الجزیرہ نے مجھ سے پوچھا، تو میں نے شملہ معاہدے سے قبل اور شملہ معاہدے کے بعد کی قانونی پوزیشن پر تین نکات ذکر کیے:
- ایک، یہ کہ پہلے کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ’’جنگ بندی کی لکیر‘‘ (ceasefire line) کھینچی گئی تھی، لیکن اس معاہدے نے (بھارت کے اصرار پر) اس کا نام تبدیل کر کے ’’تسلط کی لکیر‘‘ (line of control) کر دیا؛
- دوسرا، یہ کہ کچھ علاقے ایسے ہیں جو اس معاہدے سے پہلے پاکستان کے پاس تھے، لیکن اب وہ بھارت کے پاس ہیں؛ اور
- تیسرا، یہ کہ بھارت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو غیر متعلق کر دیا ہے؛ ہمارے نزدیک بھارت کا یہ موقف قطعاً غلط ہے کیونکہ معاہدے میں لکھا ہے (اور اس کا کریڈٹ بھٹو کو جاتا ہے) کہ ’’حتمی حل تک کوئی فریق یکطرفہ طور پر صورتحال کو تبدیل نہیں کرے گا‘‘۔
تاہم جب 5 اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کے متعلق اپنے آئین کی دفعہ 370 ختم کی اور پھر کشمیر میں شہریت اور رہائش کے قوانین بھی تبدیل کیے، تو یہ اس شق کی خلاف ورزی تھی۔ پاکستان کو اسی وقت اس معاہدے کی معطلی یا منسوخی کا اعلان کرنا چاہیے تھا، لیکن پاکستان نے وہ موقع ضائع کر دیا۔
اب جبکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان کر کے 25 کروڑ انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ پیدا کر دیا ہے، تو یہ قانون کی رو سے جارحیت ہے جس کے خلاف پاکستان کو حقِ دفاع کے تحت مناسب کارروائی کا حق حاصل ہے۔
ایسی صورت میں سندھ طاس کے معاہدے کی معطلی کے جواب میں شملہ معاہدے کی معطلی کی بات ایک بہترین اقدام ہے۔
الجزیرہ کی خبر کے لیے دیکھیے: Kashmir attack: Why Pakistan’s threat to suspend Simla Agreement matters