آج کل بھارتی ریاست مسلمانوں کی ملکیت پر تشدد کے ذریعے نہیں، بلکہ محض کاغذی کارروائی کے ذریعے قبضہ کر رہی ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ نے 3 اپریل 2025ء کو مسلم اراضی کی ملکیت کے حامل اداروں میں اصلاحات کے لیے ایک بل منظور کیا ہے۔
ذرا تصور کریں: ایک سو سال پرانا بنگلہ، جو آپ کے پردادا نے تعمیر کیا تھا – ایک خاموش، پرسکون جگہ جو کئی دہائیوں سے ایک ہی نیک مقصد کے لیے وقف تھی: فلاحی کام۔ اس کے دروازے ہمیشہ ضرورت مندوں کے لیے کھلے رہے، جو ہمدردی اور خدمت کی ایک پناہ گاہ تھی۔ یہ محض ایک عمارت نہیں؛ یہ آپ کے خاندان کی میراث ہے، ایک ذمہ داری جو آپ کے دادا سے آپ کے والد، اور بالآخر آپ تک منتقل ہوئی۔
پھر راتوں رات سب کچھ بدل جاتا ہے۔
ایک نیا قانون۔ حذف شدہ شق۔ ایک دور دراز پہاڑی پر کھڑا ایک تنہا سرکاری اہلکار، اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر زمین کا جائزہ لیتا ہے، اور بے پروائی سے اشارہ کرتا ہے۔ ’’وہ والا‘‘۔ وہ کہتا ہے۔ ’’مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ یہ زمین یا اس پر موجود جائیداد آپ کو سونپی گئی تھی، یا ان مقاصد کے لیے جن کے لیے آپ نے اسے وقف کیا ہے۔‘‘ وہ بیوروکریٹک بڑے اطمینان کے ساتھ اس زمین کو سرکاری ملکیت قرار دے دیتا ہے۔ اب آپ ایک تجاوزات کرنے والے بن گئے ہیں۔ بس اسی لمحے سے یہ زمین آپ کی سرپرستی میں نہیں رہتی۔ ریاست مداخلت کرتی ہے اور کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔ اور اس طرح وہ بنگلہ جس کی آپ کے خاندان نے نسلوں سے دیکھ بھال کی اور جو نیک نیتی کے لیے استعمال ہوتا رہا، اب آپ کی سرپرستی میں نہیں رہی۔
کوئی باقاعدہ قانونی عمل نہیں ہے۔ وہ کہتے تو ہیں کہ آخر کار اس کی تحقیقات ہوں گی۔ وہ کوئی تاریخ، کوئی دورانیہ نہیں بتاتے۔ جب تک آپ کو ان کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملتی، آپ صرف انتظار کر سکتے ہیں، وہ بھی باہر رہ کر، کیونکہ اب آپ کو اس عمارت میں داخل ہونے کے لیے ریاست سے اجازت درکار ہے جسے آپ کے آباؤ اجداد نے تعمیر کیا تھا اور آپ کو اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی۔
کیا یہ کوئی فرضی دنیا لگتی ہے؟ بھارتی مسلمانوں کے لیے نہیں، جن کے لیے یہ وقف ترمیمی ایکٹ کے تحت ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے – ایک ایسا قانون جو ملکیت، قانونی عمل، اور مذہبی غیر جانبداری کے بنیادی اصولوں کو الٹ دیتا ہے۔
وقف، اپنی تعریف کے مطابق، خدا کے نام پر ایک دائمی عطیہ ہے – جس کا مقصد تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسی خدمات فراہم کر کے کمیونٹی کو فائدہ پہنچانا ہے۔ یہ کسی فرد کی ’’ملکیت‘‘ نہیں ہے۔ اسے ایک امانت قرار دیا جاتا ہے، ایک متولی (نگران) کے ذریعے حفاظت مہیا کی جاتی ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریاست اس سارے عمل کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔
لیکن وقف ترمیمی ایکٹ 2025ء اس مفروضے کو الٹ دیتا ہے۔
وہ ’’پریشان کن‘‘ شق ختم کر دی گئی ہے جس کے تحت زمین کو اس کا استعمال کنندہ (مالک) ’’وقف‘‘ قرار دے سکتا تھا، جس کا روایتی تصور یہ ہے کہ فلاحی مقاصد کے لیے امانت میں رکھی گئی یہ زمین اب اس کے (فلاحی) استعمال کی بنیاد پر من مانے دعووں سے محفوظ ہو جانی چاہیے۔ اس کی بجائے اب ہمارے لیے یکطرفہ ایگزیکٹو کنٹرول ہے۔ یعنی ایک واحد سرکاری اہلکار اب ہاتھ کے اشارے سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا کوئی جائیداد وقف ہے یا سرکاری ملکیت۔ اور اس فیصلے کو ثابت کرنے کے لیے اسے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہو گی، وہ قانونی عمل کی پابندی جواز پیش کرنے کی ضرورت سے بھی آزاد ہوگا۔ محض ایک رائے، ایک نوٹیفکیشن، ایک بالکل قانونی اقدام کے ذریعے سے۔ اور اپیل کا عمل؟ ’’خوش کن‘‘ حد تک مبہم، آپ اسی مشینری سے اپیل کریں گے جس نے آپ پر الزام لگایا ہے۔
سیکولر ڈرامے کا ایک شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے ترمیم شدہ قانون اب وقف بورڈز میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک ایسا مطالبہ جس کا کسی دوسرے مذہبی ٹرسٹ کو سامنا نہیں ہے۔ مندر کے ٹرسٹ سے اماموں کو شامل کرنے کے لیے نہیں کہا جاتا۔ چرچ کی کمیٹیوں کو کسی ملحد کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن مسلم اوقاف کو اس مبہم اور ترمیم شدہ قانون کے تحت اپنی انتظامیہ میں ان لوگوں کے لیے جگہ رکھنی ہو گی جن کا ان کی الٰہیات، روایت یا علمیت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ شمولیت کس حد پر آ کر کمزوری میں بدل جاتی ہے؟ اس طرح کی برابری صرف ایک خاص قسم کی مداخلت دکھائی دیتی ہے۔
پھر آڈٹ کی باری آتی ہے۔ مرکزی حکومت اب اپنے مقرر کردہ آڈیٹرز کے ذریعے وقف املاک کے آڈٹ کا حکم دینے کا حق رکھتی ہے۔ وہ اسے شفافیت کہتے ہیں۔ وقف بورڈز کے اندر بدعنوانی کی جانچ کرنا۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو یہ ’’نگرانی‘‘ کا ایک مشکوک طریقہ لگتا ہے جس میں ضروری جانچ اور توازن نہیں ہے۔ آخر کار کوئی نگران شاذ و نادر ہی غیر جانبدار ہوتا ہے جب وہ اپنے ہی ادارے کو رپورٹ کرتا ہے۔
یہ کوئی براہ راست حملہ نہیں ہے، بس نرمی سے مٹانے کا عمل ہے۔
کوئی بلڈوزر نہیں، کوئی خبری سرخیاں نہیں، بس نوٹس، چھوٹی تحریریں، اور بدلتی ہوئی تعریفیں ہیں، اور یہ سب بالکل قانونی ہے۔
تو جناب، بنگلہ اب بھی کھڑا ہے، اس کی دیواریں برقرار ہیں، اس کے دروازے اب بھی کھلتے ہیں۔ لیکن ان کے پیچھے کا معنی، وقف کا مقدس تصور، جو کبھی خدا کے نام پر عطیہ تھا، اب ریاست کے موڈ اور صوابدید پر منحصر ہے۔
ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اندھیرے میں کوئی ڈاکہ نہیں ہے، یہ اس سے کہیں زیادہ نفیس چیز ہے۔ ملکیت کی ایک نئی تشکیل، جو کسی خفیہ ایجنٹ کے ذریعے نہیں بلکہ خود ریاست کی مشینری کے ذریعے انجام دی جا رہی ہے۔ یہاں کوئی لینڈ مافیا نہیں ہے، صرف قانون سازی ہے۔ کوئی پس پردہ سودے نہیں، صرف پالیسی ہے۔ اور اس طرح، سرکاری یقین دہانی کے ساتھ ایک ایسا نظام جو کبھی فلاحی ٹرسٹ کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا، اب اسے نگلنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ ایک دستخط، ایک تعین، کسی پہاڑی کی چوٹی سے ایک نظر میں۔
یہ اصلاحات نہیں ہیں، یہ اثاثوں کی ضبطگی ہے۔ آہستہ، خاموش، اور مکمل۔ پستولوں سے نہیں بلکہ کاغذی کارروائی کے ذریعے سے۔ کیونکہ آخر کار، یہ کوئی ہندو مسلم مسئلہ نہیں، یہ جائیداد کا مسئلہ ہے۔