رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
حجۃ الوداع میں تاریخی اظہارِ اسلام

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدنی زندگی میں ایک ہی حج کیا اور ایک حج ہی بشرطِ استطاعت امت پر فرض بتلایا تاکہ امت پر کسی سنت حج کی مشقت نہ آئے۔ مسلمانوں پر ایک سال پہلے سے حج کے دروازے کھل چکے تھے لیکن آپؐ نے اس حج کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو مسلمانوں کا امیر بنایا اور خود اگلے سال حجۃ الوداع پر تشریف لائے اور اپنی ۲۳ سالہ ذمہ داری پوری کرنے کا اپنی امت سے اس طرح اقرار لیا:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس دن خطبہ دیا:

الا ان اللہ حرم علیکم دمائکم واموالکم کحرمۃ یومکم ہذا فی بلدکم ہذا فی شہرکم ہذا الا ہل بلغت؟ قالوا نعم قال اللہم اشہد اللہم اشہد (ثلثا) ویلکم او ویحکم۔ انظروا لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح بخاری جلد ۲، ص ۶۳۲) (صحیح بخاری کی ایک روایت میں ’’فان دمائکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام‘‘ بھی مروی ہے۔ دیکھئے کتاب الحج باب الخطبۃ ایام المنیٰ جلد ا، ج ۲۳۴)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن خطبہ دیا اور فرمایا: اچھی طرح سن لو کہ تمہارے خون اور تمہارے اموال اسی طرح تمہارے لیے لائقِ احترام ہیں جیسا کہ یہ عرفات کا دن تمہارے اس شہر میں اور اس مہینہ میں لائقِ حرمت ہے۔ کیا میں نے یہ بات (تم تک) پہنچا دی؟ سب نے اقرار کیا ہاں۔ آپؐ نے (اللہ کی طرف دھیان کر کے) فرمایا اے اللہ تو اس پر گواہ رہ۔ ایسا تین دفعہ ہوا۔ پھر آپؐ نے کہا افسوس تم پر، یا ہائے تم پر۔ دھیان رکھنا میرے بعد پھر کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں توڑنے لگو۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت میں امام بخاریؒ لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’دماءکم و اموالکم‘‘ کے ساتھ ’’واعراضکم‘‘ کے الفاظ بھی کہے اور یہ بھی فرمایا تھا:

وستلقون ربکم فسیألکم عن اعمالکم الا فلا ترجعوا بعدی ضلالا یضرب بعضکم رقاب بعض الا لیبلغ الشاہد الغائب فلعل بعض من یبلغہ ان یکون اوعیٰ لہ من بعض من سمعہ … ثم قال ہل بلغت ہل بلغت (صحیح بخاری جلد ۲، ص ۸۳۳)
ترجمہ: تم اپنے رب سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کا پوچھے گا۔ دھیان رکھنا میرے بعد میرا رستہ نہ بھول جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں توڑنے لگو۔ دھیان کرو جو یہاں موجود ہیں وہ اس تک یہ بات پہنچائیں جو یہاں نہیں آیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا ہو جس کو یہ حاضر پہنچا رہا ہے اس سے زیادہ جاننے والا اس یقین سے جس نے اسے سنا۔ اور آخر میں آپؐ نے دو دفعہ پوچھا کیا میں نے بات پہنچا دی؟ کیا میں نے بات پہنچا دی؟

صحیح مسلم میں آپؐ کا یہ بین الاقوامی خطاب اور بھی زیادہ واضح پیرائے میں ملتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

(فخطب الناس وقال) ان دماءکم واموالکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ہذا فی شہرکم ہذا فی بلدکم ہذا الا کل شئی من امر الجاہلیۃ تحت قدمی موضوع ودماء الجاہلیۃ موضوعۃ … وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ وأنتم تسألون عنی فما انتم قائلون قالوا نشہد انک قد بلغت و ادیت ونصحت فقال بأصبعہ السبابۃ یرفعہا الی السمآء وینکتہا الی الناس اللہم اشہد اللہم اشہد (ثلث مرات) (صحیح مسلم جلد ۱، ص ۳۹۷)
ترجمہ: اور آپؐ نے لوگوں میں خطبہ دیا اور کہا بے شک تمہارے خون تمہارے اموال تم پر اسی طرح لائقِ احترام ہیں جس طرح یہ آج کا دن (عرفات کا دن) تمہارے لیے لائقِ احترام ہے اس ماہ ذوالحج میں تمہارے اس شہر میں۔ خبردار رہو کہ دورِ جاہلیت کی ہر چیز میرے ان قدموں کے نیچے دب چکی اور جاہلیت کے تمام خون بھی اپنی جگہ ختم ٹھہرے … اور میں تم میں وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم اگر اسے تھامے رہو تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے، وہ کتاب اللہ ہے۔ اور تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا سو تم کیا کہو گے؟ حاضرین نے کہا ہم شہادت دیں گے کہ آپ نے اپنی رسالت ہم تک پہنچا دی، اسے ادا فرمایا اور ہماری خیر خواہی کی۔ آپؐ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا، اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ، آپؐ نے ایسا تین دفعہ کہا۔

ان بیانات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ آپؐ یہ اقرار اپنی تئیس سالہ تبلیغِ رسالت پر لے رہے ہیں کہ اللہ رب العزت نے جو ذمہ داری آپؐ پر ڈالی تھی، آپؐ نے اسے پورا کیا اور اللہ کی یہ امانت مسلمانوں تک پہنچ گئی۔ پھر یہ بات اس پر اور مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے کہ آیتِ تکمیل دین بھی اسی دن میدانِ عرفات میں اتری۔

الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (پ ۶، المائدہ ۳)
ترجمہ: آج میں نے پورا کر دیا تمہارے لیے دین تمہارا اور پوری کی تم پر میں نے اپنی نعمت اور پسند کیا میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین۔

اب اس پس منظر کی روشنی میں کوئی صاحبِ علم کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو حجۃ الوداع میں نہیں ۱۸ ذوالحجہ کو بمقام غدیر خم مکمل فرمایا تھا؟ ہرگز نہیں! حجۃ الوداع کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۱ دن اپنی دنیوی زندگی میں رہے اور پھر ربیع الاول میں آپؐ نے سفرِ آخرت اختیار فرمایا۔ حجۃ الوداع کے بعد آپؐ پر جو وحی بھی آئی وہ انتظامی اور اخلاقی امور کی ہی رہی، اسلام کے اصول و عقائد سب آیتِ تکمیلِ دین سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو مل چکے تھے۔

حجۃ الوداع کے بعد کسی یہودی سے یہ بات سنی گئی کہ اگر آیتِ تکمیلِ دین کی طرح کوئی آیت ہم میں آتی تو ہم اس دن کو اپنی عید کا دن ٹھہراتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواباً‌ کہا:

انی لاعلم ای مکان انزلت … انزلت و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقف بعرفۃ (صحیح بخاری جلد ۲، ص ۶۳۴)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا جب یہ آیت اتری تو ہماری دو عیدیں تھیں، ایک یومِ جمعہ اور ایک یومِ عرفہ۔

سو اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع آپؐ کے پورے تئیس سالہ دورِ وحی کی کامیاب تبلیغ کا اظہار تھا، صرف ایک دو جزئیات کے ملنے ملانے کی تصدیق نہ تھا۔ دو دو تین تین دفعہ بات دہرا کر اپنی پوری تبلیغِ رسالت کا اقرار لیا جا رہا تھا، کوئی اصولی اور اعتقادی بات ایسی نہ تھی جو اس دن آیتِ تکمیلِ دین سے خارج رہی ہو۔ امورِ شریعت سب طے پا چکے تھے، اس کے بعد آپؐ نے صرف انتظامی امور، سیاسی نصائح اور مکارمِ اخلاق اور آسمانی بشارات تو بیان فرمائیں لیکن اصولِ دین اور شرعِ متین میں کسی بات کا اضافہ نہ فرمایا۔

اثنا عشریوں کا یہ عقیدہ صحیح نہیں کہ تکمیلِ دین ۹ ذوالحج کو نہ ہوئی تھی، ۱۸ ذوالحج کو ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف واپس لوٹے تو رستے میں غدیر خم کے پاس قیام فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان فرمایا۔ یہ ہرگز درست نہیں۔ انہوں نے یہ عقیدہ کس لیے بنایا؟ صرف اس لیے کہ ۱۸ ذوالحجہ کے اس ارشاد سے کہ ’’میں جس کا دوست ہوں علیؓ بھی اس کا دوست ہے جس کی اس سے محبت نہیں اس کی مجھ سے محبت نہیں‘‘ اس روایت سے چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل ثابت نہ ہوئی تھی اس لیے انہوں نے عقیدہ اختیار کیا کہ دین کی تکمیل ۹ ذوالحجہ کو نہیں ۱۸ ذوالحجہ کو مقام غدیر خم ہوئی تھی۔ حالانکہ اہلِ سنت کتابوں کی رو سے بہ مقام غدیر خم کسی آیت کا نزول نہیں ہوا۔

جب آپؐ پر آیتِ تبلیغِ دین اتری تو یہ وہ موقع تھا جس میں آپ کے پورے تئیس سالہ دورِ وحی کے کامیاب ہونے کی خبر دی گئی تھی اور آپؐ کو اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے مخالفین کے ہر حیلہ و حجت سے پوری طرح آپؐ کو اپنی پوری حفاظت میں رکھیں گے۔

آپ اس آیت کو پھر سے مطالعہ فرمائیں۔ کیا اسے کسی بھی صورت میں آیتِ تکمیل دین ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ کے بعد اتری آیت سمجھا جا سکتا ہے؟ اور ’’الیوم‘‘ (آج) کے لفظ کی وجہ سے اسے دو بار اتری قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آیتِ تبلیغِ رسالت میں آپؐ پر اس طرح اپنی حجت تمام کی کہ اب آپؐ کے مخالفین کی کوئی بات آپؐ کے خلاف نہ چلے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان کے ہر حیلہ و حجت سے بچانے کی ضمانت دے دی ہے:

یایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ان اللہ لا یہدی القوم الکافرین (پ ۶، المائدہ ۶۷)
ترجمہ: اے رسول پہنچا دے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا (اس کی کوئی وحی نہ پہنچائی) اور اللہ تجھ کو بچائے گا لوگوں سے بے شک اللہ راستہ نہیں دکھاتا قوم کفار کو۔

اس آیت میں یہ تین صورتیں سامنے رہیں۔ اس آیت پر شیخ الاسلامؒ نے یہ نفیس حاشیہ لکھا ہے:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر کوششوں اور قربانیوں کا مقصدِ وحید ہی یہ تھا کہ آپؐ خدا کے سامنے فرضِ رسالت کی انجام دہی میں اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی حاصل کریں لہٰذا یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ کسی ایک پیغام کے پہنچانے میں بھی آپؐ ذرا سی کوتاہی کریں۔
عموماً‌ یہ تجربہ ہوا ہے کہ فریضہ تبلیغ ادا کرنے میں انسان چند وجوہ سے مقصر رہتا ہے (۱) یا تو اسے اپنے فرض کی اہمیت کا کافی احساس اور شغف نہ ہو (۲) یا لوگوں کی عام مخالفت سے نقصان شدید پہنچنے یا کم از کم بعض فوائد کے فوت ہونے کا خوف ہو (۳) یا مخاطبین کے عام تمرد و طغیان کو دیکھتے ہوئے جیسا کہ پچھلی اور اگلی آیات میں اہلِ کتاب کی نسبت بتلایا گیا ہے کہ تبلیغ کے مثمر اور منتج ہونے سے مایوسی ہو۔
پہلی وجہ کا جواب ’’یایہا الرسول‘‘ سے ’’فما بلغت رسالتہ‘‘ تک، دوسری کا ’’واللہ یعصمک من الناس‘‘ میں، اور تیسری کا ’’ان اللہ لا یہدی القوم الکافرین‘‘ دے دیا گیا۔ یعنی تم اپنا فرض ادا کیے جاؤ، اللہ تعالیٰ آپؐ کی جان اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمانے والا ہے وہ تمام روئے زمین کے دشمنوں کو بھی آپؐ کے مقابلہ پر کامیابی کی راہ نہ دکھلائے گا باقی ہدایت و ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی قوم جس نے کفر و انکار پر ہی کمر باندھ لی ہے اگر راہِ راست پر نہ آئی تو تم غم نہ کرو اور نہ مایوس ہو کر اپنے فرض کو چھوڑو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدایتِ ربانی اور آئینِ آسمانی کے موافق امت کو ہر چھوٹی بڑی چیز کی تبلیغ کی۔ نوعِ انسانی کے عوام و خواص میں جو بات جس طبقہ کے لائق اور جس کی استعداد کے مطابق تھی، آپؐ نے بلا کم و کاست اور بے خوف و خطر پہنچا کر خدا کی حجت بندوں پر تمام کر دی۔‘‘ (ص ۱۵۸ طبع سعودی عرب)

اس کے بعد آپؒ لکھتے ہیں، جس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع سے پہلے کسی وقت نازل ہوئی تھی، حج سے واپسی پر بمقام غدیر خم نہیں۔ غدیر خم میں کوئی آیت نہیں اتری۔ آپؐ لکھتے ہیں:

’’وفات سے دو ڈھائی مہینہ پہلے حجۃ الوداع کے موقعہ پر جہاں چالیس ہزار سے زائد خادمانِ اسلام اور عاشقانِ تبلیغ کا اجتماع تھا آپؐ نے علیٰ رؤس الاشہاد اعلان فرما دیا کہ: ’’اے خدا تو گواہ رہ، میں تیری امانت پہنچا چکا‘‘۔‘‘

اس آیتِ تبلیغ (بلغ ما انزل الیک) کے سیاق و سباق میں اہلِ کتاب کا ہی ذکر ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت بنیادی طور پر مسلمانوں کے تخاطب میں نہیں، اہلِ کتاب کے تخاطب میں ہے، اور وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سب سے بڑی طاقت تھے۔ اس وقت مشرکین اور مجوسی اور دہریہ کوئی بڑی طاقت نہ رہے تھے۔ اس سلسلہ آیات میں شیعہ کے اس دعویٰ میں کوئی جان نہیں کہ یہ آیتِ تبلیغ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم کرنے کے لیے تھی۔

ان ۲۳ سالہ مختلف مراحلِ وحی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح ان کے مکر سے نکل جانا اور مدینہ میں آپ کا جس عقیدت اور گرمجوشی سے استقبال کیا گیا وہ عبد المطلب کے اس یتیم پوتے کی آسمانی نصرت کا ایک ایسا ڈنکا تھا کہ اس کے پیچھے کسی دنیوی سبب اور حیلے کا کوئی تصور تک نہیں کیا جا سکتا، پہلے پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ اس حیرت ناک پیرائے میں سچائی کے پھول کھلتے نہیں دیکھے گئے، یہ ایک قیامت تک رہنے والی نبوت کی شان تھی جس سے اس دورِ وحی کا آغاز ہوا۔

یہ سب حالات گو آپؐ سے پردے میں تھے لیکن اس دوران آپؐ کبھی کسی پریشانی میں نہیں دیکھے گئے، غار میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو بہت پریشان اور فکر مند تھے لیکن آپؐ کا دستِ شفقت اس یقین و الفت سے آپ کو تھپکی دے رہا تھا کہ گویا آپؐ کے سامنے آپؐ کی رسالت کا مستقبل ایک کھلی کتاب کی طرح روشن ہے اور آپؐ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس یقین سے نہیں نکلے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو اپنی رسالت کے ساتھ سب ادیان و نظریات پر غالب کریں گے اور یہ پیشگوئی ’’لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ ہر صورت میں آپؐ پر پوری ہو کر رہے گی۔

یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں اپنے اس موضوع میں ناکام ہو گئے تھے جیسا کہ ایرانی سربراہ خمینی نے گمان کیا ہے کیونکہ اس آیت سے پہلی آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے خود آپؐ کے اس مشن (اظہارِ رسالت) کو کامیاب کرنے کا بڑے زوردار لفظوں میں اعلان کیا ہوا ہے:

یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (پ ۲۸، الصف ۸)
ترجمہ: (بے انصاف) لوگ چاہتے ہیں کہ بجھا دیں اللہ کی روشنی اپنی افواہوں سے اور اللہ کو پوری کرنی ہے اپنی روشنی اور پڑے برا مانیں منکر۔

اس پر حضرت شیخ الاسلامؒ لکھتے ہیں:

’’یعنی منکر پڑے برا مانا کریں اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ مشیتِ الٰہی کے خلاف کوئی کوشش کرنا ایسا ہے جیسے کوئی احمق نورِ آفتاب کو منہ سے پھونک مار کر بجھانا چاہے۔ یہی حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کا اور ان کی کوششوں کا ہے۔ شاید ’’بافواہہم‘‘ کے لفظ سے یہاں اس طرف بھی اشارہ کرنا ہو کہ بشارات کے انکار و اخفاء کے لئے جو جھوٹی باتیں بناتے ہیں وہ کامیاب ہونے والی نہیں۔ ہزار کوشش کریں کہ فارقلیط آپؐ نہیں ہیں لیکن اللہ منوا کر چھوڑے گا کہ اس کا مصداق آپؐ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (تفسیرِ عثمانی ص ۷۳۲ طبع سعودی عرب)

اس کا حاصل یہی ہے کہ آپ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ میں کسی شک کو کوئی راہ نہیں دی سکتی۔

مکہ سے نکلنے سے پہلے آپؐ کو اپنے پھر مکہ آنے کا اس قدر یقین تھا کہ اللہ کے حضور دعا کرتے آپؐ کی زبان مبارک سے پھر سے مکہ آنے کے الفاظ پہلے نکلے اور نکلنے کے الفاظ بعد میں صادر ہوئے۔ اس یقین سے دعا کرنے کے الفاظ اللہ رب العزت ہی نے آپ کے منہ میں ڈالے:

وقل رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطنا نصیرا (پ ۱۵، بنی اسرائیل ۸۰)
ترجمہ: اور کہہ اے رب داخل کر مجھ کو سچا داخل کرنا (کہ ساتھ صدق ہو) اور نکال مجھ کو سچا نکال(کہ پھر ساتھ صدق ہو) اور عطا کر دے مجھ کو اپنے پاس سے حکومت کا والی مدد۔

تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ جب آپ مکہ سے نکلے تو بھی صدیق ساتھ تھے اور جب فتح پا کر مکہ آئے تو بھی صدیق ساتھ تھے۔

قرآن کریم کا آخر کا بیان بھی اس بین الاقوامی غلبے کا ضامن رہا

قرآن کریم کی کل ۱۱۴ سورتیں ہیں، آخری سورت ۱۱۴ یہ ہے کہ لوگ فوج در فوج دائرہ اسلام میں آئیں تو آپ جان لیں کہ آپ کا سفرِ آخرت آ پہنچا:

اذا جاء نصر اللہ۔ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا۔ فسبح بحمد ربک واستغفرہ۔ انہ کان توابا۔
ترجمہ: جب پہنچ چکے مدد اللہ کی اور فتح اور تو دیکھے لوگوں کو فوج در فوج دین میں داخل ہوتے تو پاکی بول اپنے رب کی اور اس سے استغفار کر بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔

اس میں بھی آپؐ کو بتلا دیا گیا کہ آپؐ کا دین سب ادیان و نظریات پر غالب آنے والا ہے اور لوگ ہر طرف سے فوج در فوج اسلام میں آجائیں گے۔

سورۃ توبہ اور سورۃ الفتح کے بعد یہ اسلام کے بین الاقوامی غلبے کی تیسری بشارت ہے۔ علمی اور فکری غلبہ تو رسالتِ محمدیؐ کو نزولِ قرآن کے ساتھ ہی مل گیا تھا، اور حقیقی اور عملی غلبہ میں بھی اس دین کو اس وقت مل جائے گا جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام شریعتِ محمدیؐ  کی پیروی اور اس کی عالمی اشاعت کے لیے کھلے طور پر نزول فرمائیں گے، جہاد کریں گے اور دجالِ اکبر قتل ہو گا۔ اس پر اللہ کی اپنی گواہی کافی ہے:

وکفیٰ باللہ شہیدا (پ ۲۶، الفتح ۲۸)

اس پر ہم حدیث عالمی غلبہ رسالت کا موضوع ختم کرتے ہیں اور اپنے قارئین کو بھی اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ حدیثِ ولایت کے گذشتہ موضوع میں ہم نے جو اس حدیث کی روایتی حیثیت پر کلام کیا ہے، اس پر ایک دفعہ پھر نظر کر لیں۔

ایک ضروری نوٹ:

اہلِ سنت اور شیعہ میں اب تک جو احادیث عام زیربحث رہی ہیں، ان میں حدیث عالمی غلبہ رسالت آپ نے کہیں دیکھی نہ ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پہلی زیربحث احادیث میں تو شیعہ علماء کو کسی نہ کسی راہ سے بحث کرنے کا موقع مل جاتا ہے، گو انہیں اس کا جواب بھی پورا مل جاتا ہے، لیکن عالمی غلبہ رسالت کی حدیث گو شیعہ علماء پر ایک نہایت سنگِ گراں ہے، گو وہ اس کے انکار پر سرعام آنے کی بھی کبھی ہمت اور جرأت نہیں رکھتے۔

ہم اہلِ سنت حدیث عالمی غلبہ رسالت کو اپنے لیے وہ بقعہ نور، سچ کا ظہور اور دل کا سرور سمجھتے ہیں کہ اب تک اس کے سہارے پورے عالمِ اسلام خصوصاً‌ حرمین شریفین میں ہم ہی اسلام کی سب سے بڑی قوت سمجھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ شیعہ علماء بھی جب کبھی اہلِ سنت کی بات کرتے ہیں تو انہیں اپنا بڑا بھائی کہہ کر ان کا ذکر کرتے ہیں۔

اس صورت حال میں راقم الحروف نے دوازدہ احادیث کی اس علمی دستاویز میں اس حدیث کو درمیان میں رکھا ہے۔ یہ حدیث اس پورے عہد میں ہار کے درمیانے موتی کی سی ہے جس کی جتنی بھی قدر اور شہرت کی جائے کم ہے۔

اس عالمی غلبہ رسالت کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خواب دکھایا اور ظاہر ہے کہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اور نیند کی حالت میں ان کا دل جاگتا اور وہ اپنے قریب ہوئی باتوں کو سنتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خواب کیا تھا، اسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح بخاری میں دیکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بینما انا قائم رایتنی اتیت بمفاتیح خزائن الارض فوضعت فی یدیّ (صحیح بخاری ج ۲، ص ۱۰۸۰)
ترجمہ: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو نیند کی حالت میں دیکھا کہ مجھے پوری دنیا کے خزائن کی چابیاں دی گئی ہیں اور میں نے انہیں اپنے دونوں ہاتھوں میں محسوس پایا۔

اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند کی حالت میں بھی اپنے قریب ہونے والی باتوں کو سنتے ہیں اور یہ بات کتنی غلط ہو گی کہ آپؐ اپنے روضہ انور کے پاس عرض کئے گئے درود و سلام کو نہ سن سکیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری کی ہے اور اس میں کوئی راوی مجروح نہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عالمی غلبہ مل کر رہے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ آپؐ لوگوں کو جوق در جوق اللہ کے دین میں فوجی پیرائے میں (عالمی غلبہ میں) داخل ہوتا پائیں گے:

ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا۔

جب آپ یہ صورت حال دیکھ پائیں تو سمجھ لیں کہ آپؐ کا آخری وقت آن لگا ہے اور اب تسبیح و تحمید میں لگ جائیں۔ اس سے زیادہ آپؐ کے عالمی غلبہ رسالت کی بشارت اور کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ کا فیصلہ ہے کہ اس کے رسول غالب آ کر رہتے ہیں:

کتب اللہ لا غلبن انا و رسلی ان اللہ قوی عزیز۔
ترجمہ: اللہ لکھ چکا کہ میں غالب ہوں گا اور میرے رسول، بے شک اللہ زورآور ہے زبر دست۔ (پ ۲۸، المجادلہ ۲۱)

اس پر ہم عالمی غلبہ رسالت کی بحث ختم کرتے ہیں۔

یتقبل اللہ منا و منکم۔

(دوازدہ احادیث۔ اشاعت ۲۰۱۹ء۔ رابطہ: جامعہ ملیہ، شاہدرہ، لاہور 03006332387)


سیرت و تاریخ

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۵ء)

ماہانہ بلاگ

شملہ معاہدے سے نکلنے کے فوائد
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بھارت کا وقف ترمیمی ایکٹ: جب بیوروکریٹس موجود ہوں تو بلڈوزرز کی کیا ضرورت؟
الجزیرہ

پاکستان کا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا طریقہ خطرناک ہے۔
الجزیرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرفس: وائیٹ ہاؤس کا موقف اور وزیراعظم سنگاپور کی تقریر
سی بی ایس نیوز
لارنس وانگ

جہاد فرض ہے اور مسلم حکومتوں کے پاس کئی راستے ہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

المیۂ فلسطین اور قومی کانفرنس اسلام آباد کا اعلامیہ
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

فلسطین پاکستان کا اساسی مسئلہ ہے
مولانا فضل الرحمٰن

امریکہ کا عالمی کردار، اسرائیل کی سفاکیت، اہلِ غزہ کی استقامت: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن

فلسطینی پاکستان کے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں
لیاقت بلوچ

اہلِ فلسطین کی نصرت کے درست راستے
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

قومی فلسطین و دفاعِ پاکستان کانفرنس: تمام جماعتوں کا شکریہ!
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

فلسطین کے ہمارے محاذ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور آزادکشمیر کے فلسطین سیمینار سے خطاب
مفتی محمد عثمان جتوئی

غزہ کی تازہ ترین صورتحال اور نیتن یاہو کے عزائم
مولانا فتیح اللہ عثمانی

حالیہ فلسطین جنگ میں شہید ہونے والے جرنلسٹس
الجزیرہ

’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
پروفیسر خورشید احمد
اظہر نیاز

پروفیسر خورشید احمدؒ کی رحلت: صدی کا بڑا انسان
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر خورشید: جہانگیر و جہانبان و جہاندار و جہاں آرا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آسان تفسیرِ قرآن‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

حکمران کے دس حقوق
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

رسالتِ محمدیؐ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ
علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ

اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری تاریخ کے آئینے میں
اسلامی نظریاتی کونسل

مطبوعات

شماریات

Flag Counter