مختصر تعارف
مارچ ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی قیادت میں قرار دادِ مقاصد منظور کی جو ۱۹۵۶ء کے آئین میں تمہید کے طور پر شامل کی گئی۔ ۱۹۸۵ء میں اس قرارداد کو آئین کے آرٹیکل ۲ الف کے طور پر دستور کا با قاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔ قوانین کی اسلامی تشکیل کے لیے اس قرارداد کے مندرجہ ذیل اقتباسات اساسی اہمیت رکھتے ہیں:
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا ، وہ ایک مقدس امانت ہے۔
چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے، جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر ، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گا۔
جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق، جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں۔
لہٰذا، اب ہم جمہوریہ پاکستان کے عوام …… بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کہ پاکستان عدلِ عمرانی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہو گی۔
دستور سازی کے عمل میں طویل تاخیر ہماری تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ تاہم ۱۹۵۶ء میں پاکستان کا پہلا و ستور مَنصّۂ شُہود پر آیا تو قراردادِ مقاصد کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل ۱۹۸(۱) میں طے کیا گیا:
ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے منافی ہو ……اور موجودہ قوانین کو ان احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔
اسی آرٹیکل (۱۹۸) کی ذیلی شق (۳) میں مندرجہ بالا حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قرار دیا گیا کہ:
جنابِ صدر دستور کے نفاذ کے دن سے ایک سال کے اندر ایک کمیشن مقرر کریں گے۔
(الف) کہ وہ سفارشات پیش کرے۔
(i) موجودہ قوانین کو احکامِ اسلام کے مطابق بنانے کے لیے اقدامات کے بارے میں،
(ii) ان مراحل سے متعلق جن میں ایسے اقدامات نافذ العمل کیے جائیں ؛ اور
(ب) کہ وہ قومی اور صوبائی مجالسِ مقننہ کی راہنمائی کی غرض سے احکامِ اسلام ایسی موزوں شکل میں مدوِّن کرے جس میں انہیں قانونی شکل دی جا سکے۔
اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جنرل محمد ایوب خان کے اقتدار پر قبضہ ، مارشل لاء کے نفاذ اور ۱۹۵۶ء کے دستور کی تنسیخ کے بعد بالآخر ۱۹۶۲ء میں جو نیا دستور آیا اس میں بھی آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا۔ آرٹیکل ۲۰۴(۱) میں اس کو نسل کے مندرجہ ذیل فرائضِ منصبی طے کیے گئے:
مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو ایسی سفارشات کرنا جن کے ذریعے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں ہر لحاظ سے اسلامی نظریات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنایا جا سکے، نیز اس کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جا سکے، اور دستور کی پہلی ترمیم کے قانون ۱۹۶۳ء کے نافذ ہونے سے فوراً پہلے نافذ العمل تمام قوانین کا جائزہ لینا تاکہ انہیں قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔
۱۹۶۲ء کے آئین کے تحت مؤرخہ ۱۴ اگست ۱۹۶۲ء کو وزارتِ قانون و پارلیمانی امور کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل کی اوّلین تشکیل کی گئی۔ اس پہلی کو نسل کے چیئرمین جناب جسٹس ابو صالح محمد اکرم تھے۔ ارکان میں جسٹس (ر) محمد شریف، مولانا اکرم خان، مولانا عبد الحمید بدایونی، مولانا حافظ کفایت حسین، ڈاکٹر ٹی ایچ قریشی اور مولانا عبد الہاشم شامل تھے۔
۱۹۷۳ء کے دستور کے آرٹیکل ۲ میں اسلام کو ریاستِ پاکستان کا دین قرار دیا گیا ہے اور آرٹیکل ۲۲۷ تا ۲۳۱ میں قوانین کی اسلامی تشکیل اور اس مقصد کے لیے کونسل کے کردار کی وضاحت سے تصریح کر دی گئی ہے۔ آرٹیکل ۲۲۷(۱) میں بصراحت قرار دیا گیا ہے کہ:
تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے، اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ اسی آرٹیکل کی ذیلی شق (۲) میں مزید تصریح کر دی گئی ہے کہ ذیلی شق (۱) کے احکام کو عملی شکل دینے کے لیے وہ طریق اختیار کیا جائے گا جو دستور کے اس حصے [یعنی جزء ۹ بعنوان اسلامی احکام] میں بیان کیا گیا ہے۔
آرٹیکل ۲۲۸ میں اس کی تعبیر و تصریح کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ:
یومِ آغاز سے نوے دن کی مدت کے اندر ایک اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی جائے گی جس کا اس حصے میں بطور اسلامی کو نسل حوالہ دیا گیا ہے (۱) ۔
اسی آرٹیکل ۲۲۸ کی ذیلی شق (۲) میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ہیئتِ ترکیبی کی وضاحت کی گئی ہے:
اسلامی کو نسل کم از کم آٹھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ایسے ارکان پر مشتمل ہو گی جنہیں صدر ان اشخاص میں سے مقرر کرے، جو اسلام کے اصولوں اور فلسفے کا، جس طرح کہ قرآن پاک و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ، علم رکھتے ہوں یا جنہیں پاکستان کے اقتصادی، سیاسی، قانونی اور انتظامی مسائل کا فہم و ادراک حاصل ہو۔
آرٹیکل ۲۲۸ کی اگلی ذیلی شق (۳) کی رو سے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ کونسل کے کم از کم دو ارکان سپریم کورٹ یا کسی ہائی کورٹ کے حاضر سروس یا سابق حج ہوں گے۔ اسی طرح کم از کم ایک خاتون رکن کا ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے اور کو نسل کے ارکان میں کم از کم چار اسلامی علوم کی تدریس و تحقیق کے کم از کم پندرہ سالہ تجربہ کے حامل ہونے چاہئیں۔
آرٹیکل ۲۲۹ کے مطابق صدرِ پاکستان یا کسی صوبے کے گورنر کسی معاملے میں یہ سوال کہ : آیا کوئی مروّجہ قانون احکامِ اسلام کے منافی ہے یا نہیں ؟ کو نسل کو ریفر کر سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی یا سینٹ یا کوئی صوبائی اسمبلی بھی ایسا کوئی مسئلہ کو نسل کو ریفر کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کے ارکان کا کم از کم ۲/۵ حصہ اس کا تقاضا کرے۔
آرٹیکل ۲۳۰ میں کو نسل کے جو فرائض منصبی بیان کیے گئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
(الف) مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب اور امداد ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے،
(ب) کسی ایوان، کسی صوبائی اسمبلی، صدر یا کسی گورنر کو کسی ایسے سوال کے بارے میں مشورہ دینا جس میں کونسل سے اس بابت رجوع کیا گیا ہو کہ آیا کوئی مجوزہ قانون اسلامی احکام کے منافی ہے یا نہیں،
(ج) ایسی تدابیر کی، جن سے نافذ العمل قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، نیز ان مراحل کی جن سے گزر کر محولہ تدابیر کا نفاذ عمل میں لانا چاہیے ، سفارش کرنا، اور
(د) مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں کی راہنمائی کے لیے اسلام کے ایسے احکام کی ایک موزوں شکل میں تدوین کرنا جنہیں قانونی طور پر نافذ کیا جا سکے۔
(۲) جب آرٹیکل ۲۹۹ کے تحت، کوئی سوال کسی ایوان، کسی صوبائی اسمبلی، صدر یا کسی گورنر کی طرف سے اسلامی کو نسل کو بھیجا جائے، تو کو نسل اس کے بعد پندرہ دن کے اندر اس ایوان، اسمبلی، صدر یا گورنر کو جیسی بھی صورت ہو، اس مدت سے مطلع کرے گی جس کے اندر وہ مذکورہ مشورہ فراہم کرنے کی توقع رکھتی ہو۔
(۳) جب کوئی ایوان، کوئی صوبائی اسمبلی، صدر یا گورنر جیسی بھی صورت ہو ، یہ خیال کرے کہ مفادِ عامہ کی خاطر اس مجوزہ قانون کا وضع کرنا جس کے بارے میں سوال اٹھایا گیا تھا مشورہ حاصل ہونے تک ملتوی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں مذکورہ قانون مشورہ مہیا ہونے سے قبل وضع کیا جا سکے گا۔
مگر شرط یہ ہے کہ جب کوئی قانون اسلامی کو نسل کے پاس مشورے کے لیے بھیجا جائے اور کو نسل یہ مشورہ دے کہ قانون اسلامی احکام کے منافی ہے تو ایوان، یا جیسی بھی صورت ہو ، صوبائی اسمبلی، صدر یا گورنر اس طرح وضع کردہ قانون پر دوبارہ غور کرے گا۔
(۴) اسلامی کو نسل اپنے تقرر سے سات سال کے اندر اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی اور سالانہ عبوری رپورٹ پیش کیا کرے گی۔ یہ رپورٹ خواہ عبوری ہو یا حتمی، موصولی سے چھ ماہ کے اندر دونوں ایوانوں اور ہر صوبائی اسمبلی کے سامنے برائے بحث پیش کی جائے گی اور مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) اور اسمبلی، رپورٹ پر غور و خوض کرنے کے بعد حتمی رپورٹ کے بعد دو سال کی مدت کے اندر اس کی نسبت قوانین وضع کرے گی۔
کونسل کی رپورٹیں اور مجلسِ شوریٰ
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل ۲۳۰ کے مطابق اپنے قیام کے سات سال بعد قوانین کے جائزہ پر مبنی ایک حتمی رپورٹ پیش کرنا کونسل کے فرائض میں شامل تھا۔ اس کی شق (۴) میں یہ بھی لازم قرار دیا گیا تھا کہ کونسل کی سالانہ عبوری رپورٹ یا فائنل رپورٹ مجلسِ شوریٰ یا صوبائی اسمبلی کو پیش کی جائے گی جو فائنل رپورٹ کے ملنے کے دو سال کے اندر اس پر قانون سازی کرے گی۔
۱۹۸۰ء میں سات سال پورے ہو گئے لیکن بوجوہ حتمی رپورٹ تیار نہ ہو سکی تھی۔ اس اثناء میں کو نسل سالانہ رپورٹیں پیش کرتی رہی جن میں ۱۹۷۳ء تک نافذ شدہ قوانین کا جائزہ مکمل کر لیا گیا تھا۔ ۱۹۷۳ء کے بعد کے قوانین کے جائزہ پر مشتمل دو رپورٹیں ’’قوانین کی اسلامی تشکیل: سلسلۂ دوم‘‘ (جلد اول اور جلد چہارم) کے نام سے پیش کی گئیں جن میں بالترتیب ۱۵؍ اگست، ۱۹۷۳ء تا ۴؍ جولائی، ۱۹۷۷ء اور ۱۲ ؍ اکتوبر ، ۱۹۹۹ء تا ۳۱ ؍ دسمبر ، ۲۰۰۲ء کے عرصوں میں نافذ کئے جانے والے قوانین کا جائزہ لیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ نظامِ تعلیم، نظامِ معاشرت اور ذرائع ابلاغِ عامہ کے موضوعات پر تین رپورٹیں ۱۹۸۲ء میں پیش کی گئیں۔
قوانین کی اسلامی تشکیل اور دیگر موضوعات کے بارے میں رپورٹوں کے سلسلے میں کونسل نے اپنے اجلاس منعقدہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۸۲ء میں حسبِ ذیل قرار داد منظور کی:
’’طے پایا کہ کونسل متذکرہ بالا رپورٹوں کو یہ اغراض آرٹیکل ۲۳۰ (۴) دستورِ پاکستان مجریہ ۱۹۷۳ء موضوع وار حتمی رپورٹیں قرار دیتی ہے۔ مزید برآں طے پایا کہ قانون کے موضوع پر پاکستان کوڈ کی جلد وار رپورٹیں جوں جوں مرتب ہوں گی حکومت کو بھیجی جاتی رہیں گی، یہ رپورٹیں بھی حتمی ہوں گی۔ علاوہ ازیں کونسل قانون کے موضوع پر حسبِ ہدایت صدرِ مملکت قوانینِ حدود، قانونِ قصاص و دیت، قانونِ شہادت، قانونِ انسداد فحاشی، قانونِ نفقہ اقارب، نظامِ حکومت، قانونِ احترامِ رمضان، رپورٹ زکوٰۃ و عشر ، رپورٹ بلا سود بنکاری اور قانونِ شفعہ سے متعلق مسودات حکومت کو پیش کر چکی ہے۔ یہ بھی بہ اغراض آرٹیکل ۲۳۰ (۴) دستورِ پاکستان حتمی رپورٹیں شمار ہوں گی‘‘۔ ( کو نسل کی سالانہ رپورٹ ، ۸۳-۱۹۸۲)
حتمی رپورٹ ۱۹۹۶ء میں پیش کر دی گئی۔ اس کے بعد آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں کو نسل کا یہ موقف طے پایا:
’’آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۳۰ (۴) کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنے تقرر سے سات سال کے اندر اپنی حتمی رپورٹ اور اس دوران میں سالانہ عبوری رپورٹیں پیش کرنا تھیں۔ اس آئینی تقاضے کے مطابق کونسل ہر سال اپنی عبوری رپورٹ پیش کرتی رہی۔ اس سلسلے کی آخری رپورٹ ۹۳ - ۱۹۹۲ء میں شائع کی گئی۔ مزید برآں متعدد موضوعاتی رپورٹیں بھی اس مدت میں اشاعت پذیر ہوئیں اور دسمبر ۱۹۹۶ء میں کونسل نے نافذ العمل قوانین کے اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ کے بارے میں اپنی فائنل رپورٹ بھی پیش کر دی۔‘‘
آئین کے آرٹیکل ۲۲۷(۱) کے مطابق
’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں دیے گئے اسلامی احکامات کے مطابق بنایا جائے گا۔‘‘
’’تمام موجودہ قوانین ‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے دستور کے آرٹیکل ۲۶۸ (۷) میں کہا گیا ہے کہ ان سے وہ قوانین اور آرڈینینسز وغیرہ مراد ہیں، جو پاکستان یا اس کے کسی حصے میں دستور کے یومِ آغاز ( یعنی ۱۴؍ اگست ۱۹۷۳ء) سے عین پہلے نافذ تھے۔
ان قوانین کے اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ کا عمل کو نسل کی تشکیل ( آرٹیکل ۲۲۸ کے مطابق) کے سات سال کے اندر کو نسل کی فائنل رپورٹ پیش ہونے کے ساتھ مکمل ہونا تھا۔ اس دوران میں سالانہ عبوری رپورٹیں پیش کی جانی تھیں۔ دستور کے آرٹیکل ۲۳۰ (۴) کے مطابق کونسل کی رپورٹ ، خواہ عبوری ہو یا حتمی ( فائنل)، کا بحث کے لیے دونوں ایوانوں ( یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ) اور ہر صوبائی اسمبلی میں رپورٹ موصول ہونے کے چھ ماہ کے اندر اندر پیش کیا جانا لازم تھا۔
آرٹیکل ۲۲۷(۱) کا بقیہ حصہ حسبِ ذیل ہے:
’’…اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو ایسے احکامات [ یعنی قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام] کے منافی ہو‘‘
اس لحاظ سے کو نسل کی کوئی بھی رپورٹ اس معنی میں حتمی رپورٹ نہیں ہے کہ اس کے بعد کو نسل کوئی رپورٹ جاری نہیں کرے گی۔ کیونکہ تمام قوانین جیسے اور جب وضع کئے جائیں گے ، ان کے بارے میں کونسل کی نظر ثانی کا کام جاری رہنا ہے۔ چونکہ آئین میں کونسل کی مدت کا تعین کئے بغیر کونسل کے فرائضِ منصبی بیان ہوئے ہیں۔
اس بناء پر کونسل کی جانب سے قوانین کی نظر ثانی ایک مستقل جاری کام ہے لہٰذا اس کی سفارشات / رپورٹیں مجالسِ قانون ساز کو پیش کرنا بھی لازمی ہے ، بصورتِ دیگر کو نسل کے فرائضِ منصبی بے معنی ہو جاتے ہیں۔
کونسل کا انتظامی ڈھانچہ
دستور کے آرٹیکل ۲۲۸(۴) کے تحت صدرِ پاکستان کو نسل کے ارکان میں سے ایک کو اس کا چیئرمین مقرر فرماتے ہیں، جن کے عہدہ کی میعاد دوسرے ارکان کی طرح تین سال ہوتی ہے۔ البتہ اس میعاد کے اختتام پر ان کا دوبارہ تقرر بطور رُکن / چیئرمین کیا جا سکتا ہے۔ کو نسل کا چیئرمین کو نسل کا پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوتا ہے اور انہیں منجملہ دیگر اختیارات کے گریڈ - ۲۲ کے فیڈرل سیکرٹری کے تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ کونسل کے شعبہ انتظامیہ کی سربراہی کونسل کے سیکرٹری (گریڈ ۲۱/۲۰) کرتے ہیں، جن کا تقرر کونسل کے ریکروٹمنٹ رولز (۱۹۸۴ء) کے مطابق وفاقی / صوبائی حکومتوں کے کسی موزوں افسر کے تبادلہ / ڈیپوٹیشن کے ذریعے یا پریس میں اشتہار کے بعد براہ راست انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے۔ ریکروٹمنٹ رولز کے قاعدہ نمبر ۳ کے تحت کو نسل کی تمام اسامیوں (بشمول سیکرٹری / ڈائریکٹر جنرل وغیرہ) پر تقرر کا اختیار کو نسل کے چیئرمین کو حاصل ہوتا ہے، جو انہی قواعد کے قاعدہ ۹ (۱) کے تحت قائم شدہ بورڈ / کمیٹی کی سفارش پر کیا جاتا ہے۔ کو نسل کے شعبہ تحقیق کی سربراہی اس کے ڈائریکٹر جنرل (گریڈ ۲۰) کرتے ہیں۔ سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل (ریسرچ) دونوں براہ راست چیئرمین کو رپورٹ کرتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا، کونسل کی اوّلین تشکیل ۱۹۶۲ء میں ہوئی۔ چنانچہ یکم ؍اگست ۱۹۶۲ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جناب جسٹس ابو صالح محمد اکرم، ۱۹۶۲ء کے دستور کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت، اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل کے پہلے چیئرمین مقرر ہوئے۔ ان کے بعد جناب پروفیسر علامہ علاؤ الدین صدیقی، جناب جسٹس حمود الرحمٰن، جناب جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ ، جناب جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن، جناب پروفیسر ڈاکٹر عبد الواحد جے ہالیپوتہ ، جناب جسٹس (ر) محمد حلیم، جناب مولانا کوثر نیازی، جناب اقبال احمد خان، جناب ڈاکٹر شیر محمد زمان، جناب ڈاکٹر محمد خالد مسعود اور جناب مولانا محمد خان شیرانی کو نسل کی سربراہی کی خدمت پر مامور ہوئے۔ جناب پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، ۸ ؍ نومبر ۲۰۱۷ء کو تین سال کے لیے چیئر مین کو نسل مقرر کیے گئے۔
یکم ؍ اگست، ۱۹۶۲ء سے ۲۶؍ ستمبر ۱۹۷۷ء تک کو نسل کا مستقر لاہور میں رہا۔ اس کے بعد اسے اسلام آباد میں منتقل کیا گیا۔ ۱۹۹۵ء میں سٹیٹ بنک آف پاکستان سے متصل، ۴۶- اتاترک ایونیو، سیکٹر جی فائیو ٹو میں اپنی عمارت مکمل ہونے پر کو نسل مستقل طور پر یہاں منتقل ہو گئی۔ اولاً کو نسل کے صدر نشین جزء وقتی بنیاد پر مقرر ہوتے تھے۔ جسٹس محمد افضل چیمہ (۲۶ ؍ ستمبر ۱۹۷۷ء تا۲۶ ؍مئی ۱۹۸۰ء) ہمہ وقتی بنیاد پر مقرر ہونے والے پہلے چیئر مین تھے۔
کونسل کی مطبوعات
کونسل کی مطبوعات کی کل تعداد ۱۱۰ ہے، ان میں سالانہ رپورٹیں بھی ہیں اور موضوعاتی رپورٹیں بھی۔ سالانہ رپورٹوں (بشمول سالانہ رپورٹ ۰۵-۲۰۰۴ء کی سمری رپورٹ) کی کل تعداد ۳۷ ہے۔ ۳۷ رپورٹیں اسلامی قوانین کی تشکیل کے موضوع پر ہیں، ۸ رپورٹیں معیشت کی اسلامی تشکیل کے موضوع پر ہیں، ایک رپورٹ تعلیمی اصلاحات پر ، ۴ رپورٹیں معاشرتی اصلاحات پر، ایک رپورٹ ذرائع ابلاغِ عامہ کی اصلاح پر اور ۲ رپورٹیں استفسارات پر مشتمل ہیں۔ ’’ دہشت گردی اور اسلام‘‘ کے عنوان سے نیز حدود آرڈیننس ۱۹۷۹ء پر دو مختصر عبوری رپورٹیں بھی شائع کی گئی ہیں۔ آزادئ نسواں، عہدِ رسالت میں ( ترجمہ ) چار جلدوں میں شائع کیا گیا۔ نیز اجتہاد کے عنوان سے بارہ شمارے بھی شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ کئی دیگر متفرق مطبوعات بھی شائع کی گئیں۔
(اسلامی قانونِ وراثت ۲۰۱۹ء: ص ۷ تا ۱۴)