے امیر میں کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے ناپسند لگے، تو اسے چاہیے کہ اس پر صبر کرے۔ کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہو جائے اور پھر اسی حال میں مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔’’

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی نافرمانی کرنے والے اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والے کی موت کو جاہلیت کی موت کے مشابہ قرار دیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے مطلب میں لکھا ہے کہ دورِ جاہلیت میں لوگ بغیر کسی امیر اور حکمران کے رہتے تھے اور اپنے قبیلے یا قوم کے لیے لڑتے تھے، دوسرے قبیلوں کو اپنے ماتحت لانے اور محکوم بنانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے، بالکل اسی طرح حکمران کی اطاعت سے نکل جانے والا اور اس کی نافرمانی کرنے والا بھی ہے۔

(7) حکمت و بصیرت کے ساتھ حکمران کو نصیحت کرنا

معاشرے میں موجود علمائے کرام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے امیر و حکمران کو اچھے مشورے دیں، حکمت و بصیرت کے ساتھ لوگوں کی اصلاح کریں، ان کی غلط باتوں پر تنبیہ کریں اور ان کے اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی کریں۔ ہر دور میں علمائے کرام نے اس فرض کو نبھایا ہے اور حکمرانوں کو وعظ و نصحت کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کے صفحات پر بے شمار علمائے کرام کے واقعات رقم ہیں اور عامر شعبی اور امام زہری سے لے کر امام الہند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تک تاریخ کا ایک روشن باب ہے، جس سے قدم بہ قدم رہنمائی ملتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ ہر شخص کو اس کے عہدے اور مرتبے کے اعتبار سے عزت دیں۔ کسی بھی قوم کا سردار اپنے رتبے کے اعتبار سے عام افراد سے زیادہ عزت و احترام کا مستحق ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح حکمرانوں کو نصیحت کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان کے رتبہ کا خیال رکھتے ہوئے نصیحت کی جائے۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ کی طرف حکمت اور بصیرت سے دعوت دو، انداز ایسا رکھو کہ دشمن بھی دوست بن جائے۔ پھر حکمران کے لیے تو حدیث میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ حکمرانوں کی خیر خواہی چاہو۔ ظاہری بات ہے کہ نصیحت کرنا، برے کاموں سے روکنا اور درست مشورے دینا ایک بہت بڑی خیر خواہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

عن أنس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ثلاث لا یغل علیھن قلب امرئ مسلم: إخلاص العمل للہ، ومناصحۃ ولاۃ الأمر، ولزوم جماعۃ المسلمین فإن دعوتہم تحیط من ورائہم۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان شخص کا دل تین کاموں میں خیانت نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کے اخلاص سے کام کرنا، حکمرانوں کی خیر خواہی چاہنا اور مسلمانوں کی جماعت سے جڑے رہنا کہ ان کی دعا سب طرف سے گھیر لیتی ہے۔‘‘

(8) حکمران کو علیحدگی میں نصیحت کرنا

حکمران کو نصیحت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تنہائی میں کی جائے۔ حکمران جب کسی بھی قوم کا سرکردہ شخص ہے تو ضروری ہے کہ اس کی عزت کا خیال رکھا جائے، اس کی خیر خواہی کی جائے، عزت اور خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ اسے تنہائی میں سمجھایا جائے۔ لوگوں کے سامنے اسے ذلیل کرنا، منبر پر بیٹھ کر اس کی مذمت کرنا، یا سوشل میڈیا کو اس کام کے لیے استعمال کرنا اہلِ سنت والجماعت کا طریقہ نہیں رہا۔ دیکھیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت واضح حدیث ہے:

فقال عیاض بن غنم یا ہشام بن حکیم قد سمعنا ما سمعت و رأینا ما رأیت أولم تسمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من أراد أن ینصح لسلطان بأمر فلا یبد لہ علانیۃ ولکن لیأخذ بیدہ فیخلو بہ فإن قبل منہ فذاک وإلا کان قد أدی الذی علیہ لہ۔
’’عیاض بن غنمؓ نے جواب دیا: اے ہشام! جو آپ نے سنا وہ ہم نے بھی سنا تھا اور جو آپ نے دیکھا وہ ہم بھی دیکھ چکے تھے، لیکن کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا: جو شخص بادشاہ کو کسی مسئلے سے متعلق نصیحت کرنا چاہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے سامنے نہ کہے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑے اور تنہائی میں لے جائے۔ اگر بادشاہ اس نصیحت کو قبول کر لے تو بہت اچھا، ورنہ اس شخص نے اپنا فرض ادا کر دیا۔‘‘

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ مبارک میں جب بلوائیوں نے حملہ کر دیا اور ہر طرف شورش پھیل گئی تو صحابہ کرامؓ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ حضرت عثمانؓ سے کیوں نہیں جا کر ملتے اور ان کو نصیحت کرتے؟ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے حضرت عثمانؓ سے بات نہیں کی؟ کیا میں تمہیں بھی وہ نصیحت سناؤں؟ میں ان سے جو بات کرتا ہوں، وہ میرے اور ان کے درمیان رو جاتی ہے، میں وہ دروازہ نہیں کھولنا چاہتا، جس کو سب سے پہلے میں کھولنے والا بن جاؤں۔‘‘

اسی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ تو یہ فرماتے تھے کہ جس کے دل میں آئے، وہی امام اور حکمران کو نصیحت کرنے کے لیے نہ چل پڑے، بلکہ ایسے عالمِ دین کو نصیحت کرنی چاہیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مطلب سمجھتا ہو، جس کام کا حکم دینا ہے اسے نرمی سے کہہ سکتا ہو، جس کام سے منع کرتا ہے اسے بھی نرمی سے بتا سکتا ہو، جس کا حکم دے رہا ہے اس میں انصاف سے کام لے، جس کام سے منع کرنا ہے، اس میں بھی انصاف سے کام لے۔ حد سے تجاوز نہ کرے۔

عن سفیان الثوری، قال: لا یأمر السلطان بالمعروف إلا رجل عالم بما یأمر عالم بما ینھی، رفیق فیما یأمر رفیق فیما ینھی، عدل فیما یأمر عدل فیما ینھی۔

برائی کیسے روکیں؟

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ برائی کو روکنے کا بھی حکم ہے۔ اس لیے حکمران کو غلطی پر اصلاح کا پہلا قدم یہی ہے کہ اسے تنہائی میں حکمت و بصیرت کے ساتھ سمجھایا جائے۔ اس طریقہ کو اپنانے سے حکمران کی اصلاح کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد بھی اگر برائی جاری ہو تو اس کے خلاف حکمت و بصیرت سے بولنا بھی ضروری ہے۔ اس انداز میں برائی کی نشان دہی کرنی ہو گی کہ اس کے نتیجے میں اصلاح کے امکان بڑھ جائیں، ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا جس کی وجہ سے مزید تباہی و بربادی آئے، یا حکمران اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لے، یا بات ذاتی مخاصمت تک پہنچ جائے۔ اسی کو حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر آپ حکمران یا نگران ہیں تو برائی کو ہاتھ سے روک دیں، ورنہ اس کے خلاف زبان سے بات کریں، اگر یہ بھی نہ کر سکیں تو پھر دل سے برا جائیں۔ اگر یہ تمام کوششیں بھی ناکام ہو جائیں اور حکمران کے ظلم و ستم یا دین سے دوری اور بے راہ روی کی وجہ سے کوئی کوشش کارگر نہیں ہو رہی اور یہ خطرہ ہے کہ بادشاہ کو اس برے کام سے روکا تو وہ نصیحت کرنے والے کو قتل کر دے گا، تو اس صورت میں حکمران کے سامنے اعلانیہ بولنا بھی ضروری ہے اور اس کو حدیث شریف میں سب سے عظیم جہاد بھی قرار دیا گیا ہے۔ مشکوۃ کی شرح مرقاۃ میں لکھا ہے:

(وعنہ) ; أی عن أبی سعید (قال: قال رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم-: أفضل الجہاد من قال) أی جہاد من قال، أو أفضل أھل الجہاد من قال: (کلمۃ حق) أی قول حق ولو کان کلمۃ واحدۃ، وضدہ ضدہ (عند سلطان جائر) ; أی صاحب جور وظلم، قال الطیبی: أی من تکلم کلمۃ حق ; لا کلمۃ حق تحملہ، قال الخطابی: وإنما صار ذلک أفضل الجہاد لأن من جاھد العدو وکان مترددا بین الرجاء والخوف، لا یدری ھل یغلب، أو یغلب؟ وصاحب السلطان مقھور فی یدہ، فھو إذا قال الحق وأمرہ بالمعروف، فقد تعرض للتلف، فصار ذلک أتلف أنواع الجھاد: من أجل غلبۃ الخوف وقال المظھر: وإنما کان أفضل، لأن ظلم السلطان یسری فی جمیع من تحت سیاستہ، وھو جم غفیر، فإذا نھاہ عن الظلم فقد أوصل النفع إلی خلق کثیر۔

لیکن یہ بات بہر حالسمجھ لینی چاہیے کہ حکمرانوں پر سب و شتم کرنا، ان کی کردار کشی کرنا ، ان پر طعن و تشنیع کرنا اور ان کی نجی زندگی میں مداخلت کرنا کسی بھی طور مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے۔ ایسا سلوک کسی عام شخص سے روا رکھنا جائز نہیں، مسلمان حکمران کے ساتھ تو بالکل ہی نامناسب ہے۔ آگے اس کی تفصیل بھی آ رہی ہے۔ ان شاء اللہ۔

عوام پر حکمران کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی طرف سے مقرر کردہ نگران حضرات کی کارکردگی سے حکمران کو باخبر بھی رکھیں۔ ہمارے ہاں رواج ہو چکا ہے کہ حکمرانوں کی برائیوں کو تو ہائی لائٹ کیا جائے، سوشل میڈیا اور ہر ہر طریقے سے وائرل کیا جائے، لیکن اگر کوئی نیک کام کرتا ہے، اچھے اقدام کرتا ہے تو نہ اسے ہائی لائٹ کیا جاتا ہے، نہ ہی کوئی کوشش کرتا ہے کہ اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے اس کو وائرل کرے۔ یہ طریقہ کار عدل و انصاف کے تقاضوں پر بھی پورا نہیں اترتا اور نہ ہی شریعت کے احکام پر۔

’’صحابہ کرامؓ جب کسی مہم یا سفر سے واپس تشریف لاتے تو اپنے سفر کے امیر کی کارگزاری اور حالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتے۔‘‘

(9) کارِ خیر میں حکمران کے ساتھ تعاون کرنا

حکمران جب کوئی نیک کام کرے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ ہمارے ہاں ہر طاقت ور سے نفرت اور حکمرانوں سے بدظنی عروج پر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے حکمران کے اچھے کاموں کی تعریف نہیں کی جاتی۔ عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اپنی ذاتی وابستگیوں اور مفادات سے بالاتر ہو کر حکمران کے اچھے کاموں کی حمایت کرے۔ لوگوں کے نیک کاموں کو سراہنا چاہیے تاکہ معاشرے میں نیکی کرنے والوں میں اضافہ ہو۔ اس کے برعکس جب برے کاموں پر تنقید تو کی جاتی ہو، تو کام کرنے والا بھی مایوس ہو جاتا ہے اور لوگوں کی تعریف و مذمت سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔

ارشاد خداوندی ہے:

وتعاونوا علی البر والتقویٰ۔
’’نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔‘‘

(10) حکمران کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرنا

ہر دور میں اہلِ علم کی عادت رہی ہے کہ وہ اپنے حکمران کے لیے دعا کا اہتمام کرتے تھے۔ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ خوارج اور اہلِ سنت والجماعت میں چار بنیادی چیزوں کا فرق ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اہلِ سنت اپنے حکمران کے لیے دعا کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ خوارج اس کے قائل نہیں ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:

من قال: الصلاة خلف كل بر و فاجر، والجھاد مع كل خليفۃ، ولم ير الخروج علی السلطان بالسيف، ودعا لھم بالصلاح، فقد خرج من قول الخوارج أولہ وآخرہ۔
’’جو شخص اس بات کا قائل ہو کہ ہر نیک اور بد کے پیچھے نماز جائز ہے، ہر خلیفہ کے ساتھ جہاد درست ہے، وہ بادشاہ کے خلاف تلوار سے خروج کا قائل نہ ہو اور حکمران کی اصلاح کے لیے دعا کرتا ہو، وہ مکمل طور پر خوارج سے نکل جاتا ہے۔‘‘

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ عباسی حکمرانوں نے انہیں نہ صرف جیل میں ڈالا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا، لیکن اس کے باوجود وہ فرماتے تھے کہ حکمران کے لیے دعا کرنا واجب ہے۔ یہی علمائے حق کی علامت ہے کہ اپنے ذاتی اختلافات یا رنجشوں کی باعث دین کے احکام میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے فرما رہے ہیں۔

أخبرنی علی بن عیسی بن الولید، أن حنبلا، حدثہم وأخبرنی عصمۃ بن عصام، قال: ثنا حنبل، فی ھذہ المسألۃ، قال: وإنی لأدعو لہ بالتسدید، والتوفیق، فی اللیل والنہار، والتأیید، وأری لہ ذلک واجبا علی۔
’’امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: میں حکمران کے لیے راہِ راست و درستگی، توفیق اور تائیدِ خداوندی کی رات دن دُعائیں مانگتا ہوں اور ایسا کرنے کو میں اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں۔‘‘

حضرت فضیل بن عیاضؒ زہد و تقویٰ اور علم و فضل میں ایک جداگانہ مقام رکھتے تھے، امام سفیان بن عیینہؒ جیسے عظیم محدث ان کو ثقہ کہتے اور ان کے ہاتھ چومتے تھے۔ حضرت فضیل بن عیاضؒ کا یہ فرمان ہمارے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے:

عن فضيل بن عياض أنہ قال: لو كانت لی دعوۃ ما جعلتھا إلا فی السلطان قیل لہ: یا أبا علی! فسر لنا ھذا؟ (وأبو علی کنیۃ الفضیل بن عیاض) قال: إذا جعلتہا فی نفسی لم تعدنی، وإذا جعلتھا فی السلطان صلح فصلح بصلاحہ العباد والبلاد۔
’’حضرت فضیل بن عیاضؒ نے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہو کہ میری ایک ہی دعا قبول ہو گی تو میں وہ دعا بادشاہ کے لیے مانگوں گا۔ ان سے کہا گیا کہ ابو علی! اس کی مزید وضاحت فرمائیے۔ انہوں نے جواب دیا: اگر میں اپنے لیے دعا مانگوں گا تو اس کا میرے علاوہ کسی کو کوئی فائدہ نہیں۔ جب میں بادشاہ کے لیے دعا مانگوں اور وہ ٹھیک ہو جائے تو بادشاہ کی اصلاح سے سارے عوام اور ملک ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

امام احمد بن حنبل اور خلیفہ متوکل باللہ عباسی کا واقعہ

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے دور کے عظیم ترین عالمِ دین تھے۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دور میں فتنہ خلقِ قرآن شروع ہوا اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر حکمرانوں کی سختیاں شروع ہو گئیں۔ خلیفہ معتصم باللہ نے تو امام احمدؒ کو جیل میں ڈال دیا، پابجولاں کر دیا اور نہایت اذیت سے دو چار کیا۔ اس کے بعد واثق باللہ بھی یوں ہی ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتا رہا۔ پھر متوکل باللہ کے دور میں جا کر یہ آزمائش ختم ہوئی۔

کسی بدخواہ نے خلیفہ متوکل باللہ کے کان بھرے اور یہ کہا کہ علویین میں سے کوئی شخص امام احمد بن حنبلؒ کے پاس گیا اور اب امام احمد بن حنبلؒ خفیہ طور پر علویوں کے لیے بیعت لے رہے ہیں۔ خلیفہ نے بغداد کے گورنر کو حکم دیا کہ رات کے وقت امام احمد بن حنبلؒ کے گھر پر چھاپہ مارے اور اس معاملے کی تہہ تک پہنچے۔ گورنر نے رات کو امام صاحبؒ کے گھر کا محاصرہ کیا، امام احمد بن جنبلؒ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ گورنر جا کر استفسار کیا کہ کیا آپ علویین کے لیے بیعت لے رہے ہیں؟ تو امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا: مجھے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں، نہ ہی ایسا کوئی ماجرا پیش آیا ہے۔ نہ یہ میری نیت ہے بلکہ میں تو امیر المومنین کی اطاعت خفیہ اور اعلانیہ دونوں طرح ضروری سمجھتا ہوں۔ اسی طرح تنگی اور سختی میں، دل کی خوشی اور دلی رنجش میں، یہاں تک کہ اگر مجھ پر کسی کو ترجیح دی جائے تب بھی امیر المومنین کی اطاعت ضروری ہے۔ بے شک میں تو امیر المومنین کے لیے توفیق اور کامیابی کی دعا دن رات مانگتا ہوں۔ اسی پر آپ نے تفصیلی گفتگو فرمائی۔ گورنر نے آپ کے گھر، خواتین کے کمروں اور چھت تک کی تلاشی لی، لیکن انہیں کچھ نہ ملا۔

إن رجلا من المبتدعۃ یقال لہ ابن الثلجی وشی إلی الخلیفۃ شیئا، فقال: إن رجلا من العلویین قد ضوی إلی منزل أحمد بن حنبل، وھو یبایع لہ الناس فی الباطن۔ فأمر الخلیفۃ نائب بغداد أن یکبس منزل الإمام أحمد من اللیل۔ فلم یشعروا إلا والمشاعل قد أحاطت بالدار من کل جانب حتی من فوق الأسطحۃ فوجدوا الإمام أحمد جالسا فی دارہ مع عیالہ، فسألوہ عما ذکر عنہ، فقال: لیس عندی من ھذا علم، ولیس من ھذا شیء، ولا ھذا من نیتی، وإنی لأری طاعۃ أمیر المؤمنین فی السر والعلانیۃ، وفی عسری ویسری، ومنشطی ومکرھی وأثرۃ علی، وإنی لأدعو اللہ لہ بالتسدید والتوفیق فی اللیل والنہار۔ فی کلام کثیر، ففتشوا منزلہ حتی مکان الکتب وبیوت النساء والأسطحۃ وغیرھا فلم یروا شیئا۔ فلما بلغ المتوکل ذلک، وعلم براءتہ مما نسب إلیہ، علم أنھم یکذبون علیہ کثیرا۔

علمائے کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص بادشاہ کو بددعائیں دے رہا ہو، تو سمجھ جانا چاہیے کہ یہ شخص اپنی خواہشات کی پوجا کرنے والا ہے۔ جب ایسا کوئی شخص دکھائی دے جو بادشاہ کی درستگی کے لیے دعا کر رہا ہو تو سمجھ جانا چاہیے کہ یہ شخص سنت کے رستے پر چلنے والا ہے۔

قال الإمام أبو محمد البربھاری رحمہ اللہ: وإذا رأیت الرجل یدعو علی السلطان، فاعلم أنہ صاحب ھوی، وإذا رأیت الرجل یدعو للسلطان بالصلاح، فاعلم أنہ صاحب سنۃ إن شاء اللہ۔

معروف فقیہ، بلند پایہ مصنف اور محدث امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امیر المومنین اور سرکاری عہدیداروں کے لیے درستگی، حق کا ساتھ دینے، انصاف کرنے وغیرہ سے متعلق دعا کرنا اور اسلامی افواج کے لیے دعا کرنا، تمام فقہائے کرام کے نزدیک مستحب ہے۔

وقال النووی عن حکم الدعاء لولاۃ أمور المسلمین فی خطبۃ الجمعۃ: الدعاء لأئمۃ المسلمین وولاۃ أمورھم بالصلاح والإعانۃ علی الحق والقیام بالعدل ونحو ذلک، ولجیوش الإسلام، فمستحب بالاتفاق۔

حوالہ جات

  1. رد المحتار، کتاب الدعوی، دار الفکر، بیروت، جلد 5، ص :422
  2. اسلام اور سیاسی نظریات، ص: 278
  3. صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین، 1847، جلد سوم، صفحہ: 1476، داراحیاء اللغۃ العربیۃ، بیروت
  4. صحیح مسلم حدیث نمبر :196
  5. صحیح مسلم حدیث نمبر : 4804
  6. سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی تنزیل الناس منازلہم، حدیث نمبر: 4843
  7. سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی تنزیل الناس منازلہم، حدیث نمبر: 4842
  8. صحیح البخاری: 2957 باب یقاتل من وراء الامام
  9. الفقہ الاسلامی، وادلتہ للزحیلی أ۔ د۔ وھبۃ بن مصطفی الزحیلی، الباب الرابع، الجھاد و توابعہ، ان کان النفیر عاما، دارالفکر، دمشق، المجلد: 8، ص: 5850
  10. سورۃ الانفال: 45
  11. سورۃ التوبۃ: 38
  12. شرح السیر الکبیر، شمس الائمۃ السرخسی، باب الامارۃ، الشرکۃ الشرقیۃ للاعلانات، ص: 60
  13. المحیط البرھانی، برھان الدین بن مازہ البخاری، کتاب الاستحسان والکراھیہ، الفصل الثامن والعشرون، ج: 5، ص: 393
  14. الفتاوی الھندیۃ، کتاب السیر، الباب الاول فی تفسیرہ، المطبعۃ الکبری الامیریۃ ببولاق مصر، المجلد: 2، ص: 189
  15. صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی ﷺ سترون بعدی امور اتنکرونھا، حدیث نمبر: 7053
  16. صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی ﷺ سترون بعدی امور اتنکرونھا، حدیث نمبر: 7053
  17. کنز العمال، علی المتقی الھندی، کتاب المواعظ، الترغیبات، الثلاثی، موسسۃ الرسالۃ، رقم الحدیث: 44272، ج: 16، ص: 230
  18. مسند احمد، مسند مکیین، و من حدیث ھشام بن حکیم بن حزام، رقم الحدیث: 14909
  19. تفسیر القرآن الکریم، ابن کثیر الدمشقی، سورۃ البقرۃ: 44
  20. حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ابو نعیم الاصبھانی، ذکر طوائف من جماھیر النساک سفیان الثوری و مہم الامام مطبعۃ السعادۃ، مصر، ج: 6
  21. مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، کتاب الامارۃ والقضاء، ط: المکتب الاسلامی، ج: 6، ص: 2412
  22. صحیح البخاری: 7375
  23. سورۃ المائدۃ: 2
  24. شرح السنۃ للبربھاری ص 132 رقم 159
  25. السنۃ لابی بکر ابن الخلال، اول کتاب المسند، ما يبتدا بہ من طاعۃ الامام، وترك الخروج عليہ، وغير ذلك، المجلد الاول، ص: 83، رقم الحدیث: 14
  26. شرح کتاب السنۃ للبربھاری، عبد العزیز الراجحی، ص: 6
  27. کتاب البدایۃ والنھایۃ، من توفی من الاعیان فی سنۃ احدی واربعین ومائتین الامام احمد بعد المحنۃ، جلد: 14، ص: 413
  28. شرح کتاب السنۃ، ص: 113
  29. المجموع شرح المھذب 391/4

(’’ریاست، بغاوت اور شریعت‘‘ کا ایک باب ۔ amunemfaiz@gmail.com)



اسلام اور سیاست

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter