بغاوتوں کی وجوہات جاننے سے انکار کرنا، 'دہشت گردی' کے عنوانات استعمال کرنا، اور ہمسایوں کو قربانی کا بکرا بنانا جیتنے کی حکمتِ عملیاں نہیں ہیں۔
11 مارچ کو بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) کے جنگجوؤں نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس ٹرین کو ہائی جیک کر لیا۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز 36 گھنٹے کے محاصرے کے بعد بی ایل اے کے جنگجوؤں کو مارنے اور سینکڑوں یرغمالیوں کو رہا کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ حکومت کے مطابق آپریشن کے دوران کم از کم آٹھ عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاکستانی حکام نے فوری طور پر افغانستان اور بھارت کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا جسے انہوں نے ’’دہشت گردی کا واقعہ‘‘ قرار دیا۔ یہ اس بات کی تازہ ترین مثال ہے کہ پاکستانی حکام کس طرح اپنی ذمہ داری کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی زبان میں بیان کرتے ہیں۔
ٹرین ہائی جیکنگ سے تقریباً تین ماہ قبل پاکستانی لڑاکا طیاروں نے افغانستان کے خوست اور پکتیکا صوبوں پر بمباری کی تھی جس میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 46 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر پاکستان کے خیبرپختونخوا کے علاقے سے بے گھر ہونے والے لوگ تھے۔
پاکستان نے افغان خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا جواز اس دعوے سے دیا کہ وہ افغان سرزمین پر چھپے ہوئے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں اسلام آباد کابل پر ’’دہشت گردوں‘‘ کو پناہ دینے کا الزام لگاتا رہا ہے جنہوں نے پاکستانی سرزمین پر حملے کیے ہیں۔
یہ وہی منطق ہے جو امریکہ نے اپنی نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے دوران پوری مسلم دنیا میں فضائی حملوں، اغوا، ٹارگٹ کلنگ وغیرہ کرنے کے لیے استعمال کی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے امریکہ نے ان تمام معاہدوں کو پامال کیا جن کی دنیا نے ریاستی خودمختاری، شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان فرق، متناسب ردعمل، اور جنگی قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے توثیق کی تھی۔
امریکی فوج اور انٹیلیجنس نے عام شہریوں کو فعال جنگجو یا ’’ضمنی نقصان‘‘ کے طور پر دیکھا جو ’’بڑے ہدف‘‘ کا تعاقب کرتے وقت ضروری تھا۔ مسلح گروہوں کی طرف سے کیے گئے ’’دہشت گرد‘‘ حملوں کی قیمت پورے کے پورے ملکوں اور شہری آبادیوں نے چکائی، اور وہ اب بھی چکا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ شاید افغانستان اور عراق سے نکل گیا ہو لیکن اس کے طریقے یہاں رہ گئے ہیں اور خطے کی حکومتیں انہیں اسی طرح اپنا رہی ہیں۔ پاکستان کی حکومت ان میں سے ایک ہے۔
افغانستان پر 20 سالہ امریکی قبضے کے دوران پاکستان نے افغان طالبان کو ’’دہشت گرد‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس گروپ کو پناہ اور حمایت فراہم کرتا رہا۔ تاہم آج پاکستانی حکام ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو ’’دہشت گرد‘‘ گروہ اور افغان طالبان حکومت کو ’’دہشت گردی‘‘ کے معاون قرار دیتے ہیں۔
وہ ان مقامی بغاوتوں کو ایسے سیاسی کرداروں کے طور پر دیکھنے سے انکار کرتے ہیں جن کے ساتھ دلیل سے بات کی جا سکتی ہے یا جن کی شکایات سنی جانی چاہئیں۔
پاکستان ان گروہوں سے کیسے نمٹتا ہے، یہ ایک داخلی معاملہ ہے، لیکن حالیہ امریکی مہم جوئی سے جو چند سبق سامنے آئے ہیں ان پر توجہ دینا ضروری ہے۔
امریکہ نے ’’دہشت گردی‘‘ کی ایک وسیع تعریف پیش کی جس میں اندرون اور بیرون ملک مسلمان مشکوک ہو گئے۔ افغانستان میں اس نے اپنے دشمن القاعدہ کو طالبان اور بعض اوقات افغان شہریوں کے ساتھ ملا دیا۔
طالبان کے مبینہ ارکان کی قید اور تشدد نے محض طالبان جنگجوؤں کا جوش بڑھایا ہے اور تشدد میں اضافہ کیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں شہری آبادیوں پر اندھا دھند ڈرون حملوں نے نہ صرف خودمختاری کی خلاف ورزی کی، بلکہ نوجوانوں کو افغان طالبان اور ٹی ٹی پی میں شامل ہونے کی ترغیب بھی دی۔
طالبان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کئی کوششیں 2021ء تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں، جب دو دہائیوں کے قبضے اور جنگ سے تھک کر واشنگٹن نے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا اور بنیادی طور پر شکست تسلیم کی۔
تحریکوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دینا اور مفاہمت کا کوئی راستہ دیکھنے سے انکار کرنا آسان ہے لیکن، جیسا کہ امریکی مثال سے ظاہر ہوتا ہے، یہ نقطۂ نظر اچھے انجام پر نہیں پہنچتا۔
امریکہ کو ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف ایک اور جنگ میں پھنسانے کی بجائے، جیسا کہ امریکی میڈیا کمپنی ’’ڈراپ سائٹ‘‘ نے رپورٹ کیا ہے، پاکستانی حکام کو امریکی تجربے سے سیکھنا چاہیے۔ وہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے گروہوں سے لاعلمی کا بہانہ نہیں کر سکتے کہ انہیں اپنے ہی شہریوں کا سامنا ہے جن کو واضح شکایات ہیں۔
پاکستانی حکومت کو ان گروہوں کے مطالبات سننے ہوں گے اور ان سے مذاکرات کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اسے ان علاقوں میں شہری آبادیوں کے مصائب کو تسلیم کرنا ہوگا جہاں بی ایل اے اور ٹی ٹی پی سرگرم ہیں۔ اسے اپنی سکیورٹی کی ناکامی پر ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور طالبان حکومت کو قربانی کا بکرا بنانے کا سلسلہ بھی ختم کرنا ہو گا۔
اگر پاکستانی فوج حالیہ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کا فیصلہ کرتی ہے اور امریکہ کے نقشِ قدم پر چلتی ہے تو ایسا ممکن ہے کہ اسے بھی ایسے ہی انجام کا سامنا کرنا پڑ جائے۔